خوزستان کے جوانوں کے ایک گروہ کی سوانح حیات کتاب بن گئی

اہواز کی جزائری مسجد کے لوگوں کے واقعات

محمد علی فاطمی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-8-16


کتاب "دین: خاطرات بچہ ہای مسجد جزایری اہواز" (دین: اہواز کی جزائری مسجد کے لوگوں کےو اقعات) علی مسرتی کی کوشش سے تالیف ہوئی اور سن  ۲۰۱۷ ء میں آرٹ گیلری  کے صوبائی امور میں ثقافتی اور مطالعاتی مرکز اور سورہ مہر پبلیشر نے اسے کتابوں کی دوکانوں کی طرف روانہ کیا۔

۵۷۵ صفحات کی یہ کتاب چار فصلوں میں تالیف ہوئی ہے۔ ہر فصل کا خاص جزئی عنوان ہے جو اُس فصل میں بیان شدہ واقعات سے لیا گیا ہے اور اُن میں سے کچھ عناوین اس طرح کے ہیں: کالا بدھ، صوبہ خوزستان کی انجمن اسلامی طلاب کا پہلی صوبائی  اجلاس، اہواز یونیورسٹی میں ثقافتی انقلاب رونما ہونے کے واقعات، منصور معمار زادہ کی شہادت، سوسنگرد کا دوسرا محاصرہ  اور اصغر گندمکار  و رضا پیرزادہ کی شہادت، فارسیات کا محاذ، ہویزہ کا محاذ، ہویزہ کی دلاوری: ۴، ۵ جنوری ۱۹۸۱ء، سوسنگرد کا محاذ، امام مہدی (عج) آپریشن، امام علی (ع) آپریشن، حسین بہرامی اورجواد داغری کی شہادت، مدرسہ  علمیہ امام خمینی، طریق القدس آپریشن، فتح المبین، آپریشن، بیت المقدس آپریشن،  خرم شہر کا آزاد کرانا، رمضان آپریشن،  نصرت پوشیدہ کیمپ  کی تشکیل، خیبر آپریشن، بدر آپریشن، آٹھواں و الفجر آپریشن، کربلائے چار آپریشن، کربلائے پانچ آپریشن، مسجد جزائری کے شہدا کی تعداد،  جیسا کہ اس کتاب میں ناموں کی فہرست نہیں ہے، کتاب کے شروع میں فہرست کی جگہ ان عناوین نے لے لی ہے جو کتاب میں موجود تحریر کے مطالب کو پہلی ہی نظر میں ایک حد  تک واضح کرتی ہے۔

خوزستان کی آرٹ گیلری میں صوبائی امور کے ثقافتی اور مطالعاتی مرکز نے اس کتاب پر ایک اشارہ کیا ہے جس سے اس کتاب کے پیدائشی جغرافیہ کا پتہ چلتا ہے: "تاریخی داستان – سن  ۱۹۷۹ء میں  اسلامی انقلاب تک رونما ہونے حادثات اور تبدیلیوں میں ایک اہم اور با اثر مسجد کی ڈاکومنٹری ، انقلاب کی کامیابی کے واقعات اور  اہواز میں مسلط کردہ جنگ اور انقلابی  و فداکار جوانوں  کا کردار۔" علی رضا مسرتی نے بھی مقدمہ میں لکھا: "جزائری مسجد کے لوگوں  کے واقعات ایک معتبر داستان ہے کہ جس کے مناظر کا میں خود راوی ہوں اور جہاں میں موجود نہیں تھا لیکن  مجھے کوئی دلچسپ واقعہ ملا، وہاں میں نے بہت زیادہ تحقیق اور انٹرویو کئے اور میں نے وہاں پر موجود لوگوں  کے بارے میں بہت امانت داری سے نقل کیا ہے۔ "

ہم کتاب کے مقدمہ میں ہی متوجہ ہوجائیں گے کہ مسجد جزائری شہر اہواز کے کس نکتہ پر واقع ہے اور ہم واقعات کے بیان کے ساتھ اُس کا تاریخچہ پڑھیں گے۔ کتاب کی پاورقیوں کا آغاز مقدمے ہی سے شروع ہوجاتا ہے جس میں مختصر سوانح حیات اور مطالب سمجھانے کیلئے توضیح دی گئی ہے۔

کتاب کی پہلی فصل کی داستان کا آغاز  ۱۹۷۷ء کی گرمیوں کے ایک دن سے ہوتا ہے جہاں قاری مسجد میں ہونے والی سرگرمیوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ فصل کے ابتدائی صفحات پر ہمیں ایک حسین پناہی نامی – جو بعد میں شاعر، مؤلف، ہدایت کار اور اداکار کی حیثیت سے پہچانے گئے -  شخص سے ملے گا؛  تحریر کے مطابق اُن ہی دنوں میں وہ مسجد جزائری کی لائبریری کا انچارج بن جاتا ہے۔

دوسری فصل کے آخر تک بیان ہونے والے واقعات پر انقلاب اسلامی کی کامیابی تک رونما ہونے والے واقعات کا اثر ہے۔ ان واقعات کے عمل میں، جزائری مسجد اور اُس کے جوانوں  کا کردار اور اُن دنوں اہواز میں ہونے والے واقعات بیان ہوئے ہیں کہ جو اہواز میں انقلاب اسلامی  کی تاریخی روایت شمار ہوتی ہے ۔ اس طرح آگے چل کر اور ایران کے خلاف عراق کی مسلط کردہ جنگ کے شروع ہونے تک، انقلاب کی کامیابیوں کے ابتدئی سالوں  میں ہونے والے واقعات کی نسبت اس مسجد کی سرگرمیوں کی وضاحت دی گئی ہے۔

اسی کے ساتھ، راوی مسجد کے انقلابی لوگوں کی سرگرمیوں کے علاوہ اس فضا سے باہر اور اہواز شہر کی باتوں کو بھی درمیان میں لاتا ہے  او ر ان دنوں میں ملک پر اثر انداز ہونے والے واقعات کا جائزہ لیتا ہے۔ ان دونوں چیزوں کو ساتھ لیکر چلنے کی وجہ سے درحقیقت قاری کو بعض صفحات پر ان دنوں اہواز کی تاریخ کا سامنا ہوتاہے۔ بہت سے نام جو متن میں دکھائی دے رہے ہیں، چاہے وہ افراد کے نام ہیں یا گروہوں کے، کتاب میں اس ضرورت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کاش کتاب میں ناموں کی فہرست موجود ہوتی تاکہ پڑھنے والوں خاص طور سے تاریخی محققین  کو اپنی طرف زیادہ جلب کرتی۔ اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ میں بعض ناموں، نکات اور ان کے بارے میں بیان ہونے والے  واقعات کی شہرت، شخصی فہرست ہونے کی اہمیت کو یاد دلا رہی ہے۔

دفاع مقدس کے واقعات اور اس بارے میں راویوں کی جمع کی ہوئی باتیں صفحہ ۱۸۵ سے شروع ہوتی ہیں۔ اس کے بعد دوسرے راویوں کے واقعات شروع ہوتے ہیں، چونکہ مسجد جزائری ملک کے جنوبی جنگی محاذ کے نزدیک ہے اور اہواز اب ایک جنگی شہر بن چکا ہے۔ جنگ کے ابتدائی ایام میں واقعات کی کمی،یہاں سے کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اس کے بعد اہواز کی جزائری مسجد کے لوگ خوزستان صوبے کی حدود میں تخلیقی کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اُس پیدائشی سرٹیفکیٹ سے جو پہلوی حکومت سے جدوجہد کے سالوں میں اُن کے لئے بنا تھا، آہستہ آہستہ بہت مؤثر ہوتے جا رہے تھے: "مشہور تھا کہ رضا پیر زادہ عراقیوں کے اتنا قریب چلا جاتا کہ اُن کے ٹینکوں کا نمبر بھی دیکھ لیتا۔ یہ بات شاید سن  ۱۹۸۰ کے  اکتوبر، نومبر کی ہے جب پہلے انٹیلی جنس گروپ  کی بنیاد رکھی گئی۔

روایات میں جن جزئیات کا ذکر کیا گیا ہے وہ قابل توجہ ہیں۔ کیونکہ خوزستان میں ہونے والے دشمن کے حملے کے بارے میں اپنے مخصوص دفاع کی عکاسی کرتیں ہیں۔ اگر  اس کتاب کی اینفو  گرافی (یعنی مخاطب کو تصاویر، ٹیبل،ڈائی گرام سے سمجھانا) بنائی جائے، تویہ جزئیات چاہے وہ لوگ ہوں، داستانیں ہوں، یا راستے ہوں، خود کو  نمایاں کریں گی۔ البتہ ہم اس بات کو بھی نہیں جھٹلا سکتے کہ ابھی بہت ساری تاریخی اور فوجی معلومات دفاع مقدس اور مختلف جنگی دستاویزات کی بنیاد پر منظر عام پر آئی ہیں؛ کبھی اس طرح کی روایات کا اس کی کتاب میں موجود معلومات کے ساتھ مقایسہ، بہت سی روایتوں کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے اور جزئیات جمع کرنے کے انگیزے کو مزید بڑھاوا دیتا ہے۔ اسی طرح بعض روایتوں میں معلومات کا اضافہ ہونے کی وجہ سے اُن روایتوں کی تصحیح اور وضاحت کا باعث بنتا ہے۔

(دِین) کتاب کے نام سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اہواز کی مسجد جزائری کے شہیدوں اور رزمندوں کے دینی فریضے کے بارے میں پہلی کتاب ہے ۔ (اسناد اور کتاب کے آخر میں موجود تصاویر سے شہیدوں کی تعداد ۱۱۷ افراد بتائی گئی ہے۔) ایک دوسری نگاہ سے یہ کتاب ایران کی مساجد میں سے ایک مسجد کا تاریخچہ بیان کر رہی ہے جو خاص اور تاریخی جغرافیہ پر موجود ہے۔ ایک اور منظر سے ایسے جوانوں کی سوانح حیات ہے کہ انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس نے اُن کی عمر اور تجربہ میں اضافہ کیا اور جس کے شہید تاریخ میں زندہ و جاوید ہوگئے۔

اس کتاب کے مخاطبین کے بارے میں تحریر کیا  جاسکتا ہے: اس جغرافیہ کے رہنے والے لوگ کہ  کتاب کی تحریر جن سے متعلق ہے، وہ پہلے لوگ ہیں۔ ایسے خوزستانی جن کا صوبائی مرکز اہواز ہے ، کتاب میں موجود شخصیات کو نزدیک سے پہچانتے ہیں۔ زیادہ تر مخاطبین وہ لوگ ہیں جن کے پاس جنگ اور دفاع مقدس کے واقعات ہیں اور خوزستان اُن کے لئے جنگ میں درگیر ہونے والا واقعات سے بھرپور صوبہ ہے۔

کتاب کی موجودہ حالت سے پتہ چل رہا ہے کہ متعلق افراد نے مناسب فضا اور ملک میں دفاع مقدس کی کتابوں کی پیدوار سے متعلق جو موجودہ وسائل ہیں، اُ س سے پیش قدمی کی ہے، لیکن ان تمام اچھائیوں کے بیان کے ساتھ  بہتر ہوگا کہ اس کتاب پر تنقیدی نگاہ بھی ڈالی جائے، خاص طور سے ایسے خوزستانی جو دفاع مقدس میں مشہور کمانڈر اور مؤثر تھے کم نہیں ہیں۔اُن لوگوں کی نگاہ میں اور اُن لوگوں کی نگاہ میں جو جنگی اسناد کی روایت میں ماہر ہوگئے ہیں، وہ لوگ اس کتاب پر تنقیدی نظر ڈالیں۔ حقیقت میں اُنھیں یہ سوچنا چاہیے کہ تحریر کو کس طرح آئیڈیل ہونا چاہیے اور یہ اُس سے کتنی دور ہے؟ اس طرح سے اس کتاب کی مفید عمر توقعات سے بڑھ جائے گی اور لوگوں کی رائے اُس کی وسعت میں اہم کردار ادا کرے گی۔ دفاع مقدس کی کتابوں (چاہے عام ہو یا خاص) سے دلچسپی رکھنے والوں کی آرزو یہ ہے کہ اس طرح کی کتابوں کی تصنیف و تالیف میں انصاف کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ، اس طرح کی تحریر کو زیادہ امتیازات  دینا چاہیے، کیونکہ اس تحریر کا موضوع اعلیٰ امتیاز کا حامل ہے، کتنا اچھا ہوگا کہ اس کو بھی اس حد سے نزدیک، زیادہ نزدیک کرکے پیش کیا جائے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3715


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔