زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – سوالہوں حصہ

انٹرویو کے دوران حرکات و سکنات اور ان کی اہمیت

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-8-12


زبانی تاریخ کے انٹرویو لینے کو بالمشافہ گفتگو کرنے اور رابطہ برقرار کرنے کی مہارت سے آگاہ ہونا چاہیے اور ایک اچھے انٹرویو کے لئے ان مہارتوں سے  بھرپور  استفادہ کرنا چاہیے۔ ان مہارتوں میں سے ایک مہارت Body Language  ہے۔

Body Language سے مراد گفتگو اور بات کئے بغیر "رابطہ برقرار" کرنا ہے  ہماری روزمرہ گفتگو کا ایک بڑا حصہ ہماری جسمانی حرکات و سکنات پر مشتمل ہوتا ہے جو ہمارے مافی الضمیر کو پہنچا رہا ہوتا ہے ۔ اسی کا نام Body Language ہے یعنی ایسی گفتگو جس کا سننا سمجھنا صرف کانوں کی حد  تک نہ رہے بلکہ حتی آنکھوں سے بھی محسوس ہو رہی ہو اور کسی سے رابطہ برقرار کرنے کا یہ انداز، کبھی کبھی خود زبانی گفتگو کرنے سے زیادہ موثر اور واضح ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بغیر زبانی بات چیت مکمل ہی نہیں ہوتی۔ اور یہی Body Language یا "جسمانی حرکات و سکنات" گفتگو کرنے والے کی اندرونی کیفیت کی عکاس ہوتی ہیں ۔ پس انٹرویو لینے والے کو ان مہارتوں سے کافی حد تک شناخت ہونی چاہیے اور گفتگو ئی اور غیر گفتگوئی توانائیوں پر زیادہ سے زیادہ دسترس ہونی چاہیے۔

کچھ ماہرین اس چیز کے قائل ہیں کہ بولنے والے کی حرکات و سکنات پر دقت کرنے سے اس کی اندرونی کیفیت معلوم کی جاسکتی ہے۔ بہت سے افراد خاص مواقع پر  اپنے احساسات اور جذبات کو زبان سے نہیں بلکہ حرکات و سکنات (Body Language) سے ظاہر کرتے ہیں مثال کے طور پر خوشی، اُداسی، بے چینی، بے قراری، سکون و اطمینان، حیرانگی، عاجزی، نا اُمید اور اس طرح کے دوسرے احساسات جو بولنے والے ہاتھ پاؤں کی حرکات یا پھر چہرے اور آنکھوں کے تاثرات سے ظاہر ہوتے ہیں۔

ہاں البتہ بعض جسمانی حرکات و سکنات ایسی ہیں جو کسی بھی معاشرے کی ثقافت سے مربوط ہوتی ہیں اور ان کا اپنا خاص معنی ہوتا ہے اور اس معاشرے کے لوگ شعوری طور پر ان حرکات و سکنات کو لفظوں کی جگہ استعمال کر رہے ہوتے ہیں تو اب واضح سی بات ہے کہ اس طرح کے خاص معاشرے اور خاص ثقافت رکھنے والے افراد کو انٹرویو لینے کیلئے ان تمام حرکات و سکنات  سے آشنائی ضروری ہے تاکہ انٹرویو میں کسی قسم کا ضعف نہ آنے پائے۔ اور کبھی کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ جب کسی مذہبی یا سیاسی شخصیت سے انٹرویو لیا جا رہا ہوتا ہے تو وہ شخصیت، انٹرویو لینے والے کے بیٹھنے یا  گفتگو کرنے کے انداز کو اپنے شایان شان نہیں سمجھ رہی ہوتی اور منفی ردّ عمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ سالوں پہلے خبرنگاروں کی ایک ٹیم الازہر یونیورسٹی مصر کے شیخ سے انٹرویو لینے مصر گئی۔ ملاقات کے آغاز میں ہی حاضرین میں سے کسی ایک کے بیٹھنے کا انداز شیخ پر ناگوار گزرا اور اسے کمرے سے بال نکال دیا!

جسمانی حرکات و سکنات، معنی و مفہوم پہنچانے کے ساتھ ساتھ مخاطب میں اعتماد یا بے اعتمادی کی فضا قائم کرنے اور خوشی سے شوق میں اضافہ یا اس کے مزاج میں انحراف اور روکھا پین پیدا کرنے میں  اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر آپ دوسروں پر نگاہ دالیں تو آپ محسوس کریں گے کہ انہیں اپنی گفتگو پر کس قدر اعتماد ہوتا ہے یا کس قدر با نشاط اور ایک خاص چاہت سے محو گفتگو ہیں۔ جسمانی حرکات و سکنات ان میں زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں حتی ایسا لگ رہا ہوتا ہے کہ گفتگو نہیں ہو رہی بلکہ فلم چل رہی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ افراد اپنا مافی الضمیر پہنچانے  کے لئے یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ہاتھ پاؤں اور چہرے کی حرکات سے اس مافی الضمیر کی تصویر کھینچ ڈالیں۔ اگر یہ افراد اپنی اس خصوصیت سے محروم ہوجائیں  تو اپنا مافی الضمیر بیان کرنے سے ہی عاجز ہوجائیں گے۔

یہ بات (بھی) واضح ہے سب لوگ اس طرح کے اشاروں اور حرکات و سکنات کو  وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی میں گھریلو اور معاشرتی ماحول سے سیکھتے ہیں اور پھر اپنے روز مرہ رابطوں اور گفتگو میں ان کا صحیح یا غلط استعمال کرتے ہیں۔ یہ امر بھی روشن ہے کہ جسمانی حرکات و سکنات کا اندازہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ مختلف ثقافتی اور معاشرتی وجوہات کی بنا پر بات چیت کے انداز کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ان تبدیلیوں کو جاننا اور ان پر توجہ رکھنا، لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کے دوران غلط فہمیوں (کی پیدائش) کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

آنے والی سطور میں جسمانی حرکات و سکنات سے استفادہ، کارکردگی اور کیفیت کی طرف اشارہ ک



 
صارفین کی تعداد: 3968


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔