عباس کیانی کی یادوں کے ساتھ جو جنگی علاقے میں "توپخانے کے انچارج" تھے

صدامی فوج کی میراژ طیارے کے شکار کا دن

انٹرویو و تدوین: امین کیانی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-6-18


سردیوں کی ایک سرد شام، میں عباس کیانی کی یادوں کا مہمان ہوا۔ عباس صاحب دفاع  مقدس کے دلاوروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اسلامی جمہوری ایران کی آرامی کے رکن کے عنوان سے جنوبی اور مغربی محاذوں پر ۲۷۰۰ دنوں سے زیادہ  کا عرصہ گزارا ہے۔

جنگ میں فرنٹ لائن پر نہ ہونے کی وجہ سے توپ چلانے والوں کی یادیں منظر عام پر کم آئی ہیں، لیکن دفاعی پوزیشن پر ایک ۲۳ م۔ م توپ چلانے والا اپنے دوسرے ساتھیوں کی نسبت لڑاکا طیاروں کی فائرنگ رینج میں زیادہ ہوتا ہے، اس توپ کےبم گرانے والے جہازوں اور لڑاکا طیاروں سے ہونے والی جھڑپوں میں دلچسپ باتیں ہیں۔

عباس نے مختلف آپریشنوں میں توپخانے کے انچارج کے عنوان سے کارکردگی دکھائی ہے۔ خود اُن کے بقول اُنھوں نے جن تمام آپریشنوں میں شرکت کی ہے، اُن میں سے آٹھویں و الفجر  آپریشن کی بات ہی اور ہے۔ اس آپریشن کے قدیمی فوجی کی  یادیں سننے کیلئے ہم ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔

 

ہمیں اپنے بارے میں مختصر طور پر کچھ بتائیے

میں عباس کیانی، فرزند حسن اور میں سن ۱۹۶۶ء میں خرم آباد کے اسد آبادی (پرانا کوروش) محلے میں پیدا ہوا۔ میرے والد ٹیلی فون ایکسچینج میں کام کرتے تھے، میں بھی اپنے ہم عمر ساتھیوں کی طرح پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتا تھا۔

 

آپ کس سال اور کتنی عمر میں فوج میں بھرتی ہوئے؟

میں ۵ جنوری سن ۱۹۸۴ کو فوج میں بھرتی ہوا۔ جب میری پیدائش ۶۶ ء کی ہے تو میں ۱۹۸۴ میں ۱۷ سال  کا ہونگا، صحیح ہے نا؟

 

جی، بالکل صحیح ہے۔ کیا ہوا کہ آپ فوجی بن گئے؟

(ہنستے ہوئے جواب دیتے ہیں) خدا کی قسم، میں جب بھی فوجی لباس اور فوجی جوتے پہنے ہوئے لوگوں کو دیکھتا تو میں خوش ہوتا تھا، میں ہمیشہ سے اس بات کا منتظر تھا کہ میری قانونی عمر اتنی ہوجائے کہ میں بھی فوج میں بھرتی ہوسکوں۔ اس طرح کی یاد داشتوں کیلئے ہمیں اپنے ہاتھ میں ایک نوٹ بک رکھنی چاہئیے اور ہم سیدھے چلیں سن ۱۹۸۵ء میں، آٹھواں و الفجر آپریشن۔

 

جی، جی، ضرور۔ ہمیں بتائیے کہ آپ نے آٹھویں والفجر آپریشن میں کب شرکت کی ؟

ہم بالکل بھی آٹھویں و الفجر آپریشن کیلئے نہیں آئے تھے !ہم سن ۱۹۸۶ میں جنوری کے شروع میں جنگی علاقے سے ریسٹ ہاؤس منتقل ہوئے اور ہماری جگہ ایک تازہ دم یونٹ نے پوزیشن سنبھال لی۔ ہمارا ریسٹ ہاؤس شادگان کے سہ راہے پر تھا۔ ہم وہاں دو ہفتے رہے۔ ہم ریسٹ ہاؤس سے چار فروری ۱۹۸۶ء کو اروند کے علاقے کی طرف چل پڑے۔ وہاں پر ہمیں پتہ چلا کہ ایران کچھ دنوں میں آپریشن کرنا چاہتا ہے، اس بات کو گذشتہ آپریشنوں کے تجربے سے سمجھ سکتے ہیں۔ جگہ کی تبدیلی اور ریسٹ ہاؤس کی طرف منتقل ہونا اور وسائل کو تیار کرنے اور توپوں کی مرمت کرنے کی تاکید،  آپریشن انجام پانے کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔

 

ہم تھوڑا ماضی کی طرف جاتے ہیں۔ یعنی افواہ اُڑی تھی کہ آپریشن ہونا طے پایا ہے؟

نہیں۔  ایسا نہیں ہوا۔ فوج میں انٹیلی جنس مسائل کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، لیکن میں صورتحال سے سمجھ گیا تھا کہ کوئی آپریشن ہونے والا ہے۔ شاید آپریشن سے ایک گھنٹہ پہلے بھی، آپریشن کا نہیں بتایاگیا، لیکن تاکید کر رہے تھے کہ توپوں کی مرمت اور اُن کی حفاظت کریں وغیرہ وغیرہ۔

 

ریسٹ ہاؤس سے آپریشن والے علاقے کی طرف جانے والے دن کونسی تاریخ تھی؟

۴ فروری، ۱۹۸۶ء۔ ہم اروند کنار کی  طرف بڑھے اور وہاں تعینات ہوگئے۔

 

اس آپریشن میں آپ کونسے یونٹ اور لشکر میں تھے؟

۲۱ ویں حمزہ سید الشہداء لشکر میں۔

 

آپ لشکر کے کس زمرے میں تھے؟

ہم توپخانے میں تھے اور میں توپ کا انچارج تھا؛ ۲۳ م۔م۔ دفاعی توپ۔

 

کیا لشکر کا پورا توپخانہ اروند کے علاقے میں منتقل ہوا؟

نہیں،۳۲۷ ویں گولے برسانے والی بٹالین ۱۰۵ م۔ م توپ کے ساتھ مامور تھی۔ میں دفاعی پوزیشن پر تھا اور اس گولے برسانے والی ٹیم کی حفاظت پر مامور ہوا۔ ہم گاڑی کے ذریعے اپنے وسائل اور اسلحوں کو علاقے میں لے گئے۔  ہر توپ کیلئے  ایک گاڑی ہوتی ہے۔ توپ کھینچے والی گاڑی، اسلحہ اور مورچے کے وسائل کو بھی منتقل کرتی ہے۔ ہم رات کا کھانا کھانے کے بعد چل پڑے اور رات کی مکمل تاریکی میں اروند پہنچے۔

 

آپ نے توپوں کی جگہوں کو کیسے معین کیا؟

۱۰۵ توپوں اور سنگین توپخانے کی جگہوں کو گولے برسانے والی بٹالین کا انچارج، واچ مینوں ، زاویہ ناپنے والے آلے اور نقشہ بنانے والے وغیرہ کی مدد سے معین کرتا ہے،  لیکن ہم دفاعی لوگ تھے اور دفاعی توپ کو ہمیشہ علاقے کی بلند ترین اور بہترین جگہ پر ہونا چاہئیے، توپ قرار دینے کی جگہ کا انتخاب خود میرے ہاتھ میں تھا۔

 

پس دفاعی توپ دوسروں زیادہ فائر کی رینج میں ہوتی ہے؟

جی۔

 

آپ نے آٹھویں والفجر آپریشن میں کس پوسٹ پر ڈیوٹی دی؟

میں ۲۳ م۔ م دفاعی توپ کا انچارج تھا۔

 

مستقر ہونے سے لیکر آپریشن شروع ہونے تک کا وقت کیسے گزرا؟

ہم آپریشن شروع ہونے سے تقریباً چاردن پہلے علاقے میں مستقر ہوئے۔ ہم نے  توپ اور افراد وغیرہ کی پناہگاہ کو مرتب کیا۔ البتہ ہم پہلے اس علاقے میں رہے تھے اور ہمیں آپریشن والے علاقے سے مکمل آگاہی تھی۔ ابھی نہیں بتایا گیا تھا کہ ہمیں ایک آپریشن کا سامنا ہے، لیکن میرے لئے روز روشن کی طرح عیاں تھا کہ آپریشن ہونے والا ہے۔

 

یعنی آپریشن شروع ہونے تک آپ کو کچھ نہیں بتایا گیا؟

آپریشن شروع ہونے سے تقریباً ۵، ۶ گھنٹے پہلے ہمیں بلایا اور کہا کہ آج رات طے پایا ہے کہ آپریشن انجام دیا جائے۔ ہم کچھ حد تک مطمئن ہوگئے۔

 

آپ آزادانہ طور پر عمل کرتے تھے؟

اینٹی ایئر کرافٹ کا دفاعی یونٹ  آزادنہ عمل کرتا ہے۔ علاقے میں دشمن کے طیارے داخل ہوتے ہی اُسے  کم سے کم وقت میں دشمن کے طیاروں پر فائر کھول دینا چاہئیے۔  اگر ذرا سی تاخیر ہوجائے تو طیارہ اپنا کام دکھا جاتا ہے۔ اس آپریشن میں جیسےدرگیر ہونے والا یونٹ، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا یونٹ تھا، ہم سپاہ کے یونٹ میں مامور ہوئے اور ہمارے ذمے پاسدار فوجیوں کی بیک سپورٹ کرنے کا کام تھا۔ 

 

آپ کے مستقر ہونے کی جگہ نہر سے کتنے فاصلے پر تھی؟

ہم نہر اروند کے جوش مارتے کنارے سے تقریباً ۲۵۰ میٹر کے فاصلے پر تھے۔ ہم نے نہر کے اطراف  موجود نخلستان میں چھپ کر پوزیشنیں سنبھال لی تھیں۔ ہم نخلستان کے شروع میں تھے اور گولے برسانے والا ایک اور یونٹ ہم سے تھوڑا پیچھے، نخلستان میں مستقر ہوا۔ پہلی گولے برسانے والی ٹیم بھی خسرو آباد کی طرف مستقر ہوچکی تھی۔

 

آپریشن شروع ہونے کے وقت اور کوڈ ورڈ کے بارے میں وضاحت کریں؟

آپریشن رات ۱۰:۱۰ پر زہرا (سلام اللہ علیہا) کے مبارک کوڈ سے شروع ہوا، لیکن ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا۔ ۹ فروری ۱۹۸۶ء کو جب سوئی کی گھڑی ۱۰:۱۰ پر آکر رکی، تمام توپخانوں، کاتوشا اور ۱۳۵ و ۱۳۰ م۔ م سنگین توپوں نے ایک ساتھ گولے برسانا شروع کردیئے۔ ہم سمجھ گئے کہ آپریشن شروع ہوگیا ہے۔

 

آپ کی ڈیوٹی کیا تھی؟

طیارے شکار کرنا! صبح جب عراقی طیارے نظر آنا شروع ہوتے تو ہمارا کام بھی شروع ہوجاتا۔ دراصل ہم دفاعی پوزیشن والوں کیلئے اگلے دن صبح آپریشن شروع ہوا تھا۔ صبح کے ٹھیک ۷ بج رہے تھے کہ عراقی طیارے آگئے اور پوسٹوں پر بمباری کرنے لگے۔ پانچ جہازوں کی ٹیم ایک ساتھ آئی تھی۔  البتہ ہم ایک رات قبل سے ہی جھڑپیں شروع ہوتے ہی صبح تک بالکل آمادہ اور بے چینی سے عراقی طیاروں کے منتظر بیٹھے ہوئے تھے۔

 

آپ کا کام صرف دن میں ہوتا تھا؟ راتوں کو آپ لوگ بالکل آرام کرتے تھے؟

طیارے مسلسل آتے اور پوسٹوں پر بمباری کرتے۔ دفاعی ٹیم صرف دن میں کام کرتی۔ راتوں کو ہمیں کسی بھی صورت میں فائر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ البتہ رات کو لڑاکا طیارے بھی نہیں آتے تھے کہ ہم اُن کی پذیرائی کیلئے ہوتے۔ راتوں کو ایسا نہیں تھا کہ ہم مکمل آرام کرتے ہوں، رات کو ہمارا دوسرا کام شروع ہوجاتا۔ رات شروع ہوتے ہی جب طیارے آنا بند ہوجاتے تو ہم کل کیلئے توپوں  اور گولے کی پٹیوں کی صفائی کرتے۔ ہمارے آرام کرنے کا وقت وہی رات کے کھانے کا وقت تھا، دوپہر کا کھانا تو ہم اکثر اوقات توپ پر ہی کھایا کرتے۔

 

کھانے کی صورتحال کیسی تھی؟

کھانا بہت زبردست ہوتا اور وقت پر پہنچ جاتا تھا۔

 

کیا اپنے گولے برسانے والے افراد بھی کبھی گولے کی رینج میں آئے؟

ہائے کیا یاد دلایا، ہمارے دوسرے گولے برسانے والے یونٹ میں ایک جوان سیکنڈ لیفٹیننٹ تھا جس کا نام لیفٹیننٹ غزنوی تھا۔ کرمان کا رہنا والا تھا اور اُس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ یہ اسسٹنٹ لیفٹیننٹ بیات کے ساتھ نخلستان کے اندر تھے، جوملایر کا رہنا والا اور اُس کی ڈیوٹی کے آخری ایام چل رہے تھے اور ان کے علاوہ کچھ دوسرے سپاہی۔ جہاں یہ لوگ جمع تھے وہاں بمباری کردی۔ سب شہید ہوگئے وار تقریباً ۵۰ فیصد گولہ برسانے والے ختم ہوگئے۔

 

کبھی ایسا ہوا کہ آپ طیارے کو غلط سمجھ بیٹھے ہوں؟

ہم سے ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر ایک دفاعی توپخانہ تھا۔ اُس ٹیم میں اصفہان کے سپاہ کے افراد تھے، اُن لوگوں نے زیادہ ٹریننگ حاصل نہیں کی ہوئی تھی۔ ایک دن اُنھوں نے مجھے آواز دی کہ بھائی ہماری توپ خراب ہے، اگر زحمت نہ ہو تو اسے صحیح کردینگے؟ ہم نے اُسے ٹھیک کردیا۔ ہمارا ایک مورچہ پناہگاہ کی طرح کا تھا۔ میں اُس کے اندر تھا۔ ظہر کے قریب،فاو کی طرف سے  تین لڑاکا تیاروں کی ٹیم آئی۔ میں نے اپنے توپ کے سپاہی سے فوراً کہا: "دفاع،  طیارہ ..."میں نے بے یقینی کے عالم میں دیکھا کہ توپ پر میرا سپاہی  نہیں ہے، اُس نے جرم کا ارتکاب کیا تھا، لیکن خدا نے رحم کیا  کہ وہ توپ کے پیچھے نہیں کھڑا تھا، چونکہ وہ ہمارے اپنے طیارے تھے۔ میں  نے خدا کا شکر ادا کیا۔ ہمارے اپنے طیاروں کا  ایک کوڈ ہے کہ جب وہ قریب ہوتے ہیں تو برعکس ہوجاتے ہیں۔ یہ دفاعی ٹیم اور طیاروں کے درمیان کوڈ ہے توپخانے کے انچارج، طیاروں کی پہچان کی ٹریننگ کے دوران ان امور کے بارے میں بھی بتا تے ہیں۔ طیارے قریب آئے اور  کم بلندی پر برعکس ہوگئے۔ طیارےعلامت دینے کے بعد خود ہی اوپر کی طرف پرواز کر گئے۔ یہ اس آپریشن کے دوران  میرے واقعات میں سے ایک ہے۔

 

آپ آپریشن کی خبریں کیسے حاصل کیا کرتے تھے؟

ہم زیادہ تر آگے والی لائن کے واچ مین سے معلومات حاصل کیا کرتے اور ریڈیو کے ذریعے بھی خبروں سے باخبر رہتے تھے۔

 

آپ کی توپ نے کسی لڑاکا طیارے کا شکار بھی کیا؟

۱۱ فروری، انقلاب اسلامی کی کامیابی کی سالگرہ کا دن تھا۔ روازنہ کی طرح طیارے آئے۔ اُن کی پروازوں کے درمیان دس منٹ کا بھی فاصلہ نہیں تھا۔ ظہر ہونے والی تھی۔ کچھ لڑاکا طیارے دور سے نزدیک آتے دکھائی دیئے، وہ نچلی سطح پر پرواز کر رہتے تھے۔ ۲۳ دفاعی توپ زیادہ سے زیادہ ۲۵۰۰ میٹر تک مارسکتی ہے۔ میں توپ کے پیچھے کھڑا ہوا تھا اور میں نے خدا کی مدد سے ایک طیارے کو مارا۔ میراژ طیارہ تھا۔

 

کیسا ماحول بن گیا تھا؟

سب توپ کے گرد جمع ہوگئے اور تکبیر لگاتے ہوئے ہمیں مبارک دینے لگے۔

 

عراقیوں کے پاس زیادہ تر کونسے طیارے تھے؟

زیادہ تر مگ، سپر اٹاندار اور میراژ تھے۔

چند گھنٹوں تک اُن کی طرف سے کوئی طیارہ نہیں آیا، میں ۱۰۵ م۔ م توپ کے افراد کی مدد کرنے چلا گیا۔ ہماری ٹیم نے تمام توپوں کو کام سے لگایا ہوا تھا کہ  تسلیم شدہ علاقے پر گولے برسائیں۔ ہماری ٹیم نے اپنے مشخص شدہ علاقے پر بہت شدت سے گولے برسائے۔ دو گھنٹے بعد واچ مینوں نے اعلان کیا کہ گولے برسانے والی ۳۲۷ بٹالین جو ہم ہی  تھے، اُس نے تقریباً ۹۰ فیصد  موٹر سائیکل یونٹوں کو ختم کردیا ہے۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ اُن کا تعلق عراق کے صدارتی گاڑد سے تھا جو شکست کھانے والے فوجیوں کی مدد کیلئے آئے تھے  اور شروع میں ہی شکست سے دوچارہوگئے۔

 

آپ کو کب پتہ چلا کے فاو آزاد ہوگیا ہے؟

۱۸ فروری کو اطلاع دی گئی کہ پورا فاو آزاد ہوگیا ہے اور ہمارے لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور عراقی نمک کے دریا کے آخر تک  پیچھے چلے گئے ہیں۔ ہم سب خوش تھے  اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔

 

آپ کی ٹیم بھی فاو گئی؟

جی۔ ہماری ٹیم کو فاو جانے کا مشن سونپا گیا ۔حکم آیا کہ اپنے تمام وسائل کو فاو لے جائیں۔ ہم اپنی باری کا انتظار کرنے کیلئے لائن میں لگ گئے۔ کھینچنے والی گاڑی کے ذریعے ہم فاو گئے۔ ہم ۱۶ مارچ کو فاو میں داخل ہوئے، جب ہم پہنچے تو صبح ہوچکی تھی۔

 

فاو پہنچنے کے بعد آپ کا سب سے پہلا اقدام کیا تھا؟

توپوں کو مستقر کرنے کے بعد، ہم اپنی توپوں کیلئے مورچہ بنانا چاہتے تھے۔ مورچے کی بوریاں نہیں تھیں۔ گھی کے بہت سے خالی ڈبے تھے کہ جن میں ہم نے مٹھی بھردی اور ایک بہت ہی زبردست مورچہ بنالیا۔

 

آپ کے مستقر ہونے کی جگہ کہاں تھی؟

ہم شہر فاو سے دور تھے اور نمک کے دریا کے نزدیک مستقر ہوئے تھے۔عراقی فوجیوں کا ایک خالی مورچہ بچا ہوا تھا، ہم اُس میں داخل ہوئے۔ اُس میں ایک عراقی کا جنازہ تھا۔ ہم نے جنازے کو دفن اور مورچے کو صاف کردیا تاکہ اُسے استعمال میں لائیں۔

 

آپ کو اُن دنوں کا کوئی دلچسپ واقعہ یاد ہے؟

جی ہاں۔ ہمارے پاس ایک سپاہی تھا جو نیا آیا تھا۔ سر سے پیر تک پلاسٹک میں جکڑا ہوا تھا، موم کی طرح۔ اگر میں دیر سے پہنچتا تو حتماً مر چکا ہوتا۔ اُس سے کہا گیا تھا کہ کیمیائی بم مارا گیا ہے، یہ خدا کا بندہ بھی بہت ہی سادہ آدمی تھا، اس نے پوچھا میں کیمیائی بم سے بچنے کیلئے کیا کروں، بقیہ افراد نے بھی مذاق مذاق میں اسے پلاسٹک میں لپیٹ دیا تھا۔

ایک دن اور میں آیفا گاڑی کو لے گیا تھا، واپسی کے راستے میں، آبادان سے خسرو آباد جانے والی سڑک پر  میں نے چاہا کے ایک لوڈر کو اورٹیک کروں۔ اورٹیک کرنے کے دوران سڑک ختم ہوگئی، روڈ مڑنے لگی اور میں نہیں مڑا! میں ایک گڑھے میں جاگرا۔ میں نے جتنی کوشش کی گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوئی۔ ایک گھنٹہ وہیں رہا اتنے میں ایک ٹرک گزرا۔ وہ خود ہی رک گیا اور آیفا میں رسی باندھ کر اُسے باہر نکال لیا۔ میں ایک ہی چوٹ سے اُسے حرکت میں لے آیا اور وہ اسٹارٹ ہوگئی۔ میں چھاؤنی پہنچا۔ بعد میں جب میں نے ماشین کے پچھلے حصے پر نگاہ ڈالی تو دیکھا اُس کا ایک حصہ ٹیڑھا ہوگیا تھا۔ ہمارے یہاں ایک لیفٹیننٹ تھا جو ہر چیز پر اعتراض کرتا تھا۔ جب اُسے گاڑی کا معاملہ پتہ چلا تو بہت ہی غصے سے آیا۔ بہت ہی شور شرابہ کیا۔ ہم دفاعی توپ  کو تقریباً ۴۰ سینٹی میٹر تک اوپر لائے ہوئے تھے او ر اُس کے نیچے بوری لگائی ہوئی تھی۔ توپ بالکل جنگ کی حالت میں تھی۔ لیفٹیننٹ مسلسل کہے جا رہا تھا کہ گاڑی کو خراب دیا ہے، تمہیں اس کا نقصان پورا کرنا پڑے گا۔ مسلسل امر و نہی کر رہا تھا۔ میں نے کہا: لیفٹیننٹ رہنے بھی دو! جرح و بحث کے دوران طیارے آگئے۔ میں نے فوراً توپ کے پیچھے چھلانگ لگائی اور کہا: لیفٹیننٹ صاحب، مورچے میں جائیے۔ میں نے پیڈل پر زور دیا اور طیارے پر فائر کھول دیا۔ جب طیارے چلے گئے اور ماحول پرسکون ہوگیا تو میں نے ادھر اُدھر دیکھا لیکن اعتراض کرنے والے لیفٹیننٹ کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ میں اُنہیں ڈھونڈنے لگا۔ میں نے توپ کے نیچے دو پیر دیکھے۔ وہ بولا: سارجنٹ مجھے باہر کھینچو۔ اُس کا پیٹ تھوڑا موٹا تھا اور پھنس گیا تھا۔ نہیں معلوم وہ نیچے کیسے چلا گیا تھا۔ میں نے اُسے باہر نکالا۔ خدا کا بندہ خوف کی وجہ سے اکھڑی اکھڑی سانس میں بات کر رہا تھا۔ وہ بولا: تم جو کرنا چاہتے ہو کرو، جو تم پر اعتراض کرے وہ احمق ہے۔ میں نے کہا: لیفٹیننٹ پس گاڑی کا کیا ہوگا، وہ خراب ہوگئی ہے! وہ بولا: رہنے دو، اپنا کام کرو، میں تو چلا!۔

 

آپ کب تک فاو میں رہے؟

میں ۲۶ مارچ ۱۹۸۶ء تک فاو میں تھا۔ اُس سال عید نوروز ہم نے فاو میں گزاری۔

 

عراقی طیارے فاو پر بھی حملہ کرتے تھے؟

اُن کے حملے بہت ہی کم ہوگئے تھے اور ہمارے پاس آرام کرنے کا بہت موقع تھا۔ ۲۶ مارچ کو ہماری جگہ کوئی اور آگیا اور ہم اہواز لوٹ آئے اور چھٹیوں میں خرم آباد آگئے۔

 

آپ چھٹیوں سے واپس آنے کے بعد دوبارہ بھی فاو گئے؟

نہیں۔ جب ہم چھٹیوں سے واپس آئےتو شلمچہ میں واقع دفاعی لائن پر گئے ۔

 

ہم اس بات پر بہت شکر گزار ہیں کہ آپ نے اپنا وقت ہمیں دیا؟

نہیں کوئی بات نہیں۔ میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3480


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔