محمد رضا ناجیان اصل کی زبانی سن ۱۹۶۱ء سے سن ۱۹۸۱ء تک کے واقعات کا بیان

مجاہد اور پبلشر بن جانے والے کلاس فیلوز

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-8-20


ایرانی زبانی تاریخ کی ویب سائیٹ کی رپورٹ کے مطابق، "کتاب کی زبانی تاریخ" کی نشستوں کے دوسرے سلسلے کی گیارہویں نشست منگل کی صبح مورخہ  ۱۱ جولائی ۲۰۱۷ء کو پروگرام کے میزبان اور ماہر نصر اللہ حدادی کی کوششوں اور مطبوعات کے انچارج محمد رضا ناجیان اصل کی موجودگی میں خانہ کتاب فاؤنڈیشن کے اہل قلم سرا میں منعقد ہوئی۔

 

میں شہید محمد جواد تندگویان کا کلاس فیلو تھا

اس نشست میں ناجیان اصل نے کہا: "زیادہ تر وہ لوگ اشاعت کام میں مشغول ہوتے ہیں جن کے گھرانوں کو کتاب کے مطالعے کا شوق ہوتا ہے۔ نصاب سے ہٹ کر میں نے پہلی کتاب جو پڑھی ، امیر ارسلان ترکی تھی۔ میں تقریباً ۱۱ سال کا تھا اور میں جب بھی تبریز جاتا اُس کتاب کو دوسروں کے لئے پڑھتا۔ وہاں سے آہستہ آہستہ مجھ میں کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔

میں سن  ۱۹۵۰ء میں تبریز میں پیدا ہوا اور تقریباً پانچ سال کا تھا جب ہم وہاں سے تہران آگئے۔ میرے والد بازار میں چائے کی پتی فروخت کرتے تھے۔ ستمبر ۱۹۴۱ء کے واقعہ کے بعد وہ تہران آنے پر مجبور ہوئے۔ میں نے جب سے آنکھیں کھولیں اپنے والد کو کتاب کے مطالعہ کا شوقین پایا۔ وہ رات کو سونے سے پہلے ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ  ضرور کتاب پڑھا کرتے اور صبح نماز کے بعد ایک گھنٹہ قرآن کی تلاوت کرتے۔ بازار میں بھی جب ہوتے، اُن کی شیلفوں میں ہمیشہ مذہبی یا غیر مذہبی کتابیں ہوتی تھیں۔اس طرح کے ماحول میں فطری سی بات ہے کہ انسان کتاب سے اُنس پیدا کرلے۔

میں نے پہلی کلاس آل احمد اسکول میں پڑھی، پھر پورے ۱۱ سال (پڑھائی کے) جعفری اسلامی اسکول میں گزارے جو پرائمری اور سیکنڈری اسکول بھی تھا۔ یہ جامعہ تعلیمات اسلامی والوں کا اسکول تھا۔اُس زمانے میں جناب شیخ عباس علی اسلامی نے چند تاجروں کی مدد سے ایران کے مختلف حصوں میں ۱۵۰ اسکولوں کی بنیاد رکھی تھی جسے ایک متحدہ منیجمنٹ چلا رہی تھی۔ جعفری اسلامی اسکول کو تقریباً اس مجموعہ کی مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ میرے اچھے کلاس فیلوز میں سے جوآپس میں بہت اچھے دوست تھے، شہید محمد جواد تندگویان تھے۔ ہم ہمیشہ ایک ہی ڈیسک پر بیٹھتے اور فکری لحاظ سے آپس میں مانوس تھے۔ اُن کا گھر خانی آباد (محلے) میں اور میرا گھر پاچنار (محلے) میں تھا۔ ہم چھٹی کے بعد ساتھ واپس آتے۔ ہمارا پانچ لڑکوں کا ایک گروپ تھا جن میں بہت زیادہ دوستی تھی۔ ہمارے ایک کلاس فیلو کا نام محمد کبریت چی تھا ، نویں کلاس میں اُس کے ایک دانت میں انفکیشن ہوگیا اور اُس کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ مرگیا ہے۔ اسکول کے زمانے میں ہم پانچوں دوست ہر جمعرات کو  اپنے  اس دوست کی قبر پر جاتے اور پھر شاہ عبد العظیم (ع) کی زیارت کرنے جاتے اور رات کو عرفا میں سے کسی ایک عارف کے گھر جاتے اور اُن کے عرفانی جلسوں سے بہرہ مند ہوتے۔ اسکول میں کچھ لڑکے پڑھائی کے علاوہ لائبریرین کا شوق بھی رکھتے تھے میں بھی اُن میں سے ایک تھا اور میں اسکول میں لائبریرین تھا۔"

 

جیل میں بغاوت

"کتاب کی زبانی تاریخ" کی نشستوں کے دوسرے سلسلے کی گیارہویں نشست میں ناجیان اصل نے کہا: "میں نے سن ۱۹۶۸ء میں میٹرک کیا۔ اُس زمانےمیں ابھی کالج میں داخلے کا امتحان عام نہیں ہوا تھا۔ میں محمد جواد تندگویان کے ساتھ پٹرولیم یونیورسٹی کے انٹری امتحان میں پاس ہوگیا؛ اُدھر سے میں شریف انڈسٹریل یونیورسٹی(آریا مہر) اور وہشیراز یونیورسٹی کے انٹری امتحان میں بھی پاس ہوگیا۔ بالآخر میں نے شریف انڈسٹریل اور اُس نے پٹرولیم کا انتخاب کیا۔ میں بھی پٹرولیم میں جانا چاہتا تھا، لیکن مجھے انٹرویو میں فیل کردیا، کیونکہ میرے والد کی زندگی مسائل سے بھری ہوئی تھی۔ انھوں نےفوجی ٹریننگ نہیں کی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنا دوسرا پاسپورٹ بنا کر مکہ گئے۔ اور انہیں مقامات مقدسہ کی زیارت کا بھی بہت شوق تھا اور جیسا کہ اُس زمانے میں کربلا جانا بہت دشوار تھا، وہ غیر قانونی طریقے سے  گئے تھے ، انہیں راستے میں گرفتار کرکے اُن کی فائل تیارکرلی گئی تھیں۔ اصل میں اُن کی فائل میں اس واقعہ کی رپورٹ درج تھی اور اسی وجہ سے میں پٹرولیم یونیورسٹی کے انٹرویو میں قبول نہیں ہوا۔ میں نے انڈسٹریل یونیورسٹی میں ریاضی اور فزیکس ڈپارٹمنٹ میں نام لکھوایا تھا، لیکن جب نتائج برآمد ہوئے، تو پتہ چلا میں کیمیکل انجنیئرنگ میں قبول ہوا ہوں۔ میں نے اعتراض کیا، لیکن اصل میں اُنھوں نے صلاحیتوں کو سوالات کے جواب کی بنیاد پر پرکھا تھا۔ میرے اُس زمانے کے ایک دوست جن کا نام جناب محمود گلزاری ہے وہ آجکل مطبوعات رشد کے انچارج ہیں۔

ہمارے کالج میں زیادہ تر سیاسی پارٹیوں اور مجاہدین خلق کے مسائل پیش آتے تھے؛ اس طرح سے ہم نے سن ۱۹۶۹ء میں ہونے والے مظاہروں [بس کے کرائے کی قیمت میں اضافے پر اعتراض] میں شرکت کی اور جس میں  تقریباً ۶۰۰ لوگ گرفتار ہوئے۔ میں بھی اُن لوگوں میں شامل تھا۔ ہم ایک مشترکہ جیل میں تھے۔ سوائے ۲۴ لوگوں کے سب کو آزاد کردیا گیا ، میں بھی اُن ۲۴ لوگوں میں سے تھا۔ ہمیں تقریباً ۱۵ دن تک رکھا گیا۔ آپ کے جاننے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس زمانے میں طالب علم کی اتنی قدر و منزلت تھی جسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اُس زمانے میں طالب علم کے مقام و مرتبے کو سمجھانے کیلئے میں یہ کہونگا کہ میں پہلے سال اپنے روابط کی وجہ سے ، کلاس اور پہلے سال والوں کا نمائندہ تھا۔ یہ نمائندے طالب علموں کے امور کی تحقیق و جستجو کرتے ۔ جس میں طالب علموں کا ایک تقاضا دو بے حجاب خواتین اساتید کو ہٹانا تھا۔ میں نمائندے کے طور پر اپنے ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کے پاس گیا اور میں نے اُن سے درخواست کی کہ اُن دو خواتین اساتید کی جگہ دو مرد اساتید کو لایا جائے۔ اُس نے جواب میں میری طرف رُ خ کرکے کہا تم مزدوروں کی طرح کیوں بات کر رہے ہواور تمہاری نگاہیں مزدورں والی کیوں ہیں؟! اور کہا جاؤ جاکر اپنی پڑھائی کرو۔ میں نے اُس کا جواب طالب علموں تک پہنچا دیا۔ مجھے یاد ہے نہ صرف ہماری کلاس، بلکہ تمام پہلے سال والوں نے، ایک اُستاد کی طرف سے اُن کے نمائندے کی ہونے والی توہین پر، ہڑتال کردی۔ امتحان کا زمانہ تھا اور ہڑتال کی وجہ سے ہم میں سے کسی نے بھی کلاس میں شرکت نہیں کی۔ آخر میں ایک اور استاد نے ہماری حمایت کی اور ہم نے وہ مضمون پاس کرلیا اور یہ قضیہ گزرگیا۔ ہم طالب علم کی اسی قدر و منزلت اور مرتبے کی وجہ سے جیلوں میں بہت بغاوت کرتے۔ ان تمام سرگرمیوں  اور پرانے ریکارڈ کی وجہ سے میں اپنی پڑھائی تین سال سے زیادہ جاری نہیں رکھ سکا۔ چونکہ مجھے پہلے سے پتہ تھا کہ ایک دن مجھے کالج میں مشکل کا سامنا ہوگا، میں ہر سال انٹری امتحان دیتا اور میں تیسرے سال ہائی بزنس اسکول میں جو اس وقت علامہ طباطبائی یونیورسٹی ہے، قبول ہوا اور سن  ۱۹۷۶ء میں میری پڑھائی مکمل ہوگئی۔"

 

فوجی ٹریننگ سے اخراج اور دوبارہ گرفتاری

ناجیان اصل نے مزید کہا: پڑھائی کے دوران ہم نے ایک ٹریننگ کی۔ گرمیوں میں طالب علموں کو فوجی ٹریننگ کیلئے لشگرک (علاقے) میں لے جاتے۔ وہاں راتوں  کو گانے والے بلائے جاتے جوآکر گائیں اور اسٹوڈنٹس خوش ہوں۔ ہم کچھ لوگ تھے جو اس پروگرام کو خراب کردیتے تھے؛  جیسے جواد مادر شاہی، محمود گلزاری وغیرہ دراصل ہم لوگ سابق حکومتی نظام اور سسٹم  کے خلاف تھے۔ عارضی فوجی ٹریننگ دورے کے آخری دن، برّی فوج کے کمانڈر فتح اللہ مین باشیان  دورے پر آیااور طے تھا کہ ہمیں ظہر کے وقت چھٹی دیدی جائے۔ میں ہمیشہ فریبزر لبافی نژاد (شہید مرتضی لبافی نژاد کے بھائی) کے ساتھ بھاگ جاتا اور ہم چھاؤنی سے باہر آجاتے۔ میں اس دن ایک اور دوست جس کانام ناصر پہلوان تھا اُس کے ساتھ بھاگ کر آیا تھا۔ واپس آتے ہوئے، چھاؤنی کا کمانڈر جو مین باشیان کو دوپہر کے کھانے کیلئے لے جا رہا تھا، انھوں نے ہم دونوں کو دیکھ لیا۔ انھوں نے پوچھا کہ تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟ تمہیں ا س وقت چھاؤنی کے اندر ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا اپنا تعارف کرواؤ اور ہم نے بھی تعارف کروادیا۔ ہم آہستہ آہستہ جا رہے تھے اور وہ لوگ کھانا کھانے چلے گئے اور واپس آتے ہوئے ہمیں اُسی سڑک سے گاڑی پر سوار کرلیا اور چھاؤنی لے گئے تاکہ ہمیں تنبیہ کرسکیں۔ جب ہم گاڑی سے اترے تو مین باشیان نے اپنے پاس کھڑے شخص سے کہا میری فائل میرے ہاتھ دیکر مجھے اس کے کمرے میں بھیجے۔ جب میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا اُس کے برابر میں ایک امریکی مشیر بیٹھا ہوا ہے۔ ہم عیب سمجھتے تھے کہ ایک سیاسی اسٹوڈنٹ فوجی جنرل کو سیلوٹ مارے، اسی وجہ سے میں نے دروازہ کھولتے ہی کہا: "سام علیک جنرل!"چونکہ مشیر کو فارسی آتی تھی، جنرل غصہ کی شدت سے آگ بگولہ ہوگیا اور بولا:"دفع ہو، باہر جاؤ!" اُس نے ایک فوجی سے کہا اس آدمی کو باہر لے جاؤ اور اسے ادب سکھاؤ تاکہ سیلوٹ مارتے ہوئے اندر داخل ہو۔ اُس فوجی نے مجھ سے کہا آج آخری دن ہے اگر تم نے یہ کام نہیں کیا تو مجھے ڈانٹ پڑے گی، اس نے مجھ سے التماس کیا کہ اُس کی خاطر سیلوٹ ماروں اور فوجی انداز میں اندر داخل ہوں۔ میں راضی ہوگیا۔ میں سیلوٹ مار کر اندر داخل ہوا اور اپنے دونوں پاؤں جوڑے اور اپنے فائل کو میز پر رکھا۔ اُس نے لال بال پین سے میری فائل پر لائن کھینچی اور لکھا: "یہ طالب علم شاہ کی مقدس خدمت کے لائق نہیں ہے۔" اس نے کہا: اگر اعلیٰ حضرت نے تم طالب علموں کی سفارش نہ کی ہوتی، میں تمہاری کھال اکھیڑ کر رکھ دیتا۔ اُس نے میرے لئے دو ماہ جیل اور گنجا ہونے کی سزا لکھ دی۔ جان پہچان کی وجہ سے میں گنجا ہونے سے بچ گیا اور ادھر سے وہ میجر جس نے مجھے قید کرنا تھاوہ میرے شہر کا رہنے والا اور آذری تھا۔ میں نے اُس سے بات کی ، جب جنرل چلا گیا تو اُس نے مجھے آزاد کردیا۔ لہذا خوش قسمتی سے میں فوجی ٹریننگ سے بھی آزاد ہوگیا۔"

رسا مطبوعات کے چیئرمین نے کہا: "سن ۱۹۷۳ میں مجھے دوبارہ گرفتار کرلیتے ہیں۔ مہدی غنی کے گھر میں ہمارے تفسیر نہج البلاغہ کے جلسے ہوتے تھے۔ جناب غنی کو میں نے اپنی زندگی میں ایک نایاب شخص پایا۔ ہم ایک دوسرے سے بہت قریب تھے۔ ہم لوگ کبھی کبھار  کام کے ماحول سے آشنا ہونے کیلئے مزدوروں کا لباس پہن لیتے اور بھٹے(اینٹوں کا کارخانہ) کا چکر لگانے جاتے۔ وہ بہت ہی عاجز اور معرفت والا انسان تھا، اگرچہ وہ ڈاکٹر قاسم غنی (پہلوی حکومت کے وزراء میں سے)کا خالہ زاد بھائی تھا۔ ہم اُس کے گھر میں گرفتار ہوئے؛ جیسا کہ ایک طالب علم کا گھر تھا، وہ مجھ سے اور دوسرے دوستوں سے  کہتا: تمام کتابیں اور دوسری تمام ممنوعہ چیزیں اُس کے گھر کی سیڑھیوں پر رکھ دیں۔ جب ہمیں اُس کے گھر پر  پکڑا گیا، تفتیش کے دوران اُس نے تمام اسناد کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔ اُس نے کہا یہ تمام چیزیں میری ہیں اور ہم سے اُن کے تعلق کا انکار کردیا۔ اُسے بری طریقے سے ٹارچر کیا  گیا، لیکن اس نے اعتراف نہیں کیا۔ اُسے عمر قید کی سزا سنائی گئی اور مجھے صرف چھ مہینے کی قید ہوئی۔ میں چار مہینے تک مشترکہ زندان میں رہا اور اُس کے بعد مجھے قصر زندان لے گئے۔ مہدی غنی مشترکہ زندان میں شکنجوں اور اذیتوں کے باعث "امام غنی" کے نام سے مشہور تھا۔"

 

چھ مہینے تک مخفیانہ زندگی

ناجیان اصل نے کہا:  "میرا ایک اور بہترین دوست شہید محمد رواقی تھا جو حزب جمہوری اسلامی کے بمباری والے واقعہ میں شہید ہوا۔ وہ بھی میرا کلاس فیلو تھا اور سن ۱۹۷۶ء میں  ہماری پڑھائی مکمل ہوئی۔ جب ارشاد امام بارگاہ قائم ہوا، ہم نے وہاں جانا نہیں چھوڑا اور ڈاکٹر شریعتی، آیت اللہ مطہری اور کبھی فخر الدین حجازی کی تقریریں سننے جاتے تھے۔ ان درسوں میں شرکت کرنے کی وجہ سے سے بھی ہم اپنی پڑھائی کو وقت نہ دے سکے۔ ان گرفتاریوں کے نتیجے میں کچھ لوگوں سے میری جان پہچانے ہوگئی کہ ہم سب کا دل چاہتا تھا کہ اُن کی زندگی کے طریقہ کار پر گامزن ہوں۔ میں نے تقریباً چھ مہینے تک مخفیانہ زندگی گزاری، مشہد اور مختلف جگہوں پر رہا۔ مشہد میں محمد نراقی بھی مجھے اپنے گھر لے گیا۔"

 

لائٹ میز سے پوسٹر کی چھپائی سے لیکر لیٹوگرافی سیکھنے تک

انھوں نے مزید کہا: "جیسا کہ میں شریف انڈسٹریل یونیورسٹی اور ہائی بزنس اسکول میں بھی طالب علموں کا نمائندہ تھا  اور کتاب خانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر تھی، لہذا طالب علموں کو کتاب مہیا کرنا ہمیشہ میرا کام تھا اور میں کتاب مہیا کرنے کے معاملے میں دو کتاب فروشوں سے آگاہ ہوا؛ پہلے شمس فراہانی اور اُس کے بعد حاج آقا محمدی تھے۔ جناب محمدی مجھے میرے  عارضی نام مجید سے جانتے تھے۔ اُنہیں پتہ تھا میرا نام عارضی ہے اور ہم سیاسی گروہوں کے ساتھ ہونے والی میٹنگز اُن کی ہی دوکان پر رکھتے۔ وہ نہ صرف اس بات کا اظہار نہیں کرتے بلکہ میری حمایت بھی کرتے ۔ اُس زمانے میں کرائے پر کار لینے کیلئے کار کی قیمت کے برابر چیک رکھوانا پڑتا تھا۔ ایک دفعہ جب مجھے کار کی ضرورت تھی، میں نے اُن سے ایک چیک کا تقاضا کیا۔ اُنھوں نے مجھے ۲۰ ہزار تومان، اُس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم تھی، کا چیک لکھ  کر دیا تاکہ میں اپنا کام انجام دوں؛ جبکہ اُنہیں میرے، میری زندگی اور میرے گھر کے بارے میں کچھ نہیں پتہ تھا۔ کتاب کے ان دو مالکان سے میری جان پہچانے میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جواد محمدی جو اُن کا بیٹا تھا وہ بھی تحریکی کاموں میں شرکت کرتا اور اسی  وجہ سے وہ مجھے زیادہ اچھی طرح جان گئے تھے۔

میں نے اپنے گھر میں امام خمینی (رہ) کے بیانات چھاپنے کیلئے ایک شیشے کی میز بنائی ہوئی تھی جسے اصطلاح میں لائٹ میز بھی کہتے ہیں۔ میں نے اُس کے نیچے ۵۰۰ واٹ کا بلب لگایا ہوا تھا اور میں حساس کاغذوں کو استعمال کرتا تھا۔ میں پوسٹر پہ لائٹ مارتا اور پھر دوات لگاکر اُسے چاپ کرتا تھا؛ دراصل وہ فوٹی کاپی مشین کی طرح تھی۔ میں ان کاموں کو رات میں لوگوں کے سوجانے کے بعد کیا کرتا تھا۔ ایک رات وہ ۵۰۰ واٹ کا بلب گرم ہوگیا اور جیسا کہ جگہ بند تھی، بلب پھٹا اور ایک وحشت ناک صدا بلند ہوئی۔ سب نیند سے بیدار ہوگئی۔ کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا، لیکن اس کے بعد میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں لیٹو گرافی اور پرنٹنگ سیکھوں اور چاپ خانے میں کام کروں۔ میں نے جواد محمدی سے کہا تو اُس نے بھی  قبول کرلیا اور مجھے اپنے ایک ایسے دوست سے ملوایا جو پرنٹنگ کا کام کرتا تھا۔ تقریباً سن  ۱۹۷۶ء کا زمانہ تھا میں حاج نایب گلی میں موجود مہدی خاتمی کے چاپ خانے " آرمان پرنٹنگ پریس" گیا۔ انھوں نے میرے تعلیمی معیار اور کوائف کے بارے میں پوچھا، میں نے جواب میں کہا: میرا نام مجید ہے اور میں نے میٹرک کیا ہے۔ وہ بولے: یہاں پر میڈیکل کا ایک اسٹوڈنٹ ہے جو راتوں کو آتا ہے اور ہمارے لئے تصویریں اور فلمیں بناتا ہے، تم بھی اس کے ساتھ لگ جاؤ۔ میں بھی راضی ہوگیا۔ بہت ہی کم عرصے میں اُس نے مجھے کام سکھادیا۔ ایک دن حاج آقا خاتمی نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر کہا: تم نے مجھ سے جھوٹ بولا ۔ تم نے میٹرک نہیں کیا ہوا؛ جس کام میں تم اس وقت مشغول ہو، اس سے پتہ چلتا ہے کہ تم میٹرک سے زیادہ پڑھے ہوئے ہو۔ پھر انھوں نے مجھ سے چاہا کہ میں پرنٹنگ پریس کا انچارج بن جاؤں، جسے میں نے قبول نہیں کیا۔ میں نے چند مہینے وہاں کام کیا اور اُس کے بعد میری زندگی کے روپوش رہنے والے ایام شروع ہوگئے۔ پھر میں کچھ عرصے کیلئے لبنان اور شام چلا گیا کہ وہاں جانے کا انتظام میرے بہت ہی مخلص دوست محمد رواقی نے  خانم مرضیہ حدیدچی دباغ کے توسط سے کئے۔ وہاں میری ملاقات سید محمد غرضی سے ہوئی اور میں سن ۱۹۷۸ء کی عید پہ ایران آگیا۔"

 

ڈاکٹر علی شریعتی کی تاثیر

ناجیان اصل نے اپنے اوپر ڈاکٹر علی شریعتی کی تاثیر کے بارے میں کہا: "میں ارشاد امام بارگاہ میں ہونے والی ڈاکٹر شریعتی کی تمام تقریروں کو سننے جاتا تھا ۔ میں اُن سے اتنا زیادہ متاثر تھا کہ میری آواز اور بات کرنے کا اندازہ بالکل اُن کی طرح ہوگیا تھا۔ ایک دن بزنس ہائی اسکول میں میری تقریر کا پروگرام رکھا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ سید محمد حسین عادلی جو میرا کلاس فیلو تھا، وہ دیر سے پہنچا۔ اُس نے پروگرام ختم ہونے کے بعد کہا: میں نے جب باہر سے تقریر سنی، مجھے ایسا لگا کہ شریعتی بات کر رہا ہے اور تقریر کیلئے اُسے دعوت دی گئی ہے۔ ڈاکٹر شریعتی کے والد جو ہمارے ساتھ جیل میں تھے، جب بھی اُن کا دل اپنے بیٹے (ڈاکٹر شریعتی) کیلئے اُداس ہوتا، وہ مجھ سے کہتے میرے لئے تھوڑا سا میرے بیٹے کے لہجے میں بات کرو اور میں بولنے لگتا اور وہ رونے لگتے۔"

 

رسا ثقافتی کلچرل انسٹیٹیوٹ کا قیام

انھوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "سن ۱۹۷۸ء کے آغاز کے بعد میں نے محمد رواقی، جناب سلطانی، جناب خوش اخلاق اور ڈاکٹر ابراہیم موحدی  اور کچھ اور دوستوں کے ساتھ ایک نشست رکھی اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کے کتابوں کی تقسیم کا کام سستی کا شکار ہے۔ اُس زمانے میں صرف چند ہی مشہور مذہبی پبلشرز تھے اور مذہبی کتابیں صحیح سے مختلف شہروں تک نہیں پہنچ پاتی تھیں۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ہم چاہتے تھے کہ بیانات کی تقسیم ایران کی سطح پر ہو اور دراصل بیانات تقسیم کرنے کا بہترین ذریعہ کتابوں کو پھیلانا تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کتاب منتشر کرنے کا ایک ادارہ قائم کیا جائے۔ محمد علی رواقی کے بھائی ڈاکٹر علی رواقی کا ایک دو منزلہ گھر تھا جسے وہ استعمال نہیں کرتے تھے،انھوں نے اُسے ہمارے اختیار میں دیدیا۔ طے پایا جس کے پاس جو کچھ ہے اس کام کو شروع کرنے کیلئے وہ اپنا حصہ ڈالے۔ پانچ ہزار تومان کی رقم جمع ہوئی جس میں سے بھی زیادہ  تر بطور قرض لی گئی تھی۔ طے پایا کہ میں یہ کام مستقل طور پر انجام دوں۔ اس ادارے کا نام رکھنے کیلئے شہید رواقی نے کہا مشہد میں ہمارے ایک شاعر ہیں جن کا نام ڈاکٹر قاسم رسا ہے جو بہت ہی اعلیٰ قسم کے اشعار کہتے ہیں لیکن کوئی اُنہیں جانتا نہیں ہے۔ انھوں نے کہا اُن پر [اس ادارے کا]نام رکھ دیتے ہیں، باقی سب افراد بھی راضی ہوگئےاور رسا ثقافتی کلچرل انسٹیٹیوٹ کا قیام عمل میں آیا۔ طے پایا کہ کتاب اور بیانات کی تقسیم کے علاوہ ثقافتی کام بھی انجام دیئے جائیں۔ جیسے امام(رہ)، ڈاکٹر شریعتی، آیت اللہ مطہری، امام موسی صدر و غیرہ کی کیسٹوں کو پھیلانا۔

تقریباً جون سن ۱۹۷۸ء کا زمانہ تھا جب ہم نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ ہمارا پہلا کام مہدی شادباش، علی اربابی، مصطفی قلم چی ، صادق عزیزی وغیرہ کے ساتھ تھا۔ یہ طے پایا گیا کہ یہ چھوٹے چھوٹے پبلشرز جو اپنی کتابیں تقسیم نہیں کر سکتے، انہیں وہاں جمع کیا جائے اور اُن کی کتابوں کو ہر جگہ پھیلایا جائے۔ سب سے پہلی کتاب جو ہم نے رسا میں کسی دوسرے نام سے پرنٹ کی، فلسطین کی تحریک کے بارے میں آقای علی جنتی کی کتاب تھی۔ یہ کتاب فلسطین کے بارے میں مختلف بیانات کا مجموعہ تھی جسے انھوں نے ترجمہ کیا تھا۔ تقریباً پانچ، چھ اسٹوڈنٹس  میگزین بھی پرنٹ کرنے کیلئے لائے گئے؛ جیسے جنگل جو مشہد یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کا کبھی کبھی پرنٹ ہونے والا مجلہ تھا، جس کا متن بہت زبردست تھی۔

دوسری طرف سے سات یا آٹھ پبلشرز بھی تھے جو اپنی کتابوں کو مختلف علاقوں تک پہنچانے کیلئے ہمارے پاس بھیجتے تھے۔ مطبوعات قلم میں محمد مہدی جعفری تھے وہ اس وجہ سے کہ کچھ کتابوں کو قلم میں چھاپنا نہیں چاہتے تھے ہمارے پاس لاتے یا کسی اور وجہ سے ہمار پاس چھپائی کیلئے لاتے۔ اُن میں سے ایک کتاب "طلوع زن مسلمان" جس کی طباعت علی اربابی نے انجام دی اور دوسری "پیام حجاب زن  مسلمان" تھی جسے ہم نے پرنٹ کیا۔ انجینئر حسن شہیدی جس سے ہماری جیل میں جان پہچان ہوئی تھی، وہ ہمارے لئے ڈیزائننگ بھی کرتے اور ہمارے لئے کچھ کتابیں بھی لاتے؛ جیسے "وقتی مارکسیست ھا تاریخ می نویسند" (جب مارکسسٹ تاریخ لکھتے ہیں)نامی کتاب، جسے ہم نے واقف شریفی کے جعلی نام سے پرنٹ کیا۔ یہ کتاب دراصل ایلیا پائولوویچ پطروشفسکی نامی مؤلف کی "اسلام در ایران" نامی کتاب کا جواب تھی کہ جس کے مؤلف کو یقین تھا کہ پطروشفسکی نے تاریخ ایران میں تحریف کی ہے۔"

 

ہمارے کام میں اعتماد تھا

رسا مطبوعات کے چیئرمین نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "ہمارے کام میں اعتماد تھا، اس طرح سے کہ ہم مختلف شہروں میں موجود کتابوں کی دوکان پر کتاب بھیجنے کیلئے صرف اُن کا فیملی نام پوچھ کر اُنہیں کتاب بھیج دیتے تھے۔ وہ لوگ بھی وعدے کے مطابق اپنے ذمہ کی رقم ادا کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس ایک مستعار مسعود نام کا شخص کام کرتا تھا اور ہم اس شخص کو اپنی رقوم کی جمع آوری کیلئے مختلف شہروں میں بھیجتے تھے۔ وہ پہلے مشہد، پھر زاہدان ، اُس کے بعد بندر عباس گیا اور اُس نے تقریباً دو لاکھ تومان نقد جو سن ۱۹۷۸ء میں بہت زیادہ پیسے شمار ہوتے تھے، دوکان کی میز پر رکھے۔ دراصل تمام شہروں میں موجود ہمارے گاہک، جن کے بارے میں ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا،  وقت پر رقوم کی ادائیگی کر دیتے تھے اور ہمارے پاس کام کرنے والا شخص بھی اُس قیمت پر نظر لگائے بغیر، اپنی ذمہ داری کو انجام دیتا تھا۔ اُس نے ادارے میں دو سال تک بغیر کچھ لئے کام کیا۔ جب وہ ہمارے پاس سے جانا چاہ رہا تھا تو میں نے پانچ سونے سکے خرید کر اُسے دیئے، لیکن مجھے یاد نہیں کہ اُس نے وہ سکے لئے یا نہیں۔

رسا انسٹیٹوٹ میں ہمارے ۲۰ کلاس فیلوز اپنی اپنی ذمہ داری انجام دے رہے تھے۔ جسے بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی وہ صندوق سے پیسے لے لیتااور اس طرح سے نہیں تھا کہ کوئی تنخواہ معین کی گئی ہو۔ ہم نے کسی ناشر کے پاس جاکر نہیں سیکھا تھا، اسی وجہ سے ہمیں کام کے اصول و ضوابط کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اور ہمیں نہیں پتہ تھا کہ ہمیں مؤلفین کے ساتھ قرار داد لکھنی چاہئیے۔ ہمیں جو کتابیں دی جاتی تھیں ہم اُس کی کوئی قرار داد طے نہیں کرتے۔ ہمارے پاس تالیف اور ترجمے کی بابت میں دی جانے والی رقم طے نہیں تھی اور ہم اُس کا حساب نہیں کرتے تھے۔ ہم بہت دقت کے ساتھ کتاب پر آنے والے تمام خرچے اور دوکانداروں کو دی جانے والی تخفیف کے ساتھ کتاب کی قیمت لگاتے؛ ہر صفحہ تقریباً آدھے ریال کا پڑتا۔ بعد میں ہمیں پتہ چلتا کہ محترمہ زہرا رھنورد تالیف کی بابت پیسے نہ ملنے پر  ناراض تھیں۔

انقلاب کے بعد شہروں میں بہت سے کتاب بیچنے والے یا تو شہید ہوگئے یا اُنہوں نے طباعت کا کام چھوڑ دیا اور سپاہ یا بسیج میں چلے گئے۔ نشرو اشاعت کا کام ڈھیلا پڑ گیا اور ہمارا پیسہ ڈوب گیا۔ ہمارے چیک باؤنس ہوگئے۔ مشہد میں کتابوں کی دوکان جس نے ہمارے ۱۰ ہزار تومان دینے تھے گم ہوگئی، قم میں موجود ایک دوکان بھی اسی طرح غائب ہوگئی۔ انقلاب کے بعد ہم علی اکبر غفاری کے کاغذ خریدنے کی بابت ۱۲۴ ہزار تومان کے مقروض تھے اور ادھر سے شہروں سے پیسے نہیں آرہے تھے۔ اُس نے بھی ہم پر احسان کیا، جب اُس نے دیکھا کہ ہم صرف ذمہ داری کے طور پر کام کر رہے تھے اور اس طباعت کے کام سے ہمارا مقصد پیسے کمانا نہیں تھا، اُس نے ہمارا ساتھ دیا اور تقریباً ۱۰۵ ہزار تومان کے برابر ہم سے کتابیں لے لیں۔ ہم نے بھی کتاب کے پیچھے لکھی گئی قیمت سے ۴۰ فیصد تخفیف، جو ہمارے ضرر میں تھا، اُن کتابوں کو اُسے دیدیا۔ اُس نے بھی اُن کتابوں کو دیہاتوں میں مفت بٹوا دیا۔ میں نے کچھ عرصہ امیر کبیر مطبوعات میں کام کیا اور اپنا باقی قرضہ بھی اُتار دیا۔"

 

"اتحاد جوان" میگزین

اس تجربہ کار ناشر نے کہا: "ہم کتاب کی نشرو اشاعت کے ساتھ ساتھ، اسماعیل جلیلیان کی مدد سے "اتحاد جوان" نامی مجلہ بھی نکالتے تھے جس میں اپنے  نظریات اور انقلاب سے مربوط مسائل  کو – جب ہم احساس کرتے کہ جوانوں کو ان باتوں سے آگاہ ہونا چاہیے - اُس میں جگہ دیتے۔ ڈاکٹر مرزائی جو بعد میں پٹرولیم کالج کے پرنسپل بن گئے، مہدی غنی، سعید مشیری، جعفر ہمایی، کریم زمانی وغیرہ اس مجلے میں ہمارا ہاتھ بٹاتے تھے۔ یہ مجلہ شروع میں ۱۵ دن بعد پھر ڈیڑھ سال کے عرصے تک ہر ہفتہ  اور اس کے تقریباً ۷۰ شمارے شائع ہوئے۔ پھر لکھنے والے افراد چلے گئے اور دفتری اور انتظامی امور میں مشغول ہوگئے اور مجلہ نکلنا بند ہوگیا۔ یہ مجلہ سن ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۰ء تک نکلتا رہا۔"

 

ہم نے بغاوت کرنے والے کمانڈر کو قتل کردیا!

ناجیان نے مزید کہا: اُس زمانے میں اعتماد کی فضا اس قدر قائم تھی کہ ایک دن بالائی منزل کو کنٹرول کرنے کیلئے دو لوگ ہمارے پاس آئے۔ انھوں نے ہم سے وہاں کام کرنے کا اظہار کیا اور چاہا کے اُن سے اُن کے نام نہ پوچھیں جائیں ، ہم مان گئے۔ ہمارے ہاں کھانا کھانے کا ایک کمرہ تھا، جب ہم دستر خوان لگاتے تو تقریباً دس سے ۱۵ لوگ وہاں جمع ہوجاتے۔ ہم کبھی ۳۰ لوگ بھی ہوجاتے تھے کہ اس صورت میں ہم دو سے تین مرتبہ دستر خوان لگانے پر مجبور تھے۔ انقلاب کی کامیابی سے چند دن پہلے رسا انسٹیٹیوٹ بند ہوگیا تھا اور انقلاب کی کامیابی والی رات ہم لوگ شہید محمد بنکدار کے گھر پر تھے جو بالکل آج کی امام حسین (ع) چورنگی پر واقع تھا۔ رسا کے تمام افراد وہاں موجود تھے اور اُس کے گھر کی بالکونی پر بوتل بمب بنا رہے تھے۔ اور ہم روڈ پر گزرنے والے ٹینکوں پر اُنہیں پھینک رہے تھے تاکہ اُنہیں آگ لگ جائے۔ خوش قسمتی سے کسی ایک ٹینک میں بغاوت[لوگوں کے خلاف پہلوی حکومت کی بغاوت] کرنے والا ایک کمانڈر موجود تھے  جو باہر آیا وہ  ایک آذری دوست کے ہاتھوں مارا گیا۔"

 

رسا "ہر درد کی دوا " بن چکا تھا!

انھوں نے کہا؛ "انقلاب کی کامیابی کو تین یا چار دن گزرے ہوں گے کہ جناب بنکدار نے کہا:جناب [حجت الاسلام محمد جواد] باہنر نے کہا ہے کہ جاکر اوین جیل کو اپنی تحویل میں لیں۔ انقلاب کے بعد ساواک فرار کر گئی تھی اور کچھ اجنبی لوگوں نے اُن کے جانے کے بعد جیل کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ چونکہ وہاں اسلحہ تھا اس لئے خطرہ بہت تھا۔ رسا کی پوری ٹیم ایک ساتھ گئی اور تقریباً دو مہینے تک وہ جگہ ہمارے اختیار میں رہی، بعد میں سپاہ سے شہید [محمد ] بروجردی آئے اور ہم سے جیل کا کنٹرول اپنے تحویل میں لیا اور ہم کتاب کے کام کی طرف واپس آگئے۔ ہم رسا کو مذاق میں "ہر درد کی دوا" کہتے تھے، کیونکہ ملک میں کوئی بھی حادثہ پیش آتا، رسا میں موجود افراد کے رابطوں کی وجہ سے، ہمیں واقعہ کی اطلاع مل جاتی۔ ۲۲ ستمبر سن ۱۹۸۰ء کا دن تھا اور ہم دوپہر کا کھانا کھانے میں مصروف تھے کہ خبروں میں بتایا گیا کہ ابھی کچھ طیاروں نے مہر آباد ایئرپورٹ پر بمباری کی ہے۔ کھانا کھانے کے فوراً بعد سعید مشیری اور میں نے اہواز کی طرف جانے کا ارادہ کیا، کیونکہ کہا گیا تھا کہ دشمن کی فوج ایران کی زمین میں داخل ہو رہی ہے۔ رسا کی ٹیم اہواز میں چھ مہینے تک ، بسیج کی فوجی ٹریننگ سیکشن میں مصروف رہی اور نشر و اشاعت کا کام بند ہوچکا تھا۔ مؤلفین اور مترجمین کے رجوع کرنے کی صورت میں اور وہاں اُن کو کوئی جواب دینے والا موجود ہو،لہذا جناب نصر اللہ حدادی تہران میں رہ گئے۔ سن ۱۹۸۱ کی عید میں ہم تہران واپس آگئے۔ اُس وقت سپاہ ابھی مضبوط نہیں ہوئی تھی۔ علی شمخانی اہواز میں تھے اور مصطفی چمران کو مدد کی ضرورت تھی۔ ہم گئے اور طے پایا کہ ہم سپاہ کے مرکزی اسٹاف میں جائیں، کیونکہ ہم نے ثقافتی کام کیا ہوا تھا  اور وہاں جنگی علاقوں کی نسبت ہماری زیادہ ضرورت تھی۔ میں تقریباً ڈیڑھ سال تک سپاہ کے سیاسی نظریاتی سیکشن میں رہا اور سن ۱۹۸۲ء کی گرمیوں میں  سپاہ سے استعفیٰ دیدیا۔ مہدی مدرسی اور جعفر ہمایی ہم سے پہلے اطلاعات اخبار میں چلے گئے تھے اور کچھ عرصے بعد وہ لوگ مطبوعات امیر کبیر میں چلے گئے۔ایک دن جناب مدرسی نے مجھ فون کرکے کہا:جناب علی مُطلّب یہاں کے انچارج ہیں اور اُنہیں کچھ مشکلات کا سامنا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپ کو اس کام کا تجربہ ہے، آپ آئیں اور ان کی مدد کریں۔ پہلے دن مجھ سے کہا گیا کہ میں جناب ہمایی کے ساتھ  پیداوار کے انتظام کو سنبھال لوں۔ وہاں میں ہر فن مولا کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ ایک دن جناب مُطلّب نے مجھے بلایا اور کہا: آپ کی شان کے مطابق نہیں ہے کہ آپ پیدوار کے کام میں رہیں، آپ یہاں کے ڈپٹی سیکریٹری بن جائیں۔ میں راضی نہیں ہوا ، میں نے کہا مجھے پیدوار کے کام میں دلچسپی ہے۔ میں چند مہینے شاہراہ خواجہ نصیر  پر رہا اور پھر میں  شاہراہ انقلاب پر آگیا۔"

 

مطبوعات امیر کبیر میں

ناجیان اصل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "میرا ذاتی طور پر [مطبوعات] امیر کبیر کو ضبط کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ جس چیز کی وجہ سے میں راضی ہوا اور امیر کبیر میں گیا، وہ یہ تھی کہ میں نے سنا کہ امیر کبیر کی بعض کتابوں کو غارت کر رہے ہیں؛ بعض منافع خور آگئے ہیں اور کتابوں کو سستے دام خرید کر لے جا رہے ہیں۔ میں نے واقعاً ذمہ داری کا  احساس کیا۔ جب جناب مہدی مدرسی نے کہا: تمہیں کتاب کی پہچان ہے اور وہاں تمہاری ضرورت ہے، میں راضی ہوگیا اور اس نیت سے وہاں گیا تھا۔ حتی جناب مُطلّب نے مجھ سے کہا: کاغذ پکڑنے میں تمہارا ہاتھ کھلا ہے اور سب لوگ تمہیں جانتے ہیں، میرا ایک قرآنی اشاعت کا پریس بھی ہے، تم کاغذ مہیا کرو اور میں نیز اُسے چھاپتا ہوں اور اس میں اچھا منافع ملے گا۔ میں نے جواب میں کہا: میں نے ابھی تک قرآن سے روٹی نہیں کھا ئی ہے اور میں قرآن پرنٹ کرنے کے مخالف ہوں کہ اُس سے کوئی منافع حاصل کروں۔ دوسری بات یہ کہ [مطبوعات] امیر کبیر میں  میری آنے کی نیت یہ تھی کہ آپ کی ضرورت کو پورا کروں۔ اس وجہ سے میں نے کچھ مہینے اور پیداوار کے شعبے میں قرار داد والے سیکشن میں رہناچاہا۔ میں اُس سیکشن میں تقریباً چھ مہینے تک رہا اور جو معاہدے ہوچکے تھے، لیکن اُن کی کتابیں پرنٹ نہیں ہوئی تھیں اُن کی تفتیش کی تاکہ وہ پرنٹ ہوں۔ جب میں نے احساس کیا کہ امیر کبیر اپنی معمولی حالت پر واپس آگیا ہے، میں رسا واپس آگیا۔ میں مجموعی طور پر تقریباً ڈیڑھ سال تک [مطبوعات] امیر کبیر میں رہا۔ اُس کے بعد میں تبریز کے گورنر ہاؤس چلا گیا اور تقریباً چھ مہینے تک گورنر کا ثقافتی مشیر رہا۔"

"کتاب کی زبانی تاریخ" کی جدید نشستوں کے سلسلے کی پہلی نشست بدھ، ۱۲ اپریل ۲۰۱۷ء کومطبوعات تہران – تبریز کے انچارج حاج بیت اللہ راد خواہ (مشمع چی) کی موجودگی میں، دوسری نشست بدھ، ۱۹ اپریل کو مطبوعات پرتو کے انچارج جمشید  اسماعیلیان کی موجودگی میں، تیسری نشست بدھ،  ۲۶ اپریل کو مطبوعات اشرفی کے انچارج ابو القاسم اشرف الکتابی کی موجودگی میں، چوتھی نشست بدھ، ۱۷ مئی کو مطبوعات مرتضوی کے انچارج حجت الاسلام بیوک چیت چیان کی موجودگی میں، پانچویں نشست منگل، ۲۳ مئی کو مطبوعات اسلامیہ کے انچارج سید جلال کتابچی اور مطبوعات علمیہ اسلامیہ کے انچارجوں سید فرید کتابچی اور سید محمد باقر کتابچی کے موجودگی میں، چھٹی نشست منگل،  ۳۰ مئی کومطبوعات اسلامیہ کے انچارج سید جلال کتابچی اور مطبوعات علمیہ اسلامیہ کے انچارجوں سید مجتبی کتابچی، سید فرید کتابچی اور سید محمد باقر کتابچی کی موجودگی میں، ساتویں نشست منگل، ۶ جون کو دار الکتب الاسلامیہ کے انچارج مرتضیٰ آخوندی کی موجودگی میں، آٹھویں نشست منگل، ۱۳ جون کو دوبارہ دار الکتب الاسلامیہ کے انچارج مرتضی آخوندی کی موجودگی میں، نویں نشست منگل، ۲۰ جون کو کارنامہ پبلشر کی صاحب امتیاز مہدیہ مستغنی یزدی،مطبوعات کارنامہ کے مرحوم انچارج، محمد زہرائی کے فرزندوں ماکان اور روزبہ زہرائی کی موجودگی میں، دسویں نشست بدھ، ۲۷ جون کودوبارہ کارنامہ پبلشر کی صاحب امتیاز مہدیہ مستغنی یزدی،مطبوعات کارنامہ کے مرحوم انچارج، محمد زہرائی کے فرزندوں ماکان اور روزبہ زہرائی کی موجودگی میں خانہ کتاب فاؤنڈیشن کے اہل قلم سرا میں منعقد ہوئیں۔

اسی طرح "کتاب کی زبانی تاریخ" کی ابتدائی نشستوں کا مرحلہ سن ۲۰۱۴ء کے وسط سے سن ۲۰۱۵ کی گرمیوں تک جناب ہمت نصر اللہ حدادی کی کوششوں سے خانہ کتاب فاؤنڈیشن کے اہل قلم سرا میں منعقدہوا۔ ان نشستوں سے کا نتیجہ "کتاب کی زبانی تاریخ" کے عنوان سے حاصل ہونے والی وہ کتاب ہے جو ۵۶۰ صفحات پر خانہ کتاب فاؤنڈیشن کی طرف سے اشاعت ہوئی ہے



 
صارفین کی تعداد: 3588


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔