انقلاب کی پہچان اور وضاحت

ایران میں موجود امریکی فوجی مشاورتی کمیٹی کے سربراہ کے نام

انتخاب شدہ از: احمد سروش نژاد
ترجمہ: سید نعیم الحسن نقوی

2017-9-3


روحانیت نے صفوی دور حکومت اور اس کے بعد ایران کے سیاسی اور معاشرتی قالب میں قائدانہ کردار  ادا کیا ہے اور عوامی تحریکوں کو ابھارنے یا حرکت میں لانے میں اپنی مثال آپ ہے۔ روحانیت کا یہی کردار انقلاب اسلامی کی تشکیل، پیشرفت اور کامیابی کا باعث بنا اور پہلے سے زیادہ نکھر کر سامنے آیا اور پھر دنیا نے روحانیت کی معنوی اور سیاسی بالا دستی کا مشاہدہ کیا۔

ارنسٹ۔ آر۔ اونی، جو جاسوسی اور انٹیلی جنس کے مرکزی دفتر میں تھا، اپنی فروری ۱۹۷۶ء کی رپورٹ میں ایران میں روحانیت کے افکار کے بارے میں یوں رقم طراز ہے:

"شاہ ایران (محمد رضا پہلوی) خود کو دیندار ظاہر کرتا ہے اور اس کا دعوی یہ ہے کہ اس کا محافظ خود خدا ہے۔ وہ مقدس مقامات پر زیارت کے عنوان سے جاتا ہے اور نیز بیش قیمت تحائف بھی مکہ، ایران اور عراق کے زیارتی مقامات کے لئے بھیجتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی اصلاحات کی پیشرفت کے لئے مذہب کو اس کا تابع ہونا چاہیے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے باپ کی طرح سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لئے روحانیت کی شدت سے نفی کرتا ہے۔ جس کی بنا پر ایران کے دیندار مسلمان،  شاہ پر شدید تنقید کرتے ہیں چونکہ ان روحانی حضرات کی شکایات کی سرکاری سطح پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی، سو یہ لوگ اپنی تقاریر، مجلات اور  مذہبی نشستوں میں شاہی حکومت کو نشانہ بناتے ہیں ...

روحانیت کی مخالفت صرف اس شاہ سے نہیں۔ اگرچہ یہ لوگ، پہلویوں سے نفرت کی  ادلہ بھی پیش کرتے ہیں ۔ جب سے شیعہ اسلامی مسلک کو رسمیت حاصل ہوئی (سولہویں صدی سے) شیعہ علماء نے ہر حکومت سے مخالفت کو وطیرہ بنالیا ہے۔ البتہ ان کی مخالفت ایک مکتبی اساس اور آئیڈیا لوجی کی بنیاد پر ہے ...

ہر شیعہ پر لازم ہے کہ وہ ایک مجتہد کی تعلیمات کی پیروی کرے۔ اب ایک طرف سے شیعہ علما کی یہ خصوصیات اور شاہ اور دیگر حکومتی مقامات کے بارے میں یہ تاثرات اور پھر اوپر سے ان (شیعہ علماء) کا نقطہ نظر ، یہ ہے کہ حکومت کو روحانیت کا دست و بازو ہونا چاہیے۔ دوسری وجوہات بھی ہیں جو روحانیت کی طاقت میں اضافے کا باعث بنی ہیں۔ شیعوں کا بڑا مرکز عراق میں تھا یہی وجہ ہے کہ تہران کی فوری دسترس سے باہر تھا۔ ان روحانیوں کے اختیار میں "سہم امام" کے نام سے ایک خطیر رقم ہے جو حکومتی ریکارڈ میں نہیں۔ ابھی تک تمام فقہی قوانین اور فقہی تعلیمات  پر  فقط و فقط ان کا اپنا کنٹرول رہا ہے۔ غیر ملکی افراد کے نفوذ سے یہ لوگ شروع سے متنفر رہے ہیں اس لئے یہ روحانی لوگ، اُن عمومی تحریکوں میں آشکار اور بنفسِ نفیس شرکت کرتے تھے جو خارجی افراد کے نفوذ کے خلاف اٹھتی تھیں۔

یہ مجتہد حضرات اگرچہ راسخ ترین افراد نہ بھی ہوں لیکن پھر بھی اکثر ایرانیوں میں خاص عزت و احترام کے حامل ہیں۔

تاجر حضرات سے ان کے گہرے رابطے ہیں اور اسی طرح ان گروہوں سے بھی قریبی تعلقات ہیں جو خود کو پہلوی خاندان کا "سیاست زدہ" سمجھتے ہیں، ان علماء نے انیسویں صدی میں اور بیسویں کے آغاز میں پہلے سے زیادہ نفوذ کیا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ۱۸۲۷ء  میں ایران اور روس کی دوسری جنگ کے آغاز کے لئے شاہ کو بھڑکایا اور ۱۸۷۲ء  میں ناصر الدین شاہ کو انگلستان سے وہ امتیازِ بالادستی (grant) واپس لینے پر مجبور کر دیا جو اس نے خود دیا تھا اور اسی طرح اس وزیر اعظم کو بھی نکلوا دیا جو امتیازِ بالا دستی دینے کا باعث بنا تھا۔ انہوں نے صدی کے آخر میں ایک ایسی عوامی تحریک کی قیادت کی جو انگلستان کے حق میں ایک دوسری بالادستی کے خلاف اٹھی تھی اور ۱۹۰۶ء میں چپ سادھے ہوئے سیاسی حضرات کے  ساتھ ناممکن اتحاد کو ممکن کر دکھایا تاکہ ایک سرکش شاہ پر اساسی قانون جاری کیا جاسکے۔

اس کے بعد روحانی رہنماؤں نے ایران انگلستان آئل کمپنی (1951-1953) کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں بھی نمایاں کرداد ادا کیا اور مذہبی قوانین کی پامالی پر شدید تنقید کی اور ہمیشہ اصلاحی پروگراموں کی حمایت کی ۔

جون سن ۱۹۶۳ء میں ہونے والی خونی بغاوت، حکومت کی تمام تر کوششوں کا نتیجہ تھی کہ ایک مذہبی رہنما کی تنقید بھری آواز کو دبایا جائے۔ پچھلی دہائی میں مذہبی رہنماؤں اور کالجز، یونیورسٹیوں کے طلاب کے حو الے سے مختلف واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ۱۹۷۵، جون کے اوائل میں قم میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں ۲۷۰ افراد گرفتار ہوئے۔ مذہبی رہنماؤں کے بارے میں صحیح معلومات اُن سے رابطے کی صورت میں حاصل ہوتیں۔ شاید ایک لاکھ کے قریب روحانی افراد ایران میں موجود ہیں جن میں ملا (طالب علم) سے لیکر مجتہد تک کے افراد شامل ہیں۔ ان کے علاوہ قاریان قرآن، مداح حضرات اور مذہبی کتب لکھنے والے افراد بھی اگرچہ خود روحانی نہیں لیکن روحانیت کی صف سے باہر بھی نہیں۔

زیادہ سے زیادہ دس فیصد علماء کو حکومتی حمایت حاصل ہے یعنی ان کو شاہ کا حامی کہا جاسکتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی اثر رسوخ نہیں اور اکثر لوگوں کے خیال میں یہ حکومتی ملازمین (درباری ملا) کی طرح ہیں۔ اور ایک احتمال کے مطابق پچاس فیصد روحانی، خواہ کسی بھی لباس میں ہوں ایسے ہیں جو براہ راست حکومت کے مخالف ہیں اور ٹکر لیئے ہوئے ہیں اور انہیں فقط عوامی حمایت حاصل ہے باقی چالیس فیصد افراد محتاط ہیں لیکن اس کے باوجود عوامی حمایت سے محروم نہیں۔ ہاں البتہ یہ لوگ حکومت کو ایک حد سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنانے سے اجتناب کرتے ہیں۔

ہر آنے والی حکومت، روحانیت سے ہم آہنگ رہنے اور تعلقات استوار کرنے پر مجبور رہی ہے یہاں تک کہ پہلوی دور حکومت میں ان روحانیوں نے اتنا نفوذ قائم کرلیا تھا کہ حکومت پر دباؤ ڈال سکیں۔ رضا شاہ نے ایران کو مرکز بنانے اور ماڈرن بنانے کے لیے ان رہنماؤں کی مخالفت کو بالکل برداشت نہیں کیا اور مجتہدین کی سیاسی طاقت کو ختم کرنے کے لیے سختی سے نمٹنے کی تیاری شروع کردی۔ محمد رضا شاہ بھی اپنے باپ کے ہی نقش قدم پر چلا ہے۔

آیت اللہ روح اللہ خمینی جس کی گرفتاری سے طوفان کھڑا ہوگیا، ۱۹۶۳ء میں ترکی اور پھر عراق جلا وطن ہوئے۔ دوسرے روحانی حضرات بھی اپنے اپنے گھروں میں نظر بند اور تحت نظر تھے اور یہ اطلاع ملی ہے کہ کم از کم ایک آدمی جیل میں مرا ہے۔  پہلے کی طرح شاہ نے اعلان کردیا کہ حکومت کی مدد کرنے والوں کو انعام اور مخالفت کرنے والوں کو سزا دی جائے گی...

شیعہ روحانیت کے نزدیک خود مذہب یا مذہبی اصول میں اصلاح کی بالکل گنجائش نہیں۔ ہاں تزکیہ نفس اور اصلاح نفس ہے۔ ابھی تک تفسیر کرنے کا حق صرف مجتہدین کو ہے یہی وجہ ہے کہ روحانیت ہر دور  کے تقاضوں کو پورا کرتی چلی آرہی ہے... حکومت سے مخالفت کرنے کی فلسفی اور دینی بنیادیں اگر یہیں تک ہوں تو حکومت کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن موجودہ حالات میں علمی بنیاد پر کئی زاویوں سے اسے پرکھا جاسکتا ہے:

الف: شاہ اسلام کو ختم کرنے کے لئے ، معاشرے سے اسلامی رنگ کو ختم کر رہا ہے۔

ب: اس سلسلے میں اسے امریکی متحدہ ریاستوں اور صہیونستوں کی حمایت حاصل ہے کہ جو دونوں ہی اسلام کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں۔

ج: شاہ کے علاوہ بہائی فرقہ کو بھی اسلام کی نابودی کے لئے آگے لایا جا رہا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ بہائیت کا بڑا مرکز  اسرائیل اور امریکہ ہے۔ یہی حقیقت شیعہ علماء کی بدظنی میں اضافہ کر رہی ہے۔  روحانی ٹولہ اور اس پر اعتقاد رکھنے والے لوگ اس طرح کے حالات میں مل بیٹھتے ہیں البتہ ظاہراً ان میں کسی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے کہ مقابلہ کس طرح سے کیا جائے۔  سب کے سب روحانی افراد ایک بات پر متفق نہیں ہیں بلکہ ان کے مابین مختلف ترجیحات دیکھنے کو ملتی ہیں۔  موجودہ حالات میں ان کے چار گروہوں کو درج ذیل عناوین کے ساتھ گنا جاسکتا ہے لیکن یہ لوگ بہرحال ایک دوسرے سے جدا نہیں : ۱۔ روایتی روحانیت؛ ۲۔ ماڈرن یا آج کی روحانیت؛ ۳۔ خاموش روحانیت؛ ۴۔ تند مزاج روحانیت۔

۱۔ روایتی روحانیت: روحانیوں کی بڑی تعداد روایتی انداز کو پسند کرتی ہے ... اگرچہ  تفسیر کا حق ان کے مجتہدین کو ہی حاصل ہے لیکن الٰہی حکمت آمیز عقائد پر ان کا نظریہ اور انفرادی جدت پسندی وہی پرانے زمانے کی ہے۔ ان کا  تعلیمی سلسلہ ممکنہ طور پر ۶ سال سے شروع ہوتا ہے اور تا دم مرگ جاری و ساری رہتا ہے اور اس (تعلیمی سلسلے) میں قرآن، تفسیر، آٹھویں سے بارہویں  صدی تک کا مطالعہ، پیغمبروں کی سنت اور ان مذہبی قوانین کا مطالعہ جو معاشرے اور حکومت کے تمام شعبہ ہائے زندگی   کو شامل ہیں، اسی طرح ابتدائی یونانی فلسفے کا مطالعہ وہ بھی اس انداز سے کہ عربوں اور ایرانیوں اور ان کی زبان اور ادبیات میں رائج ہے، شامل ہیں۔  مزید برآں علوم ریاضی کے روایتی انداز پر تربیتی دورہ بھی اس تعلیمی سلسلے میں شامل ہے۔ طالب علم آج بھی اساتید کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرتے ہیں۔ علمی مطالب کو حفظ کرنے کا قانون آج بھی ہے۔  ان روایتی روحانیوں میں سب سے زیادہ احترام کے سزاوار وہ علماء ہیں جو علم رکھنے کے ساتھ ساتھ تقویٰ کے بلند مقام پر فائز ہیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے میں زیادہ معنوی استعداد سے بہرہ مند ہیں ۔

۲۔ آج کی روحانیت  یا ماڈرن روحانیت: ان کی تعداد زیادہ نہیں۔ یہ لوگ اپنی گفتگو میں روایتی انداز کو بھی ترک نہیں کرتے۔ ان کی ترجیحاً کوشش یہ ہوتی ہے کہ روایتی انداز گفتگو کو آج کی زبان اور انداز میں پیش کریں تاکہ ان ایرانیوں کی توجہ کو حاصل کرسکیں جو روایتی چیزوں کو اب پسند نہیں کرتے۔ تہران یونیورسٹی کے "الہیات" سبجیکٹ کے فارغ التحصیل طلاب، ان لوگوں سے مختلف ہیں۔ اس مکتب فکر کی ایجاد رضا شاہ کے ذریعے ہوئی۔ جس کا مقصد اس مذہبی روایتی مجموعے کو ختم کرنا تھا۔ تاہم رضا شاہ کو اس سلسلے میں جزئی کامیابی حاصل ہوئی۔ اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل افراد کا اکثر موارد میں وہ مقام نہیں جو حقیقی معنوں میں ایک روحانی کا ہوتا ہے اور درحقیقت گنے چنے چند افراد ہی ہوتے ہیں جو روحانی یا واعظ کے عنوان سے سامنے آتے ہیں اس طرح کے لوگ دینی استاد یا عربی و ادبیات کے معلم کے عنوان سے اور کبھی دیگر پیشے اختیار کرکے حکومت میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک زمانے میں ساواک پروٹوکول ایجنسی کا انچارج بھی اسی مدرسہ کا فارغ التحصیل طالب علم تھا۔

۳۔ خاموش روحانیت : ایسی سیاست جس کے پیچھے  نامور روحانی حضرات ہوں، وہ سیاست ہے جس میں علماء  غیر مذہبی امور میں "خاموشی" اختیار کرلیں۔ انہی لوگوں میں سے بعض کی گفتگو کا یہ جملہ ہمارے موقف کو مزید واضح کرتا ہے: "ہماری ذمہ داری نصیحت کرنا ہے ...." ان کے اس رویے سے حکومت اور ان کے درمیان ممکنہ ٹکراؤ کا سدّ باب ہوا ہے۔ ان کی کوشش مذہبی اداروں اور رہنماؤں کی حفاظت کرنا ہے۔ گذشتہ سطور میں ذکر شدہ "روایتی روحانیت" اور آج کی یا ماڈرن روحانیت" دونوں کے کچھ نا کچھ افراد اس تیسری قسم "خاموش روحانیت" میں پائے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت کے خاموش مخالفین کی ایک بڑی تعداد سیاست کی اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔

۴۔ تند مزاج روحانیت: آج کی روحانیت کے بہت ہی کم افراد تند مزاج کے بھی ملیں گے (کہ جن میں کالجز، یونیورسٹیوں کے مذہبی ذہن رکھنے والے طالب علموں کی ایک تعداد  ہے) لیکن ان کا خطرہ ان کی تعداد سے زیادہ ہے ...

اس بات کا احتمال بھی کم  ہی پایا جاتا ہے کہ حکومت اور روحانیت کے درمیان صلح قائم ہوجائے۔

امریکی بحری فوج کا ایڈمرل ایف۔ سی۔ کالینز اپنی واشنگٹن بحری فوج کے جاسوسی و اطلاعات کے ادارے کے رئیس کو "انقلاب کی وضاحت اور  تشریح" کے نام سے دی گئی رپورٹ میں لکھتا ہے: "میں مئی ۱۹۷۸ء سے فروری ۱۹۷۹ء تک کے عرصے میں ایران کی شہنشاہیت میں بحری فوج کے کمانڈر انچیف کا مشیر اعلیٰ رہا ہوں اور عین اس زمانے میں ایران میں امریکی فوج کے ماتحت بحری فوج کے ایک حصہ میں مشاورتی کمیٹی کا سربراہ بھی تھا ... میں نے "انقلاب کی پہچان اور وضاحت"  کے عنوان کچھ نکات تحریر کیئے تاکہ میری طرف سے پیش کئے جانے والے موقف ٹھوس ہوسکیں۔ اس تحریر میں سچائی کا رنگ ہے اور صرف آخری دو صفحوں میں، میں نے اپنی ذاتی آّراء اور ان کی علت بیان کی ہے ... ایف۔ سی۔ کالنیز کے شکریہ کے ساتھ۔

 



 
صارفین کی تعداد: 3699


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔