عاشورائی تقریریں

محترمہ خدیجہ ثقفی
ترجمہ: سید محمد مبشر

2017-8-3


یہ مسائل محرم کی ابتدا سے عاشورا تک چلتے رہے جب وہ شعلہ بیان تقریر ہوئی اس کی اگلی رات روح اللہ خمینی کو گرفتار کرلیا گیا۔ پہلے انہوں نے ہمارے گھر کا گھیراؤ کیا، جو گھر سے باہر کا حصہ بن چکا تھا۔  کام کرنے والے اور بقیہ افراد جو جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سو رہے تھے انہیں بہت مارا اور ان سے آقائے خمینی کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ایسا لگ رہا تھا گھیراؤ کرنے والے پیراشوٹ سے اترنے کے ماہر تھے کیونکہ وہ ہمارے گھر کی چھت سے صحن میں آرام سےکود رہے تھے۔ آقائے خمینی تہجد کیلئے اٹھے تھے، اس شور شرابے سے وہ سمجھ گئے، کیا ہونے والا ہے۔ رات کے  ڈھائی بج رہے تھے۔ میرے پاس آکر کہنے لگے: سنو! میں نے کہا: جی۔ انہوں نے کہا: "یہ لوگ مجھے گرفتار کرنے  کیلئے آئے ہیں۔ تم پریشان مت ہونا اور کوئی آواز بلند نہ ہو، بقیہ لوگوں کو جگاؤ اور انہیں آرام سے رہنے کی تلقین کرو۔" ان کے اس سکون کو دیکھ کر مجھے سکون مل رہا تھا۔ وہ مجھ سے بات کرنے میں مشغول تھے کہ مجھے دروازے کی طرف سے صحن میں موجودہ لوگوں کے ہانپنے کانپنے کی آواز آئی۔ بعد میں بتایا گیا کہ وہ دوہزار افراد تھے جو شاید بعید ہو کیونکہ دوہزار اہل کاروں کی نفری کاہماری چھوٹی چھوٹی گلیوں میں آپانا بہت مشکل تھا۔ وہ تین سو، چار سو لوگ لگ رہے تھے لیکن مریض خانہ   روڈ پر ان کی تعداد بڑھ رہی تھی کیونکہ خود امام نے بتایا: "جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے میری گاڑی بدلنی چاہی، میں نے وہاں پوری روڈ حکومتی اہل کاروں سے بھری ہوئی دیکھی۔ میں نے اپنے برابر میں موجود فوجی افسر سے کہا: تم اتنے سارے لوگ ایک آدمی کو گرفتار کرنے آئے ہو! اس نے کہا: بیٹھئے۔

سکون سے رہنا!

سانسوں کی آوازیں ہر پل بڑھتی جا رہی تھیں۔  آقائے خمینی میرے پاس سے اٹھے تاکہ جانے کیلئے تیار ہوں۔ میں پریشان تھی لیکن میں نے سب گھر والوں کو جگایا اور ان سے کہا، اٹھیں۔ باہر کے کچھ مرد گھر میں داخل ہونے والے ہیں۔ اٹھیں تاکہ نامحرم افراد نہ دیکھیں۔ اٹھیں اور امام نے کہا ہے، سکون سے رہیں، پریشان نہ ہوں۔ سب اٹھ گئے اور کسی نے کچھ نہیں کہا۔ گھر کے سربراہ نے گھر کی سربراہی میرے حوالے کی جبکہ ہمارا بڑا بیٹا مصطفی گھر میں تھا۔ سب گھر والے میری طرف کان دھرے بیٹھے تھے کہ میں کیا کہتی ہوں۔ اچانک دروازے پر لات مارنے کی آواز آئی اور شور شرابے میں اضافہ ہوا۔ میں نے سب کو خاموش رہنے کو کہا اور کسی کو بھی اپنی مخالفت نہیں کرنے دی کیونکہ آقای خمینی نے کہا تھا، تم لوگ سکون سے رہنا۔

خمینی کہاں ہے؟

گھر میں موجود خاموشی کو آقائے خمینی کے اونچی آواز میں کہے جانے والے اس جملے نے توڑا: کیا ہو رہا ہے! آخر کیوں اتنا شور مچا رہے ہو! پڑوسی سو رہے ہیں! پڑوسیوں کو پریشان نہ کرو ! اسی اثناء میں گھر کا دروازہ ٹوٹا اور وہ لوگ گھر میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے ان سے پوچھا: خمینی کہاں ہے؟ انھوں نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے کہا: یہاں ہے۔ اور پھر دوبارہ کہا: میں، خمینی ہوں؛ میں روح اللہ خمینی ہوں، کسی کو پریشان مت کرنا۔ میں صنوبر کے درخت کے پیچھے تاریکی میں کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔ یہ مصطفی کا گھر تھا جو ہمارا گھر بن چکا تھا کیونکہ میں نے پہلے بتایا، ہم اپنے گھر سے ایک خاص حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹ چکے تھے۔ گھر والوں نے چاہا کہ چیخیں، پکاریں لیکن میں نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔ دشمن کے افسر نے آقائے خمینی سےپوچھا: تم خود ہو؟ نھوں نے کہا: ہاں، میں ہی ہوں۔ رات کے اس پہر میں تمہیں کیا کام ہے؟ دو تین لوگوں نےتیزی سے کہا: چلئیے۔ اور انہیں لے گئے۔ مصطفی نے چاہا، اسے بھی اس کے والد کے ساتھ لے جائیں۔ اہل کاروں نے اسے منع کیا لیکن وہ اصرار کر رہا تھا کہ اتنے میں آقائے خمینی نے اسے غصے سے کہا: واپس جاؤ! کس کے سامنے اصرار کر رہے ہو۔ ایسا انہوں نے اس لئے کہا کہ وہ نہیں چاہتے تھے دشمن کے مقابلے میں حتی اس حدّ تک بھی کمزوری دکھائی جائے جو اس بیٹے کیلئے فطری ہے، جس کے باپ کو پکڑ کر لے جایا جارہا ہو۔ مصطفی بہت بے چین تھا۔ میں نے اس سے کہا گھر والوں کا خیال کرو۔ وہ چپ ہوگیا۔ ہر شخص ایک کونے میں پڑا تھا۔

امام، مصطفی کے گھر میں آرام کر رہے تھے۔ حکومتی اہل کاروں نے اس  گھر کے گھیراؤ سے پہلے باہر والے حصے یعنی ہمارے اپنے گھر کا گھیراؤ کیا تھا۔ ہمارے گھر میں ہمارا ایک ملازم تھا مشہدی علی؛ وہ باورچی خانے کے ایک کونے میں ایک لکڑی لے کر چھپ گیا تھا تاکہ اگر دشمن آئے تو اس کے سر پر مار کر اس کا کام تمام کردے۔ دشمن کے پاس تمام وسائل تھے، جن میں ٹارچ بھی تھی (اسی لئے) دشمن نے اسے دیکھ لیا اور بعد میں اسے طمانچے لگائے اور ٹارچ مار کر اس کی پیشانی زخمی کردی۔ ہم لوگوں نے بعد میں مشہدی علی سے کہا: کیا تمہیں ایسا خیال نہیں آیا کہ وہ ٹارچ یا باورچی خانے کی لائٹ جلا دیں! اور تمہیں دیکھ لیں! کہنے لگا: میں تو یہی سمجھتا ہوں اور ابھی بھی مجھے یقین ہے وہ لوگ اس سے کہیں زیادہ بے وقوف ہیں۔ ایک اور ملازم جس کا نام مشہدی حسین تھا، جب اس نے دیکھا کہ حالات کی یہ نوعیت ہے تو خود کو ایک رنگین چٹائی میں لپیٹ لیا اور حالات مناسب ہونے تک اسی طرح صحن کے کنارے پڑا۔ (لیکن) بعد میں اس نے چیخ و پکار شروع کردی، میرا دم گھٹ رہا ہے! چٹائی کو جب کھولا تو وہ سہما ہوا باہر نکلا۔ یہ دونوں ہی یزد کے رہنے والے تھے۔ مشہدی حسین ہمارے ساتھ نجف چلا گیا تھا اور مشہدی علی کو کچھ دنوں کیلئے گرفتار کرلیا تھا، وہ کافی عرصے تک اسی گھر میں ملازمت کرتا رہا۔

آقائے خمینی کو لے گئے!

اس راستے جیسے ہی محلے کے لوگ گھروں سے باہر آتے ، دشمن انہیں اسلحہ دکھا کر دھمکانے لگتا۔ جس گاڑی میں آقائے خمینی کو لے کر گئے تھے، مصطفی اس گاڑی کے پیچھے کچھ دور تک گیا لیکن اس کے اس طرح پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا (اس لئے) واپس آگیا۔

آقائے خمینی کو فاطمی ہسپتال تک فولکس کار میں لے کر گئے پھر وہاں سے بینز کار میں۔ ہسپتال تک راستے کے تمام گروں کے کھڑکی اور دروازے کھلے ہوئے تھے اور لوگ جاننا چاہ رہے تھے کہ ہوا کیا ہے؟ سورج کی روشنی آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی۔ ہمارے گھر کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی (کیونکہ) اس گھر کے رہنے والوں کا شوہر، باپ، مرجع تقلید اور رہنما چھین لیا گیا تھا۔ ہر شخص حیران و پریشان ایک کونے میں پڑا ہوا تھا کہ میں نے کہا: اٹھوسب، نماز کا وقت ہے۔ اس صبح نماز فجر بہت اچھی پڑھی گئی جبکہ تمام لوگ برخلاف معمول ایک ساتھ اٹھے تھے۔

آقائے خمینی بتایا کرتے تھے: میں نے راستے میں ان لوگوں سے کہا: مجھے نماز پڑھنی ہے، انھوں نے اجازت نہیں دی۔ میں نے کہا: کچھ دیر رُک جاؤ، ہم سب نماز پڑھ لیں پھر چلتے ہیں۔ انہوں نے میری بات نہیں سنی۔ میرے اتنے اصرار کے بعد ایک جگہ صرف رُکے اور میں نے جھک کر اپنی ہتھیلیاں خاک پہ ماریں اور تیمم کیا اور مجبوراً کار میں ہی نماز پڑھی۔ جب میری نگاہ قم کے تیل کے ذخائر پر پڑی تو میں نے کہا: اس ملک کی تمام یا اکثر مشکلات کا سبب تیل ہے۔ اس بارے میں، میں نے کچھ باتیں کیں۔ بعد میں آقائے خمینی نے بتایا: وہ لوگ اس حد تک متاثر ہوگئے تھے کہ ان میں سے ایک نے کہا: ہمیں آپ کو واپس چھوڑ دینا چاہئیے۔ ہم آپ کو لے جاکر غلط  کر رہے ہیں لیکن آپ کو چھوڑنے کے بعد ہمارے واپس پلٹتے ہی ہمیں گولیاں مار دی جائیں گی۔ وہ یہ سب باتیں چاپلوسی کیلئے نہیں کر رہا تھا بلکہ تہہ دل سے کر رہا تھا اور اس کے بعد رونے لگ گیا۔

قصر جیل، امام کی میزبان

آقائے خمینی کو آفیسروں کے جیم خانے لے گئے۔ وہاں تھوڑا بہت ناشتہ دینے کے بعد قصر جیل لے گئے، راستے میں دشمن مسلسل تہران سے رابطے میں تھا اور تہران میں موجود اپنے افسر کو گاڑی اور امام کی صورت حال سے مطلع کر رہا تھا۔ مصطفی جو باہر ڈانٹ کھانے کے بعد آیا، اس نے دیکھا کہ ہر شخص ایک کونے میں پڑا ہے۔ مشہدی علی زخمی ہے؛ مشہدی حسین کی آواز چٹائی میں سے آرہی ہے، کچھ افراد ایک کمرے میں جمع ہیں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3242


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔