اس احساس کا اطمینان

تالیف: احمد سروش نژاد
ترجمہ: سید محمد مبشر

2017-8-9


کسی تحریک کی رہنمائی میں دوستوں اور دشمنوں کی شناخت اور ان کے درمیان درجہ بندی ایک اہم مسئلہ ہے۔ بعض اوقات پسند و ناپسند یا سادہ لوح ہونا ان دونوں کے جابجا ہونے کا سبب بنتا ہے جس سے تحریک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن امام خمینی نے شروع سے ہی انقلاب کے اصلی دشمن اور پہلوی حکومت کے سب سے بڑے حامی  کی شناخت کرلی تھی۔

واشنگٹن ڈی۔ سی میں امریکی وزارت امور خارجہ کو پیرس میں امریکی سفارت خانے نے یوں لکھا: "۵ جنوری کو ہمیں ایک امریکی شہری نے آیت اللہ خمینی کے ساتھ اس کی ڈیڑھ گھنٹے طویل ملاقات کی اطلاع دی۔ (آیت اللہ) خمینی نے کہا ...جب  تک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت شاہ کی حمایت کرے گی،تب تک  اس کے مظالم  میں شریک رہے گی۔"

"ایران میں فوجی حکومت کے اعلان کے کچھ عرصے بعد، واشنگٹن پوسٹ (پیرس) کے چیف ایڈیٹر، ران کاون اور ہیرالڈ کے اصلی رپورٹر جوفیسٹ کو آیت اللہ  خمینی کا ۶ نومبر کو انٹرویو لینے کی اجازت مل گئی۔ ۷ نومبر کے ٹریبیون کے پہلے صفحے میں فیسٹ کے  آرٹیکل میں اس طرح سے رپورٹ کیا گیا: "(آیت اللہ) خمینی نے شاہ کے خلاف تند روش اختیار کی ہے اور وہ فوج سے چاہتے ہیں کہ فوج شاہ کے احکامات نہ مانے ... بقیہ گفتگو  میں انہوں نے جمہوری اسلامی کے مقاصد کی وضاحت کی اور مغربی ممالک کی نسبت ان کا برتاؤ معتدل تھا ..."

سن ۱۹۷۹ء میں تہران میں امریکی سفارت خانے نے اپنے ملک کے وزارت امور خارجہ  کو اسلامی انقلاب کے حوالے سے رازدارانہ تجزیہ اس طرح سے ارسال کیا: "امریکہ سے وابستگی کے حوالے سے عارضی حکومت اور (آیت اللہ) خمینی کے نظریات مختلف ہیں اور امریکہ کے خلاف (آیت اللہ) خمینی کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ (آیت اللہ) خمینی کے نظریات ہر خارجی عناصر کے خلاف ہیں، بالخصوص امریکہ کے۔ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات پوری طرح سے ختم کر دینا چاہتے ہیں اور عارضی حکومت کی طرف  سے ان کے اس مطالبے کو پوری طرح نہ ماننے نے اس کے کمزور ہونے کو واضح کردیا ہے۔ امریکی حکومت نے عارضی حکومت کی پالیسی کے مطابق ایک نئے تعلقات کا آغاز کیا ہے جو کہ اگرچہ پہلے کی طرح مضبوط نہیں ہیں لیکن دوستانہ اور تعاون طلب ہے۔ عارضی حکومت تو امریکہ کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو سمجھ گئی ہے (لیکن آیت اللہ) خمینی اور ان کے حامیوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔ (آیت اللہ) خمینی کا ردّ عمل قطعی و سخت اور سمجھوتہ نہ کرنے والا ہے لیکن بازرگان کا طریقہ کار معتدلانہ ہے (جو) سمجھوتہ کرنے والا ہے  اور بقیہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات والا ہے۔ وہ چاہتا ہے ملک کی اقتصادی حالت کو بہتر کرے۔

فی الحال مجھے ایران کی خارجہ پالیسی کو معتدل بنانے کیلئے کوئی بھی راہِ حل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ ہمیں جیسے ہی موقع ملے گا ہم کوشش کریں گے امام خمینی اور ان کے طرفدار لوگوں کی فکر کو معتدل کریں۔

ہمیں جلد از جلد اپنا پیغام یا نمائندہ (آیت اللہ) خمینی کے پاس بھیجنا چاہئے۔ اگرچہ وہ امریکہ کے سخت مخالف ہیں ... لیکن یہ چیز (یعنی ملاقات ہمیں ان سے نزدیک کرے گی اور اہم مسائل کو ہم ان تک پہنچا سکیں گے اور اسی طرح ان کے (امریکہ کی نسبت (سوئے ظن کو کم کرسکیں گے۔ لیکن ان سے رابطہ ہمارے غیر مذہبی دوستوں سے دوری کا سبب نہ بنے اور اسی طرح (آیت اللہ) خمینی سے ملاقات دیگر علماء سے بھی رابطے کا ذریعہ بن سکتی ہے؛ کیونکہ جب تک (آیت اللہ) خمینی ہمیں قبول نہیں کریں گے وہ لوگ بھی قبول نہیں کریں گے۔

(ان سے) تعلقات کا مقصد علماء کو اپنے نزدیک کرنا نہیں ہے بلکہ (آیت اللہ) خمینی کو اس بات کا اطمینان دلانا ہے کہ مغربی ممالک نے ایران کے اسلامی انقلاب کو قبول کرلیا ہے اور ایران کے داخلی امور میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور موجودہ حالات بازرگان کی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے ہیں۔

(آیت اللہ)  کو جو موجوع نہایت  ہی غیر محسوس طریقے سے تجویز کیا جانا چاہئے وہ یہ ہے کہ ان سے کہیں کہ اگر ہم کمیونسٹ لوگوں کی بے جا مداخلت کو روکنا چاہیں تو بازرگان کو ایک اور معاون کی ضرورت ہے۔ (اس کام میں) کون سا ملک سب سے پہلے مدد کرے گا، ہم کسی کا نام تجویز نہیں کرسکتے لیکن شاید فرانس ہو، جس نے پہلے بھی (آیت اللہ) خمینی کی مدد کی ہے اور یہ بہترین صورت حال ہوگی۔"

" پرورفیسر کاٹم (۱) نے یکم جنوری کو امریکی سفارت خانے کے اہلکار اسٹمپل (۲) کے ساتھ دو گھنٹے طویل ملاقات کی جس میں موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا اور ۲۸ دسمبر کو اس کی آیت اللہ خمینی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں اس نے رپورٹ دی۔ کاٹم نے (آیت اللہ) خمینی کے حامیوں کے ساتھ ایک دن گزارا ... کاٹم کو اندازہ ہوا کہ (آیت اللہ) خمینی ایک دینی پیشوا اور اسلامی تحریک کی حددود معین کرنے والے ہیں ...

(آیت اللہ) خمینی ... نے یہ احساس پیدا کردیا ہے کہ تحریک کی کامیابی خداوند متعال نے مقدر میں لکھی تھی اور یقینی تھی۔ قیام کے معاملات میں (آیت اللہ) خمینی کا اس قدر الجھا ہوا نہ لگنا اور (آیت اللہ) خمینی کے حامیوں کے درمیان اختلاف کے نہ ہونے نے کاٹم کو تعجب میں ڈال دیا تھا۔ کاتم نے اس بات کی طرف یوں اشارہ کیا ہے کہ اس نوعیت کی شدت ایک غیر معمولی چیز ہے اور شاید اجتماعی امور میں اسلام کے اس نظریئے کی عکاس ہے جسے علی شریعتی نے بیان کیا ہے، جو (آیت اللہ) خمینی کی تحریک میں روشن فکر طرز تفکر رکھتا ہے۔ (آیت اللہ) خمینی کے نزدیکی افراد  میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پڑھائی تحریک کے کاموں کی وجہ سے بیچ میں چھوڑ دی اور وہ علماء ہیں جن کی پڑھائی مکمل نہیں ہوئی ہے لیکن انہوں نے اپنی تعلیم اپنے اساتذہ کے پاس جاری رکھی ہوئی ہے۔ اسلام کی جدید تحریک کی بنیاد مضبوط نظریات ہیں جو (آیت اللہ) خمینی اور شریعتی کی تحریروں میں موجود ہیں اور یہ جس قدر سیاسی ہیں، اتنے ہی مذہبی ہیں۔

یہ چیز قابل توجہ ہے کہ امام خمینی کو ایک بے مثال رہبر ے عنوان سے صرف ان کی سیاسی صلاحیوں نے نہیں پہچنوایا تھا بلکہ ان کے ممتاز عرفانی رتبے بھی اس کا سبب بنے، جس میں ان کا زُہد اور سادہ زندگی بھی شامل ہے۔ وہ تربیت اور تزکیہ نفس کو تعلیم و تعلم پر مقدم جانتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ علم اپنے تمام کمالات کے باوجود اگر تزکیہ کے ساتھ نہ ہو تو شیطانی مقاصد کے حصول کا آلہ کار ثابت ہوگا۔

امریکی سفارت خانے کے رپورٹر (ہارٹ مین) نے ران کاون اور جوفیسٹ کے آرٹیکل کے بارے میں اپنی رپورٹ میں اس طرح لکھا ہے: " کاون نے بتایا کہ وہ اور فیسٹ صبح ۱۱ بجے انٹرویو کیلئے پہنچے۔ لیکن کتبی سوالات کے ترجمہ اور اپنے جوابات کے بعد شام ۶ بجے سے پہلے اسی دن ایک بلا واسطہ انٹرویو نہیں لے سکے۔ اس تأخیر کی وجہ سے وہ (آیت اللہ) خمینی اور ان کے ملازموں پر نگاہ رکھنے میں کامیاب  ہوئے۔ کاون کے مطابق جب وہ داخل ہوئے (آیت اللہ) خمینی خوش تھے ... اس سبب کے باوجود وہ اس دن کے آخری وقت میں بھی خوش تھے اور اس کے باوجود کہ وہ مترجمین کے ذریعے سے جواب دے رہے تھے لیکن ایسا ظاہر کر رہے تھے کہ فضا ان کے قابو میں ہیں اور ان لوگوں کے تحت تأثیر نہیں آئے ہیں ...

(آیت اللہ) خمینی پیرس کے ایک متوسط درجے سے بھی نچلے محلے میں رہتے ہیں، جس کا نام "یوشانٹرین" ہے۔ ان کی اور ان کے گھر کے چار افراد کی رہائش گاہ نہایت سادی اور بے آرائش ہے۔ پیرس میں ان کے بقیہ پیروکار ان کی ہمراہی کیلئے آتے ہیں۔ معمولاً لوگوں کا ایک اژدھام یہاں موجود ہوتا ہے اور (آیت اللہ) خمینی بھی ایسا ہی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پوری طرح سے تمام ایرانیوں کی دسترس میں ہیں۔ ایک مشاور نے کاون کو بتایا کہ یہ لوگ "ورسای" میں ایک بہتر رہائش گاہ ڈھونڈ رہے ہیں جو ضروری نہیں ہے کہ اس سے بڑی ہو البتہ کم از کم اس میں سردی سے بچنے کے بہتر  وسائل ہوں۔"

واشنگٹن ڈی۔ سی میں امریکی وزارت خارجہ نے تہران، لندن، پیرس، بغداد اور کویت میں امریکی سفارت خانوں کو ایک نہایت رازدارانہ دستاویز میں اس طرح سے لکھا ہے: "مندرجہ ذیل میں (آیت اللہ) خمینی اور ایک ایرانی کی ایک گھنٹہ طولانی گفتگو ہے جو اس شخص کی ان سے سن ۱۹۶۳ء میں آخری ملاقات تھی۔ یہ رپورٹ ایک با اعتماد شخص کے ذریعے سے وزارت خارجہ کے دفتر تک پہنچی ہے۔

اس شخص کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ (آیت اللہ) خمینی پہلوی حکومت کو مناسب وقت پہ سرنگوں کرنے کی ذمے داری کامیابی کے ساتھ انجام دینے کے حوالے سے پوری طرح مطمئن ہیں۔ (آیت اللہ) خمینی نے ہر طرح کی مصالحت اور سمجھوتے کو ردّ کردیا ہے۔ جب اس شخص نے اس بات کا اظہار کیا کہ اگر حالات صحیح نہیں ہوئے تو انارکی پھیلے گی یا فوج مسلط ہوجائے گی تو (آیت اللہ) خمینی نے کسی طرح کی پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔ اس شخص نے دوبارہ کہا کہ اگر حالات اسی طرح خراب رہے تو اقتصادی حالات درہم  برہم ہوجائیں گے، لیکن (آیت اللہ) خمینی پر کوئی اثر نہ پڑا۔ انہوں نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ ان کا یہ مہمان ایران میں شاہ کے خلاف سیاسی انقلاب کی حقیقت کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا۔ (آیت اللہ) خمینی اس طرح کے کسی بھی خطرے سے خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ مطمئن ہیں کہ جمہوری اسلامی  تک پہنچنے کیلئے یہ قدم اٹھانے ضروری ہیں۔ جس طرح سے تحریک چل رہی ہے اس میں (آیت اللہ) خمینی ظاہراً خود کو تام الاختیار سمجھتے ہیں، نہ کہ ایک ایسا شخص جو ہر تجویز کو قبول کرے یا ردّ کردے۔ اسی نکتہ نظر کے تحت وہ بازرگان اور سنجابی کی باتیں بھی سننے کیلئے تیار تھے لیکن صرف ان نظریات کو قبول کرتے جو ان کے آخری مقصد سے مختلف نہ  ..."۔

جون سن ۱۹۷۹ء میں تہران میں امریکی سفارت خانے کی طرف سے واشنگٹن میں امریکی وزارت امور خارجہ کو  "ایرانی طرز پر گودو کے انتظار میں" کے عنوان سے ایک بہت ہی خفیہ رپورٹ ارسال کی گئی۔ اس دستاویز کے مختلف  حصوں میں رپورٹر نے مختلف بحرانوں، بے نظمیوں، انتظامی امور میں مختلف داخلی اور خارجی مخالفتوں اور ان کے مقابلے میں امام خمینی (رہ) کے مدبرانہ فیصلوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے: "بہت سے  مخالفین (آیت اللہ) خمینی کے خلاف سازش کیلئے امریکہ کے ایک اشارے کے منتظر ہیں، ان کے مطابق یہ کام ان کے اقدام کا باعث بنے گا۔ لیکن یہ لوگ اور (آیت اللہ) خمینی کے تمام ہی سیاسی مخالفین ایران کے داخلی امور میں بیرونی عناصر کے تسلط کے افسانے اور سیاسی اعتبار سے  اور دیگر ایسے لائحوں کی وجہ سے جو بڑے پیمانے پر لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرے، اس برح طرح سے تحت تاثیر ہیں کہ اپنی شکست دیکھتے ہوئے (آیت اللہ) خمینی کے لئے میدان خالی چھوڑ دیں گے۔ (آیت اللہ) خمینی کی تحریک اس اعتبار سے پوری طرح کامیاب ہوچکی ہے۔ وہ لوگوں کی اکثریت کو رضاکارانہ طور پر تیار کرکے اسلام کو اکثریت کے سامنے پیش کرسکتے ہیں اور اسی وجہ سے (آیت اللہ) خمینی اس کیلئے تیار تھے کہ جیسے ہی فرصت ملے وہ قدم بڑھائیں ...  لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی (آیت اللہ) خمینی کی تحریک کی طرح کی ہی ایک طاقت جو پوری طرح سے منظم ہو، ایران کے پیچیدہ امور کو بیسویں صدی میں چلا سکتی ہے۔ اور ایک کند لیکن مستقل بنیادوں پہ کام کرنے والی تحریک ہی ملکی نظام کو درہم برہم ہونے سے بچا سکتی ہے۔ افسوس کے ساتھ اس کام کیلئے کوئی بھی امیدوار موجود نہیں ہے۔

اسلامی بالخصوص شیعہ مسلک کی خیرو شر سے متعلق تعلیمات سبب بنیں کہ (آیت اللہ) خمینی کو ایک نظریہ ملا جس کی وجہ سے وہ حکومت کے ساتھ اپنی مخالفت کو عملی جامہ پہنا سکے اور وہ انقلاب کی علامت بنے جسے مومن مسلمانوں نے با  آسانی سمجھ لیا۔ شاہ، یزید کی طرح سے ہوگیا اور گلیوں میں مقابلہ کرتے ہوئے جان دینے والا ہر شخص ایسا حسنی ہوگیا کہ اپنی جگہ ایسے دسیوں، سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ چھوڑ گیا جو اپنے عقیدے کیلئے شہید ہونے کیلئے تیار تھے۔ غیر مذہبی گروہ یا نام کے مذہبی گروہ پہلوی حکومت کا نعم البدل دے سکے، نہ (آیت اللہ) خمینی کی اسلامی تحریک کا ... ابھی بھی ایران میں ایسی کوئی سیاسی طاقت وجود نہیں رکھتی جو عملی طور پر (آیت اللہ) خمینی کا مقابلہ پورے ملک کی سطح پر کرسکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۔ رچرڈ کاٹم (سن ۱۹۲۵ء۔ سن ۱۹۹۴ء) پیٹسبرگ یونیورسٹی میں علوم سیاسی کا استاد اور ایران میں CIA کا کارندہ تھا۔ وہ پچھلی صدی کے پانچویں عشرے کے شروع کے پانچ سالوں میں ایران میں خفیہ آپریشن ٹیم کا سرکردہ تھا۔

۲۔ جان دی اسٹیمپل برطانیہ میں ۲۴ سال امریکی امور خارجہ کا کارکن تھا۔ اس نے اپنے کام کیلئے ایران، افریقہ اور ہندوستان سفر کیا اور سن ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۹ء تک تہران میں تعیینات تھا۔ واشنگٹن میں وزارت دفاع اور وزارت امور خارجہ کے کام میں مشغول رہا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3613


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔