زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتوں پر انٹرویو – چھٹا حصہ

انٹرویو سے پہلے معلومات کی اہمیت

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-6-14


زبانی تاریخ کے انٹرویو سے وابستہ ضرورتوں میں سے ایک، انٹرویو کے موضوع  اور اُس کے مسائل کے بارے میں اچھی خاصی معلومات اور آگاہی رکھنا  ہے۔ بدقسمتی سے بعض دفعہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ انٹرویو لینے والا بہت کم معلومات کے ساتھ انٹرویو شروع کر دیتا ہے انٹرویو کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتا۔ اس حالت میں بعض سنگین  نقصان اٹھانے پڑتے ہیں کہ جن میں سےکچھ مندرجہ ذیل ہیں:

 

۱۔ دقیق سوالات نہ ہونے کی وجہ سے انٹرویو معین شدہ اہداف کے فریم میں باقی نہیں رہے گا۔

۲۔ محقق، راوی کے ذہن کو فعال بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

۳۔ پورے انٹرویو کے دوران راوی کے مطالب کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہوگا۔

۴۔ انٹرویو بے نیاز اور اہمیت کے حامل متون سے خالی ہوگا۔

۵۔ انجام دیئے جانے والے انٹرویو سے نہ ہی راوی راضی ہوگا اور نہ ہی محقق۔

اسی وجہ سے محقق کو مناسب علم اور معلومات سے بہرہ مند ہونا چاہئیے۔

 

ان معلومات کا بعض حصہ عمومی ہوتا ہے۔مثلاً اگر انٹرویو کا موضوع دفاع مقدس سے مربوط ہے، تو انٹرویو لینے والے کے ذہن میں جنگ شروع ہونے اور جنگ ختم ہونے کے وقت کا علم ہونا چاہئیے۔ اور اُسے یہ بھی پتہ ہونا چاہئیے کہ جنگ ایران کے مغرب  میں ہوئی یا مشرق میں یا کن صوبوں میں جنگ انجام پائی اور وہ ایران ، عراق کی جنگ کے بارے میں کلی اور عمومی معلومات کے خلاصہ کا مطالعہ کرلے کیونکہ ممکن ہے کہ انٹرویو کے دوران اُس کی طرف اشارہ کیا جائے۔

معلومات کا دوسرا حصہ، تاریخ سے مربوط ہے۔ یعنی محقق کو تاریخ اور مربوط حوادث سے آگاہ ہونا چاہئیے۔ جیسے کوئی محقق انقلاب اسلامی کی تاریخ کے دائرے میں یاد داشتوں کو ریکارڈ کرتا ہے، اُسے حتماً پہلوی حکومت کی تاریخ اور اُس کے خلاف مختلف سیاسی و ثفاقتی جدوجہد کے طریقہ کار سے آگاہ ہونا چاہئیے۔ اگر انٹرویو لینے والے کو پہلوی حکومت کے ڈھانچے  اور سیاسی اور جہادی گروہ کی تشکیل کی کیفیت کے بارے میں صحیح سے علم نہیں ہوگا اور وہ صرف راوی کی معلومات پر بھروسہ کرے، تو یہ بالکل غلط ہے۔

ایک اور فیلڈ جس کی نسبت زبانی تاریخ کے محقق کو باخبر ہونا چاہئیے، وہ معاشرے کی حالیہ شرائط ہیں کہ جس کے بارے میں گفتگو کرنا طے پایا ہے۔ مثلاً اگر راوی اپنی تاریخی حیات میں سے زندگی اور معاشرے کی اجتماعی صورت پر بات کرے،  تو ضروری ہے کہ زبانی تاریخ کا محقق اُس زمانے کے بارے میں  حقیقی معلومات سے آگاہ ہو۔

خصوصی معلومات

زبانی تاریخ  کے محقق کے پاس انٹرویو سے پہلے کم سے کم موضوع سے متعلق  خصوصی معلومات ہونی چاہئیے اور وہ اُن سے آگاہ ہو۔ مثلاً ایک نظامی فوجی کے انٹرویو کیلئے کہ جو دفاع مقدس کی یادوں کو بیان کررہا ہے، تو محقق کیلئے ضروری ہے کہ وہ فوجیوں کی تربیت کے عمل سے لیکر محاذ پر جانے تک ، جنگ کے دوران شرائط زندگی ، اسلحوں اور آپریشن کی کیفیت کی معلومات حاصل کرلے۔ بدقسمتی کبھی کبھار مشاہدہ میں یہ بات آئی ہے کہ محقق اتنے خصوصی مطالب سے بھی بے خبر ہوتا ہے اور یہی بات راوی کے تعجب کا باعث بنتی ہے اور پھر اس سوال کا باعث بنتی ہے کہ "آپ کم سے کم معلومات نہ ہونے پر بھی کیسے میرا انٹرویو لینے کیلئے تیار ہوگئے؟!"

کبھی ممکن ہے کہ انٹرویو کسی سائنسی موضوع یا پیداوار یا خاص مصنوعات کی ایجاد  کی تاریخ کے بارے میں ہو، فطری طور پر ایسے حالات میں ٹیکنیکی اور خصوصی معلومات کا رکھنا ایک ضروری امر ہے ۔

راوی کے بارے میں معلومات:

واضح بات ہے جب انٹرویو کا موضوع ، ایک کسی خاص شخص کی زندگی اور اُس کی کارکردگی کے بارے میں ہے تو اُس کے بارے میں ایک اجمالی تحقیق ہونی چاہئیے اور محقق کو پتہ ہونا چاہیئے کہ وہ کتنی خصوصیات کے حامل شخص کا انٹرویو کر نے جا رہاہے۔ انٹرویو کے دوران راوی کی ذاتی، فکری اور نفسیاتی خصوصیات سے آگاہ ہونے کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اسی طرح وہ واقعات اور حادثات جن کا راوی سے سروکار رہا ہے، اُن سے بھی اجمالاً آگاہ ہو۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3785


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔