ایران کے بارے میں ہر خبر سننے کا شوق

احمد سروش نژاد
ترجمہ: سید محمد مبشر

2017-8-3


ایران اور امریکا کے درمیان موجودہ تعلقات بیان کرنے کیلئے ضروری ہے گذشتہ دور میں ان کے درمیان  روابط کا باریک بینی سےجائزہ لیا جائے۔ کیونکہ موجودہ زمانے میں دونوں طرف سے تلخ رویوں میں سابقہ تعلقات کا یقینی اور ناقابل انکار اثر ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات کا ماضی سے لیکر اب تک کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو کئی مقامات پر نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہمیں تاریخ میں نظر آتا ہے کہ مختلف ادوار میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان دونوں ہی نوعیت، تعامل (دوستی) اور تقابل (دشمنی) کے تعلقات رہے ہیں۔ ایک وہ دور ہے کہ جب ان دونوں کے آپس میں تعلقات ایران کو مڈل ایسٹ میں امریکہ کے اتحادی میں بدل دیتے ہیں (پہلوی حکومت کا دوسرا دور) اور ایک اور زمانے میں ایران امریکہ کا اصلی ترین دشمن بن جاتا ہے۔

ایران اور امریکہ کے سابقہ تعلقات کا جائزہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ امریکہ نے اپنی سیاست کو ایران میں دخالت کی غرض سے اجراء کرنے کا منشور ہمیشہ رکھا ہے اور یہ حقیقت ہے۔ اسی لئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ،ایران میں امریکہ کی بلاواسطہ یا با واسطہ  مداخلت کے کئی موارد کی تائید کرتی ہے۔

امریکہ کے جاسوسی  کے مرکز (تہران میں امریکہ کے سابقہ سفارتخانے) سے ملنے والی دستاویزات میں، ۴ مئی سن ۱۹۷۸ء کے بارے میں اس طرح سے لکھا ہے: "اجمالاً، امریکہ اور ایران کے تعلقات بہت زبردست ہیں نومبر میں شاہ کے واشنگٹن کے سفر نے اور دسمبر کے آخر میں امریکی صدر کے دورہ تہران نے ان تعلقات کو مزید مضبوط بنایا ہے۔ ایران اپنی طاقت کی وجہ سے خطے میں اہم کردار ادا کرنے کیلئے ہمیشہ تیاررہا ہے تاکہ ہمارے مقاصد حاصل ہوسکیں۔

UNIFIL کو ہدیہ دینا اس بات کا تازہ نمونہ ہے؛ اس کی ایک اور مثال جو ہمارے لئے بے تحاشا منافع لئے ہوئے ہے، وہ اوپک میں ایران کا نکتہ نظر ہے اور وہ سن ۱۹۷۸ء میں تیل کی قیمت میں اضافے کی یقینی مخالفت کیلئے، سعودی عرب کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہونا ہے۔

اس کے باوجودکہ ایران کے ساتھ روابط میں ہمارا اصلی معاہدہ اسلحے کا اور مشاورتی پروگرام ہے  لیکن ہمارے اس کے علاوہ بھی وسیع مفادات ہیں۔ ایران میں  ہماری غیر مسلح برآمدات ابھی تقریباً دو ملیارد ڈالڑ سالانہ پہ پہنچ چکی ہیں امریکہ کی ۱۵۵ سے زیادہ بڑی کمپنیاں اور بینک اس ملک میں کام کر رہے ہیں اور ۳۹ ہزار امریکی شہری یہاں رہ رہے ہیں۔

واشنگٹن میں وزیر خارجہ وینس کی زیر نگرانی چوتھی مرتبہ ایران اور امریکہ کے درمیان انرجی، انسانی طاقت، زراعت، تجارت اور مالی امور، علم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کیلئے مشترکہ کمیشن بنایا گیا ہے۔ امریکہ کی ۵۰ جامعات ایران کی مختلف جامعات یا حکومتی اداروں سے رابطے میں ہیں۔ امریکہ میں ایرانی طلبا کی تعداد تقریباً ۳۰ ہے۔ ایران اس وقت ہمیں ۸، ۹ فیصد تیل برآمد کر رہا ہے۔

درحقیقت اس وقت ایران ایک طاقتور ملک کی حیثیت سے ایک ایسا معتدل ملک ہے جس کا جھکاؤ امریکہ کی طرف ہے اور یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہمارا سیاسی ہدف تھا ..."

اس دستاویز کو ولیم ھیلی سولیوان (ایران میں امریکہ کے آخری سفیر) نے واشنگٹن ڈی سی میں امریکہ کی وزارت امور خارجہ کو مخفیانہ طریقے سے ارسال کیا تھا۔

مذکورہ بالا معلومات اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ ہمارے ملک میں لٹیروں کی لوٹ مار کیلئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی، وہ بالکل آزاد تھے اور ہمارے ملک میں نہایت ہی آرام اور سکون سے تھے۔ ماضی میں  اس طرح کے حالات کا ہونا خود ان دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات میں رکاوٹ ہے اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے اسی طرح کی سیاست کو جاری رکھنے پہ اصرار دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کی بہتری کے احتمال کو مزید کم کر رہا ہے۔

شمال مشرقی افریقہ کے امور اور واشنگٹن میں امریکہ کے بین الاقوامی ارتباطات کے جنوبی ایشیا کے عہدیدار نے اپنی رپورٹ کے ایک حصہ میں کہا ہے: "تہران میں میری رہائش کے دوسرے مہینے کے آخر میں ممکن ہے کہ میں فعلی حالات کا تجزیہ کروں اور آئندہ چھ ماہ میں امریکہ اور ایران کے درمیان روابط بڑھانے کیلئے جو اقدامات ہونے چاہئیں، بیان کروں جو شاید میرے لئے بھی فائدے مند ہو اور آپ کیلئے بھی۔ ایران کو امریکہ کے بین الاقوامی ایجنڈوں میں تعاون کیلئے ابھی لمبا فاصلہ طے کرنا ہے۔"

اس دستاویز کا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ثقافتی تبدیلی کے بین الاقوامی تعاون کے دفتر کا لائحہ عمل ناقابل تغییر ہے اور اس میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ ایران کو اس طرح سے کر دینا ہے کہ وہ اس لائحہ  کے مطابق ہوجائے۔ یہ ایسا نکتہ ہے جو ہمیں اسلام کی انقلابی ثقافت کو مغربی ثقافت کی جگہ پر فوراً لانے کی طرف مجبور کرتا ہے تاکہ مغربی ثقافت کو پنپنے کا موقع نہ ملے کیونکہ اگر امریکہ ایران کے ساتھ حتی سفارتی تعلقات سے چشم پوشی کر بھی لے تو  اس کامطلب ایران میں امریکہ کی عدم مداخلت ہرگز  نہیں ہے۔ اسی وجہ سے مداخلت کے طریقے پیچیدہ اور مبہم ہوتے جائیں گے۔

اجمالاً ایران کے داخلی امور میں امریکہ کی مداخلت کا الزام ہمیشہ لگتا رہا ہے اور خود امریکہ کے بھی مختلف عہدیدار اِن الزاموں کی تائید کرتے رہے ہیں۔ جمہوری اسلامی ایران کے منافع اور حقوق میں امریکہ کی طرف سے تجاوز اس بات کی نشاندہی ہے کہ بہت پہلے سے امریکہ کی سیاست میں ایران کے داخلی امور میں مداخلت کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اسی وجہ سے اس نوعیت کی دخالت کے موارد اور مصادیق کی وضاحت ، ایران اور امریکہ کے درمیان ہمہ جہت روابط کیلئے نہایت ضروری ہے۔

ہیرلڈ ہینری سانڈرز، امریکی وزیر خارجہ کے معاون نے خارجی روابط کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے جو باتیں کی ہیں، وہ اسی کی تائید کرتی ہیں: "گذشتہ دور میں ایران میں امریکہ کے جو منافع تھے وہ ابھی تک  اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ باقی ہیں۔ ہمیں خلیج فارس کے خطے میں امن و امان کی صورتحال، مشرق وسطیٰ کے مستقبل اور تیل کی پیداوار میں ایران کی اہمیت کے سبب، ایک آزاد اور استقلال رکھنے والے ایران کی ضرورت ہے۔ ہم دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مسلسل اس ہدف کے تحقق کیلئے سرگرم رہے ہیں۔"

واشنگٹن میں امریکہ کے وزیر خارجہ کو تہران میں امریکی سفیر کی رپورٹ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ سامراجی نظام نے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کیلئے کس طرح سے پوری دنیا میں جاسوسی کا جال پھیلا یا ہوا ہے۔ اس مقصد کیلئے سب سے پیچیدہ ادارہ CIA کا ہے۔ دنیامیں جہاں بھی قوموں کو بے رحمی سے کچلنے کا عمل انجام پاتا ہے وہاں CIA کا ہاتھ نظر آتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کاموں کی رہنمائی وہ افراد کرتے ہیں جو حقوق بشر کے علمبردار ہیں۔ اس رپورٹ سےپتہ چلتا ہے کہ CIA اپنے مقاصد کے حصول کیلئے سفارت خانوں سے کام لیتی ہے۔ اس رپورٹ کے ایک حصے میں لکھا ہے: "میلکم کیلپ اور ویلیم ڈرٹی کی جو ذمے داری گذشتہ ٹیلی گراف میں لکھی گئی تھی، میں اس سے متفق ہوں۔ ہم ایک اچھے ماضی کے ساتھ  SRF کے زیر سایہ اپنی ذمے داری کو انجام دینا شروع کریں گے لیکن  CIA کی سرگرمیوں پر نہایت ہی باریک بینی کے ساتھ نگاہ رکھے جانے کی وجہ سے جہاں تک ممکن ہو ایک بہترین ادارے کا انتخاب بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے (تاکہ ہم اس کے زیر سایہ اپنا کام کرسکیں)۔ اسی لئے دوسرے اور تیسرے سیکریٹری کے منصب کیلئے کسی طرح کا ابہام باقی نہ رہے۔ یہ دونوں منصب ہونے چاہئیں۔

میرے مطابق ہماری خفیہ ذمے داریاں، سفارت خانے کے داخلی امور کے عنوان کے تحت سفارتی سرگرمیوں کے ساتھ فی الجملہ مناسبت رکھتی ہیں۔ بہرحال آئندہ کیلئے ہماری حکمت عملی یہ ہونی چاہئیے کہ انہی چار افراد کی تعداد پر اکتفا کریں اور اسی طرح معاون اہل کاروں کو جہاں تک ممکن ہو ایک دوسرے سے جدا رکھیں تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کام کس طرح سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم کوشش کریں گے SRF کے کاموں کی اطلاعات سفارت خانے سے باہر نہ جائیں۔ اس کام کی کوشش صرف DAUGHERTY سے ہی مربوط ہے۔ اس کے بعد ایک نیا پروگرام ہے اور DAUGHERTY اس کا ایک نتیجہ ہے، ا س کے بارے میں مجھے اطلاع دی گئی ہے۔ میرے خیال میں محکمہ وزارت کو یاد دھیانی کروانے کی ضرورت نہیں ہے کہ SRF کے اہل کاروں کی تعییناتی کا قدیم اور ظاہری طور پر ناقابل حل مسئلہ یقیناً پیچیدہ ہوگا اور کافی حدّ تک ہمارے خفیہ کام کے کمزور پڑنے کا سبب بنے گا اور اس بارے میں ہماری کوششیں کوئی اثر نہیں کریں گی۔ (ہم جتنا بھی کام کریں، یہ مشکلات رہیں گی۔)"

۱۲ جولائی سن ۱۹۷۹ء کو ۴۷۴۹۹۸ کے رئیس کی لاس اینجلس کے محکمہ خارجہ سے خط و کتابت ہوئی جو جمہوری اسلامی ایران کے ہر جزئی مسئلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی دخالت کے بارے میں نہایت آشکار اور صریح ہے اور اس بارے میں ایران  میں امریکہ کے جاسوسی مرکز (امریکی سفارتخانے) کی دستاویزات میں سے ایک واضح دستاویز ہے جس کا مضمون یہ ہے: "ہر وہ خبر جو "شہرستانی" ایران کے حالات کے بارے میں رکھ سکتا ہے ہم اسے سننے کے مشتاق رہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں اگر ممکن ہو تو بہت ہی کم وقت میں وہ "شہرستانی" کی مندرجہ ذیل موضوعات پر مبنی معلومات فراہم کر دے۔  ت / ۱  کو خود ہی مختلف موضوعات کو بالخصوص جو قم کے بارے میں ہیں، نظر میں رکھنا چاہئیے۔ کیونکہ مذکورہ ملاقات کے بعد (ٹیلیگرام میں حوالہ دیا جاچکا ہے) ایسی صورتحال ہوگی کہ جواب دیا جاسکے۔

تہران کیلئے: کیونکہ امریکا سے ت/ ۱ بھیجنے کیلئے کچھ باقی نہیں بچا ہے، اگر محکمہ خارجہ / لاس اینجلس مندرجہ ذیل درخواستوں کو پورا کرنے کی توان نہ رکھتا ہو تو آپ جنرل شہرستانی کے ساتھ ملاقات کے بارے میں اطلاعات کو ایک مرتبہ اور رابطہ کرنے کے بعد تہران منتقل کیجئے۔

درخواستیں مندرجہ ذیل ہیں:

الف: پرنٹ میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق عارضی حکومت نے کور کمانڈر عزیز اللہ رحیمی جو اپنا موقف کھل کر بیان کرتے ہیں اور فوج کے محافظ ہیں، کو نکالنے کی کوشش کی ہے، لیکن آیت اللہ خمینی نے ایسا ہونے سے روک دیا، جس سے حکومت کو خاصہ نقصان ہوا۔ ریاحی، وزیر دفاع اور فربد، بری فوج کے سربراہ دونوں نے ہی کہا ہے کہ (آیت اللہ) خمینی کے حکم کی پیروی کریں گے۔ ریاحی کے بارے میں اہم ذرائع کی نظر جاننا چاہتے ہیں۔ کیا رحیمی خود کو ریاحی یا فربد کی جگہ پر لانے کی کوشش کر رہا ہے؟ رحیمی کو فوج میں کس حدّ تک پشت پناہی حاصل ہے؟

ب: ھمافر گروپوں کی پوزیشن کیسی ہے؟ کیا وہ مجاہدین خلق کے ساتھ متحد ہیں؟ کیا وہ (آیت اللہ) خمینی کی حمایت سے پیچھے ہٹ رہے ہیں؟

ج: فوج کی داخلی کمیٹیاں؛ فوجی مراتب دینے کیلئے آیا کوئی باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے؟ آیا وہ کسی ایک فرد یا گروہ کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں؟ ان میں سے کوئی نمایاں شخصیت اُبھرتی ہوئی نظر آرہی ہے؟ معاشرتی تعلقات کے بارے میں اظہار نظر ہونا چاہئیے۔ فوجی اور سویلین کمیٹیوں کے آپس میں تعلقات کیسے ہیں؟

ہ: تیل کی لائنوں میں بم دھماکوں کے بارے میں اظہار نظر: تیل کی صنعت میں کام کرنے والوں کی مشکلات کے بارے میں آیا ذرائع کچھ جانتے ہیں؟ اور خوزستان کے عربوں کے اعتراضات کے بارے میں کیا معلومات ہیں؟

و: خوزستان کی مشکلات میں عراقیوں کی سرگرمیوں کے سبب دخالت ہو رہی ہے؟

ز: آیا اسے قشقائی قبیلہ کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟

کمیٹیاں

ح: آیا کمیٹیوں کے سربراہان بلا واسطہ (آیت اللہ ) خمینی سے رابطہ برقرار کرسکتے ہیں یا یہ کہ تہران کی مرکزی کمیٹی کے ذریعے اقدام کرتے ہیں؟ یا شورا ئے انقلاب اسلامی کے ذریعے؟

ط: آیا پولیس اور دیگر اداروں کی تشکیل کیلئے کمیٹیوں کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار وجود میں لایا جا رہا ہے؟ آیا ذرائع پتہ لگا سکتے  ہیں کہ کمیٹیوں اور بقیہ افراد کے درمیان ہونے والے اختلافات کس نوعیت کے ہیں، جن کے بارے میں شہروں سے بارہا اطلاعات موصول ہوچکی ہیں۔

ی: (آیت اللہ) خمینی کے مرکزی دفتر کے بارے میں اطلاعات فراہم کریں۔ آیا ان کا مرکزی دفتر واقعی مدرسہ فیضیہ میں ہے؟ یا یہ کہ وہ دوسری جگہوں سے استفادہ کرتے ہیں؟ محافظوں کے بارے میں کیا اطلاعات ہیں؟ کیا وہ ٹریننگ یافتہ ہیں؟ انہوں نے کس سے ٹریننگ لی ہے؟ وہ کون سے افراد ہیں؟ آیا ان کا بھی کوئی دفتر ہے؟ ان کا رئیس کون ہے؟

س: (آیت اللہ) خمینی کے فوراًٍ بعد جو  افراد ہیں، ان کے بارے میں تمام معلومات حاصل کریں۔ ان کے ساتھ سب سے زیادہ کون رہتا ہے؟ جن لوگوں کے نام درج ذیل ہیں، کیا وہ ان کے پاس مرتب آتے ہیں اور اگر ہاں تو ان کے بارے میں تمام ممکنہ معلومات حاصل کریں اور ان کے (آیت اللہ) خمینی سے رابطے کے بارے میں اطلاعات فراہم کریں: ان کے بیٹے احمد، داماد اشراقی، بہشتی، بنی صدر، خلخالی، لاہوتی، ملکوتی، منتظری۔ (آیت اللہ) خمینی کے "فدائیان اسلام" کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں؟ کیا خلخالی اس کے رہبر ہیں؟ "فدائیان اسلام" کے کیا مقاصد ہیں؟ اس کے کتنے کارکن ہیں؟

ع: براہ کرم (آیت اللہ) خمینی، شریعت مداری، گلپائگانی اور مرعشی نجفی کے درمیان تعلقات کے بارے میں توضیح دیں۔ آیا اِن میں سے ہر ایک کا اپنا مرکزی دفتر ہے؟ کیا ان کے اپنے محافظ ہیں؟ کیا محافظوں کے مختلف گروہوں کے آپس میں اختلافات ہیں؟ محافظوں کے مختلف گروہوں میں کتنے کتنے افراد ہیں؟

ف: شورائے انقلاب اسلامی تہران میں ہے یا قم میں؟ اس کا سرکردہ رکن کون ہے؟ اس کا اجلاس کتنے عرصے بعد ہوتا ہے؟ کیا وہ (آیت اللہ) خمینی سے باقاعدہ ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں؟

ص: (آیت اللہ) خمینی معمولی ملاقاتوں میں کن لوگوں سے ملتے ہیں؟ (آیت اللہ) خمینی سے لوگوں کی ملاقات کس طریقے سے طے پاتی ہے؟ کس مقام و رتبے کا آدمی ان سے ملاقات کرسکتا ہے؟

ق: (آیت اللہ) خمینی کی طبیعت ابھی کیسی ہے؟

ر: (آیت اللہ) خمینی کی موت واقع ہونے کی صورت میں ان کے جانشین ہونے کا امکان کس کیلئے ہے؟ قم میں کیا ہوگا، کیا اس کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے؟ کون سے افراد زیادہ سرگرم ہوں گے؟

ش: کیا قم میں سپاہ پاسداران کا دفتر ہے؟ ان کے کتنے لوگ وہاں ہیں؟ کیا انہوں نے ٹریننگ لی ہے؟ کس سے لی ہے؟

ت: ایسا سمجھا جاتا ہے کہ رحیمی کے ساتھ جو سیاہ پوش افراد ہیں، ان کا (آیت اللہ) خمینی سے خاص تعلق ہے۔ وہ کون لوگ ہیں؟ انہیں کس نے ٹریننگ دی ہے؟ وہ کتنے لوگ ہیں؟ اور ان کی وفاداریاں کس کیلئے ہیں؟

ک: قم میں امن و امان کی صورت حال کیسی ہے؟ قم میں بے گناہ افراد کس حدّ تک آسکتے ہیں؟ قم کے امن و امان کی ذمے دار پولیس ہے یا مجاہدین یا پاسداران انقلاب؟ ان کے آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات کیسے ہیں؟

ل: دہشت گرد کس طرح کے حادثات میں ملوث ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں؟ ان کی گرفتاری کے بعد انہیں کس طرح کی سزائیں دی جاتی ہیں؟ آیا مغربی ممالک "دہشت گردوں کی پشت پناہی یا حمایت کرتے ہیں؟

ہمیں امید ہے کہ مندرجہ بالا باتیں مفید ہوں گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ ذرائع ان تمام معلومات کو حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس کے باوجود وہ ان تمام باتوں کی طرف توجہ رکھیں۔

جیسا کہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے CIA کے مختلف اہل کار سفارتی ملازم کے عنوان سے تھے، جن کیلئے جعلی عناوین بنائے ہوئے تھے تاکہ ان کی حقیقی معلومات آشکار نہ ہو۔ یہ جعلی عناوین قوموں کو دھوکے میں رکھنے اور CIA کی کارستانیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ہوتے ہیں۔ یہ دستاویزات تمام قوموں کیلئے ایک آگاہی ہیں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3480


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔