سازشوں کی ناکامی پر ۵ جون کے قیام کو ناکام قیام کے طور پر پیش کرنے کا منصوبہ

زینب دهقان حسام‌پور
ترجمہ: سید نعیم حسین نقوی

2017-9-10


روحانیت کی مخالفت اور مزاحمت نے شاہ او اس کے حواریوں کو صوبائی تنظیموں کے بل اور سفید انقلاب کے  چھ نکاتی ایجنڈے کے حوالے سے یہ بتا دیا تھا کہ اس بار مقابلہ سخت ہے اور مد مقابل کوئی عام لوگ نہیں بلکہ طاقتور اور خاص مذہبی افراد ہیں۔ یہی  وجہ ہے کہ سن ۱۹۶۳ء میں محرم کے مہینے میں امام خمینی ؒ کے خطابات بھی رضا شاہ پہلوی کے  اسلام مخالف منصوبوں سے پردہ اٹھا رہے تھے۔ حضرت امام خمینی ؒ نے مدرسہ فیضیہ قم میں عصر عاشورا کے خطاب میں یہ بات علی الاعلان کی: یہ حکومت، عوامی حکومت نہیں بلکہ اغیار کی پٹھو ہے۔ امام کی یہ تقریر پہلوی حکومت کی ماہیت پر ایک کاری ضرب تھی۔ جس کے بعد ساواک کے ہر کاروں نے امام کو ۱۲ محرم کی رات، ۵ جون ۱۹۶۳ء کو گرفتار کرکے تہران منتقل کردیا۔ امام کی گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی روحانیت اور لوگوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے حکومت کے اس اقدام پر شدید ردّ عمل  کا اظہار کیا۔ یہ ردّعمل حکومت پر بہت گراں گزرا اور اس نے مسلح افواج کو مظاہرین پر فائرنگ کرنے کا حکم دیدیا، جس کے نتیجے میں بہت سے افراد شہید، بہت سے زخمی اور بہت سے گرفتار ہوگئے اور یوں ۵ جون کا قیام عمل میں آیا۔

پہلوی حکومت نے ا س عوامی قیام کا  مقابلہ کرنے کے لئے کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جن میں مسلحانہ زد و کوب، فوجی حکومت، قیام کے قائد (امام خمینیؒ) کی گرفتاری اور بے بنیاد دعوے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جن ہتھکنڈوں کا سہارا لیا گیا بلکہ ان پر عمل کیا گیا ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ میڈیا کے ذریعے ایران کے اندر اور ایران سے باہر، بھرپور طریقے سے غلط پروپیگنڈے کیئے جائیں اور اس عوامی تحریک کو جس کا عوامی ہونا اس کی بڑی  خصوصیات میں سے ایک تھا، غیر ملکی بناکر پیش کیا جائے۔ پہلوی حکومت کی  رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سن ۱۹۶۲ء کے موسم سرما سے شروع ہونے والی تبدیلی کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پہلے سے کسی بڑے واقعہ کے رونما ہونے کی منتظر تھی۔ جب ہی تو اس کے کچھ اقدامات پہلے سے ہی روک تھام کے لئے تھے۔ انھوں نے اپنے تئیں روحانیت کے پلیٹ فارم کو کمزور بنانے کے لیے کچھ طلاب کو بھرتی کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے ساتھ اپنے پروپیگنڈا کرنے والے میڈیا کے ذریعے یہ اعلان کروایا کہ ایران کی روحانیت، مصر کے صدر جمال عبد الناصر کے اشارے پر چلتے ہوئے ایرانی حکومت کے خلاف اٹھ رہی ہے۔ ساواک نے حتی یہ افواہ اڑا دی تھی کہ ایران کے مولوی حضرات جلد ہی اپنا ایک نمائندہ ایران سے مصر بھیجنے والے ہیں تاکہ جمال عبد الناصر کے ساتھ، محمد رضا پہلوی کے خلاف اتحاد قائم کرسکیں  لیکن علماء و مراجع کرام نے اس افواہ پر سخت ردّ عمل کا اظہار کیا۔

ساواک کے ایجنٹ  خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ درحقیقت ایرانی روحانیت کے مصری حکومت کےساتھ اتحاد کی خبر بے اساس ہے اور یہ بات انھوں نے اپنی ریکارڈ شدہ رپورٹ میں پیش کی کہ علماء کی طرف سے مصر نمائندہ بھیجنے کی کوئی حقیقت نہیں۔ لیکن ۵ جون سن ۱۹۶۳ء کو حکومتی سربراہان کی میٹنگ میں وزیر اعظم اسد اللہ علم نے یہ بات واضح طور پر کی کہ اس قیام کی اصل وجہ "باہر سے آنے والا پیسہ ہے مثلاً عراق اور مصر"۔

اور اسی طرح حکومتی ذرائع من جملہ اسد اللہ علم اور ساواک خفیہ ایجنسی کے سربراہ حسن پاکروان، اُسی ۵ جون سے لیکر آخر تک تمام انٹرویوز میں یہ بات بڑے یقین کے ساتھ کہتے رہے کہ یہ قیام، اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی یکجہتی کا نتیجہ ہے۔ بہرحال پہلوی حکومت اپنی تمام تر توانائیاں صرف اس لئے خرچ کر رہی تھی تاکہ ۵ جون کے قیام کو ایسا فتنہ بنا کر پیش کرے جو مختلف مخالف دھڑوں کا پیدا کردہ ہے اور یہ کہ ان لوگوں کو  باہر سے حمایت حاصل ہے۔

اس (پلید) سیاست کا ایک ہتھکنڈا یہ بھی تھا کہ حکومتی زیر نظر میڈیا، مطبوعات، بیرونی ممالک کا میڈیا خصوصاً مغربی میڈیا، سب ہم آواز ہوکر دنیا کو یہ بتا رہے تھے کہ یہ قیام باغی سرکش افراد کی طرف سے ہے جو ایرانی ترقی کے مقابلے میں قدیم (دقیانوسی) سوچ رکھتے ہیں اور عورتوں کی آزادی کے مخالف ہیں۔

مغربی میڈیا نے پہلوی حکومت کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے اس امر پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا تاکہ قیام کو حقیر بنا کر پیش کرے اور حقیقت پر  پردہ ڈالتے ہوئے قیام کو کٹھ پتلی ڈرامہ بناکر منظر عام پر لائے کہ جس کی ڈوریاں بیرونی ہاتھوں میں ہیں۔ اور یہ ایک ایسا امر تھا جسے ایرانی عوام نے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا۔

پہلوی حکومت، جو روحانیت پر باہر سے حمایت لینے کا الزام لگانے پر تلی ہوئی تھی، نے کبھی بھی عالمی سوالات کے بارے میں سوچنے کی پروانہ نہیں کی اور نہ انہیں قانع کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کی اس تگ و دو کے دوران حالات نے جو کروٹ بدلی تو بہت سے دور اندیش اذہان میں یہ بات پہلے سے زیادہ راسخ ہوگئی کہ خود حکومت اس مسئلہ میں عالمی طاقتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہے۔

۸ جون سن ۱۹۶۳ء کو  ہمدان میں محمد رضا پہلوی نے اپنی تقریر میں ۵ جون کے قیام پر بات کرتے ہوئے کہا: "ایرانی ہونے کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ایک ایرانی اگر بیرونی ملک سے پیسے لیکر اپنے لوگوں کے خلاف بلوے فسادات ایجاد کرے تو اس کو آپ کیا کہیں گے۔ اور اس پر پھر اگر وہ ایرانی شیعہ بھی ہو اور ایک غیر شیعہ مسلمان سے پیسے لیکر یہ کام کرے تو؟" اور ساتھ ہی شاہ نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ جلدی ہی اس حوالے سے شواہد و حقائق سامنے آئیں گے۔

اگرچہ پہلوی حکومت کے ذرائع روز اول سے اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ اس قیام کو ایران مخالف ممالک کی طرف سے حمایت یافتہ بناکر پیش کریں اور اسے ایران کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی طرف سے مشترک سازش کے طور پر متعارف کرائیں لیکن یہ لوگ، عوامی جلسے جلوسوں میں صرف بیرونی دشمنوں کے حوالے سے بات کرتے تھے۔ سو، اس موضوع پر محمد رضا پہلوی کی واشگاف الفاظ میں تقریر کے بعد یہ مسئلہ داخلی میڈیا اور حکومتی ذرائع کا موضوع بن گیا اور اسی تقریر کے بعد ایرانی میڈیا اور حکومتی ذرائع نے جمال عبد الناصر اور حکومت مصر کو براہ راست اس شیعہ تحریک کا سبب قرار دیکر متعارف کروایا۔

ساواک ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، محمد توفیق قیسی نامی لبنانی شہری  جب یکم جون سن ۱۹۶۳ء کو بیروت سے مہر آباد ایئرپورٹ پہنچا تو اس کے پاس تیس ہزار جرمن برانڈ، ترکی کرنسی کے پانچ لاکھ لیرہ اور عراقی کرنسی کے دو لاکھ لیرہ تھے جس  کی بنا پر حکومت ایران نے اسے گرفتار کرکے اسے جمال عبد الناصر کا ایجنٹ بناکر پیش کرنے کی کوشش کی۔

کہا جاتا ہے کہ ایران کے مصر سے تعلقات سن ۱۹۶۰ء میں ختم ہوئے تھے اوراس خاتمہ کی وجہ یہ تھی کہ جمال عبد الناصر، محمد رضا پہلوی کو اسرائیل سے حمایت لینے  کو عرب اور مسلم ممالک کی فکر، غیرت اور اصول کے خلاف سمجھتا تھا۔

پہلوی حکومت ایک طرف سے ایرانی روحانیت کو اس قیام میں جمال عبد الناصر کے اشاروں کی فرمانبردار بناکر پیش کرنے کے ذریعے، مذہبی لوگوں میں اس کے شیعہ تشخص کو ختم کرنا چاہتی تھی اور دوسری طرف سے قومیت کا مسئلہ چھیڑ کر ان روشن فکر افراد کی توجہ حاصل کرنا چاہتی تھی جو ایرانی اور غیر ایرانی کے مسئلہ پر حساس تھے۔

حقائق کو ہمیشہ کیلئے چھپایا نہیں جاسکتا، ہم اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں محمد رضا پہلوی کی سیاسی تقلید میں حکومتی ذرائع کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ ۵ جون کے قیام کو عراقی اور مصری پیسے کی پیداوار کے طور پر پیش کریں لیکن اس وقت کے وزیر خارجہ عباس آرام نے قیام کے دو ہفتے بعد ہی حکومتی اراکین کی میٹنگ میں آکر اس حکومتی دعوے کی تردید کردی۔

پہلوی حکومت نے اگرچہ اپنے تمام ذرائع کی مدد سے دنیا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی تھی ایرانی عوام شاہ کی اصلاحات یا سفید انقلاب کو قبول کرچکے ہیں اور حکومت کے حامی ہیں لیکن ۵ جون کے قیام نے تمام حکومتی محنتوں پر پانی پھیر دیا۔ اب حکومت نے اپنے بچاؤ کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ قیام کو مصر اور عراق سمیت دیگر ممالک کی جانب سے حمایت یافتہ اعلان کرے اور نیز یہ کہ دنیا والے جان لیں کہ ایرانی عوام حکومتی پالیسیوں کا استقبال کرتی ہے اور یہ فسادی ٹولہ تو بس چند مخالفین ہیں جو باہر سے مال بٹور رہے ہیں۔

اس میں شک  نہیں کہ آیت اللہ حکیم جیسی شخصیات نے پہلوی حکومت کی طرف سے مذہبی افراد کے ساتھ ناروا سلوک برتنے کے حوالے سے تمام دنیا کو آگاہ کرنے میں کردار ادا کیا۔ ذاکرین قم میں سے ایک ذاکر کی عراق میں تقریر، الازہر یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ محمد شلتوت کی جانب سے ایرانی علماء کی حمایت اور اس طرح کی اور شخصیات جو روشن ضمیر تھیں اور اس مسئلہ کی حقیقت کو دوسروں تک پہنچانا ضروری سمجھتی تھیں۔ البتہ ان شخصیات کے اقدامات کو کہیں سے بھی کسی بھی قسم کی حمایت حتی مالی سپورٹ بھی نہیں۔ جبکہ حکومت کا خیال یہ تھا کہ باہر کا پیسہ، خرچ کرکے ہر کام کروایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ اس نے ۱۹ اگست کی بغاوت میں یہی کیا۔ بہرحال اس صورت حال کو اگر سامنے رکھا جائے تو بھی ایسا حکومتی دعوی اس حد تک بے بنیاد تھا کہ خود حکومت اور اس کے زیر سرپرستی میڈیا نے بھی اس طرح کے مدعی افراد کی گرفتاری کا اعلان نہیں کیا، مقدمہ تو بڑے دور کی بات ہے۔ اور تو  اور حکومت نے سرکاری سطح پر ان ممالک پر اعتراض تک بھی نہ کیا جن پر خود اس کی نظر میں مالی حمایت کا الزام تھا۔ دراصل پہلوی حکومت یہ چاہتی تھی کہ مختلف حیلوں بہانوں سے عوامی اذہان کے روحانیت پر اعتماد کو کم سے کم کرے، اور ساتھ ساتھ اپنے اس دعوے کے ذریعے کہ بیرونی ممالک، ایرانی روحانیت کی مالی حمایت کر رہے ہیں، خود روحانیت کے اعتراضات کو کھوکھلا بنائے۔

اسی طرح یہ حکومت اور اس کے نوکر اس دعوے کے ذریعے خود کو عالمی سطح پر مظلوم ظاہر کرنا چاہتے تھے اور جب تک ان کی یہ "مظلومانہ فریاد" دنیا بھر میں پھیل نہیں جاتی، اسی موضوع کے سہارے پروپیگنڈے کو جاری رکھنا چاہتی تھی۔ ۱۷ فروری سن ۱۹۷۷ میں جب تبریز کے لوگوں نے قیام کیا تب بھی پہلوی حکومت کا دعوی یہی تھا کہ مظاہرین غیر ملکی تھے! تاہم ایران کی عوام کے اعتراضات کی وسعت کے نتیجے میں انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا اور بالآخر وقت نے بخوبی ثابت کردیا کہ حکومت ۵ جون کے قیام کے مقابلے میں شکست  کھا چکی ہے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3717


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔