زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – تیرہواں حصہ

بہترین سوال

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-8-3


ہم کہہ چکے ہیں کہ زبانی تاریخ بات چیت یا محقق کے راوی کے ساتھ ہونے والے انٹرویو  کا ما حصل  ہے اور حاصل ہونے والا متن ان دو افراد کے رابطے کا نتیجہ ہے  جو ایک ساتھ کام کرنے اور سوال و جواب کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔

اصل میں انٹرویو  معلومات جمع کرنے، گذشتہ سے آگاہ ہونے اور  آج  اور کل کی ضرورتوں   کا جواب دینے کی جگہ ہے اور انٹرویو لینے والا، راوی اور مخاطب کے درمیان ایک واسطے کا کردار ادا کرتا ہے۔ اگرچہ زبانی تاریخ کا انٹرویو  رابطوں کی مہارتوں پر بھروسہ  کرتا ہے، لیکن اُس کا اصلی ہدف رابطہ برقرار کرنا نہیں بلکہ راوی کی معلومات اور محفوظات تک پہنچنا ہے۔ اس طرح کے سلسلے میں سوال جتنا دقیق اور با ہدف ہوگا، جواب بھی اتنا مکمل ہوگا۔

اسی طرح توجہ رکھنی چاہیے کہ کوئی بیہودہ سوال نہ کیا جائے اور ایک موضوع کے بارے میں کلی علم ہونا چاہیے کہ جس کے بارے میں سوال کئے جائیں۔ پس کلی معلومات کا ہونا سوال کا لازمہ ہے اور یہ معلومات جتنی زیادہ ہوں گی، سوال بھی بالکل اس کے مطابق ہوگا۔

افسوس کے ساتھ بعض ایسے انٹرویو لینے والے ہیں جو ایک اہم موضوع اور کچھ سوالات رکھنے کے باوجود، اُس موضوع کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے،  وہ گمان کرتے ہیں کہ اس سے پہلے کسی نے اس موضوع یا اُس سے متعلق کچھ بیان نہیں کیا اور اس سلسلے میں کوئی منبع و مأخذ نہیں ہے۔ وہ اس بات سے غافل ہیں کہ اسی موضوع  سے متعلق مختلف منابع قابل دسترس ہیں۔ اسی وجہ سے تاریخ شفاہی کے محقق  کیلئے ضروری ہے کہ وہ موضوع معین کرنے کے بعد ، لائبریریوں میں مطالعہ اور زبانی طور سے مطالب حاصل کرنے کیلئے کوشش کرے تاکہ وہ اپنے سوالات کو حاصل کردہ معتبر معلومات کے بھروسہ پر  پیش کرسکے۔ موضوع پر گہری اور مستقل نگاہ اور بہت زیادہ سوچ بچار، ضروری سوالات تک دسترسی حاصل کرنے کیلئے ہماری جستجو پر حاکم کلی روح کے نتیجے میں ایک با مقصد انٹرویو انجام پائے گا۔

اسی بنیاد پر، ایک اچھے سوال کی چند خصوصیات کی طرف مندرجہ ذیل موارد کی صورت میں اشارہ کیا جارہا ہے:

۱۔ واضح، دقیق، چھوٹا اور سوال کی صورت میں بیان ہو۔

۲۔ سادہ الفاظ کا استعمال اور راوی کیلئے اُن کا سمجھنا آسان ہو۔

۳۔ ایک ساتھ کئی سوالات نہ پوچھ لئے جائیں۔

۴۔ واضح بیان کی صورت  میں ہونا چاہیے تاکہ اُس کا مفصل جواب حاصل ہو۔ لیکن یہ کہ کوئی چھوٹی بات مورد نظر ہو۔

۵۔ سوال کو اس طرح سے پوچھنا چاہیے کہ اُس کا جواب "ہاں" یا "نہیں" میں نہ ہو۔

۶۔ اگر کسی صورت میں جواب چھوٹا ہو، ایسے میں راوی سے چاہا جائے کہ وہ موضوع کی تشریح کرے اور اُس مربوط مطالب کی توضیح دے۔

۷۔  سوال پھنسانے کیلئے  نہ ہو یا تفتیشی پہلو نہ رکھتا ہو۔

۸۔ جن امور کی طرف راوی مائل نہیں ہے اُس کی جستجو نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی غیر ضروری جزئیات کی طرف جانا چاہیے۔

۹۔ اصلی موضوع اور انٹرویو کے مقاصد کی حدود میں ہو اور غیر مربوط موضوعات کو چھیڑنے سے پرہیز کرے۔

۱۰۔ راوی کے ذہن کو  اس طرح سے تشویق دلائے کہ اُسے واقعات  یاد آئیں۔

۱۱۔ معتبر منابع کی بنیاد پر سوالات پوچھے جائیں۔

۱۲۔ اصلی موضوع کو تشخیص دینے کے بعد، مخاطب کی حالیہ ضرورت  کے تحت پیش کیا جائے۔

۱۳۔ راوی کو مضطرب اور تردید کا شکار کرکے اُس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے۔

۱۴۔ اصلی موضوع پر راوی کے دھیان کوبڑھائے۔

۱۵۔ زیادہ تر راوی کے براہ راست مشاہدات اور واقعات پر نظر رکھے نہ کہ اُس کے ذہن کی تحلیل اور تشخیص پر۔

۱۶۔ کسی مشخص جواب سے کوئی سمت مقرر نہ کی جائے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3681


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔