زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – بائیسواں حصہ

انٹرویو کا دورانیہ

حمید قزوینی

2017-10-22


انٹرویو کے وقت کا دورانیہ، اُن امور میں سے ہے کہ انٹرویو کرنے والے کو اُس پر توجہ رکھنی چاہئیے اور وہ انٹرویو منظم اور ترتیب دینے کے بارے میں ضروری اقدامات انجام دے۔

اس بارے میں مندرجہ ذیل نکات کی رعایت کرنا ضروری ہے:

۱۔ انٹرویو کے دورانیے کے وقت کو راوی کے جسمانی اور ذہنی حالات، موضوعات اور مورد نظر سوالات کے مطابق منظم کرنا چاہیے۔

۲۔ انٹرویو کے وقت میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں راوی تھکاوٹ اور زحمت میں مبتلا ہوجائے گا اور مطالب کا معیار  گر جائے گا۔

۳۔ انٹرویو کے وقت کو اتنا کم نہیں ہونا چاہیے کہ واقعات اور مطالب ادھورے رہ جائیں۔ انٹرویو کی مدت کا کم ہونا اُس صورت میں قابل قبول ہے جب موضوعات اور سوالات محدود ہوں یا محقق کم گفتگو یا چھوٹے واقعہ کو  ریکارڈ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔

۴۔ کبھی راوی کی ضعیفی یا بیماری اور کمزوری کی وجہ سے، طولانی گفتگو کرنا ممکن نہیں ہوتا اور انٹرویو کے دوران، راوی کے آرام کرنے کے وقت کو نظر میں رکھنا چاہئیے۔ مجھے یاد ہے ایک عمر رسیدہ سیاسی شخصیت کے انٹرویو کے دوران، ہر بیس منٹ بعد ایک  دفعہ، ریکارڈنگ بند ہوجاتی تاکہ  راوی تھوڑا سا آرام کرلے۔ یا کسی اور نشست میں ہم نے انٹرویو کے دوران راوی کے سو جانے کا مشاہدہ کیا۔ یعنی راوی نے گفتگو کے دوران، ایک دفعہ اپنی آنکھوں کو بند کیا اور خاموش ہوگیا۔ انٹرویو کرنے والا گروپ اس خیال میں ہے کہ شاید وہ فکر کر رہے ہیں، اُن کے دوبارہ گفتگو شروع کرنے کے انتظار میں تھا، لیکن کچھ لمحوں بعد پتہ چلا وہ سو چکے ہیں۔ اسی طرح ایک قدیمی مجاہد نے اصرار کیا کہ وہ اپنی باتوں کو جوش و ولولہ سے بیان کرنا چاہتا ہے، لیکن کچھ منٹ بعد اُس پر تھکاوٹ اور کمزوری نے غلبہ کرلیا اسی وجہ سے  انٹرویو میں بار بار رکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ بہرحال راوی کی ذہنی اور جسمانی حالت کی رعایت اور اُس پر توجہ دینا ہمیشہ سے ایک ضرورت ہے۔

۵۔ انٹرویو کو راوی کی زیادہ ہمت و صلاحیت کے باوجود، ایک گھنٹے یا ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ طولانی نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ انٹرویو کے طولانی ہونے کی صورت میں، راوی اور انٹرویو لینے کے تمرکز میں کمی واقعی ہوتی ہے۔ انٹرویو کو جاری رکھنے کیلئے راوی کے اصرار کی صورت میں، کچھ منٹوں کیلئے وقفہ کرنا چاہیے تاکہ راوی اور محقق  دونوں  کے تھوڑا  آرام کرنے کے بعد   اُسے پھر سے جاری رکھا جائے۔

۶۔ انٹرویو کو اس طرح سے تنظیم کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں کہ مورد نظر موضوعات پر اُسی نشست میں  بات ہوجائے اور بات تقریباً مکمل ہوجائے۔

۷۔ آپ کے ہمراہ اور ریکارڈنگ کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہے اُسے فوراً تیار کرکے سیٹ کردیں تاکہ راوی کا وقت ضائع نہ ہو۔  ان وسائل کے صحیح و سالم ہونے کے بارے میں انٹرویو میں آنے سے پہلے ہی مطمئن ہوجائیں۔

۸۔ انٹرویو شروع ہونے میں تاخیر، انٹرویو کے وقت کو کم کرنے کے علاوہ، یہ چیز راوی کی ذہنی اور جسمی تھکاوٹ  کا باعث بنے گی۔ اسی طرح انٹرویو سے پہلے ہونے والی گفتگو کے  طولانی ہوجانے کی وجہ سے راوی بیان شدہ واقعات سے ذہنی اطمینان میں مبتلا ہوجائے گا ، جس کے نتیجے میں وہ انٹرویو کے وقت مطالب کو پہلے والی توانائی اور انگیزے سے بیان نہیں کریگا۔

۹۔ راوی کے گھر یا اُس کے دفتر میں انٹرویو کیلئے جانے کی صورت میں، وقت کو اس طرح سے منظم کریں کہ اُس کے گھر والوں یا اُس کے ساتھ کام کرنے والوں کیلئے زحمت کا باعث نہ بنے۔ فطری سی بات ہے کہ انٹرویو کے بعد، تمام وسائل کو فوراً جمع کرلیں اور اُس جگہ کو ترک کردیں۔ بغیر کسی واضح دلیل کے کسی جگہ ٹھہرے رہنا نہ صرف اخلاقی لحاظ سے غلط ہے کہ جس سے ممکن ہے انٹرویو کی نسشتوں کو جاری رکھنے کی صورت ناپسندیدہ نتائج حاصل ہوں۔



 
صارفین کی تعداد: 3664


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔