تنہائی والے سال – ساتواں حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-11-4


بغیر کسی مقدمے کے پوچھا:

- "داؤد سلمان" کو پہچانتے ہو؟

- ہاں۔

اس حالت میں کہ جیسے میری زندگی اور موت کی تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں دکھائے، بغیر کسی فرق کے بولا:

پریروز ہمارے دفاعی حملے کی زد میں آیا اور مارا گیا۔

میرا دل کانپ گیا، میں نے کہا:

- خدا اُس پر رحمت نازل کرے، بہت ہی مومن آدمی تھا۔

البتہ مجھے پتہ تھا کہ وہ گم ہوگیا ہے، لیکن مجھے اس کی تقدیر کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا۔

کرنل نے اس حالت میں کہ جیسے میرے جواب نے اُس پر کوئی اثر نہ ڈالا ہو، پوچھا:

- اُس کے بارے میں کیا کیا جانتے ہو؟

- مجھے شاہرخی چھاؤنی منتقل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور مجھے اس کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں، میں پہلے سے جانتا تھا کہ وہ بہت مومن آدمی ہے۔

کرنل نے نعمتی کی طرف منہ کیا اور جیسے وہ اپنے نوکر سے بات کر رہا ہو، دراصل اُس نے اُسے حکم دیتے ہوئے کہا:

- تم اب جاسکتے ہو۔

نعمتی کھڑا ہوا اور جانے سے پہلے، میری رضایت حاصل کرنے کیلئے، بہت ہی مطمئن انداز  اور خوشحال چہرے کے ساتھ کہا:

- ایران کی حکومت بہت جلدی نابود ہوجائے گی۔ بہتر ہوگا تم بھی ان کے ساتھ مل جاؤ تاکہ سکون میں آجاؤ۔

ایک گہرے افسوس نے میرے سینے پر دباؤ ڈالا، میں نے جواب دیا:

تمہیں پتہ ہے کیا کہہ رہے ہو؟حتی حکومت گر جانے پر بھی حملہ کرنے والے دشمن کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ خود کو اس سے زیادہ خیانت میں ملوث نہ کرو اور تم اطمینان رکھو اس کام کا انجام، بدبختی اور رسوائی ہے۔

وہ ہنسا اور چلا گیا۔

نعمتی کے باہر جانے کے بعد تفتیش کرنے والے کرنل نے طعنہ مارتے ہوئے توہین آمیز لہجے میں کہا:

- بہت ہی فضول خرچ اور عیاش آدمی ہے!

اور میں نے فوراً کہا:

- مجھے بہت افسوس ہے کہ وہ میرا ہم وطن ہے۔

اُس نے گھنٹی بجائی، نگہبان اندر آیااور مجھے اپنے ساتھ باہر لے گیا۔ اس دفعہ ہم چند برآمدوں سے گزر کر ایک کمرے میں داخل ہوئے۔ اُس نے آنکھوں سے پٹی کو ہٹایا۔ اُسی تفتیشی عمارت کے آس پاس کوئی نئی جگہ تھی۔ کمرے کے اندر، نگہبان نے میرے ہاتھ میں ہتھکڑی لگائی اور پوچھا: تمہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟

میں نے تعجب کے ساتھ جواب دیا: میرے ہاتھوں کو کھولو!

اُس نے کہا: "نہیں ہوسکتا، کرنل کا دستور ہے۔"

کوئی چارہ نہیں تھا؛ مجھے حتما تحمل ہی کرنا تھا۔ تھوڑی دیر بعد، وہ کچھ درد کی گولیاں، ایک تولیہ، ایک سگریٹ اور ایک لمبا عربی لباس میرے لے لایا۔ لباس تبدیل کرنے کے بعد اُس نے دوبارہ میرے ہاتھوں کو باندھا اور چلا گیا۔

میں نے ذرا دیوار اور کھڑکی پر دھیان دیا۔ پچھلے والے کمرے کی طرح تھا۔ کھڑکی ک پاس ایک کیل ٹھونکی ہوئی تھی جسے میں نے بہت مشکل سے دیوار سے نکالا اور اپنی ہتھکڑی کھولنے کی کوشش کی۔ کچھ دفعہ کوشش کرنے کے بعد بالآخر میں کامیاب ہوگیا۔ میں نے خوشی کے ساتھ اطراف کی تفتیش کرنا شروع کی، میں نے دروازے کے نیچے، چابی کے سوراخ اور کھڑکی کے اوپر سے حالات کا جائزہ لیا۔ کھڑکی صحن میں کھل رہی تھی جو تقریباً تین میٹر چوڑا تھا اور ایک تین میٹر لمبی دیوار نے اُسے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ ایک مسلح نگہبان، ہاتھ میں چھوٹا سا ریڈیو پکڑے  گشت لگانے میں مصروف تھا۔ اسی وقت میں نے پاؤں کی آواز سنی جو میرے کمرے سے نزدیک ہو رہی تھی، میں نے فوراً اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑی باندھ لی۔

نگہبان دوپہر کا کھانا لایا تھا۔ میں نے اُس سے کہا: "میں وضو کرنا چاہتا ہوں۔"

اُس نے کوریڈور کے آخر تک  میری رہنمائی کی۔ ایک بہت ہی گندھے سے گندھا واش روم! اس حال میں، میں نے اُس کے دروازے اور دیوار کو ملاحظہ کیا۔ کچھ نام لکھے ہوئے تھے؛ من جملہ، میرے پچھلے کیبن کے پائلٹ کا نام یعنی رضا صلواتی۔ میں نے کیل کی مدد سے نام اور تاریخ کو دیوار پر لکھا اور وضو کرنے کے بعد کمرے میں واپس آگیا۔ نگہبان نے ہتھکڑی کو مضبوط کیا اور کہا:

- تمہیں بندھے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھانا پڑے گا، کرنل کا حکم ہے!

نگہبان چلا گیا،  میں نے ہتھکڑی کھولی۔ اُس کے بعد میں کھانا کھایا اور پھر نماز پڑھی۔

زیادہ دیر نہیں ہوئی ہوگی کہ نگہبان آیا اور کہنے لگا: "ہمیں کرنل کے پاس جانا ہے۔" اور ہم چلے گئے۔

اس دفعہ، زیادہ تر سیاسی سوالات تھے۔ لوگوں کی حالت، اُن کا حکومت سے راضی ہونا، علماؤں  کا حکومت چلانا وغیرہ اور آخر میں یہ کہ ہم پہ کیوں حملہ کیا؟

اس جملے کے بعد، میں نے تعجب کے ساتھ اُس کی طرف دیکھا۔ اتنا بڑا جھوٹ تھا  اور اتنی بڑی جہالت۔ اتنی بڑی منافقت تھی اور اتنی بڑی ریاکاری۔ یا حماقت کی وجہ سے کہہ رہا تھا یا خود کو احمق دکھا رہا تھا۔ میں نے مضبوط عقیدے کے ساتھ کہا:

- کیا ہم نے جنگ کو شروع کیا ہے؟! مگر کیا تم لوگوں نے ہماری تمام چھاؤنیوں پر فضائی حملہ نہیں کیا تھا ، کیا صدام نے سن ۱۹۷۵ میں ہونے والی قرار داد کو ٹیلی ویژن پر تمام عراقی لوگوں کے سامنے پھاڑا نہیں؟ اگر ہم نے جنگ شروع کی ہے، پس آپ لوگ ہماری سرزمین (صوبہ خوزستان) پر کیا کر رہے ہیں؟ ہمارے لوگ ابھی نیا نیا انقلاب لائے تھے اور حکومت چلانے والے امور کو سیٹ کرنے میں مصروف تھے کہ آپ لوگوں نے حملہ کردیا!

اس بات سے کہ میں دیکھ رہا تھاکتنی آسانی سے حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں ، حتی بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں، میں غصے میں آگیا تھا۔ میں نے کہا:

- شاید آپ کا دل نہ چاہے کہ ہماری باتوں کو جو عین حقیقت ہیں قبول نہ کریں، لیکن کیا آپ اپنے ضمیر کی آواز  کو بھی نہیں سنتے؟

گفتگو جاری رہی یہاں تک کہ پھر ریڈیو پر انٹرویو دینے والا مسئلہ چھڑ گیا اور میں نے اُسی طرح منع کردیا۔ کرنل جو کہ ایسا لگ رہا تھا جیسے اب اُس کا حوصلہ ختم ہوگیا ہو، وہ اپنے ہاتھ کے اشارے سے مجھے سمجھانا چاہ رہا تھا کہ وہ اپنی آخری بات کر رہا ہے اور میرے فائدے میں ہے کہ اُس کی باتوں پر کان دھروں۔ اُس نے دھمکی اور التماس سے ملتے جلتے انداز میں کہا:

- تمہارے لئے ایک اچھا اور فائدہ مند موقع ہے۔ میں تمہیں مجبور کرسکتا ہوں، لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ تم خود اس کام کو انجام دو تاکہ تمہارے پریشان گھر والے تمہاری سلامتی سے آگاہ ہوجائیں اور پریشان نہ ہوں، بس!

کبھی، مجھے احساس ہوتا وہ بچوں کی طرح بات کر رہا ہے۔ میں نے جواب دیا:

-  اصلاً میرا اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کا دل نہیں چاہ رہا۔

جب اُس نے میری سنجیدگی اور اطمینان کو دیکھا، تو جیسے مایوس ہوچکا ہو، اُسے نگہبان فوجی کیلئے گھنٹی بجائیء تاکہ وہ مجھے کمرے سے باہر لے جائے۔ اب میری باری تھی۔ میں نے پوچھا:

- بالآخر مجھے دکھانے کیلئے ڈاکٹر کو بلاؤ گے یا نہیں؟

جیسے کینہ سے بھڑا ہوا ہو، اُس نے آدھے تمسخر اور آدھے غرور  کے ساتھ مجھے دیکھا اور جواب دیا:

- ضرور، اتنا اچھا تعاون کرنے کے بعد، میں تمہارے لئے ضرور کچھ ڈاکٹروں کو بلاؤں گا!

اور اُس کے بعد زور سے چلایا:

- باہر نکل جاؤ!

مجھے اس کرنل کا نام یاد نہیں۔ لیکن میں اُسے کرنل محمد رضا کے نام سے یاد کرتا ہوں۔

نگہبان، مجھے عمارت سے باہر لے آیا اور مجھے گاڑی میں بٹھا دیا۔ تقریباً ۱۰ منٹ بعد ہم ایک ایسی عمارت میں داخل ہوئے جہاں سے ٹائپ رائٹر اور اُس پر ٹائپ کرنے کی طرح کی آواز کانوں تک پہنچ رہی تھی۔

اُس نے مجھے ایک کونے میں بٹھا دیا۔ گزرنے اور بہت زیادہ بات چیت کا شور و غوغا سنائی دے رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ دوسرے لوگوں کو بھی وہاں لایا گیا ہے اور احتمالاً وہ لوگ میرے اطراف میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

میں نے ایک لمحے میں آنکھوں پر بندھی پٹی کو تھوڑا سا اوپر کیا اور اطراف پہ نگاہ دوڑائی۔ ہم ایسے کوریڈور میں تھے جس میں دو ستون تھے اور میرے آگے پیچھے افراد میری طرح آنکھوں پر بندھی پٹی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک نگہبان  کو پتہ چل گیا، وہ تیزی آیا اور بہت غصے میں، چیختے  چلاتے ہوئے ، اُس نے ایک زوردار لات میرے پاؤں پر ماری اور ایک چوٹ میرے سر پر لگائی۔ اُس کے بعد اُس نے میرے آنکھوں پر بندھے رومال کو اور مضبوطی سے  باندھ دیا اور مجھے دوسری طرف پلٹا دیا اور خود میرے سر پر کھڑا ہوگیا۔

بہت زیادہ وقت ،اس حالت میں تقریباً  چھ گھنٹے گزر گئے۔ مجھے احساس ہوا ایک ایک کرکے ہمیں ایک جگہ لے جایا جا رہا ہے اور دوبارہ واپس لایا جارہا ہے۔

آنکھوں پر بندھا رومال بہت مضبوط  ہوگیا تھا  جو مجھے بہت تکلیف دے رہا تھا۔ بالاخر ایک نگہبان آیا، اُس نے میری بغل کے نیچے ہاتھ ڈالا اور کھینچتا ہوا اپنے ساتھ  لے گیا۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے، نگہبان نے عربی میں کچھ کہا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔ میں کھڑا ہوا تھا۔ دو افراد آپس میں عربی میں بات کر رہے تھے، مجھے نہیں معلوم کیا کہہ رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد، اُن میں سے ایک  نے فارسی میں کہا:

- اور آگے آؤ!

ایک عربی میں بات کر رہا تھا اور دوسرا فارسی میں ترجمہ کر رہا تھا۔ اُس نے میرے بارے میں پوچھنے کے ساتھ ساتھ یہ پوچھا کہ کتنی دفعہ عراق پر حملہ کیا ہے!کیا عراق میں میرے رشتہ دار ہیں یا نہیں؟ پھر پوچھا:

- کوئی پریشانی تو نہیں ہے؟

میرا دل چاہ رہا تھا اتنا عذاب جھیلنے سے پہلے ہی میں اُن کے اصلی مقصد سے آگاہ ہوجاؤں، پھر بھی میں نے کہا:

- میری کمر میں درد ہو رہا ہے۔

اُس نے جواب دیا: "میں تمہارے لئے ڈاکٹر لاؤں گا؛  ایران کے حالات کیسے ہیں، کیا تم اسلامی جمہوری کی حکومت سے راضی ہو، تم لوگوں کو انقلاب سے کیا حاصل ہوا؟ ہمیں پتہ چلا ہے کہ ایران کے اکثر لوگوں راضی نہیں ہیں۔ اب بھی [امام] خمینی نے جو ہم سے جنگ کا آغاز کیا ہے، ایرانی لوگوں کی بدبختی کے علاوہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہم نے عراق میں اُس کا کتنا خیال رکھا اور اُس کا احترام کیا، اب ہم سے جنگ کرنے کیلئے چلا گیا ہے، وہ اسلام کو یہاں برآمد کرنا چاہتا ہے، حالانکہ ہم لوگ مسلمان اور تم لوگ "مجوسی" ہو، تمہارے ملک میں ہم نے اسلام کو پھیلایا ہے! ..."

جاری ہے ...



 
صارفین کی تعداد: 3399


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔