کمبل والی ماں بیٹی

رضوانہ دباغ
ترجمہ: سید محمد مبشر

2017-7-15


ہماری گلی کے سامنے آقائے بَہاری نامی شخص کی سلائی کڑھائی کی چیزوں کی دکان تھی۔ وہ بہت سمجھدار انسان تھے۔ وہ درحقیقت ہمارے اور آیت اللہ سعیدی کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھے۔ آقائے بَہاری امام خمینی ؒ اور آیت اللہ سعیدی کی تقریروں کی کیسٹیں اور پمفلٹ، آیت اللہ سعیدی سے لیکر میری والدہ تک پہنچاتے تاکہ ہم اس کی کاپیاں کروا کر اپنے مورد اعتماد لوگوں کو دیں۔ اور میری والدہ ان کیسٹوں کو مجھے دیتی تھیں تاکہ ان کا مواد لکھ کر کاپیاں کروا کے بانٹوں۔

میری والدہ ان پمفلٹوں کو لفافوں میں رکھ کر زیارتی جگہوں کی دعا کی کتابوں اور مفاتیح میں رکھ دیا کرتی تھیں یا جب کسی گاڑی سے اترتی تو لفافہ وہیں چھوڑ دیا کرتی تھیں تاکہ کوئی اسے اٹھا کر پڑھ لے۔

سن ۱۹۷۳ء میں میرا اور میری بہن کا نکاح ایک دو دن کے وقفے سے ہوا تھا۔ ہمارے نکاح کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک رات ہمارے یہاں مہمانوں کی کچھ تعدادموجود تھی، ایسے میں ساواک نے چھاپاما را۔

انہوں نے گھر کی تمام چیزیں الٹ پلٹ دیں اور تلاشی لی۔ ہم گھبرا گئے تھے اور خوفزدہ تھے ۔ وہ لوگ الماری کی ایک ایک دراز کھول کر ہمارے کپڑے باہر نکال کر پھینک رہے تھے ۔ میری والدہ ان کے پیچھے پیچھے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا رہی تھیں۔ ہم اس حدّ تک ڈرے ہوئے تھے کہ ہمیں خود اپنے دل کی دھڑکن کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ساواک کے اہلکار کچھ دنوں تک ہمارے گھر کی نگرانی کرتے رہے اور اس دوران جو بھی ہمارے یہاں آتا تھا، گرفتار کرلیا جاتا تھا۔ ہم لوگ اس صورتحال سے تنگ آچکے تھے۔ ہماری والدہ نے ہمیں جمع کیا اور کہا: اس صورتحال سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے سب مل کر چیخو چلاؤ۔

جب ہم لوگوں نے چیخنا چلانا شروع کیا تو ان حکومتی اہلکاروں میں سے ایک میری والدہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: "انہیں خاموش کرواؤ ورنہ تمہیں جان سے ماردوں گا۔"

میری والدہ نے کہا: گرمیوں کا موسم ہے اور ہوا گرم ہے، میں انہیں کیا کہوں، تم لوگوں کی موجودگی میں یہ آزادی کا احساس نہیں کر رہے، ہمیں بھی گرفتار کرکے لے چلو تاکہ ہمیں اس حالت سے چھٹکارا ملے، آخر صبر و تحمل کی بھی کوئی حدّ ہوتی ہے۔

ہمارے گھر کے محاصرے کا وقت جیسے جیسے بڑھ رہا تھا، صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی تھی، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے مرکزی دفتر سے رابطہ کیا اور اپنی ذمے داری معلوم کی۔ حکومتی اہل کاروں نے چھ دن بعد محاصرہ ختم کیا اور ہمارے گھر سے چلے گئے۔

اس واقعہ کو تقریباً دو مہینے گزرے تھے، ہمارے خاندان کے افراد ایک رات ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ اچانک گھر کا دروازہ بجنے لگا۔ میری بڑی بہن راضیہ نے جاکر دروازہ  کھولا۔ راضیہ نے وہیں دروازے پہ کھڑے کھڑے کہا: امی! پرویز خان آیا ہے، اسے آپ سے کچھ کام ہے۔

پرویز اور اس کے ساتھ آنےو الے بقیہ حکومتی اہلکار گھر  میں داخل ہوئے اور میری والدہ سے انہوں ں نے چاہا کہ وہ خاموشی سے ان کے ساتھ چلیں۔

ہم لوگ رو رو کے کہنے لگے: ہماری ماں کو کہاں لے جا رہے ہو! ہماری ماں کو لیکر نہیں  جاؤ …وہ لوگ ہمیں کسی بھی طرح خاموش کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے ہم سے کہا: ہمیں تمہاری ماں سے کوئی کام نہیں ہے۔ وہ صرف چند سوالوں کے جواب دیکر واپس آجائیں گی۔

میری والدہ کو اس رات لیکر گئے اور دو ہفتے تک ہمیں ان کی کوئی خبر نہیں ملی، یہاں تک کہ ایک دن صبح دوبارہ گھر کے دروازے کی گھنٹی بجی، ہم سمجھے کہ امی واپس آئی ہوں گی، لیکن ایسا نہیں تھا بلکہ تین گاڑیاں مسلح افراد کے ساتھ، مجھے لینے آئی تھیں۔ انہوں نے مجھے فوج  کی گاڑی میں بٹھایا۔ میرے والد بیچارے کچھ نہیں کر پا رہے تھے اور خود اپنے آپ سے مسلسل کہے جا رہے تھے: آخر میں انہیں ایک چودہ پندرہ سال کی لڑکی کو کس طرح لے جانے دوں، سب کو معلوم ہے یہ کس طرح کے لوگ ہیں۔

انہوں نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور گھر سے اٹھا کے لے گئے۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ کہاں اور کیوں لے جا رہے ہیں؟ میں بہت ڈری ہوئی تھی۔ جب میں جیل میں پہنچی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنی چادر اتاروں لیکن میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ ان لوگوں نے زبردستی میرے سر سے چادر کھینچ لی۔ جیل میں جب میں نے امی کو دیکھا تو مجھے خوشی کا احساس ہوا کیونکہ اس طرح کی جگہ پر امی کا میرے ساتھ ہونا میرے دل کی مضبوطی کا باعث تھا۔ اس وقت مجھے حوصلے کی زیادہ ضرورت تھی، جو اس وقت وہاں میری والدہ ہی مجھے دے سکتی تھیں۔ میں اس وقت ایک طلبہ تھی اور رفاہ اسکول میں پڑھتی تھی۔ میں اس اسکول میں مختلف ہنروں والے کام کیا کرتی تھیں اور میں نے اپنی کلاس کی سہیلیوں کے ساتھ مل کر عراقی ریڈیو سے ٹیلی کاسٹ ہونے والے مختلف ترانے ایک کاپی میں جمع کئے تھے، شاید وہ کاپی ساواک کے اہل کاروں کو ملی تھی، انہوں نے مجھے اسی بہانے سے گرفتار کیا تھا۔

پہلی رات وہ جگہ میرے لئے اس قدر خطرناک تھی کہ میں صبح تک کانپتی رہی اور سوئی نہیں۔ امی میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئی تھیں اور دبائے جا رہی تھیں۔

جیسا کہ میں نے بتایا انہوں نے ہماری چادریں چھین لی تھیں۔ ہم اپنے حجاب کیلئے فوجیوں کے صرف وہ کمبل استعمال کر رہے تھے جو انہوں نے ہمیں دیئے ہوئے تھے۔ ہمارا یہ فعل حکومتی اہل کاروں کیلئے نہایت تعجب آور تھا۔ وہ لوگ ہمیں "کمبل والی ماں بیٹی" کہہ  کر ہمارا مذاق اڑاتے تھے۔ مختصر یہ کہ وہ رات سختی سے گزری  اور صبح ہم دونوں کو تفتیش کے لئے لے گئے۔ سوال جواب کرنے سے پہلے ہنٹر، الیکٹرک شاکس اور دیگر چیزوں کے ذریعے تشدد کیا گیا۔ جب ہمیں الیکٹرک شاکس دیئے جاتے تھے تو ہمارا پورا بدن رعشہ میں مبتلا ہوجاتا تھا اور اس کے بعد انہوں نے مجھے اعتراف کرنے پہ مجبور کیا۔ میرے پاس بولنے کیلئے کچھ تھا ہی نہیں۔ میرے خلاف تنہا چیز جو ان کے پاس تھی وہ ان ترانوں کی کاپی تھی، جس میں لکھا ہوا ایک ایک لفظ مجھے معلوم تھا لیکن وہ لوگ چاہتے تھے میں ان چیزوں  کا بھی اعتراف کروں جو انہوں نے خود میری فائل میں درج کی ہیں۔

حکومتی اہل کار ہماری استقامت کی وجہ سے سخت غصے میں تھے۔ انہیں جب ہم پہ تشدد کرنے سے بھی کوئی نتیجہ نہیں ملا تو رات میں انہوں نے ہم دونوں کو الگ کردیا۔ کچھ دیر بعد مجھ پہ دوبارہ سخت تشدد کیا گیا۔ میں درد بھری آوازوں میں امی کو پکار رہی تھی کہ میری مدد کریں اور خود کانپ رہی تھی لیکن کوئی بھی میری مدد نہیں کرسکتا تھا۔ اسی دوران اکرمی صاحب کو اس کمرے میں لائے اور تشدد کرنے لگے۔ وہ ان سے چاہتے تھے کہ وہ جھوٹا اعتراف کریں۔ اسی طرح سے میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا اور مجھ سے بھی یہی کہا جا رہا تھا۔ وہ ہم پہ جتنا بھی تشدد کرسکتے تھے کر رہے تھے اور اس میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کر رہے تھے۔ مجھے کسی سے کوئی امید نہیں تھی، میں نے صرف خدا سے مدد طلب کی۔ مجھے اس وقت نہیں پتہ تھا کہ میری چیخوں کی وجہ سے امی کی کیا حالت ہو رہی تھی۔ انہوں نے خود ایسا بتایا: "میں اپنے سیل میں بے حال و پریشان ایک طر ف سے دوسری طرف جاتی تھی۔ اور تھوڑی تھوڑی دیر میں ایک سوراخ سے باہر جھانکتی تھی۔ میں اس شخص کی طرح تڑپ رہی تھی جسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔ میں اس رات ایک پل کیلئے نہیں سوئی۔ مجھے خوف تھا کہ کہیں وہ کوئی حیوانی حرکت انجام نہ دیدیں۔ میں ڈر رہی تھی، کانپ رہی تھی اور رو رہی تھی اور اپنے آپ سے کہہ رہی تھی: خدایا! یہ کیا ہو رہا ہے! یہ کیا مصیبت ہے! میں کیسے برداشت کروں! میرے پھول کو مسل رہے ہیں! تو خود ہی مدد کر! اس جہنم جیسے ٹارچر سیل سے تو ہی اسے نجات دے! صبح چار بجے تک میں اپنے آپ کو اس پرندے کی طرح دیواروں سے مار رہی تھی جس کے پرنوچ لئے گئے  ہوں، اچانک مجھے زنجیر کی آواز سنائی دی، میں سیل کے دروازے کی طرف جھپٹی۔ میں نے دیکھا دو اہل کار اسے زمین پر گھسیٹتے ہوئے لا رہے ہیں۔ میں نے اپنی پوری طاقت سے دروازے کو پیٹنا اور چیخنا شروع کیا۔ میں اس قدر چیخی چلائی کہ میرا نہیں خیال اس جہنمی جگہ پر کسی نے میری آواز نہ سنی ہو۔ جب میں نے دیکھا کہ بالٹی بھر پانی سے بھی تم ہوش میں نہیں آ رہی ہو تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کروں؟ میں اپنا سر، ہاتھ پیر، ہر چیز ، ہر جگہ مارنے لگی یہاں تک کہ  مجھ میں طاقت ختم ہوگئی اور ہلنے جلنے کے قابل بھی نہ رہی۔  میں ایک سوراخ میں سے تمہارے جسم کو حیرت سے تک رہی تھی۔ اسی اثناء میں تلاوت قرآن کی خوبصورت آواز سن کر میرے حواس بحال ہوئے: و استعینوا بالصبر و الصلوۃ و انھا لکبیرۃ اِلا علی الخاشعین۔ قرآن اتنی خوبصورت طرح سے پڑھا جا رہا تھا کہ جیسے خود خدا بول رہا ہو اور مجھے مخاطب کرکے صبر اور نماز کی دعوت دے رہا ہو۔ میں ہوش میں آئی اور زمین پہ بیٹھی، مجھے اندازہ ہوا کل رات سے لیکر اب تک کیا ہوا ہے۔

تلاوت قرآن کی آواز، آیت اللہ ربانی شیرازی کی آواز تھی جو مجھے دردناک آواز میں تسلی دے رہے تھے۔ وہ بھی میری طرح رات بھر نہیں سوئے تھے اور صبح تک نماز اور تلاوت قرآن میں مصروف تھے  لیکن ان کی آواز ان چیخوں کے درمیان کہیں کھو گئی تھی۔ اس جہنم میں اس عالم ربانی کا وجود میرے لئے آب حیات کی طرح تھا۔ مجھ میں دوبارہ جان آگئی اور میں زندہ ہوگئی۔ میں اٹھی اور اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا: خدایا! تمام امور اور تمام لوگوں  کو تیرے باقدرت ہاتھوں کے سپرد کرتی ہوں۔ اپنی بیٹی کی زندگی بھی تجھ ہی سے مانگتی ہوں۔

کچھ لوگ صبح سات بجے آکے تمہیں ایک کمبل میں ڈال کے لے گئے۔ میں سمجھی تم مرچکی ہو۔ میں دروازہ پیٹتے ہوئے چلانے لگی کہ مجھے بھی آکے لے جاؤ۔  میں اپنی بچی کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔ تم لوگوں نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے، قاتلوں! ظالموں!

درحقیقت اس وقت مجھے صرف آیات الٰہی  ہی سکون دے سکتی تھی۔ میں خوف اور امید کی کشمکش میں تھی۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا، میری پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔"

خود میں جب تشدد کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی تو مجھے کچھ نہیں پتہ تھا کیا ہورہا ہے۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو پولیس کے ہسپتال میں پایا۔ ایک مسلح فوجی میری نگرانی کر رہا تھا۔ میرے ہاتھوں کو بستر کے ساتھ زنجیروں سے باندھا ہوا تھا تاکہ بھاگ نہ سکوں۔ دن میں صرف ایک بار میرے ہاتھ کھول کر رفع حاجت کیلئے لیکر جاتے تھے۔ میری کلائیاں شدید زخمی تھیں اور ان میں درد ہو رہا تھا۔ سولہ روز اسی طرح سے گزرے اور میری حالت کچھ بہتر ہوئی۔ مجھے وہاں سے دوبارہ میری ماں کے سیل میں واپس لے آئے۔ امی نے مجھے اپنی آغوش میں لیکر تسلی دی۔ میری آنکھوں میں آنسو آئے اور اچانک میں نے زور زور سے رونا شروع کردیا۔ کچھ دنوں بعد میری جسمی اور نفسیاتی حالت بہتر ہوگئی۔ اب میں اپنےپیروں پر کھڑی ہو پا رہی تھی، تھوڑا بہت کھانا بھی کھانے کے قابل تھی اور چند قطرے پانی کے بھی پی رہی تھی،  لیکن امی کے زخم پک چکے تھے اور ان کی بدبو پورے سیل میں بس گئی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امی کی حالت بری ہی ہوتی جا رہی تھی یہاں تک کہ آخری دنوں میں وہ اٹھنے کے بھی قابل نہیں تھیں۔

اس حالت میں مجھے امی سے جدا کرکے، قصر جیل سے عدالت لے گئے۔ عدالت میں میرے لئے وکیل کیا گیا تھا۔ جس نے میرا دفاع کرنے کے پیسے لئے تھے۔ وکیل نے جب بات کرنا شروع کی تو اس نے کہا: "لوگ تحفظ کیلئے سیکیورٹی اداروں کے پاس جاتے ہیں لیکن جب وہی لوگوں کا تحفظ نہ کریں تو یہی ہوگا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر اتنے کم عمر بچوں کو کس طرح گرفتار کیا گیا ہے۔ قانونی اعتبار سے ان کے دستخط کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور ان کی جگہ ان کے والدین کو تائید کرنی پڑتی ہے جبکہ اس بچی کی ماں بھی جیل میں ہے اور اس کی حالت خود اس بچی سے زیادہ بری ہے۔ اسے اب تک کیوں جیل میں رکھا گیا ہے۔ اگر اس نے خلاف قانون کوئی کام کیا بھی ہے تو اسے بچوں کی جیل میں رکھنا چاہئیے تھا۔ اس کی عمر ابھی پندرہ سال ہے، اس کے دستخط کی کوئی حیثیت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔

بہرحال عدالت نے میرے نابالغ ہونے کا فیصلہ صادر کیا لیکن انہوں نے مجھے اتنی آسانی سے آزاد نہیں کیا بلکہ مجھے آزاد ہونے میں تقریباً چار مہینے لگے۔ اس دوران میں نے کیا کیا مشکلات برداشت کی ہیں، صرف خدا ہی جانتا ہے۔ مثال کے طور پہ؛ ایک دن انہوں نے کہا سب کی جگہ بدلی جائے گی۔ تمام قیدیوں کو  ایک تہہ خانے میں لے گئے، جس میں رطوبت بہت زیادہ تھی۔ پتہ نہیں وہ زمین کے کتنے نیچے تھا ،بس یہ جانتی ہوں کہ ہمارے لئے وہاں سانس لینا مشکل تھا۔ دو مہینے اسی طرح سے گزرے۔ مجھے یاد ہے تقریباً دس افراد ہوا کی کمی کے باعث مر گئے تھے۔ وہاں ڈاکٹر، انجینئر اور یونیورسٹی کے طلبہ جیسے افراد تھے۔ میں ان کے وہاں پر آنے کی وجہ بہت زیادہ نہیں سمجھ سکی تھی۔ میرے جیسے افراد ان میں سب سے چھوٹے تھے۔

وہ جگہ  اتنی چھوٹی تھی کہ ایک سیل میں انہوں نے سات لوگوں کو رکھا ہوا تھا اور ہم لوگ وہاں صرف بیٹھ ہی سکتے تھے۔

تقریباً چار مہینے ہوگئے تھے، مجھے امی کی کوئی خبر نہیں تھی اور کوئی خبر مل بھی نہیں پا رہی تھی۔ ایک دن قصر جیل میں، میں نے امی کو دیکھا۔ انہوں نے بتایا: تمہیں جب میرے پاس سے لیکر گئے، میری حالت اور بری ہوگئی۔ میں ایک قدم بھی چل نہیں پا رہی تھی اور حتی ہل بھی نہیں پا رہی تھی۔ سیل کے ایک کونے میں پڑی سڑ رہی تھی۔ یہاں تک کہ ایک دن نصیری (ساواک کا رئیس) نے وہاں کا دورہ کیا اور ہر سیل میں گیا۔ جب میرے سیل کا دروازہ اس کے لئے  کھولا گیا تو میرے زخموں کی بدبو اس سے برداشت نہیں ہوئی۔ اس نے ایک اہلکار سے کہا: "دروازہ کھلا رہنے دو تاکہ یہ بدبو نکلے اور میں آکے دیکھوں کہ یہاں کیا ہوا ہے؟"

نصیری دوبارہ سیل میں آیا اور اس نے مجھ سے کچھ سوالات کیئے اور مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ اسی دن شام چھ بجے کچھ لوگ آئے مجھے اس کمرے میں لے گئے جہاں نصیری تھا۔ نصیری نے پھر مجھ سے کچھ سوال کئے، مجھ سے تفتیش اور ایک معاہدے پر دستخط لینے کے بعد مجھے آزاد کردیا۔ جب مجھے پتہ چلا تم ابھی تک جیل میں ہو، بے ہوش ہوگئی اور تھوڑی دیرمیں گلوکوز پینے سے ہوش میں آئی۔ نیم بے ہوشی کے عالم میں، میں نے تمام واقعات کو اپنے ذہن میں دہرانا شروع کیا۔ میرا آزاد ہونا اور تمہارا جیل میں ہونا میرے لئے معمہ بن گیا تھا۔ میں نے بہت سوچا تو اس نتیجے پہ پہنچی کہ مجھے آزاد کیا گیا ہے تاکہ ہمارے گروہ کے دیگر افراد کے بارے میں یہ لوگ جان سکیں اور تم ان کے پاس گروی ہو۔

کچھ عرصے بعد جب ساواک کو اندازہ ہوگیا کہ مجھ پہ نظر رکھنا بے فائدہ ہے اور میری آزادی سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے اور مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کرتا ہے  کہ اسے گرفتار کیا جاسکے تو مجھے گرفتار کرکے دوبارہ جیل میں  ڈال دیا۔

امی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالنے کے دس دن بعد میں آزاد ہوگئی لیکن وہ قید میں ہی رہیں اور ہم دوبارہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ اس کے بعد جب وہ رہا ہوئیں تو ملک سے باہر چلی گئیں اور وہاں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ جو ہمیں نہیں معلوم، کیا تھیں؟ انقلاب کے بعد تو آپ جانتے ہی ہیں ہمدان کے سپاہ کی رئیس تھیں اور کچھ عرصے تہران میں تعیینات تھیں۔ اس کے بعد امام خمینی (رہ) کی طرف سے روس کی نمائندگی کیلئے منتخب ہوئیں اور ابھی خواتین کی انجمن کے کاموں میں مشغول ہیں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3849


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔