تنہائی کے سال – دوسرا حصّہ

دشمن کی قید سے رہائی پانے والے پائلٹ ہوشنگ شروین (شیروین) کے واقعات

کاوش: رضا بندہ خدا
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-10-29


میں بلا تأخیر افسر کے پاس گیا اور حالات سے باخبر ہوا۔ ہلا دینے والی صورتحال تھی؛ ہر طرح سے ظالمانہ حملہ تھا؛ یک پست سازش تھی۔

مجھے حکم ملا کہ فوراً شہر جاؤں اور غیر عامل دفاع کے منصوبے، حملہ کی صورتحال اور دیگر حکمت عملیوں کے بارے میں فوج، سپاہ پاسداران اور صوبائی عہدیداروں کے ساتھ ضروری اقدامات کیلئے ہماہنگی کروں اور طے کیا جائے کہ ہر حکمت عملی کے بارے میں حکومتی عہدیداروں اور لوگوں کی طرف سے کیا کام انجام پائے۔

تمام ضروری ہماہنگیوں کے بعد افسر کے پاس گیا اور جہاز کیلئے تیار ہوا۔ میرے جہاز کے فرائض  ارومیہ کی حدود میں تقریباً آٹھ گھنٹے میں ختم ہوئے جس میں جہاز میں ایندھن بھروانا بھی شامل تھا۔ میرے یہ فرائض ریڈار سے کنٹرول ہو رہے تھے۔ اس کے بعد مجھے اپنی فوجی کی مدد کیلئے مجھے ایلام بھیج دیا گیا۔

 مجھے تقریباً رات ۱۰ بجے اپنی بیوی کو  فون کرنے کا موقع ملا۔ اس کی آواز سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کتنی پریشان ہے، اس کی پریشانی بجا تھی۔ میں نے اسے اطمینان دلایا اور کہا: "میرا کام ختم ہوگیا ہے جلدی واپس آؤنگا؛ صبر کرو۔"

پورے دن میں کئی مرتبہ عراقی جہازوں کی بمباری، اسٹاف کے گھر والوں کی طرف سے مرکز کے گھروں کا خیال کرنا، بجلی کا منقطع ہونا، پے در پے خاموشیوں کے بعد سائرنوں کے  بند ہونے وغیرہ سے وہ حد سے زیادہ ڈری ہوئی تھی۔ اس کی پریشانی دراصل آزادہ کی وجہ سے تھی، جسے اس نے مکمل حفاظت کیلئے کھانے کی میز کے نیچے چھپا دیا تھا! بجلی منقطع ہونے کی وجہ سے ہونے والی تاریکی میں اس سے پہلے کہ مہری روتی، میں نے اس کی پیشانی پہ پیار کیا اور اس کے کاپنتے ہوئے کندھوں کو تھام لیا۔ میں نے اسے کھڑکی سے آنے والی روشنی کی طرف متوجہ کیا اور ہم آہستہ آہستہ بیٹھ گئے؛  کہیں آزادہ کی آنکھ نہ کھل جائے!

میں گھٹنوں چلتا ہوا آگے بڑھا اور آزادہ کو پیار کیا۔ مہری چائے لیکر آئی، جس سے میری تھکان ختم ہوگئی۔

 میرے پورے وجود کو ایک چیز اذیت کر رہی تھی۔ میں مہری کو نہیں بتا سکا تھا۔ میں نے اس سے کچھ نہیں چھپایا تھا اور یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی؛ وہ جانتی تھی میں اس سے کتنی محبت کرتا ہوں۔ جنگ ہو رہی تھی۔ جنگ نہیں؛ (بلکہ) ہم پر دشمن کا وحشیانہ حملہ تھا۔ میں اپنے دل کی گہرائیوں سے چاہتا تھا کہ دفاع مقدس میں پوری طرح شرکت کروں۔ مجھے جو بات تکلیف پہنچا رہی تھی وہ مہری اور آزادہ کا میرے فرائض انجام دینے کی جگہ پر موجود ہونا تھا۔ میں فضائیہ میں پائلٹ تو تھا ہی لیکن صرف اپنی نوکری کے عنوان سے اپنی عزت، وطن اور انقلاب کا دفاع کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ پوری عقیدت اور دل سے چاہتا تھا کہ اس جنگ میں شریک ہوں۔ مہری اور آزادہ سے مجھے عشق تھا، اپنے وطن سے بھی اور سب سے زیادہ خدا کی رضا سے۔ میرا خیال تھا کہ بیوی اور اولاد سے دور رہنا گرچہ سخت ہے لیکن بہتر ہے کہ گھر کی فکر سے پوری طرح آزاد ہو کر جنگ میں شریک رہوں؛ ایسی جنگ جس کے بارے میں ابھی کچھ معلوم نہیں تھا!

میں نے ہر طرح سے مہری کو راضی کرنے کی کوشش کی، بالآخر وہ مان گئی کہ آزادہ کے ساتھ تہران چلی جائے۔  میں نے اسی وقت اپنی بیوی کے چچا زاد بھائی کو فون کیا۔ رات کے تقریباًٍ تین بجے وہ مرکز کے دروازے کے سامنے مہری اور ننھی آزادہ کا انتظار کر رہا تھا۔ خزاں کی خنک ہوا میں، رات کی روشنی اپنی تمام زیبائی کے ساتھ تھی، پتے اُڑ رہے تھے اور ... اس عالم میں، میں نے انہیں الوداع کیا۔

ہم نے ایک دوسرے کو خدا کے حوالے کیا۔

 میں بستر پر لیٹ گیا۔ چھت کو تکنے لگا، گذشتہ دنوں کو اپنے ذہن میں دہرانے لگا۔ مستقبل کے بارے میں سوچ رہا تھا؛ امیدیں، آرزوئیں، جنگ، شہادت کا خیال اور ریزہ ریزہ ہوکر ہوا میں اُڑ جانے کا  احساس، متاثرہ طیارے کے ساتھ واپسی کا خیال، جلے ہوئے طیارے کا خیال، دشمن کے کئی جہازوں کے ساتھ لڑائی کا خیال وغیرہ وغیرہ۔

میں نے دن کا آغاز خدا کے نام سے کیا اور دو طولانی پروازوں کے بعد شام ۸ بجے میرا کام ختم ہوا۔ کام کے دباؤ کی وجہ سے دفتر کے افسر نے کہا تم کل کچھ دیر سے آنا وار زیادہ آرام کرنا کیونکہ میرے لئے ایک خاص کام مدّنظر رکھا ہوا تھا۔

رات کے کھانے کیلئے افسروں کے بوفے میں گیا۔ وہاں میں نے اپنے ایک قدیمی دوست رضا احمدی کو دیکھا جو ڈیوٹی پر ہمدان آیا ہوا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ رضا ایک تجربہ کار پائلٹ اور نہایت ہونہار افسر تھا۔

رات کے کھانے کے بعد ہم نے ہر موضوع پر بات کی؛ اپنی فلائٹوں کے بارے میں، اپنے ٹارگٹ  کو مارنے کے بارے میں، فضائی جنگ کے مختلف حربے وغیرہ وغیرہ۔ ہماری گفتگو اپنی اوج پہ تھی اور میں رضا کے ساتھ بیٹھک سے خستہ نہیں ہوا تھا اس کے باوجود کہ بہت تھکا ہوا تھا۔ اس کا ارادہ تھا وہ ہوٹل جائے لیکن میں اصرار کرکے اسے پنے گھر لے گیا۔

ہم بوفے سے کچھ سیب لے آئے تھے، جس میں سے کچھ ہم نے کھائے اور باقی باورچی خانے کی میز پر ہی رہ گئے۔ میں نے چائے بنائی اور چائے پینے کے بعد شدید تھکن کی وجہ سے ہم دونوں کی ہی آنکھ لگ گئی۔

صبح گھر کی لمبی گھنٹی سے ہم دونوں اٹھے؛ جہازوں کی بٹالین کا ڈرائیور تھا، اس نے سلام کیا اور کہا:

آپ کی جہاز کی ڈیوٹی بدل گئی ہے اور فوراً جاکر ا فسر کا منصب سنبھالیں!

یہ تعجب آور بات نہیں تھی، میرا پہلے سے گمان تھا کہ کوئی غیر متوقع ذمے داری مل جائے۔ میں دل ہی دل میں خوش تھا کہ مہری نہیں ہے، اگر وہ ہوتی تو مسلسل ان خلاف توقع چیزوں میں الجھی رہتی۔ اس کے باوجود ان لوگوں کا نہ ہونا میرے لئے خوشی باعث نہیں تھا۔

میں فوراً تیار ہوا اور رضا کے نام ایک مختصر خط لکھا تاکہ وہ گھر کے دروازے کو تالا لگانے کے بعد، چابی کو کھڑکی کے پیچھے رکھ دے اور اسے الوادع کیا۔

میرے افسر کے منصب پہ پہنچنے کے بعد یہ طے پایا کہ چار لڑاکا طیارے میری سرپرستی میں عراق کے ایک فوجی مقام "کوت" پر بمباری کریں گے۔

میری ذمے داری کا تقاضا یہ تھا کہ ایک سربراہ کے عنوان سے اپنے گروہ کے تمام اراکین کو ان کے وظائف بتاؤں اور ان کی ذمہ داریاں طے کروں البتہ گروہ کے بقیہ تمام اراکین بھی میری طرح تھے یعنی وہ بھی اپنی اس نئی ڈیوٹی سے بے خبر تھے اور کچھ ہی دیر پہلے انہیں اس کی خبر ملی تھی۔

بہرحال، میں نے گروہ کے پائلٹوں کو کچھ تاخیر سے جمع کیا۔ میری وضاحت دینے کے درمیان اعلان ہوا کہ ہمارا ایک جہاز کسی اور کام کیلئے بھیجا جائے گا۔

لہذا ہمیں تین جہازوں کے ساتھ وہ کام انجام دینا پڑے گا۔ اس طرح کی تبدیلیاں یا پہلے سے ہماہنگی نہ ہونا، جنگ شروع ہونے اور میدان جنگ میں تیزی سے بدلتی حالت کی وجہ سے تبدیلی، معمولی چیزیں تھیں۔

میری وضاحت دینے کے بعد جب ہم جہازوں کی طرف جانے کیلئے تیار تھے، ایک عہدیدار نے مجھے اشارہ کیا کہ میرے لئے ٹیلی فون ہے۔ میں نے فون اٹھایا، میری بڑی بہن تھیں۔ انہوں نے مجھ سے دعا سلام کی اور پوچھا:

بھائی! میں تم سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں۔

میرے پاس واقعی وقت نہیں تھا۔ میں نے ان کی باٹ کاٹی:

پیاری بہن! ابھی میری فلائٹ ہے، ابھی مجھے جانا ہے۔ میں واپس آتے ہی آپ کو فون کرونگا۔ معذرت خواہ ہوں۔ خدا حافظ

اور میں نے فون رکھ دیا۔

میں تیزی سے اس گاڑی کی طرف پہنچا جو ہمیں جہاز کی طر ف لیکر جاتی تھی۔

ہمیں تیزی سے اور بہت توجہ کے ساتھ کام کرنا تھا۔

ہم نے اپنی فلائٹ سے پہلے جہاز کا معائنہ کیا۔ ٹیکنیکی ماہرین پروانوں کی طرح ہمارے گرد گھوم رہے تھے تاکہ ہم جلد از جلد  فلائٹ کیلئے تیار ہوجائیں۔ جہاز کا ایک ذمہ دار جو میری مدد کر رہا تھا کہ میں کرسی پر صحیح سے بیٹھ جاؤں آہستہ آہستہ  کچھ پڑھ رہا تھا۔ میں نے پوچھا: "کیا پڑھ رہے ہو؟"

اس نے چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ جواب دیا: "تمہارے لئے آیت الکرسی پڑھ رہا ہوں۔"

ایسا لگا جیسے ایک نور نے مجھے سکون بخش دیا ہے۔ میں نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ جلدی جلدی اس کا دل سے شکریہ ادا کیا اور ہیلمٹ پہنا، ماسک باندھا۔

خدا پر توکل کے ساتھ اسٹارٹ کیا اور پیچھے بیٹھے ہوئے پائلٹ سے بات کرنے کے دوران فلائٹ سے پہلے انجام دیئے جانے والے کاموں کی ریڈیو سے ہماہنگی کی، گروہ کے بقیہ اراکین کو پکارا؛ نمبر دو اور تین کی طرف سے آمادگی کا اشارہ ہوتے ہی اڑنے کیلئے تیاری کی جگہ پر گئے۔

تینوں ہی اڑنے کیلئے تیار تھے کہ اچانک جہاز نمبر تین نے اعلان کیا، اس کا طیارہ ٹیکنیکی خرابی سے دچار ہوگیا ہے اور فی الحال نہیں اڑ سکتا۔

توقف کا موقع نہیں تھا۔ میں نے اپنی تمام توجہ اپنی فلائٹ کے لائحہ کی طرف مبذول کی۔ باقیماندہ دو جہازوں کے ساتھ کچھ علامتوں کے تبادلے کے بعد ہم اپنے جہازوں کو لے اڑے اور تقریباً چار ہزار فٹ کی بلندی پر ہم اپنے ہدف کی طرف بڑھنے لگے۔

پورے سفر میں جس چیز نے میری فکر کو مشغول کیئے رکھا وہ اس کام کو پوری طرح سے انجام دینا اور جہازوں کو صحیح سالم واپس لیکر آنا تھا۔ مجھے غرور کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے کام کے تجربے کی وجہ سے اس قدر اطمینان تھا کہ حتی ایک لمحہ کیلئے بھی میں نے تصور نہیں کیا تھا کہ دشمن کے جہاز ہمیں مارنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور عراق کی جنگی توانائی اور اس کے پائلٹوں کو میں اپنے سے قابل مقائسہ نہیں سمجھتا تھا؛ لہذا ہم ذرہ برابر ڈر و خوف کے بغیر آگے بڑھ رہے تھے، یہاں تک کہ عراق کی حدود میں داخل ہوگئے اور اپنے ہدف تک پہنچ گئے۔

طے شدہ لائحہ کے مطابق مجھے اور جہاز نمبر ۲ کو ایک دوسرے جدا اور کم بلندی پر رہتے ہوئے اپنے طے شدہ مقام پر پہنچنا تھا اور ہمارے درمیان فاصلہ اتنا رہنا چاہیے تھا کہ دشمن کے ریڈار ہمیں پکڑ نہ سکیں۔

جاری ہے ...

پہلا حصہ



 
صارفین کی تعداد: 3414


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔