زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – سترہواں حصہ

جسمانی حرکات و سکنات کا استعمال (۱)

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-8-13


گذشتہ صفحات میں یہ بات بیان ہوچکی کہ زبانی تاریخ کے انٹرویو لینے والے کو رابطہ برقرار کرنے کی مہارتوں سے آگاہ ہونا چاہیے اور ایک اچھے انٹرویو کی خاطر انہیں کام میں لائے۔ انہی مہارتوں میں سے ایک مہارت، جسمانی حرکات و سکنات کی ہے۔ ابھی ہم جسمانی حرکات و سکنات کے حوالے سے کچھ ایسے موارد کا ذکر کریں گے جنکا انٹرویو کے آخر تک خیال رکھنا ضروری ہے:

۱۔ ابتدائی تاثرات (First Impressions)

عام طور پر انٹرویو میں انٹرویو دینے والے پر ملاقات کے ابتدائی تاثرات زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ انٹرویو لینے کو متکبرانہ انداز میں یا ہاتھ جیب میں ڈال کر انٹرویو روم میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ادب اور ملنساری کے ساتھ آئے اور انٹرویو دینے والے کے سامنے بالکل سیدھا کھڑا ہوکر اس سے ہاتھ ملائے۔ ایسا کرنے سے دوستانہ فضا قائم ہوگی۔ ہاتھ ملانے سے خود اعتمادی اور بے تکلفی میں اضافہ ہوگا اور یہ لمحے یادگار رہ جائیں گے۔ اور پورا ہاتھ ملائیے، گرمجوشی سے مصافحہ کیجئے اور ہاتھ کو ضرورت سے زیادہ مت دبائیے۔

۲۔ نگاہ کا انداز

مصافحے کے وقت آنکھیں چار کیجئے اور انٹرویو کے آخر تک نگاہوں کے اس انداز کو باقی رکھیں لیکن ٹکٹکی مت لگائیں، مسلسل دیکھتے رہنے سے پرہیز کریں۔ ورنہ سامنے والے کو بے چینی یا پریشانی لاحق ہوسکتی ہے پس ساتھ ساتھ نگاہ بدلتے بھی رہیں۔ اسی طرح سے زیادہ اِدھر اُدھر دیکھنے سے بھی اجتناب کریں۔ انٹرویو دینے والے کے باقی اعضاء بدن کو دیکھنے سے پرہیزں کریں۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے اسے آپ کی بے توجہی سمجھا جائے (جیسے وہ سپاہی جس کا بازو یا پاؤں جنگ میں کٹ گیا ہو)۔ اسی طرح انٹرویو  کے دوران گھڑی پر نگاہ مت ڈالیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انٹرویو کا وقت ختم ہوگیا ہے یا پھر یہ کہ آپ تھک گئے ہیں۔

۳۔ بیٹھنے کا انداز

انٹرویو کے لئے پرسکون انداز میں بیٹھیں۔ ایسا کرنے سے آپ قدرتی ماحول میں بہتر انداز میں سوچ سکتے ہیں لیکن پاؤں پھیلا کر مت بیٹھیں ورنہ بے احترامی یا عدم سنجیدگی کا مظاہرہ ہوگا۔ جب میزبان آپ کو بیٹھنے کا کہے تو با وقار انداز میں بیٹھیں۔ پھلانگنے سے پرہیز کریں، بالکل سیدھے اور چوکس انداز میں بیٹھیں کیونکہ یہ گفتگو کے آداب میں سے ہے اور آپ کی طرف سے آمادگی کی علامت ہے۔ پاؤں کے اوپر پاؤں رکھنا بھی مناسب نہیں۔ اور بہتر ہوگا کہ انٹرویو کے دوران بھی کبھی آپ آگے کی طرف جھکیں کیونکہ ایسا کرنے سے یہ ظاہر ہوگا آپ بھرپور توجہ اور یکسوئی کے ساتھ سامنے والے کی گفتگو سن رہے ہیں لیکن اس بات کا خیال رہے کہ ضرورت سے زیادہ مت جھکیں، ممکن ہے سامنے والا اسے گستانی سمجھے۔ اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے افراد اور خصوصاً جنس مخالف سے انٹرویو لیتے وقت مناسب فاصلے کا خیال رکھیں کیونکہ حد سے زیادہ قریب ہونے پر آپ کو منفی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

۴۔ ہاتھوں کی حرکات

ہاتھوں کو تیزی سے حرکت نہ دیں اور یہی مناسب ہے۔ مہمان کی  گفتگو کے دوران بھی ہاتھوں کو حرکت میں نہ لائیں۔ ایسا کرنے سے مہمان فکری تمرکز کے ساتھ بات نہیں کر پائے گا۔ ہاتھوں کی حرکات و سکنات جب تک بات کو سمجھانے میں معاون ہوں تب تک تو درست ہے لیکن حرکات کے انداز اور مقدار کو بہرحال مدنظر رکھتا ہوگا۔

یہ نقطہ بھی قابل ذکر ہے کہ مہمان گفتگو کے وقت آپ کے ہاتھ کی مناسب حرکات سے پرسکون ہوں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنا ہاتھ سینے پر رکھیں گے تو انٹرویو دینے والے کے لئے یقیناً یہ ایک انوکھا عمل ہوگا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3793


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔