زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – پندرہواں حصہ

سوال کیسے کیا جائے؟

حمید قزوینی
سید مبارک حسنین زیدی

2017-8-5


سوال کی کیفیت انٹرویو لینے والے حضرات کے لئے ہمیشہ سے ایک اہم مشکل کے طور پر رہی ہے۔ انٹرویو لینے والے کئی ایسے حضرات ہیں جن کے پاس دسیوں مناسب سوالات ہیں لیکن ان میں سے بعض سوالوں کو یا پیش  نہیں کرسکے یا پھر پیش کرنے کے بعد  مطلوبہ اور مناسب جواب حاصل نہ کرسکے ۔ کیونکہ جب تک سوال کی کیفیت درست نہیں ہوگی یا سوال مناسب وقت پر نہیں کیا جائے گا تب تک اچھے انٹرویو کی کوئی ضمانت نہیں۔

پس سوالات کرنے کے سلیقے اور انداز کے حوالے سے کچھ نکات کا خیال رکھنا ضروری ہے  کہ جن کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

۱۔ سوال اس انداز سے کرنا چاہیے کہ انٹرویو دینے والا سوال کے مفہوم اور روح کو صحیح سے سمجھ لیں تاکہ سوال کے عین مطابق درست اور مناسب جواب دے سکے۔

 ۲۔ اگر بعض  سوالات براہ راست پوچھنا مناسب نہ لگ رہا ہو تو اشارے کنائے سے پوچھیں۔

۳۔ یکے بعد دیگرے ایسے سوالات نہ کئے جائیں جن کی نسبت  انٹرویو دینے والا حساس ہو۔

۴۔ کلی سوالات پوچھنے سے گریز کیا جائے۔

۵۔ ایسے سوالات پوچھنے سے قبل اجازت لینی چاہیے جن کی نسبت انٹرویو دینے والا حساس ہو۔

۶۔ انٹرویو کے دوران اور سوالات کرتے وقت جلد بازی، جذباتی انداز اور جوشیلے پن  سے اجتناب کیا جائے۔

۷۔ سوالات پر سکون انداز میں اور آرام آرام سے کرنے چاہئیں۔

۸۔ سوال خود اعتمادی کے ساتھ کرنا چاہیے نہ کہ ہچکچاہٹ اور خجالت کے ساتھ۔

۹۔ فرعی سوالات سے اجتناب کرنا چاہیے۔

۱۰۔  اگر کوئی جواب، سوال سے مطابقت نہ رکھ رہا ہو تو مزید وضاحت دیکر دوبارہ وہی سوال کریں۔

۱۱۔ اگر آپ صحیح طریقے سے جواب نہ سمجھے ہوں تو انٹرویو دینے الے سے کہیں کہ وہ آپ کو مزید وضاحت پیش کرے۔

۱۲۔ جواب میں بیان کی گئی خصوصی اصطلاحات کے معنوں کو راوی سے پوچھیں۔

۱۳۔ انٹرویو دینے والا اگر اجنبی اصطلاحات استعمال کرے یا کسی اور زبان کا کوئی ایسا لفظ بولے جو عام طور سے سب کے لئے واضح نہ ہوتو آپ اس سے وضاحت طلب کریں۔

۱۴۔ اگر وہ غیر مشہور شخصیات کی طرف اشارہ کرے یا نا مکمل نام لے تو آپ اس سے متعلقہ شخصیت کا پورا نا م لینے اور مختصر تعارف کرنے کا  مطالبہ کریں۔

۱۵۔ سوالات کی ترتیب ایسی ہو کہ انٹرویو دینے والا تھکن اور بوریت کا احساس نہ کرے۔

۱۶۔ انٹرویو دینے والے کی بات پوری ہونے کا انتظار کریں پھر اپنا اگلا سوال کریں۔

۱۷۔ اگر انٹرویو دینے والی بات کاٹنا ناگزیر ہو تو اس کے لئے مناسب سلیقے اور مناسب وقت کا انتخاب کریں۔

۱۸۔ سوال کرنے کے بعد آپ (مکمل) خاموش ہوجائیں تاکہ انٹرویو دینے والے کو سوال پر سوچنے (اور اسے ) سمجھنے کا موقع  ملے اور وہ زیادہ سے زیادہ سوچ بچار کے ساتھ جواب دے سکے ۔

۱۹۔ ایسی تمام حرکات و سکنات سے پرہیز کریں جو انٹرویو دینے والے کی توجہ ہٹنے یا کم ہونے کا باعث بنیں۔

۲۰۔ اگر کسی سوال کا جواب ناقص رہ جائے تو (مطلوبہ) جواب مکمل ہونے تک ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سوالات کے سلسلہ کو جاری رکھیں۔

۲۱۔ کبھی کبھار مکمل جواب تک رسائی کے لئے سوال کے انداز کو بدل کر دوبارہ پیش کیا جا سکتا ہے۔

۲۲۔ سوالات پہلے سے طے شدہ ترتیب کے مطابق بیان ہونے  چاہئیں۔

۲۳۔ اگر انٹرویو دینے والا جوابات کے دوران کسی اور موضوع کی طرف چلا جائے تو اسے بات  پوری کرنے کا موقع دیں اور پھر اپنے متعلقہ موضوع کے متعلق سوال کریں۔

۲۴۔ راوی سے بحث مباحثہ سے پرہیز کیجئے ورنہ اس کے احساسات و جذبات  کو ٹھیس پہنچنے کی صورت میں آپ کا انٹرویو ضائع ہوسکتا ہے۔ یا کم از کم منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

۲۵۔ تاریخی واقعہ بیان کرتے وقت اگر انٹرویو دینے والا غلط فہمی یا غلطی کا شکار ہوجائے تو احترام کے ساتھ اس کی توجہ مبذول کرائیں۔ مثلاً فلاں آپریشن یا فلاں واقعہ فلاں تاریخ کو رونما ہوا۔   مثال کے طور  پر خرم شہر فتح المبین آپریشن میں آزاد ہوا نہ کہ بیت المقدس آپریشن میں ۔

۲۶۔ انٹرویو کا اختتام ہلکے پھلکے سادہ اور آسان سوالات پر کریں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3841


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔