۲۸۲ ویں یادوں بھری رات میں کہے اور سنے جانے والے واقعات

پائلٹ حسین لشکری اور مرصاد آپریشن کی یادیں

مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-8-12


ایرانی زبانی تاریخ کی رپورٹ کے مطابق، دفاع مقدس کی یادوں بھری رات کے سلسلہ کا ۲۸۲ واں پروگرام، جمعرات کی شام ۲۷ جولائی ۲۰۱۷ء کو  آرٹ گیلری کے سورہ آڈیٹوریم  میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں سردار اسد اللہ ناصح، منیژہ لشکری، پائلٹ حسین لشکری کی بیگم، پائلٹ احمد مہر نیا اور  پائلٹ فرشید اسکندری نے اپنے واقعات سنائے۔

بھرپور انداز سے حملہ اور ایک مہینے میں دشمن کا صفایا

پہلا واقعہ سردار اسد اللہ ناصح نے سنایا جو سن ۱۹۸۸ء میں مرصاد  آپریشن میں فل کمانڈ کے نائب تھے۔ انھوں نے ۱۹۹۳ء  میں اسی سلسلے  میں ہونے والے بارہویں پروگرام میں  بھی  واقعات سنانے کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ سردار ناصح نے کہا: وہ واقعہ جو میں ۱۹۹۳ء میں بیان کرچکا ہوں وہ مرصاد آپریشن سے پہلے کا تھا۔ سب سے پہلی بات جو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں پیچھے رہ گیا تھا اور میں "اللہ اکبر" چھاؤنی چلا گیا تھا۔ وہاں پہنچا تو وہاں پر موجود کچھ فوجی افسروں نے کہا تم فوراً کرمانشاہ جاؤ، کیونکہ وہاں تمہاری ضرورت ہے۔  تمام فوجی کمانڈرز حتی نجف ہیڈ کوارٹرز کے سربراہ شہید نور علی شوشتری بھی جنوب میں تھے۔ اور حقیقت میں کسی بھی ہیڈکوارٹر اور سپاہ کا  کوئی کمانڈر بھی کرمانشاہ میں نہیں تھا اور مجھے اس حقیقت کا علم نہیں تھا۔ کیونکہ میں گذشتہ ۴۸ گھنٹے سے وہاں نہیں تھا۔ خیر، جب میں کرمانشاہ پہنچا تو وہاں پر موجود افراد مجھے زندہ اور صحیح سلامت دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور مجھے جلد از جلد امام حسین (ع) ہسپتال میں لگے کیمپ میں پہنچنے کا کہا،  کیونکہ جناب ہاشمی رفسنجانی جو اُس وقت چیف آف آرمی اسٹاف کے نائب تھے،  وہاں تھے۔

میں، حمزہ ہیڈکوارٹر کے نائب اسماعیل احمدی مقدم، سپاہ کے چوتھے ہیڈکوارٹر کے سربراہ ناصر شعبانی اور سپاہ  کمانڈنگ دفتر کے جانشین  اکبر دانشیار ہم سب اجلاس میں موجود تھے۔ ہم یہ اندازے لگا رہے تھے کہ عراقی فوج ہم پر کس طرح کے حملے کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا نقطہ نظر ایک نہیں تھا۔ میں نے اپنا جو اندازہ اور خیال پیش کیا وہ یہ تھا کہ عراق نے اپنا ایک زرہ پوش ڈویژن کرمانشاہ کی طرف بھیجا ہے۔ جبکہ آقائے ہاشمی کا کہنا تھا کہ ڈویژن نہیں، بریگیڈ بھیجی ہے۔ میرے خیال  کی اساس وہ مشاہدات تھے جو عراق کی طرف سے مغربی گیلان اور سرپل ذہاب میں پیش آئے تھے۔ اسی بنیاد پر میرا انداز یہ تھا کہ عراق نے کاروائی جاری رکھنے کے لئے ایک زرہ پوش ڈویژن روانہ کیا۔ شام تقریباً پانچ بجے کا وقت تھا۔ اسی موضوع پر تبادلہ خیال جاری تھا کہ یہ اطلاع ملی کہ عراقیوں کا ایک فوجی یونٹ ہماری جانب اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ فوجی نقطہ نظر سے یہ حیران کن بات تھی کہ کوئی فوجی یونٹ بغیر کسی حفاظتی انتظام کے اور وہ بھی دن دھاڑے اوپرآئے ۔ہم شک میں پڑ گئے تھے کہ کیا یہ واقعی عراقی ہیں یاکوئی اور لوگ۔ چھ بج کر دس منٹ  پہ ہمیں یہ اطلاع دی گئی وہ لوگ "کرند" پہنچ گئے ہیں اور منافقین ہیں۔

عراقیوں نے جنوبی اور مغربی جنگی محاذوں پر جو حکمت عملی اختیار کی ہوئی تھی اس کی وجہ سے ایرانی افواج کی تمام تر توجہ ملک کے جنوبی علاقوں کے دفاع پرمتمرکز تھی اور  فوج جنگ کے اختتام تک غیر منظم تھی۔ اگر وقت کو مدنظر رکھیں تو معلوم ہوگا کہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۸ء کو ہم نے معاہدہ نمبر ۵۹۸ قبول کیا اور ۲۵ جولائی کو یہ اعلان ہوگیا کہ منافقین نے کاروائی شروع کردی ہے۔ ہماری طرف سے اس معاہدے کو قبول کرنا، دشمن نے اپنی خوش فہمی اور خیال باطل میں یہ سمجھا کہ ایران کو شکست ہوچکی ہے۔ اب انھوں نے جنگ کو ہتھیار کے طور پر  استعمال کیا تاکہ اپنی تمام تر مشکلات کو چھپا سکیں۔ اس کے بعد انھوں نے بین الاقوامی دعوت دیکر مختلف ممالک سے امداد اکٹھی کرنا شروع کی۔ تقریباً پانچ ہزار  افراد کو اکٹھا کرکے مختلف بریگیڈز میں انہیں مسلح کردیا۔  سعودی عرب سے پیسہ لیا اور برازیل اور دیگر ممالک سے اسلحہ خریدا۔ اب ان کی منصوبہ بندی یہ تھی ۴۸ گھنٹوں کی مختصر مدت میں تہران تک پہنچ جائیں! عراق نے سرپل ذھاب سے تنگہ کل داوود تک کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ آقائے ہاشمی کے ساتھ ہونے والی اُسی میٹنگ کے دوران لرستان کے ۵۷ ویں ڈویژن کے کمانڈر روح اللہ نوری نے فون  کرکے بتایا کہ میں یہاں پہنچ چکا ہوں  اور یہاں  حالات ٹھیک نہیں ہیں فوراً مزید فوج روانہ کریں۔ یہ بھی ہم آہنگ کیا انکی اپنی ہی ایک بٹالین وہاں اُن کی مدد  کے لئے جائے۔ آقائے صادق محصولی جو یونٹ کمانڈر تھے اور ان کے پاس چند بٹالینز تھیں، نے آقائے ہاشمی کے حکم پر ان بٹالینز کو مدد کے لئے روانہ کردیا۔

منافقین کے سلسلے میں تو بہت ہی عجیب و غریب واقعات پیش آئے ہیں جب آقائے ہاشمی کو پتہ چلا کہ منافقین ہیں اور   وہ کرند پر قبضہ کرنے کے بعد اسلام آباد کا رُخ کر رہے ہیں، تو انھوں نے مجھے بھی روانہ ہونے کا حکم دیا۔ بدر  ڈویژن میں ایسے عراقی سپاہی تھے جو ہمارے حق میں عراق کے خلاف لڑ رہے تھے۔ ان کا ایک دستہ جنوب میں تھا۔ اور انھوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت فوجیوں کو بس میں بٹھا کر جنوب روانہ کیا۔ حسن آباد کے  صحرا میں ان کا آمنا سامنا ہوگیا۔ انصار ہمدانی ڈویژن کی انٹیلی جنس سے وابستہ دو افراد  کے بقول یہ بہت عجیب منظر تھا۔ عراق کے وہ مجاہدین جو ہمارے لئے لڑ رہے تھے، صدام کے حق میں لڑنے والے منافقین کے سامنے کھڑے تھے۔ وہاں ایک زبردست جنگ شروع ہوگئی اور یہی جنگ ان کی روانگی میں اچھی خاصی تاخیر کا باعث بنی۔ خلاصہ یہ کہ منافقین کرند پر قابض ہوگئے اور اس قبضے کے بعد انھوں نے اسلام آباد کا رُخ کیا۔ انھوں نے اپنی منصوبہ بندی کے مطابق تقریباً اچھی پیش قدمی  کرلی تھی۔  انھوں نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ رات آٹھ بجے تک اسلام آباد اور پھر رات بارہ بجے کرمانشاہ میں ہوں گے اور وہاں ڈیموکرسی جمہوریت کا اعلان کریں گے۔ وہ لوگ پیر کو نکلے تھے اور انہیں بدھ کے دن ظہر یا عصر کےو قت تہران پہنچنا تھا۔ انھوں نے ہر جگہ کے لئے ایک کمانڈر معین کردیا تھا۔  میں نے دسویں  کربلا آپریشن میں  ادارہ انتظامات سبسڈی کے سابق سربراہ جناب مرادی جو  نبی اکرم (ص) بریگیڈ میں میرے نائب تھے،  کے ساتھ بات کی۔ طے پایا کہ فوجیوں کو ابوذر چھاؤنی لے جایا جائے۔ تاکہ عراقی حملے کی صورت میں ہمارے پاس فوجی موجود ہوں۔  فوجی دلاوروںکی بٹالین فرنٹ پر تھی۔ اور میں انہیں احتیاطاً ابوذر چھاؤنی لے گیا۔  جب منافقین آئے تو فوجی ہرج ومرج کا شکار ہوگئے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو اسلام آباد  کے پیچھے پہاڑی راستوں سے لائے تھے۔ ایک بہت دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجی دلاوروں کی ایک بٹالین میں خود اسلام آباد کے مقامی فوجی شامل تھے۔ بٹالین کے کافی لوگوں نے دشمن کو شہر سے بھگانے کے لئے آپریشن میں شرکت کی اور ان میں سے بہت سے افراد اپنی ہی گلی کوچوں میں شہید ہوگئے۔ "

سردار  ناصح نے مزید کہا: "منافقین نے اسلام آباد تک بہت اچھی منصوبہ بندی  کی ہوئی تھی، لیکن دیگر منصوبوں میں انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ لبریشن آرمی اسٹاف کے چیف محمود عطائی نے موجودہ تمام بریگیڈیز کے سربراہوں سے کہا ہوا تھا: میں آپ سب کو اطمینان دلاتا ہوں جب تک آپ کے ٹینکوں کی گھن گھرج ایرانی سڑکوں سے سنائی دیتی رہے گی لوگ آپ کے استقبال کے لئے آتے رہیں گے!"  لیکن جب لوگوں کو حملہ کی اطلاع ملی تو انھوں نے شہر خالی کرنے کے چکر میں باہر نکلنا شروع کردیا۔ ہم شہر کے لئے جتنی بھی فورسز بھیج رہے تھے ان کی لوگوں سے مڈبھیڑ ہوئی اور ٹریفک جام ہوگیا تھا۔ میں کرمانشاہ میں سپاہ کے دفتر گیا اور وہاں گورنر سے ملاقات کی۔  میں نے ان سے کہا کہ جوانوں کو جنوب بھیجنے کیلئے ہمیں دس گاڑیاں فراہم کی جائیں۔ سردار شوشتری جب جنوب میں تھے اور ابھی نجف کیمپ کی کمانڈ ان کے پاس نہیں تھی، تو انھوں نے عارضی طور پر فوج اور سپاہ کے مابین ہم آہنگی کے لئے جناب احمدی مقدم کو حکم جاری کیا تھا اور پھر اس کے بعد دوسری رات شہید صیاد پہنچے اور اس وقت ٹھیک رات ایک بجے چارزبر کے مقام پر ہمیں منافقین کی پوزیشنوں کا پتہ چل گیا۔  لوگوں کا ہجوم مشرق کی طرف رواں دواں تھا۔ اس زمانے میں بہت سے ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ اس زمانے میں ان منافقین کی حالت داعشیوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کچھ افراد کو پٹرول پمپ کے نزدیک، پیچھے ہاتھ  باندھ  کر پھانسی دیدی تھی۔ اسلام آباد کے ہسپتال میں زخمیوں کو ہسپتال سمیت زندہ آگ میں جلا دیا تھا اور جب وہ چارزبر کے مقام پر پہنچے تو سب کچھ واضح تھا۔ لوگ بھی وہیں سے گزرے تھے۔ ہمارے جوانوں نے وہیں پہاڑ کے دامن میں پوزیشن سنبھالی۔ دامن کوہ کے پیچھے ایک ٹھکانہ تھا جو دراصل ہمدانی جوانوں کی انصار بریگیڈ کی چھوڑی ہوئی ایک بٹالین تھی۔ جس نے پہاڑی کے دامن کے دائیں طرف پوزیشن سنبھالی ہوئی تھی دوسرے گروپس جن کے فوجی پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی روانہ ہوئے۔ میں وہیں تھا اور آنے والے  گروہوں اور بٹالینز کو مسلح کرنا میری ڈیوٹی تھی۔

انھوں نے بیان کیا: "مرصاد آپریشن میں فوجیوں کے بھیجنے کا مسئلہ بہت عجیب تھا۔ جب امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ لوگ محاذوں پر جائیں، جنگ کی طولانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بہت سے  لوگوں نے جنگ میں شرکت کیلئے محاذ کا رُخ کیا۔ ایسے لوگ آئے جنہوں نے اُس دن تک اسلحے کو ہاتھ میں نہیں لیا تھا۔  وہاں ایک وزیر آئے ہوئے تھے  جو کہتے:  کوئی کام بتاؤ جسے میں انجام دوں۔ جیسا کہ وہ وزیر راستے میں تھا اور اُس کے پاس کام انجام دینے کے وسائل بھی تھے، میں نے کہا کرمانشاہ  کے اُس طرف تک ایک فوجی ستون تشکیل دیا جائے تاکہ اگر سامنے والے ستون کو نقصان پہنچے تو ہمارے پاس دوسرا یا تیسرا ستون ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس اُنہیں دینے کیلئے اسلحہ تک نہیں تھا۔ اس آپریشن میں اصلاً افراد کی کمی کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ مسئلہ اُن کی کمانڈ اور اُنہیں اسلحہ دینے کا تھا جو ہمارے پاس نہیں تھا۔ ہم نے اپنے فوجیوں کو بلانے کیلئے دو، تین دن کی مہلت مانگی۔ مثلاً ۲۷ واں حضرت رسول (ص) ڈویژن تہران سے اراک کے لوگوں کے ساتھ آیا اور انھوں نے منافقین کے بیچوں بیج ایک محاذ کھولا۔ حقیقت میں اصلی آپریشن سے پہلے، ہماری کئی جگہ جھڑپیں ہوئیں۔ امیر المومنین (ع) ڈویژن کے افراد ایلا م سے آئے اور خود اسلام آباد کے سپاہی بھی موجود تھے۔ شہد صیاد شیرازی کا بھی مرصاد آپریشن میں کلیدی کردار تھا۔ جب وہ آئے، برّی افواج کے طیاروں نے بھی اور فضائی افواج کے طیاروں نے بھی بمباری شروع کردی۔منافقین کی بہت سی گاڑیوں کو اُڑانے میں ہیلی کاپٹروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بہت سی جگہوں پر شہید صیاد شیرازی خود  ہیلی کاپٹروں پر بیٹھ کر جاتے۔ علاقے میں میری سربراہی کو مدنظر رکھتے ہوئے طے پایا کہ آپریشن کی رات، کچھ فوجیوں کے لے جاکر منافقین کے امدادی راستوں کو بلاک کردیا جائے۔ راستہ مشخص اور واضح نہیں تھا۔ چھاؤنی دالاہو کی بلندیوں پر تھی۔ میں روح اللہ ڈویژن کی ایک بٹالین کے ساتھ تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم بلندی کی طرف بڑھتے ہیں  اور شہادت بٹالین کے افراد کو بھی اپنے ساتھ لے چلتے ہیں اور دو بٹالین کے ساتھ، منافقین کی مرکزی جگہ اور سرپل ذھاب کے راستے کو  بند کردیتے ہیں۔ہمیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے اوپر لے جایا گیا، لیکن راستے میں  گہری وادیاں ہونے  کی وجہ سے ، ہم لوگ آپریشن والی رات صحیح وقت پر نہیں پہنچے۔ ہم جب پہنچے تو آپریشن ختم ہوچکا تھا اور اُجالا نکل آیا تھا۔ منافقین جاچکے تھے۔

ہم نے اصلی ضرب ۲۷ جولائی کو اصلی آپریشن میں لگائی اور اُس کے بعد صفایا کرنے میں ایک مہینے کا عرصہ لگا۔ اس ایک مہینے کے عرصے میں ہم نے اُن کے ۱۲۰ افراد قتل کئے  اور قیدی بنائے، لیکن خدا کے لطف و کرم سے ہمارا صرف ایک آدمی زخمی ہوا۔ پندرہویں دن جب تہران سے شہداء کے گھر والے آئے ہوئے تھے، ہم نے منافقین میں سے ایک مرد اور ایک خاتون کو پکڑا۔ مرد مارا گیا اور ہم خاتون کے لے آئے۔ شہداء کے گھر والے اُسے دیکھنا چاہتے تھے اور وہ راضی نہیں تھی۔ ہم نے اس شرط پر کہ اُس کے ساتھ کچھ نہیں کریں گے اُن لوگوں کو اُس سے ملنے کی اجازت دیدی۔  جب وہ ایک دوسرے سے ملے تو انھوں نے اُس سے پوچھا: کیا تم ایرانی ہو، تم نے کس طرح ایران کے خلاف اقدام کیا؟! جنگ میں پیش آنے والے واقعات میں، ہم نے خدا کے وجود کو واضح طور سے حس کیا۔ ممکن نہیں تھا کہ ہم ایک دم منافقین کی اتنی بڑی تعداد کو نقصان پہنچائیں؛ اُن کے پانچ ہزار لوگوں میں سے ۱۲۰۰ سے زیادہ قتل اور ۱۸۰۰ لوگ زخمی ہوئے تھے۔ دراصل اُن کے پاس اب کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ خدا نے انقلاب کی راہ میں خلوص کے ساتھ اپنی ہر چیز قربان والے کو اس طرح سے اجر عنایت کیا۔"

 

میرے وطن کا تاریخی ہیرو

دفاع مقدس کے ۲۸۲ ویں یادوں بھری رات کے پروگرام کی دوسری راوی، منیژہ لشکری تھیں۔ انھوں نے سن ۱۹۷۹ء میں پائلٹ حسین لشکری سے شادی کی۔ ایک سال چار مہینے ایک ساتھ زندگی گزاری اور اُس کے بعد ، منیژہ لشکری کے شوہر، ۱۸ سال تک صدامی فوج کی قید میں رہے۔ حسین لشکری سن ۱۹۹۹ء میں قید سے آزاد ہوئے اور سن ۲۰۰۹ میں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ منیژہ لشکری نے کہا: "حسین کی شہادت کے بعد والے سال میرے لئے سخت ترین سال ہیں، کیونکہ ہم نے اپنی زندگی کی شروعات میں جو ایک سال چار مہینے کا عرصہ ایک ساتھ گزارا تھا، اُس میں سے بھی تقریباً ہم سات یا آٹھ مہینے ایک دوسرے سے جدا رہے تھے اور میں اپنے بیٹے کی ولادت کی وجہ سے تہران میں اور وہ جنوب میں تھے۔ جن اٹھارہ سالوں میں میرے شوہر قید میں تھے، اُس زمانے کی سختیوں کو بیان کرنا بہت دشوار ہے، لیکن اُن تمام سختیوں کے باوجود، سن ۲۰۰۹ کے بعد کا عرصہ ہے جس نے میری کمر کو جھکا اور میری آنکھوں کو ضعیف کردیا ہے۔ اُس کے بعد سے میری روحانی اور جسمانی حالت بہت کمزور ہوگئی ہے۔ جس وقت وہ قید سے  رہا ہوکر واپس آئے، وہ بہت رنج و سختی جھیلے ہوئے مرد تھے اور اُن کا دل چاہتا تھا کہ بہت سے کام انجام دیں، لیکن نہیں کرسکتے تھے۔ وہ بہت سے کھانے کھانا چاہتے تھے پر نہیں کھا سکتے تھے، لیکن ان تمام حالات کے ساتھ میں اُن کے ساتھ خوش تھی۔ میرے شوہر بہت سختیاں اور رنج اٹھانے کے باوجود بہت خود دار تھے۔ جبکہ میں اُن کی سب سے محرم اور نزدیک ترین فرد تھی، وہ مجھ سے کچھ نہیں کہہ پاتے تھے۔ اُن کی صرف یہی کوشش ہوتی کہ میں پرسکون اور خوش رہوں۔ حسین نے بہت تنہائی کاٹی  اور دس سال تو وہ انفرادی سیل میں رہے۔ ایک عورت گھر میں جو سکون فراہم کرسکتی ہے میں وہ تمام سکون اُنہیں فراہم کرتی، لیکن اس کے باوجود بھی میں اُن کی مدد نہ کرسکی۔ خداوند متعال نے اُنہیں بہت ہی کم عرصے کیلئے اس دنیا میں دوسروں کیلئے عبرت بنا کر بھیجا۔  وہ میرے وطن کی تاریخ میں ایک ہیرو اور آئیڈل کے عنوان سے زندہ و جاوید ہیں۔ "

انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "قید کے زمانے میں حسین کو خوش کرنے والی چیز، میرا وہ خط تھا جو انہیں سن  ۱۹۹۵ء میں ملا۔ ایسا اُس وقت ہوا جب ریڈ کراس والے اُن کے قید میں رہنے سے آگاہ ہوئے۔ تقریباً ۱۶ سال اُنہیں ہماری کوئی خبر نہیں تھی۔ میں نے اُن کے لئے اپنی اور اپنے بیٹے کی تصویر بھیجی۔ آزاد ہونے کے بعد، ہم جب بھی اُس تصویر کو دیکھتے، وہ مجھ سے کہتے: جب میں نے زندان میں اس تصویر کو دیکھا، میں دو دن تک کچھ نہیں کھا سکا اور مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ جو لڑکا تین مہینے کا تھا، اب اُس کا قد اپنی ماں سے بھی زیادہ ہوگیا ہے۔ حتی جو تصویر ہم نے شادی کے بعد قزوین میں بنوائی تھی اُنہیں وہ بھی یاد تھی، لیکن میرے لئے اُس تصویر میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی اس لئے وہ مجھے یاد نہیں تھی؛ جبکہ قید کے زمانے میں خاص طور سے  جب وہ انفرادی سیل میں رہے، تنہا چیز جو حسین کی  خوشحال کا باعث تھی  وہ گزرے واقعات کو یاد کرنا تھا ۔ جب عراق نے حسین کی تصویر بھیجی، اُنھوں نے اُن کے لباس اور ظاہر کو اچھا دکھایا  تاکہ  دکھا سکیں کہ ہم قید میں اچھا برتاؤ کر رہے ہیں، لیکن جب ریڈ کراس والے واپس گئے، پھر وہی زندان اور وہی کھانا و ..."

منیژہ لشکری نے کہا: "میں ان سالوں میں اپنے عورت پن کو بھول چکی تھی۔ جب میں کبھی دوسری عورتوں کی طرف دیکھتی تو  اپنے آپ سے کہتی یہ لوگ مجھ سے کتنی مختلف ہیں۔ میں اُن کی طرح  نہیں سوچتی اور نہ اُن کی طرح زندگی گزارتی ہوں۔ اُن کے آزاد ہونے کے تقریباً تین یا چار مہینے بعد، میں نے اُنہیں سامان خریدنے کے لئے بھیجا۔ جب وہ واپس لوٹے تو میں نے دیکھا انھوں نے  کچے پھل خریدے ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا آپ نے پکے ہوئے پھل کیوں نہیں خریدے؟  جواب میں کہنے لگے میں نے سوچا  جتنا پھل کچا ہو، اتنا اچھا ہے۔ وہ قید میں رہنے کے بعد تبدیل ہوگئے تھے، مجھ میں بھی تبدیلی آ گئی تھی اور ہم دونوں بالکل مختلف سوچتے تھے، لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے میں کامیاب ہوگئے  اور ہمارے درمیان وہی محبت اور دلچسپی دوبارہ لوٹ آئی۔ میرا بیٹا ۱۸ سال کا تھا اور کالج میں اُس کا پہلا سال تھا جب اُس نے اپنے والد کو دیکھا۔ باپ نہ ہونے کی وجہ سے اُس کا چہرہ ہمیشہ غمگین رہتا تھا۔  شروع میں  اُنہیں ملنے میں بہت مشکل ہوئی، لیکن بعد میں آہستہ آہستہ صحیح ہوگئے۔ جب میرے نواسے نے اس دنیا میں قدم رکھا، اب میرے بیٹے کو باپ ہونے کی لذت کا احساس ہوا  جس کی وجہ سے اُن کے درمیان محکم رابطہ برقرار ہوگیا۔ ان آخری دنوں میں باپ بیٹا ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے تھے۔"

انھوں نے مزید کہا: "اُن کی غیر موجودگی میں، جب مجھے کوئی خبر ملتی تو میں اُن کی واپسی کی اُمید لگا لیتی،  لیکن جب کچھ عرصہ تک کچھ نہیں ہوتا تو میں دوبارہ نا اُمید ہوجاتی۔ یہاں میں اپنے مرحومین والدین کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں، کیونکہ اُن سالوں میں صرف یہی لوگ میرے مونس اور ساتھی تھے۔ ممکن تھا کہ میں اُن سالوں میں پریشان ہوتی، بد اخلاقی کرتی اور نا اُمید  ہوجاتی۔ لیکن میرے والد ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ  مجھ سے کہتے حسین واپس آئے گا۔ سن ۱۹۹۳ یا سن ۱۹۹۴ء میں میرے والد مکہ تشریف لے گئے، ایئرپورٹ پر خدا حافظی  کرتے ہوئے انھوں نے مجھ سے کہا: "میں خدا سے حسین کو لینے جا رہا ہوں۔" تقریباً چھ مہینے بعد حسین کا خط پہنچا۔"

 

مرصاد آپریشن میں فضائی فورسز کا کردار

اس کے بعد، پائلٹ احمد مہر نیا نے کہا: ۱۹۸۸ء کی گرمیوں میں، اُسی دن جب منافقین اسلام آباد کی طرف آئے، میں اپنی گاڑی پر دزفول چھاؤنی کی طرف جا رہا تھا۔ جب میں پہنچا، جناب عبد الحمید نجفی اور محترم علی آئینی کرمانشاہ کے سر فہرست پائلٹ کے عنوان سے دزفول چھاؤنی میں ڈیوٹی انجام دے رہے تھے، اُن دنوں ہمارے محاذوں پر حاکم حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، انھوں نے  منافقین پر پہلی پرواز کی۔ دزفول چھاؤنی سے آپریشن شروع ہوا اور جاری رہا۔  ہمدان کی فضائی چھاؤنی سے بھی ہمارے دوستوں نے  موقع پر فانٹوم  کے ذریعے شدید بمباری کی۔ ان سب کے ساتھ، فضائی افواج کے حمل و نقل سیکشن نے ایک بڑا آپریشن انجام دیا؛ ۲۴ گھنٹے کے اندر جنوب کے مختلف شہروں سے تازہ دم فوجی کرمانشاہ پہنچ گئے۔ یہ چھ ہزار افراد علاقے میں موجود ہمارے چار ہزار افراد سے ملحق ہوئے۔ مرصاد آپریشن برّی فوج کے طیاروں کی مدد اور امیر سرافراز اور شہید صیاد شیرازی کی سربراہی میں انجام پایا۔ دوسری طرف سے ہم منافقین کا پیچھا کرنے پر مجبور تھے کہ جب تک وہ ہماری سرزمین پر ہیں، جتنا ہوسکے ہمیں اُنہیں نقصان پہنچائے تاکہ اس آپریشن کا انتقام لیا جائے۔ اُس کے بعد بھی کچھ عرصے بعد ایک دفعہ،  سن ۱۹۹۶ء تک پرواز کرنے والے افراد جن میں، میں بھی شامل تھا، ہمیں جب بھی اطلاع ملتی کہ منافقین حملے کیلئے تیاری کر رہے ہیں، ہم ۱۶ طیاروں کا ایک بڑا گروپ لیکر جاتے اور اُن پر بمباری کرتے اور اصل میں بعد میں جو امنیت ہمیں حاصل ہوئی اور منافقینکی  سرگرمیاں روک گئیں، یہ اس طرح کی منصوبہ بندیوں کا نتیجہ تھا۔"

 

یہ بھی گزر جائیں گے ...

دفاع مقدس کے ۲۸۲ ویں یادوں بھری رات کے پروگرام کے تیسرے راوی، پائلٹ فرشید اسکندری تھے جنہوں نے صدام فوج کی قید  کے دس سالوں میں سے آٹھ سال کا عرصہ حسین لشکری کے ساتھ گزارا تھا۔ انھوں نے کہا: میں سن ۱۹۷۳ء سےشہید لشکری کے ساتھ ایک ہی دورے میں تھا،  پھر ہم ایک ساتھ امریکہ گئے اور وہاں بھی ایک بٹالین میں ساتھ تھے۔ امریکا سے واپس آنے کے بعد ہم نے دزفول میں ایک ساتھ ٹریننگ کورس کیا۔  کورس ختم ہونے کے بعد میں تبریز کی چھاؤنی میں تعینات ہوگیا اور وہ دزفول میں ہی رہ گئے۔ یہاں تک کے جنگ چھڑ گئی۔ ۲۲ ستمبر ۱۹۸۰ کو میں شام کو تیار تھا کہ حملہ ہوگیا اور ہم سب چلنے کیلئے تیار ہوگئے۔ اگلے دن، فضائی افواج کے ۱۴۰ طیاروں والا وہ آپریشن ہوا۔ میں نے جنگ کے پہلے دن سرحد  کے پار تین پروازیں کیں اور ۲۴ ستمبر کو  تقریباً چھ بجے صبح اربیل پر اور ۱۱ بجے کرکوک پہ حملہ کیا۔ کرکوک میں واپس آتے ہوئے مجھ پر حملہ ہوا ، میں گرا اور قیدی بنالیا گیا۔ جب میں اسیر ہوا تو میری زندگی تقریباً شہید لشکری کی طرح کی تھی، کیونکہ میری شادی کو تین مہینے کا عرصہ گزرا تھا کہ میں اسیر ہوگیا تھا اور جب میں واپس پلٹا تو میرا ایک دس سالہ بیٹا تھا۔ قید کے ابتدائی ایام تفتیش ، شکنجوں  اور سختیوں و ... میں گزرے۔ میں ایک مہینے کچھ دنوں تک بغداد کے بالغرفہ جیل میں قید رہا۔ بہت ہی تنگ اور تاریک سیل تھا جہاں میں اپنے کام انجام دیتا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے سب سے پہلے اپنے لباس کی جیب میں موجود اپنی والدہ اور بیوی کی تصویر کو باہر نکالا، اُسے چوما اور پھاڑ دیا۔ مجھے اُن حالات میں حتماً تعلقات کو ختم کرنا تھا۔ ایک مہینہ گزر گیا تھا۔ ایک دن نماز کیلئے کھڑا ہوا تھا، سیل کا دروازہ کھلا  اور دو کمبل اندر پھینکے گئے، اُس کے بعد ایک شخص کو اندر بھیجا گیا۔ تھوڑی سی بات چیت کے بعد اُس نے بتایا کہ میں ایف ۴ لڑاکا طیارے کا پائلٹ احمد سہیلی ہوں۔ میں چونکہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے تنہا تھا اور مجھے صرف مار اور اذیت نصیب ہوئی تھی، میں اتنا خوش تھا کہ سیل کے بیچ میں بیٹھ کر اُس سے باتیں کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد سیل کے دروازے کو دوبارہ کھولا گیا اور ایک اور آدمی کو دو کمبلوں کے ساتھ اندر بھیجا گیا۔ اُس کے داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ حسین لشکری ہے۔ جب ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا، ہم ایک دوسرے سے گلے مل کر رو رہے تھے۔ تینوں افراد کی عجیب حالت تھی۔ حسین کے ساتھ گزاری یادوں کا ذکر کرتے اور ہنستے۔ تقریباً ۲۳ یا ۲۴ دن گزر چکے تھے اور ہماری باتیں بھی تقریباً ختم ہوچکی تھیں ، ہمارے ایام  معمولی طور پر گزر رہے تھے کہ ایک دفعہ پھر سیل کا دروازہ کھلا اور ایک شخص کو دو کمبلوں کے ساتھ اندر بھیجا گیا۔ جب وہ آیا تو ہم سمجھ گئے کہ ایف ۵ پائلٹوں میں سے ایک محمود محمدی ہے۔ کچھ دنوں بعد سرشاد حیدری نام شخص کو جو ایف ۴ طیارے کا پائلٹ تھا اُسے اندر بھیجا گیا۔ ہم پانچ لوگ ہوگئے تھے اور سیل میں جگہ بہت کم تھی اور ہم سو نہیں سکتے تھے۔ ایک دن ہمیں اُسی عمارت کے نچلے طبقے میں لے گئے۔ سب کی آنکھوں پر پٹی اور ہاتھوں کو باندھ دیا گیا۔  ہمیں بس میں بٹھا کر ابوغریب کیمپ لے گئے۔ وہاں  ایک بڑا سا ہال تھا جس میں ۷۸ لوگ تھے۔ سب کیلئے صرف لیٹنے کی جگہ تھی۔ تفتیشی گیٹ پر ایک جنرل تھا جس نے ہمیں بہت تنگ کیا تھا، بالآخر اُس نے کہا تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا مجھے ایک قرآن دیدو۔ اُس نے حکم دیا اور ایک سپاہی نے مجھے ایک پارہ لاکر دیا۔ یہ وہ واحد قرآن تھا جو ہمارے پاس اُس کیمپ میں تھا۔ میں ہال کے ایک کونے میں تھا اور میں نے دیوار پہ صابن  سے لکھا ہوا تھا: " یہ بھی گزر جائیں گے ..." میں ایک دن بیٹھا ہوا تھا کہ فضائیہ کا ایک فرد جو ہیلی کاپٹر کا پائلٹ تھا، میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا یہ تم نے کیا لکھا ہوا ہے؟! میں نے کہا: " یہ بھی گزر جائیں گے "اُس نے کہا میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں: "انقلاب سے پہلے ہمیں ایک دستور دیا گیا کہ اسمگلروں نے سیکورٹی ادارے کے ایک اہم شخص کو قتل کردیا ہے، تم جاؤ اور اُسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے بوشہر کے نواح سے لے آؤ۔ بہت مشکل سے اُسے ڈھونڈا  اور جیسا کہ اُسے وہاں پڑے ہوئے دو دن بیت گئے تھے بہت بد بو آرہی تھی۔ جب ہم نے اُسے ہیلی کاپٹر میں رکھنے کیلئے کمبل میں لپیٹنا چاہا، اُس کا ہاتھ کمبل سے باہر نکل کر لٹک گیا۔ اُس نے اپنے ہاتھ پر ٹیٹو (لکھا ہوا) بنایا تھا: " یہ بھی گزر جائیں گے !"

دفاع مقدس کے ۲۸۲ ویں یادوں بھری رات کے پروگرام میں، "روز ھای بی آینہ" نامی کتاب کی رونمائی ہوئی جس میں پائلٹ حسین لشکری کی زوجہ کی یادیں ہیں۔ یہ رونمائی کتاب کی مؤلفہ گلستان جعفری، پائلٹ حسین لشکری کی زوجہ منیژہ لشکری، پائلٹ احمد مہر نیا، پائلٹ فرشید اسکندری اور سید جواد پویان فر، آرٹ گیلری کے انچارج محسن مؤمنی شریف، مرتضی سرہنگی اور سورہ مہر پبلیکشنز کے سربرارہ عبد الحمید قرہ داغی کی موجودگی میں ہوئی۔

یادوں بھری رات کے  کے سلسلے میں دفاع مقدس کا ۲۸۲ ویں پروگرام، ثقافتی تحقیق، مطالعات اور پائیدار ادب کے مرکز اور ادبی اور مزاحمتی فن کے مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام ۲۷ جولائی ۲۰۱۷ء کو  آرٹ گیلری کے سورہ آڈیٹوریم  میں منعقد ہوا۔ اگلا پرواگرام ۲۴ اگست کو منعقد ہوگا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3379


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔