تنہائی کے سال – تیسرا حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-10-29


جیسا کہ میرے طیارے کا نمبر ایک تھا، میں سب سے پہلے ہدف پر پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ بالکل ایئرپورٹ کے اوپر دو مگ طیارے  نگہبانی دے رہے ہیں اور فضائی چکر لگانے میں مصروف ہیں۔ میں نے ایک دم اپنے ہدف پر اور اُن کے پیچھے اپنے بمبوں کو گرا یا اور ایران کی طرف  چکر لگایا۔  چکر لگاتے وقت ایک بہت بڑی  اینٹی ایئر کرافٹ پوسٹ میری گولیوں کی رینج میں تھی، میں نے اس علاقے پر گولیاں برسائیں اور موٹر کی زیادہ سے زیادہ قدرت کے ساتھ بہت ہی نچلی سطح  پر – جہاں مجھے احساس ہو رہا تھا کہ گولیوں اور بجلی کی تاروں سے ٹکرانے کا احتمال پایا جاتا ہے – ایران کی طرف واپس پلٹا۔

ایسے میں، طیارے کی نچلے حصے پر ایک زور دار دھچکا لگا؛ اس طرح سے کہ کچھ دیر کے لئے ہماری حرکت اوپر کی طرف ہونے لگی۔ میں نے طیارے میں علامت بتانے والے میٹر کی طرف دیکھا؛ پتہ چلا کہ بائیں  طرف کی موٹر میں آگ لگ گئی ہے اور موٹر کی علامت دینے والی تمام سوئیاں غیر معمولی طور پر گھوم رہی ہیں اور لال بتی – جو طیارے میں آگ لگنے کی علامت ہے – روشن ہے۔

بغیر کسی وقفہ کے – پچھلے کیبن والے کو خاص اضطراری حالت کی وضاحت دینے کے بعد – ہم نے مربوط ہدایات انجام دینے کی طرف دھیان دیا تاکہ دوسری صحیح موٹر کے ذریعے ہم خود کو اور اپنے طیارے کو علاقے سے نکال لے جائیں۔ طیارہ کہ جس کی تقریباً ۵۰۰ ناٹ رفتار تھی جو بہت ہی نچلی سطح پر پرواز کر رہا تھا، اُس نے اچانک غیر معمولی ہچکولے کھانے شروع کردیئے۔ اُس کو جو بھی ہدایت دی جارہی تھیں، کسی پر بھی عمل نہیں ہو رہا تھا۔ دراصل، وہ کنٹرول سے بالکل باہر ہوچکا تھا۔ اُس نے دائرے کی شکل میں اوپر سے نیچے تک ایک چکر کاٹا  اور لٹکی ہوئی حالت میں، ۱۸۰ ڈگری کی حالت کے قریب، پیچھے کی طرف پلٹ چکا تھا، یعنی وہ بالکل ناتوان ہوچکا تھا۔

مجھے یقین نہیں آرہا تھا، لیکن کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ میں نے مجبوراً چھلانگ لگانے والے دستہ کو کھینچا اور طیارے کو چھوڑ دیا، یایہ کہنا بہتر ہوگا کہ میں نے باہر چھلانگ لگادی۔

یہ پورا حادثہ ہونے میں صرف چند منٹ لگے اور یہ میرے لئے ایک ایسا حادثہ تھا جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے لئے ہر چیز کی پیشن گوئی کرنا آسان تھا سوائے ایسے حادثے کے، حقیقت میں، میں خود کو ہر چیز اور ہر حادثے کیلئے تیار سمجھتا تھا سوائے دشمن کی زمین پر مجبوراً اُترنے کے؛ سوائے اسیری کے!

میں نے دستہ کھینچتے وقت صرف ایک آواز سنی تھی اور کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کہ میں نے اپنے چہرے پر باد نسیم کی ٹھنڈک کو محسوس کیا، مجھے پتہ چلا کہ میں کسی کرسی سے جڑا ہوا نہیں ہوں، ہوا میں معلق زمین کی طرف  آرہا ہوں۔ اسی موقع پر، پیراشوٹ کھل گیا۔ میں نے طیارے کو دیکھا جو مجھ سے کچھ فاصلہ پر، ایک عقاب کی مانند زمین کی آغوش میں جانا چاہ رہاتھا۔ کچھ لمحوں بعد ، دھماکے کی آواز  سے پورا علاقہ گونج اٹھا اور فوراً ہی آگ لگ گئی تھی پھر  سیاہ اور گاڑھا دھواں۔

عجیب لمحات ہیں! شاید بعض پائلٹوں کیلئے صرف ایک بار ایسا حادثہ پیش آئے، شاید تھیوری میں پڑھایا جانے والا سبق اور دشمن کی خیالی چالیں ، کچھ اور چیز ہے اور حقیقی حادثہ کے بیجوں بیج قرار پانا، کچھ اور چیز۔ شاید انسان کو ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا احساس، ان چند سیکنڈوں میں اور اس طرح کے چند سیکنڈوں  میں زیادہ واضح اور آشکار ہو۔

زمین کی طرف نیچے آتے ہوئے، میں نے اُترنے والی اطراف کی تمام جگہ کو دقت سے دیکھا تاکہ چھپنے کیلئے کوئی جگہ یا بھاگنے کیلئے کوئی راستہ مل جائے، ایسے حالات کا امکان صفر تھا۔

چھاؤنی کی طرف سے ایک لال رنگ کی سوزوکی،  بہت تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی تھی۔ تھوڑا اُس طرف، ایک چوپان اپنے گوسفندوں کے گلے کے ساتھ گزر رہا تھا۔ دوسری طرف، تقریباً دس – پندرہ مرد و خواتین اور بچے – لکڑی ،  تیشہ وغیرہ  لئے -  میری طرف دوڑ رہے تھے۔

آخری سیکنڈوں میں، – نیچے اُترنے کی مخصوص حالت – میں زمین سے ٹکرایا۔ متأسفانہ  میں نے اپنی کمر سے بندھے ہوئے  فرسٹ ایڈ بکس  کے ٹکرانے کی وجہ سے چوٹ کے لرزنے اور پورے بدن میں شدید درد کا احساس کیا۔ ایسا لگا جیسے میرا دماغ میرے پیشانی اور میری آنکھوں سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور مجھ میں درد کی شدت کی وجہ سے اُسے بند کرنے کی ہمت نہیں تھی ... میں منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔

مجھے نہیں پتہ کہ کیوں، لیکن اُس خاص گھرے ہوئے لمحات میں، میرے ذہن میں میری بیٹی کا نام گھوم رہا تھا!

مجھے اُلٹی سی محسوس ہو رہی تھی، اسی وقت – اپنے پورے وجود سے – میں نے خدا کو پکارا اور اپنے سر کو آرام سے زمین پر رکھ دیا۔ میرے اندر ذرا سا ہلنے جلنے کی طاقت اور ہمت نہیں تھی۔ مجھ سے صرف ایک کام ہوسکتا تھا کہ جسے میں نے انجام دیا، توکل اور تمام چیزوں کو خدا کے سپرد کردینا، وہ خدا ہم جس کی عظمت اور مہربانی کو جانتے ہیں لیکن کم سمجھتے ہیں۔ صرف وہی ہے جو قادر ، مہربان اور فریاد سننے والا ہے۔

لال رنگ کی سوزوکی کے ساتھ دو افراد پہنچ گئے جو عربی جبہ پہنے ہوئے تھے اور مسلح تھے۔ ایک ہاتھ میں بندوق لئے میری طرف آیا اور دوسرا رضا صلواتی – پچھلے کیبن کا پائلٹ- کی طرف گیا۔ میری حالت بالکل ٹھیک نہیں تھی اور جان لیوا درد نے میری پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ اس حال میں بھی رو نہیں رہا تھا، لیکن میں اپنی ظاہری حالت پر کنٹرول نہیں کرسکتا تھا۔

وہ مسلح عرب جس کا میں اندازہ لگا سکتا تھا یا تو وہ کسی ذاتی پارٹی کا بندہ تھا یا کسی حکومتی ادارے کا، اُس نے بہت سے زور سے میری کمر پر ایک لات ماری  اور غیض و غضب کے عالم میں عربی میں کچھ کہا جسے میں بالکل بھی سمجھ نہیں سکا۔ میں نے اُسے اشاروں سے سمجھایا کہ میں کھڑا نہیں ہوسکتا میری کمر پر چوٹ لگی ہوئی ہے۔

اُس نے میری بغل کے نیچے ہاتھ دیا اور میں کسی نہ کسی طرح کھڑا ہوگیا۔ لوگ، ہاتھوں میں ڈنڈے  اور سریے لیکر پہنچ گئے اور مجھے پر اور پائلٹ رضا صلواتی پر حملہ کردیا۔ لیکن وہ دو لوگ بالآخر – ہوائی فائرنگ کرکے – اُن کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے اور ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔

مجھے اور رضا کو سوزوکی  کے پچھلے حصے میں بٹھا دیا اور پھر کھڑکی کے شیشے اوپر چڑھانے کے بعد گاڑی چلا دی۔

ایسے حالات میں – چاہے ہم چاہیں، یا نہ چاہیں – انسان کو اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ ڈرنے کی بات نہیں ہوتی؛  بلکہ کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ ایسے حالات میں انسان کے پاس صبر کرنے اور خدا سے مدد طلب کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

میں نے رضا سے اُس کا حال پوچھا؛ ایسا لگا جیسے اُس کے چہرے کی شکنیں اکڑ گئی ہوں، اُس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ جواب دیا:

-  ٹھیک ہوں! تم کیسے ہو؟

میں اُس کی اندرونی کیفیت کو ضعیف کرنا نہیں چاہتا تھا؛ پھر بھی میں نے اُس سے سچے انداز میں آرام سے کہا:

- میری کمر میں بہت شدید درد ہو رہا ہے ...

مسلح عرب – کہ جنہیں نگہبان کہنا زیادہ اچھا ہوگا- اُنھوں نے ہماری بات کاٹی  اور غصے سے چیخ کر کہا:

- اُسکُت !

اُس کے ہاتھ بلند کرنے اور بند ہوٹے سے میں سمجھ گیا کہ وہ ہم سے کہہ رہا ہے کہ "خاموش ہوجاؤ! خاموش!"

ہمارے جہاز سے گرنے کی جگہ، فوجی چھاؤنی اور شہر کوت – جو قریب قریب تھے – سے زیادہ دور نہیں تھی، شاید ہم شہر سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ چند منٹوں بعد، شہر کوت میں داخل ہونے والی ایک سڑک پر، ایک مکان کے سامنے جو زیادہ تر کسی تھانے جیسی  لگ رہی تھی، ہماری گاڑی روکی۔ ایک نگہبان کی مدد سے جو مجبوراً ڈیوٹی انجام دے رہا تھا ہم اُس عمارت کے اندر داخل ہوئے۔

ہمیں ایک کارپٹ بچھے کمرے میں لے گئے جس میں دو میزیں اور کرسیاں اور کچھ ٹیلیفون رکھے ہوئے تھے اور ہم سے ہماری پرواز کا سامان لے لیا گیا۔ کچھ ٹیلیفونوں کے بعد جو شاید ہمارے بارے میں پوچھنےکیلئے تھے اوررکچھ نگہبانوں کی رفت و آمد کے بعد جو آتے جاتے ہماری توہین کرتے، ہم لوگ باہر آگئے اور ایک سائرن والی بنز گاڑی میں سوار ہوگئے جو پولیس کی گاڑی کی طرح تھی اور ہمارے ساتھ ایک اور بنز گاڑی تھی جو ہمارے آگے کھڑی ہوئی تھی۔ ہم نے چلنا شروع کیا۔

جاری ہے ...



 
صارفین کی تعداد: 3454


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔