۵ جون ۱۹۶۳ء کے قیام کی کہانی، آیت اللہ محمد علی گرامی کی زبانی


2017-9-3


آیت اللہ محمد علی گرامی سن ۱۹۳۸ء میں قم میں پیدا ہوئے۔ ۱۸ سال کی عمر میں ہی فقہی دروس  آیات عظام بروجردی، امام خمینی، داماد اور اراکی سے حاصل کر لئے۔

سن ۱۹۶۲ء میں اسلامی تحریک کے آغاز میں ہی مقابلہ کرنے والوں کی صف میں آگئے اور ۱۹۷۳ء سے لیکر ۱۹۷۶ء تک آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کے ساتھ مختلف جیلوں میں رہے لیکن آیت اللہ خامنہ ای کے آزاد ہوتے ہی پہلے "جیرفت" اور پھر "خوزستان" جلا وطن کر دیئے گئے۔

ابھی تک آیت اللہ گرامی کے علوم قرآنی، اجتماعی، فلسفی، منطق، علم عرفان اور فقہی مسائل پر مشتمل کئی آثار زیور طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں۔ یہ انٹرویو بھی ان سے ۶ جولائی سن ۱۹۹۳ء کو قم المقدس میں لیا گیا تھا۔

 

شاہ کی آیت اللہ العظمیٰ بروجردی سے ملاقات

پہلوی حکومت اور خود شاہ ظاہراً آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کا بہت احترام کرتے تھے۔  مجھے یاد ہے کہ ایک بار شاہ صبح سویرے، سورج نکلنے سے بھی پہلے آیت اللہ العظمیٰ بروجردی سے ملنے ان کے گھر آیا تھا۔ کوئی سات، ساڑھے سات کے قریب جب ہم گھر سے نکلے تو ملاقات ختم ہوچکی تھی اور کچھ لوگ محلہ "عشق علی" میں کھڑے شاہ کی تہران واپسی کا نظارہ کر رہے تھے۔ جب آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کا انتقال ہوگیا تو اخباروں اور مجلوں میں نئی مرجعیت کی بحث چھڑ گئی۔ محمد رضا پہلوی نے فوراً ایک تعزیتی پیغام ٹیلی گراف کے ذریعے آیت اللہ الحکیم کے نام نجف بھجوایا اور اسی طرح ایک ٹیلی گرام قم بھجوایا جس کا کچھ زیادہ اثر نہ ہوا۔

 

کچھ آیت اللہ سید عبد الہادی شیرازی کے بارے میں

آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی رحلت کے کچھ ہی عرصے بعد پہلوی حکومت نے ایک ٹیلی گراف آیت اللہ سید عبد الہادی شیرازی کے نام بھی بھجوایا۔  آیت اللہ سید عبد الہادی شیرازی چونکہ انتہائی متقی شخصیت تھے اس لئے کوئی ان کے بارے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان کے حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے۔ اسی وجہ سے ان کی عظمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ برخلاف اس ٹیلی گراف کے جو شاہ نے آیت اللہ الحکیم کے نام بھیجا تھا۔ نجف کے علماء اور بزرگ شخصیات بھی ان کا حد سے زیادہ عزت و احترام کرتے تھے۔ جب بھی کوئی ایران سے نجف زیارت کے لئے جاتا تھا اور پھر ان سے بھی ملاقات کا شرف پانے کیلئے جاتا تھا تو وہ اس سے یہی کہتے تھے کہ: جب حرم جاؤ تو میرے لئے یہ دعا کرنا کہ میری مرجعیت سے اگر دین کو نقصان پہنچ رہا ہو تو خدا مجھے موت دیدے۔ وہ ہمیشہ اس بات سے ڈرتے تھے کہیں اپنی ذمہ داری انجام دینے میں ان سے کوئی کوتاہی نہ ہوجائے۔

 

امام خمینی  ؒکی مرجعیت کا آغاز

آیت اللہ سید عبد الہادی شیرازی کی مرجعیت کا دورہ لگ بھگ ایک سال رہا۔ ان کی مرجعیت کے زمانے میں ہی امام خمینی ؒ کے مقلد بھی تھے۔ "دماوند" میں ایک شخص مجھ سے کہنے لگا: "میں مرحوم شاہ آبادی، جو امام خمینی ؒ کے استاد تھے، کے زمانے میں ہی امام خمینی ؒ کا مقلد تھا" میں نے پوچھا کہ تم نے امام خمینی ؒ کو کیسے پہچانا؟ کہنے لگا : "آقائے شاہ آبادی ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔" لیکن آیت اللہ العظمیٰ بروجری کی رحلت کے بعد ملک کے  تمام چھوٹے بڑے شہر وں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد حضرت امام کی مقلد بن گئی۔  شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ صوبہ گیلان میں دوسرے صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ امام کی مرجعیت کو قبول کیا گیا۔

 

حکومتی  سازش

آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی  رحلت کے بعد محمد رضا پہلوی نے ٹیلی گراف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قم کے گورنر کے ذریعے حوزہ علمیہ قم میں رخنہ ڈالنے کی ٹھان لی۔ گورنر کی یہ کوشش تھی کہ اردگرد کے لوگوں  کی مدد سے مراجع کرام کے درمیان اختلاف پیدا کرے۔ اس وقت یکے بعد دیگرے دو گورنر آئے اور دونوں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر پلید تھے۔

ایک بار ریاستی اور صوبائی تنظیموں کے کسی واقعے پر ایک اخبار نے لکھا تھا: "کچھ علماء یہ سمجھتے ہیں کہ نبرد آزمائی ختم ہوچکی ہے۔"  - ان کے خیال میں اس سے مراد یہ تھی کہ تنظیموں کے معاملات حل ہوچکے ہیں - اس وقت کے گورنر نے ان اخبارات میں سے چالیس پچاس اخبارات کا بنڈل بناکر امام خمینی ؒ کے گھر بھجوایا۔ میں اس وقت امام ؒ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ امام ؒ نے بنڈل دیکھ کر فرمایا: "اس نے غلطی کی ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں اس کے لئے یہ اخبارات تقسیم کروں گا۔" امام نے بنڈل کو ہاتھ تک نہیں لگایا اور اپنے خادم – مشہدی نادعلی – سے فرمایا کہ اخبارات کا یہ بنڈل لے جاؤ اور گورنر کے گھر کے سامنے رکھ دو۔ خادم نے ایسا ہی کیا اور بنڈل کو گورنر کے گھر کی دہلیز پر رکھا اور گھر کی گھنٹی بجا کر واپس آگیا۔

میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ گورنر کی پوری کوشش تھی کہ مراجع کے درمیان اختلافات پیدا کرے تاکہ وہ اپنے اتحاد کے ذریعے پہلوی حکومت کے خلاف قیام نہ کرسکیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی رحلت کے اگلے دن امام خمینی ؒ نےمسجد سلماسی میں درس کا سلسلہ شروع کیا اور پہلے دن فرمایا: میں آج درس دینے نہیں آیا بلکہ کچھ یاد دہانی کرانے آیا ہوں۔" اس وقت حضرت امام ؒ تقریر نہیں کرتے تھے اور زمین پر ہی بیٹھا کرتے تھے۔ مسجد لوگوں سے بھر چکی تھی اور باہر بھی اچھے خاصے لوگ تھے اور کچھ لوگ تو سیڑھیوں پر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر امام نے فرمایا: "میں نجف میں ایک بزرگ شخصیت – میرے خیال میں امام کا آقائے لواسانی کی طرف اشارہ تھا – کے پاس تھا۔ ایک شخص اُن کے پاس آیا۔ اس شخصیت نے اس شخص سے پوچھا: فلاں شہر کی سناؤ، کیا نئی تازہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا: "آپ ایسے شہر سے کیا توقع رکھیں گے جس میں ستر جگہ پر نماز جماعت ہوتی ہو۔" پھر امام خمینی ؒ فرمانے لگے: "اس کی مراد یہ نہیں تھی کہ نمازیں ستر ہیں، نماز پڑھنے میں تو کوئی برائی نہیں بلکہ وہ کہنا چاہتا تھا کہ یہ سب ایک دوسرے سے بدگمان تھے۔ ان کے آپس میں رابطے اور میل جول اچھے نہیں تھے۔ ایک دوسرے کے مقابلے میں ستر گروہ تھے۔" پھر امامؒ نے فرمایا: "میں اس بات پر راضی نہیں ہوں کہ کوئی میری مرجعیت (پھیلانے) کے لئے کام کرے۔ آپ کی نظر میں صرف خدا ہونا چاہیے ۔ حوزہ  میں اتحاد کی فضا کو خراب نہ کریں۔"  حضرت امام ؒ نے وقت کا تقریباً  تین چوتھائی حصہ نصیحت کرنے میں لگایا اور پھر طلاب چلے گئے۔

مجھے یاد ہے آیت اللہ العظمیٰ بروجردی کی رحلت کے بعد – گذر خان کے اس طرف – مسجد فاطمیہ میں فاتحہ خوانی کی مجلس ہوئی۔ میں بھی اس مجلس میں شریک تھا۔ امام بھی اپنے چاہنے والوں میں سے کسی کے ساتھ داخل ہوئے۔ تلاوت کے لئے قرآن تقسیم کرنے والے شخص نے جب امام کو دیکھا تو اونچی آواز میں کہا: "آیت اللہ الحاج آقائے خمینی کی سلامتی کے لئے بلند صلوات" اس وقت امامؒ لوگوں میں مشہور نہیں ہوئے تھے، امام  اس شخص کے اِس کام پر سخت ناراض ہوئے اور ناراضگی کا اظہار کئے بغیر ا س شخص کو پیغام بھجوایا: اب تمہیں کہیں بھی میرا نام لینے کی اجازت نہیں۔"

امام خمینی ؒ کی گرفتاری سے پہلے "گلد امایر" کے وزیر اعظم بننے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ میں نے امام ؒ سے عرض کیا: "آقا صاحب! اعلامیہ چھاپنے سے تو کام نہیں چلے گا۔ ابھی گلدامایر کو دیکھئے کس طرح حملے اور جنگ کی باتیں کر رہا ہے۔ آپ بیانات سے کسے بیدار کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں کے پاس بھی کچھ نہیں اور ملک سے باہر بیٹھے ہوئے افراد کو بھی ہماری پرواہ نہیں ..."

امام نے جواب میں فرمایا: "نہیں، گلدامایر، وزیر اعظم نہیں بنے گا۔ میں انہی اشتہارات، بیانات اور اسی قم و تہران کی مدد سے سب کچھ ٹھیک کروں گا۔"

 

شاہ کے بھیجے گئے وفد کی امامؒ سے ملاقات

ان ہی دنوں کی بات تھی [۱۹۶۲]  جب دو ملاقاتیں ہوئیں؛ پہلی ملاقات میں  دربار کے پروٹوکول کا انچارج "بہبودی" امام کے پاس آیا۔ میں اور چند اور دوست امام کے پاس تھے۔ بہبودی بہت ادب و احترام سے داخل ہوا۔ امام بھی جواباً احترام کے لئے کھڑے ہوئے اور پھر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد بہبودی کہنے لگا: "اعلیٰ حضرت نے آپ کو سلام کہا ہے اور اس بات پر آپ کا شکریہ ادا کیا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر قوم کے مسائل پر توجہ دے رہے ہیں۔ اور اسی طرح اعلیٰ حضرت نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم جو کام کر رہے ہیں یہ قانون کے خلاف نہیں بلکہ  لوگوں کے مفاد میں ہے۔" اس کی بات ختم ہونے کے بعد، امام نے فرمایا: "مجھے دو باتیں کہنی ہیں، ایک تو یہ کہ میرے خیال میں وزیر اعظم نے جو بات کی ہے  وہ شاہ سے خیانت ہے (البتہ امام کی اس بات سے ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ انھوں نے شاہ کے طرفدار  کی ہے) میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ شخص آپ کے کام کا نہیں۔" بہبودی نے کہا: "اعلیٰ حضرت کا کہنا ہے کہ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔  اس مسئلہ میں اعلیٰ حضرت کی بات مقدم ہے نہ کہ وزیر اعظم اور حکومت کی۔"

بہرحال امام نے محمد رضا پہلوی کے نمائندے کو پھر یہی جواب دیا: "اس وقت وزیر اعظم نے خیانت کی ہے،  ہاں اگر وہ سامنے آیا ہوتا اور اسے شکست ہوئی ہوتی تو شاہ کیلئے نقصان دہ نہ ہوتا۔" دراصل امام یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ بہرحال آپ کو شکست سے دوچار ہونا ہے۔  الحاج آقائے مصطفی نے سانحہ ۵ جون (۱۵ خرداد) کے بعد مجھ سے کہا: "درحقیقت میرے بابا یہ چاہتے ہیں کہ حکومت کی زمام آدمی کے اپنے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔" الحاج آقائے مصطفیٰ کا مطلب یہ  تھا کہ امام خمینی ؒ یہ کہتے ہیں کہ جب شاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹ جائے تو کیا کہنے ! ہم میدان میں ہوں گے اور ہم خود یہ کام انجام دیں گے۔ امام کی دوسری بات یہ تھی: "ہم یہ کہتے ہیں کہ لوگوں کی زمین ہتھیانا قانون کے خلاف ہے۔ قانون کہتا ہے کہ زمین لوگوں کی ملکیت ہے اور ان کی اجازت کے بغیر نہیں لی جاسکتی۔ خرید و فروخت کا معاملہ بھی باطل ہے۔ کیا کسی سے زور زبردستی کے ساتھ اس کی ملکیت کو چھینا جاسکتا ہے۔" یہ بات سن کر بہبودی پھر خاموش ہوگیا اور کچھ مالکان کے بارے میں بات کرنے لگا۔ امام نے جب دیکھا کہ وہ آئیں بائیں شائیں کر رہا ہے تو بجائے کچھ کہنے کے فقط اسے دیکھتے رہے۔

کچھ دیر گزرنے کے بعد جب وہ اپنی بات جاری نہ رکھ سکا تو چند لمحے خاموش رہا اور پھر اجازت لے کر چلا گیا۔

دوسری ملاقات "پاکروان" کے ساتھ ہوئی۔ دوسری ملاقات کی وجہ یہ تھی کہ محمد رضا پہلوی کو پہلی ملاقات سے کوئی خاص نتیجہ نہیں ملا تھا،  اس دفعہ اُس نے اُس وقت کے انٹیلی جنس آفیسر پاکروان  کو امام کے پاس بھیج کر اپنی آخری کوشش کو آزمانا چاہنا۔ کچھ روحانی حضرات بھی ساتھ والے کمرے میں بیٹھے تھے۔ امام ؒ نماز مغربین کے بعد ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ ہم باہر ہی بیٹھے تھے کہ پاکروان اپنی قم کی اطلاعاتی ٹیم کے ساتھ آیا۔ باہر بیٹھے ہوئے طلاب اُسے نہیں جانتے تھے۔ اگر جانتے بھی ہوئے تو بھی انھوں نے پرواہ تک نہیں کی۔ انہیں تو اس بات کا دکھ تھا کہ انہیں امام سے نہیں ملنے دیا گیا۔ آخرکار بعض علماء نے دوبارہ ملاقات کی اجازت مانگی۔ ہم البتہ اس ملاقات میں نہیں تھے ،کیا تبادلہ خیال ہوا کچھ علم بھی نہیں۔ پاکروان ظاہراً ڈرانے دھمکانے آیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ آقای منتظری بھی ا س ملاقات میں تھے۔ لیکن میں نے جب کافی عرصہ کے بعد پوچھا تو انھوں نے کہا: میں اس ملاقات میں نہیں تھا۔"

 

روز عاشورا کے موقع امام کی تقریر

ان حالات میں امام خمینی کا ارادہ تھا کہ روز عاشورا عصر کے وقت (۳ جون ۱۹۶۲ کو) مدرسہ فیضیہ میں تقریر کریں ۔ہم بھی اس پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔ سڑکوں پر ٹینک کھڑے تھے لوگ بھی اپنے ساتھ ممکنہ جھڑپوں میں فوجیوں سے نمٹنے کے لئے ڈنڈے لاٹھیاں وغیرہ لے آئے تھے کیونکہ وہ پہلے بھی مدرسہ فیضیہ پر کمانڈو حملے کا مشاہدہ کرچکے تھے۔ امام  تشریف لائے اور صحن  اور فیضیہ  کے درمیان والی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے امام ؒ نے روز عاشورا  کی مناسبت سے ماتھے اور عمامے پر گیلی مٹی لگائی ہوئی تھی۔ جیسا کہ مجھے یاد پڑ رہا ہے  پہلے آیت اللہ مروارید نے اور اُن کے بعد آیت اللہ سعیدی اور پھر امامؒ نے تقریر کی۔

امام کی تقریر کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے اور اس دن کوئی ناخوشگورا واقعہ پیش نہیں آیا۔

 

امام کا گرفتار ہوجانا

۵ جون کو موسم آبر آلود تھا اور  ہم دنیا جہان سے بے خبر ہوکر گھر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میرے ایک فاضل شاگرد حجت الاسلام ناظم زادہ نے آکر امام کی گرفتاری کی خبر دی۔ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر باہر آئے اور چوک  تک پید ل گئے۔ سب لوگ آپے سے باہر تھے اور  "یا موت یا خمینی" کے نعرے لگا تے ہوئے حرم کی طرف جا رہے تھے۔ میں بھی حرم کی طرف چل پڑا۔ لوگ شعوری اور دانستہ طور پر سڑکوں پر آئے تھے۔ انہیں یہ علم تھا کہ امام نے یہ تحریک اسلام کی بقاء کے لئے چلائی ہے کیونکہ اسلام خطرے میں تھا۔ روز عاشورا کی تقریر میں امام نے حکومت کو کہہ دیا تھا: "ہمارے دس ہزار افراد قتل ہوجائیں لیکن دس یا پندرہ دنوں کے لئے حکومتی سازشوں کو التواء میں ڈال دیں تو یہ بھی ہماری کامیابی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اسلام کے خلاف منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔"  امام نے یہ بھی فرمایا: "یہ لوگ آل امیہ کی طرح اصل اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اگر آل امیہ اصل اسلام کے مخالف نہ ہوتے تو ہرگز علی اصغر علیہ السلام کو شہید نہ کرتے۔" یہی وجہ تھی کہ لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے تھے اور میدان میں پیش پیش تھے ۔

ہم حرم آگئے تاکہ یہ پتہ چلے کہ باقی مراجع  عظام کہاں ہیں اور اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس دن یہ مراجع عظام کے جن میں سے اکثریت کا انتقال ہوچکا ہے، آیت اللہ موسوی زنجانی کے والد آیت اللہ زنجانی کے گھر میں جمع تھے۔ میں بھی گیا تو آیت اللہ مشکینی نے دروازہ کھولا۔ علماء اس بات پر مشورہ کر رہے تھے کہ اب پہلوی حکومت کے مد مقابل کیا قدم اٹھانا چاہیے۔ عین اسی وقت فائرنگ کی آواز آنے لگی۔ آیت اللہ زنجانی کے گھر سے حرم تک کا فاصلہ یہی کوئی سو ڈیڑھ سو میٹر کا ہوگا۔ آخرکار طے پایا کہ اظہار یکجہتی اور لوگوں کے ہم ہم آواز ہونے کے لئے حرم جائیں گے۔

جب ہم آیت اللہ سلطانی اور الحاج آقائے مرتضی حائری کے ہمراہ حرم پہنچے۔ الحاج آقائے مصطفی سٹیج پر تھے۔ وہ مائک پر لوگوں کو مذہبی اور قومی فریضہ کی ادائیگی کی دعوت دے رہے تھے۔ اسی طرح اس دن آقایان محترم آیت اللہ طاہری خرم آبادی اور الحاج حسن تہرانی نے بھی تقریر کی۔

وہاں ایک شور و غل بپا تھا۔ نہر کے اس پار "آبشار " نامی گلی میں جھڑپ ہوئی تھی - البتہ ہم لوگ صحن میں تھے -  جیسے ہی پہلا آدمی شہید ہوا لوگ اسے ہاتھوں پر اٹھا کر حرم لے آئے جب مراجع عظام نے دیکھا کہ حکومت لوگوں کا قتل عام کرنا چاہتی ہے تو انھوں نے لوگوں کو چھٹ جانے کا کہا۔ آقائے مصطفیٰ نے بھی اعلان کیا: "سب چھٹ جائیں مغرب سے ایک  گھنٹہ پہلے شام پانج بجے دوباہر حرم آئیں۔" اور لوگ چھٹ گئے۔

 

فوجی حکومت

ہم مقررہ وقت پر دوبارہ اجتماع میں گئے۔ اب جو دیکھا تو کرفیو لگ چکا تھا اور  صحن کا دروازہ بند تھا ۔  چاروں طرف فوجی تھے جو لوگوں کو دوبارہ جمع ہونے سے روک رہے تھے۔

 

امام خمینی ؒ پر مقدمہ

پہلوی حکومت امام پر مقدمہ چلانا چاہتی تھی۔ یا دوسرے الفاظوں میں انہیں راستے سے ہٹانا چاہتی تھی تاکہ اپنی گھناؤنی سازشوں کو عملی جامہ پہنا سکے۔ ایک طرف سے یہ صورت حال تھی اور دوسری جانب سے بنیادی قوانین کے مطابق مقام مرجعیت کسی بھی طرح کی عدالتی کاروائی اور مقدمات سے بالاتر تھا۔ اور یہی امر حکومت کے لئے چیلنج تھا۔ اس کی پوری کوشش یہ تھی کہ اساسی قانون کو پامال کرتے ہوئے امام پر مقدمہ چلائے۔  یہ خبر سنتے ہی تمام علماء و مراجع کرام جدوجہد کرنے لگے۔ اس وقت کے چار علماء اور مراجع آیت اللہ الحاج محمد تقی آملی، آیت اللہ میلانی، آیت اللہ مرعشی نجفی اور آیت اللہ شریعت مداری نے ایک مشترکہ بیانیہ صادر کردیا جس کا متن امام خمینی ؒ کی مرجعیت کی تائید پر مشتمل تھا۔ اس بیانیہ کے صدور کے بعد اب حکومت امام پر مقدمہ نہیں چلا سکتی تھی۔ آیت اللہ مرعشی نجفی نے دو بزرگ علماء کا نام لیا۔ جن میں سے ایک کا تہران میں انتقال ہوچکا ہے اور دوسرے ابھی قم میں ہیں۔ اور کہا کہ: "میں نے ان دو بزرگوں سے (تائیدی) دستخط لینے کی جتنی بھی کوشش کی، یہ نہیں مانے اور انھوں نے اس تائیدی پیغام پر دستخط نہیں کئے۔" اور مجبوراً ہمیں چوتھی شخصیت کے دستخط لینے کے لیے تہران میں آقای الحاج محمد تقی آملی سے رابطہ کرنا پڑا۔ البتہ لوگوں کے درمیان آقای تقی آملی مرجع کے عنوان سے شہرت کے حامل نہ تھے۔ ہاں علم اور تقویٰ  سے لبریز شخصیت تھے لیکن یہ خود اپنی توضیح المسائل چھپنے کے حق میں نہ تھے۔

امام کو گرفتار ہوئے تقریباً چالیس دن ہوچکے تھے۔ ایک دن میں امام کے گھر  پہ ہی تھا اور اسی تائیدی پیغام کے متعلق آیت اللہ "اشراقی" سے بات ہونے لگی۔ میرا موقف یہ تھا کہ چونکہ امام مجتہد مسلم ہیں اس لئے ان کی مرجعیت کو تائید کرنا ایک لایعنی  سی بات ہے۔ لیکن آیت اللہ اشراقی پیغام کے صدور سے موافق تھے اور میں بعد میں سمجھا کہ میں غلطی پر تھا۔ لیکن بہرحال میں اس دن جذبات اور غصے کی عالم میں گھر سے نکل آیا۔ الحاج آقا مصطفی اصرار  کر رہے تھے کہ میں انہیں اکیلا نہ چھوڑوں، اور نھوں نے میری اور ایک دوسری فاضل شخصیت کی دوپہر کے کھانے پر دعوت کردی۔ اُن دنوں چونکہ امام گرفتار تھے اس لئے ہماری اکثر میٹنگز اور نشستیں غصیلے اور پریشان کن احساسات کے ساتھ ہوتی تھیں، اس کی وجہ بالکل یہ نہیں تھی کہ ہمارے درمیان کوئی کدورت ہو۔

 

امامؒ سے ملاقات

امام پہلی دفعہ رہائی پانے کے بعد قیطریہ میں مقیم ہوگئے۔ میں بھی ان سے ملنے گیا۔ آیت اللہ الحاج حسن قمی اور آیت اللہ محلاتی بھی جیل سے رہا ہوکر وہیں آئے تھے ۔ایک دن  جب ہم امام سے ملنے گئے تو ہم نے دیکھا شاہ  کے – گھڑ سوار اور پیدل – سپاہی لوگوں کو جمع ہونے سے روک رہے تھے ۔امام کو جب اس کا پتہ چلا تو ناراض ہوئے اور پیغام بھجوایا کہ "ان سےکہہ دیں کہ اگر لوگوں کو یہاں جمع ہونے سے روکیں گے تو میں شاہ کی مسجد میں جاکر بیٹھ جاؤں گا تاکہ لوگ وہاں مجھ سے ملنے آئیں۔ جب تک امام وہاں پر مقیم تھے، گھر سے باہر رابطے کے لئے زیادہ تر حاج آقای مصطفی سرگرم تھے۔ ڈیوٹی پر مامور شاہ کے سپاہوں کو یہ سب دیکھ کر بہت غصہ آتا تھا۔ اس دوران میں نے امام کو ایک خط لکھا تھا۔ جس کا امام نے جواب بھی دیا تھا۔ وہ خط آج بھی میرے پاس ہے اور یہ خط ریکارڈ کے طور پر اسناد کے مرکز میں موجود ہے۔

 

اُس وقت کے وزیر مملکت سے امام کی ملاقات

اس وقت ملک کا وزیر جواد صدر الاشرف– جو  پہلے دینی مدرسے میں بھی پڑھتا رہا تھا-  امام سے ملاقات کرنے آیا۔ میں بھی  اس ملاقات کے وقت موجود تھا۔ اس کے آتے ہی کچھ طالب علم اٹھے اور اٹھ کر چلے گئے اور اس کے آنے کی انھوں نے کوئی پرواہ نہیں کی لیکن جب یہ امام کے نزدیک گیا تو امام احتراماً کھڑے ہوئے اور پھر بیٹھ گئے۔ پھر دونوں میں گفتگو ہونےلگی۔ اس رات امام کے گھر میں اچھے خاصے لوگ تھے۔ وزیر سر جھکائے آہستہ آہستہ بات کر رہا تھا کیونکہ دوسروں کو سنانا ضروری نہیں تھا۔ لیکن امام کی گفتگو کا کچھ پچھلے سال دیئے گئے اعلٰٰ امتیاز کے بارے میں تھا اور کچھ حصہ کابینہ کے ایک وزیر کے بارے میں تھا، امام کا کہنا تھا کہ وہ بہائی ہے۔ آخرکار اس ملاقات میں یہ طے پایا کہ ملکی وزیر (جواد صدر الاشراف) امام کے موقف کو حکام بالا تک پہنچائے ....

مجھے یاد ہے کہ میں، آیت اللہ ربانی شیرازی اور آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے امام کے ساتھ ایک میٹنگ  رکھی تھی – جس میٹنگ میں، میں نہیں تھا -  آیت اللہ ربانی نے امام سے سوال پوچھا تھا کہ آ پ کس طرح شاہ کا مقابلہ کریں گے – البتہ مجھے  سوال کا اصلی متن تو اب یاد نہیں- امام نے کرخت لہجے میں جواب دیا تھا "ابھی ایسا کچھ بھی نہیں" اُن کے بعد، آیت اللہ ہاشمی نے بھی پوچھا: "آقا صاحب! آقای ربانی کا سوال ہم سب کا سوال ہے۔" امام نے جواب دیا: "میں تو یہ نہیں کہنا چاہ رہا کہ ہم مقابلہ کرنے میں سست پڑ گئے ہیں، میرا مقصد کام کرنے کی کیفیت کے بارے میں ہے کہ ہمیں کس انداز سے کام کرنا چاہیے۔"

 

مستقل جدوجہد

امام خمینی نے رہائی پانے کے بعد اپنی پہلی تقریر مسجد اعظم میں کی۔ اس تقریر میں امام نے اس وقت کے اخبار "اطلاعات" پر شدید تنقید کی۔ اس اخبار میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ امام نے رہائی کے بعد پہلوی حکومت کو نشانہ نہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ امام نے اس تقریر میں فرمایا: "کس نے آپ سے یہ وعدہ کیا ہے" اور پھر کہا: "اس طرح کی باتیں رزم آراء نے بھی کی تھیں، جسے (بعد میں) قتل کردیا گیا۔"

 

مطبوعات کے مطالعہ کی ذمہ داری

ایک دفعہ الحاج آقای مصطفی نے میرا ہاتھ پکڑا اور امام خمینی ؒ سے عرض کی: "آقا صاحب! یہ آدمی اس کام کے لئے مناسب ہے۔" جواب میں امام خمینی ؒ فرمانے لگے: "میں آپ کو حکم دے رہا ہوں، آپ میری  طرف سے مطبوعات کا مطالعہ کریں اور مجھے رپورٹ پیش کریں، بدلے میں حق زحمت بھی مجھ سے لے لیں۔"میں نے کہا: آقا صاحب! اس کام کے عوض میں پیسوں کی کیا حیثیت ہے۔"  امام خمینی ؒ دوبارہ فرمانے لگے: "میں آپ کو حکم دے رہا ہوں کہ بدلے میں حقِ زحمت بھی لیں۔" میں جب تک مطبوعات کا مطالعہ کرتا رہا، امام کے گھر کے اندر بھی آنا جانا لگا رہا۔ میں مطالعہ کے بعد، پہلے مطالب کا خلاصہ پیش کرتا تھا پھر حضرت امام خمینی ؒ ان مطالب اور خلاصہ کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔  مطالعہ کے دوران میں اہم نکات کی سرخ قلم سے نشاندہی کرتا تھا اور پھر امام کی خدمت میں پیش کرتا تھا۔ جب تعلیمی سال کا آغاز ہوا تو اس کام کو جاری رکھنا میرے لیے مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے امام خمینی ؒ سے عرض کیا: "اگر آپ اجازت دیں تو میری جگہ کوئی دوسرا اس ذمہ داری کو قبول کرلے"۔

 

دار التبلیغ

حضرت امام خمینی ؒ اور آیت اللہ شریعت مداری کے مابین جو مسائل مورد اختلاف تھے ان میں سے ایک مسئلہ "دار التبلیغ" کا تھا۔ اکتوبر کی ۲۵ یا ۲۶ تاریخ کی رات کو میں امام کی خدمت میں پہنچا، آیت اللہ سعیدی، آیت اللہ انصاری شیرازی اور حجت الاسلام شیخ عباس پور بھی وہاں تشریف فرما تھے۔ مجھے صحیح سے یاد تو نہیں لیکن شاید  آیت اللہ سعیدی نے ہی یہ بات چھیڑی کہ یہ علمائے کرام تشریف لائے ہیں تاکہ "دار التبلیغ" کے متعلق بات چیت کریں۔ امام خمینی ؒ نے فرمایا: "دار التبلیغ" کے نام سے حوزے کا ایک حصہ جدا کرنا چاہتےہیں۔ ایک بیانیہ جو آقائے طباطبائی کی طرف سے جاری ہوا تھا جس میں اختلافات کے لئے راہ حل پیش کئے گئے تھے، حضرت امام خمینی ؒ نے اس بیانیہ کو پڑھا اور فرمایا: "مجھے کوئی اعتراض نہیں، ان امور کو انجام دیں میں اس کا مخالف نہیں ہوں" البتہ امام نے ا س بیانیہ میں بعض جگہوں پر اصلاح کی۔ ان میں سے ایک جگہ یہ تھی: "دار التبلیغ نہ لکھیں، بلکہ مدرسہ آیت اللہ العظمیٰ شریعت مداری لکھیں" دوسری جگہ یہ تھی: "ان تمام پروگراموں میں جو حوزہ  میں منعقد ہوتے ہیں کسی جگہ کو الگ نہیں کریں۔" (یہ ایک اچھی رائے تھی اور ہمیں آج بھی حوزہ میں ایک مشترکہ پروگرام منعقد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نہ یہ کہ ہر نیا بننے والا ادارہ اپنے لئے ایک خاص پروگرام  کا انعقاد کرے اور طالب علموں کو ایک دوسرے سے جدا کرے یا پھر عمومی دروس کو نقصان پہنچائے۔)

پھر امام خمینی ؒ نے فرمایا: "مجھے ان (چھوٹے چھوٹے) مسائل کی بالکل فکر نہیں، کیپٹلزم نے میری نیندیں اڑائی ہوئی ہیں، مجھے اس بات پر دکھ ہوتا ہے جب میں کبھی کسی میٹنگ میں کیپٹلزم پر بات کرتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے گویا دیوار سے بات کر رہا ہوں۔ کوئی بھی اس پر توجہ نہیں دیتا۔ - امام خمینی ؒ گویا بزرگ علماء کی میٹنگ کی طرف  اشارہ کررہے تھے - اسی طرح یہ بھی فرمایا: "آپ کے لئے میرے پاس  کوئی جواب نہیں، لوگوں کو کوچہ و بازار میں آکر اپنا گریبان چاک کرنا ہوگا اور اگر اس (کیپٹلزم کے) مسئلے میں ایک لاکھ لوگ بھی مارے جائیں تو کوئی بڑی بات نہ ہوگی۔" امام ؒ جب تک ایران میں تھے تو پہلوی حکومت کے سرکردہ افراد کی نیندیں حرام تھیں ... خلاصہ یہ کہ امام خمینی ؒ کیپٹلزم کے بارے میں تقریر کرنے کے بعد جلاوطن کئے گے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3674


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔