"روزھای بی آینہ" کی مؤلفہ، گلستان جعفریان سے بات چیت

میں نے تمام چیزیں راوی پر چھوڑ دیں تھیں

انترویو: فائزہ ساسانی خواہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-6-5


کتاب "روزھای بی آینہ" میں منیژہ لشکری کی یادیں ہیں کہ جن کے شوہر حسین لشکری نے اپنی عمر کے اٹھارہ سال صدامی فوجی کی قید میں گزار ے، اس کتاب کو گلستان جعفری نے تحریر کیا، جو حال ہی میں دفاع مقدس کی کتابوں میں شامل ہوئی ہے۔ ادبی و مزاحمتی ہنر کے دفتر اور سورہ مہر پبلیشرز کی طرف سے اس کی اشاعت کے موقع پر اچھا موقع فراہم ہوا کہ ایرانی زبانی تاریخ کے خبر نگار نے اس کتاب کی مؤلفہ سے گفتگو کی،  جو سالوں سے دفاع مقدس کے لئے کام کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں کئی کتابیں لکھ چکی ہیں۔

 

کتاب "روزھای بی آینہ" کس قدر  یادوں پر مبنی ہے اور کس قدر زبانی تاریخ پر مبنی ہے؟

یہ بہت خصوصی  بحث ہے اور شاید اس کا  بہترین جواب ماہرین اور ناقدین بہتر طریقے سے دے سکیں؛ لیکن میرے خیال میں اس  کتاب میں یادوں کی تحریر ہے۔ چونکہ زبانی تاریخ کی تعریف سے معلوم ہے۔ راوی سے سوال پوچھا جاتا ہے، جواب دریافت ہوتا ہے اور بغیر  کسی عمل دخل  کے ایک تصحیح کے بعد، شائع ہوجاتا ہے؛ لیکن اس کام کے قالب اور حدود میں مشخص ہے کہ یہ ایسا کام نہیں ہے جو سوال و جواب پر مبنی ہو۔ البتہ میں نے راوی سے تیس گھنٹے تک انٹرویو لیا ہے جس کے نتیجے میں یہ کم حجم کتاب بنی ہے۔ اگر میں چاہتی تو اُس پورے انٹرویو پر زبانی تاریخ کے معیار سے کام کرتی، کتاب کا حجم کافی زیادہ ہوجاتا ۔

 

دراصل آپ جان بوجھ کر زبانی تاریخ میں داخل نہیں ہوئیں۔

جی، ایسا ہی ہے۔ میں اپنے دوسروں کاموں میں، حتی یادوں کی تحریر میں زیادہ تر ادبیات اور  افسانوی ڈاکومنٹری کی طرف رجحان رکھتی ہوں اور یاد داشت کیلئے، مجھے زبانی تاریخ کا قالب زیادہ پسند نہیں۔ میرے خیال سے یادوں کی تحریر زیادہ کارآمد ہے، چھوٹی اور مختصر  ہوتی ہے۔ خاص طور سے مزاحمتی ادب، جب آپ ادبیات کی طرف آتے ہیں تو  مخاطب کیلئے زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔

 

یہ جو آپ کہہ رہی ہیں کہ افسانوی ادبیات کی طرف رجحان ہے، یعنی آپ متن میں تصرف کرتی ہیں؟

نہیں، میں نے اس کتاب کو لکھتے ہوئے، کسی طرح بھی اپنے تخیل اور ذہن سے استفادہ نہیں کیا اور یہ کتاب حقیقت پر مبنی ہے۔ میرے خیال سے جب آپ تیس گھنٹے کے مصاحبے  کو لفظ بہ لفظ ادبی شکل کی صورت میں لائیں گے، یہ یادوں کی تحریر میں بہت اہم ہے۔ یعنی یادداشت کو حتماً ادبیات اور داستان کے فریم میں ہونا چاہئیے۔ فریم میں لانے میں آپ کے ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور آپ متن کو زبانی تاریخ، ڈاکومنٹری اور  ادبیات کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ جب میں کہتی ہوں ادبیات یا افسانوی ڈاکومنٹری ، کہیں قاری کا ذہن بھٹک نہ جائے کہ شاید اس کام میں کوئی عمل دخل یا تصرف کیا گیا ہے۔ نہیں،  میں نے اس کام میں اور اس تیس گھنٹے کے انٹرویو کیلئے یہ فیصلہ کیا کہ اس طرح کے فریم میں کام کروں۔ لہذا یہ کام سو فیصد انٹرویوز پر مبنی ہے۔

 

اس کتاب کی راوی، بہت خصوصیات والی خاتون ہیں، جن کے شوہر اٹھارہ سال قید میں رہے، اُنہیں طولانی مدت تک اپنے شوہر کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ وہ زندہ ہیں یا شہید ہوچکے ہیں  اور دوسری باتیں۔ اس طرح کا آدمی جس میں اتنی منفرد خصوصیات پائی جاتی ہوں اس کی یادوں کو صرف ۱۵۰ صفحات پر کیوں لکھا گیا، وہ بھی ایسی شرائط میں جبکہ چند سالوں سے یادوں کی تحریر کی جزئیات پر کام ہو رہا ہے؟

شاید میری سب سے پُر حجم کتاب "چھار فصل کوچ" ہو۔ حتی کتاب "ھمہ سیزدہ سالگی ام" مہدی طحانیان کی یاد داشتیں، اُس میں صلاحیت تھی کہ وہ ۷۰۰ صفحات پر مشتمل ہوتی، لیکن وہ تقریباً ۴۰۰ صفحات کی ہے۔ میرا قصد یہ ہوتا ہے کہ یاد داشتیں مختصر ہوں اور زیادہ پھیل نہ جائیں۔ آج کل خدا کے لطف و کرم سے مزاحمتی ادب کو زیادہ پسند کیا جا رہا ہے، میں اس بات کو ترجیح دیتی ہوں کہ کتابیں کم حجم ہوں۔ اب تک جو قارئین کی رائے دریافت ہوئی ہیں، میں نے احساس کیا کہ میں خوش نصیب ہوں اور اس کتاب کو پسند کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کتنی دوستانہ اور آسان ہے اور ہم اس کتاب کو مختصر سے عرصے میں پڑھ لیتے ہیں۔ میرے خیال سے یہ طریقہ کار زیادہ مفید ہے۔ شاید مجھے زیادہ زحمت اٹھانی پڑے، چونکہ میری کوشش یہ رہی کہ یادداشتیں، بہت منظم اور دائرے کے اندر ہوں اور اُن کا حجم بھی زیادہ نہ ہو۔ میری نظر میں جب مؤلف کا ہاتھ کھلا ہوتا ہےکہ وہ ان واقعات کو ۷۰۰ صفحات پر منتقل کرے تو  یہ بہت ہی آسان سی بات ہوتی ہے۔

 

البتہ یہ سوال اسی طرح باقی ہے کہ جب ہمیں ایسے موضوع کا سامنا ہوتا ہے کہ جس میں زیادہ تر یادداشتیں شامل ہیں، آپ کیسے مطمئن ہوئیں کہ تیس گھنٹے کا انٹرویو کافی ہے اور آپ کو کس طرح اطمینان حاصل ہوا کہ آپ نے راوی کی بہترین یادداشتوں کو جمع کرلیا ہے؟

دیکھئے، خانم لشکری کے شوہر بیس سال کی عمر میں لاپتہ ہوجاتے ہیں۔انھوں نے اپنے آپ کو تیئس سال تک آئینے میں دیکھا تک نہیں۔ اس کام میں میرا سامنا ایسی خاتون سے تھا جنہیں نفسیاتی مشکلات کا سامنا رہا اور تقریباً ۵ سال کا عرصہ گزرا  ہے کہ اس جوان خاتون نے خود کو ڈھونڈ لیا ہے۔ اگر میں صرف انہی پانچ سالوں کی بات کروں اور بہت سے دوسرے موضوعات جن کی طرف میں نے کتاب میں اشارہ کیا ہے، تو انہیں جمع کرنا بہت مشکل اور یہ کام بہت ضخیم ہوجاتا۔ یہ واقعات، دوسرے مواقعوں کی تلاش میں ہیں اور میرے کام کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ میں وسیع پیمانے پر کام کروں۔ جو نکتہ مجھے ضرور بیان کرنا چاہئیے؛ بس میں اتنا ہی کہہ سکتی ہوں کہ ایک معجزہ تھا کہ محترمہ لشکری انٹرویو دینے کیلئے تیار ہوئیں اور اُن کے واقعات تحریر میں لائے گئے۔ اس عرصے میں انھوں نے مجھ سے کئی دفعہ رابطہ کیا کرکے کہا: "میں نہیں چاہتی یہ کام منظر عام پر آئے۔" میں اُن سے دوبارہ بات کرتی، اُنہیں قائل کرتی  اور کہتی: "آپ اجازت دیں کہ دوسرے بھی جانیں کہ آپ نے ان سالوں میں کن شرائط کو تحمل کیا ہے۔ مخاطب کا آپ کے واقعات کو دہرانا اور اُنہیں پڑھنا ممکن ہے کہ ابھی آپ کیلئے اضطراب کا باعث ہو، لیکن بعد میں یہی چیز آپ کیلئے آرام دہ ہوگی اور آپ کو احساس ہوگا کہ بہت سے انسان ہیں جنہوں نے آپ کے رنج و ملال پر تکلیف کا احساس کیا ہے اور انھوں نے آپ کے ساتھ آنسو بہائے ہیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ اگر آپ کی یاد داشتیں شائع ہوگئیں تو آپ کی ذہنی شرائط بھی اچھی ہوجائیں گی۔ کیونکہ آپ نے ان تکالیف کو دوسرے کے ساتھ تقسیم کرلیا ہے اور یہ فطرت کا قانون ہے کہ جب آپ اپنی تکالیف کو دوسروں سے بیان کریں گے تو خود کو ہلکا محسوس کریں گے۔" اس طرح سے قائل کرنا، بہت زحمت والا کام تھا۔

اس راوی کو قائل کرنا کہ جس کی زندگی نشیب و فراز سے بھری ہوئی تھی اور ان خالص واقعات کو نکالنے کیلئے انٹرویو کیلئے ایک سال کا عرصہ کافی تھا؟ میں اس وجہ سے پوچھ رہا ہوں کہ راوی اپنے مزاج کے لحاظ سے سامنے والے پر بڑی مشکل اور بہت دیر سے اعتماد کرتے ہیں۔ یعنی اُنہیں انٹرویو لینے والے پر اعتماد کرنے کیلئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے، باتیں کرنا اور خود کو اُن کے سامنے ناچیز ظاہر کرنا اور ایسے مسائل کو چھیڑنا جن کے بارے میں وہ ابتدائی انٹرویو میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

وہ ایک سال جب میرا سارا دھیان انٹرویو پر تھا، جیسا کہ آپ نے کہا میں نے اس کام پر تمرکز کیلئے چند نشستیں کی تاکہ اُنہیں راضی کرسکوں  اور وہ پیش آنے والے مختلف مسائل کے بارے میں شکوے شکایات  کرنے پر راضی ہوجائیں تاکہ اُن کا ذہن پرسکون ہو جائے۔ لیکن میں نے اُن کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے جو وقت صرف کیا، شاید کچھ مہینے ہی لگے تھے۔ جب میں اُن سے ملی، اُن کی نگاہوں میں میرے لئے اتنی اجنبیت اور بے اعتمادی تھی  کہ میرا دل بیٹھ گیا۔ میں پریشان تھی کہ کس طرح ان کا انٹرویو لوں۔ میں نے بیس سال تک مختلف افراد سے انٹرویو لیا تھا اور اس لحاظ سے میں کوئی ناپختہ اور ناتجربہ کار نہیں تھی۔ کئی سالوں قبل، حالانکہ مجھے  کافی عرصہ سے مختلف افراد سے انٹرویو لینے کا تجربہ تھا اور میں روزانہ صبح مورد نظر شخص سے انٹرویو لینے کیلئے مضطرب ہوتی تھیں۔ لیکن جب میں محترمہ لشکری کے پاس گئی، مجھے انٹرویو کی بے چینی اور مخاطب کی توجہ جلب کرنے کا مسئلہ نہیں تھا اور میرے لئے یہ مشکل کئی سال پہلے ہی حل ہوچکی تھی۔ مجھے سب پتہ تھا کہ انٹرویو دینے والے سے کیا پوچھنا ہے، میرا فریم ورک کیا ہے اور مجھے کس روش سے آگے بڑھنا ہے، اعتماد جذب کرنے کی یقینی صورت کیا ہے؛ لیکن اس کے باوجود، جب میں اس خاتون کے سامنے بیٹھی،  مجھے مکمل طور سے احساس ہو رہا تھا کہ میں خالی ہاتھ ہوں۔ چونکہ  اس خاتون میں اتنی تنہائی، بے اعتمادی، تھکن  اور یہ شکوہ کہ میرے پاس اب کیوں آئیں؟ میرے بارے میں کیوں غفلت برتی گئی اور  کسی نے میرے پاس آکر نہیں پوچھا تم کہاں ہو ، کیا کر رہی ہوکہ جس نے کام کو واقعاًٍ بہت مشکل کردیا تھا۔

 

آپ نے اس اجنبیت کو کس طرح دوستی اور خلوص  میں تبدیل کیا؟

میں مختلف تفکرات کا واقعاً  دل سے  احترام کرتی ہوں۔ محترمہ لشکری نے میرے اندر اس احترام اور صلاحیت کو دیکھا تو بہت جلد ہی مجھ سے رابطہ برقرار کرلیا۔ میں نے ان پر حتی تجسس کی نگاہ بھی نہیں ڈالی۔ اس خاتون کی رنجشیں میرے لئے اتنی مقدس تھیں اور میں اُن کے سامنے متواضع تھی  کہ مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھے سمجھ رہی ہیں اور میری طرف متوجہ ہیں۔ حتی میں نے اُن کی ظاہری شکل و صورت  مختلف ہونے پر بھی کسی ردّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے اُن کی تند و تیز باتوں کی نسبت کسی ردّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔ بعض موقعوں پر میں نے احساس کیا کہ اگر وہ خود کو حالات کے سامنے تسلیم کرلیتی اور اُن سے مقابلہ نہیں کرتیں تو شاید  ان دنوں زیادہ پرسکون ہوتیں۔اس کے علاوہ، میں بھی اُن سے کچھ  شباہت رکھتی تھی  اور مجھے بھی ہمیشہ یہ تشویش رہتی کہ میری جوانی کس طرح گزری اور اس چیز نے ہمیں ایک دوسرے سے قریب کردیا۔ ان سب باتوں  کی وجہ سے ہمارے درمیان موجود حصار ختم ہوگیا اور جلد ہی ہمارے درمیان قربت پیدا ہوگئی۔ ایک دو مہینے بعد، کھلتے  اور ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ مجھ سے ملنے آئیں ، ہم نے آپس میں گفتگو کی، پھر اُن کیلئے یاد داشتیں بیان کرنا آسان ہوگیا تھا اور وہ میرا انتظار کرتیں۔ البتہ یہ بات بتادوں، انھوں نے اپنی ۸۰ فیصد  یاد داشتوں کو بیان کیا اور بیس فیصد جو بہت ذاتی اور خصوصی تھے، انھیں بیان نہیں کیا۔

محترمہ  لشکری نے مجھ سے کہا ہوا تھا، کئی دفعہ مجھے ٹیلی ویژن اور مختلف جگہوں سے انٹرویو کی دعوت دی گئی۔ میں انٹرویو لینے کو دیکھتی اور کہہ دیتی کہ میں اس سے بات نہیں  کروں گی۔ جو مزاحمتی ادب کے دائرہ کار میں داخل ہوتا ہے اُسے اپنی باطنی خودسازی کرنی چاہئیے۔ اُنہیں اپنے بارے میں مثبت سوچتے ہوئے اور ایک ذہنی فریم کے ساتھ ایسے لوگوں کے پیچھے نہیں جانا چاہئیے۔ مجھے موضوع کہتے ہوئے کراہت محسوس ہوتی ہے، چونکہ مجھے ایسے افراد کو یہ لقب دینا پسند نہیں یہ لوگ میرے لئے قابل احترام ہیں۔

 

اس کتاب میں ہمیں ایک زنانہ روایت کا سامنا ہے؛  یعنی جنگ پر زنانہ پہلو کا غلبہ زیادہ ہے۔ ہم اگر بعض کتابوں یا انٹرویوز میں سے راوی کا نام حذف کردیں، تو اصلاً پتہ نہیں چلے گا کہ راوی کوئی عورت ہے یا مرد، لیکن یہاں پر زنانہ روایت صاف پتہ چل رہی ہے، حتی کتاب کا نام بھی اسی بنیاد پر ہے۔ اس موضوع کے بارے میں بھی کچھ بتائیں کہ آپ کیلئے کس قدر اہم تھا۔

بہت اچھا سوال ہے۔ میں ہمیشہ سے زنانہ اور مردانہ تقسیم بندی کی مخالف رہی ہوں، لیکن یہ کتاب ذاتی طور پر زنانہ ہے۔ اس کتاب کی راوی ایسی خاتون ہیں جن میں شدت  سے عورت کا رنگ پایا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں میں کیوں عورت نہیں بن سکی اور میری خوبصورتی کو دیکھنے کیلئے کیوں میرا شوہر نہیں ہے ؟شاید ہماری بہت سی خواتین نے دفاع مقدس کے دوران ان مسائل پر توجہ نہیں دی ہو اور شاید اُنھوں نے اپنی تنہائی میں آئینے کی طرف نگاہ کی ہو اور کہتی ہوں یہ جھریاں رنجشوں کی وجہ سے ہیں اور اُنہیں تحمل کرلیا۔ لیکن منیژہ کیلئے ظاہر کی بہت اہمیت ہے، وہ عمر کے مختلف حصوں میں اسٹوڈیو گئی اور اپنی تصویریں کھنچوائیں تاکہ مستقبل میں اُس کا شوہر اُس کی عمر کے مختلف حصوں کو دیکھے۔ وہ جوانی کرنا چاہتی تھی، اچھا پہننا، ماڈرن زندگی گزارنا وہ ایسی عورت نہیں ہے جس کیلئے زنانہ لائف اسٹائل کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ اتفاقاً اُس کیلئے بہت ہی اہم ہے۔ اُن کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ کہتی ہیں: جنگ نے مجھ سے میرا زنانہ پن اور میری جوانی چھین لی۔اس کام نے مجھ پر ثابت کردیا کہ زنانہ روایت کس قدر کسی اثر یا کتاب پر غلبہ رکھ سکتی ہے!

میں نے سب جگہ کہہ دیا ہے، میرا اس کام کو کسی خاص سمت میں لے جانے کا کوئی ارادہ  نہیں ہےاور میں نے تمام چیزیں راوی پر چھوڑ دی ہیں تاکہ  کام اپنے فطری طریقے سے آگے بڑھے۔ حتی حسین کی آزادی والی فصل پر بھی میں نہیں روکی، جو مجھے بہت پسند تھی ، لیکن کام کو زنانہ روایت کی سمت لے جانے میں، میرا قصد ہے اور میں چاہتی تھی اس طرح سے ہو، چونکہ میں یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ اس عورت کی ۶۰ فیصد رنجشیں اس بات سے متعلق ہیں کہ میں عورت نہ بن سکی؛ حتی جب میں نے دیکھا جس طرح کی رنجشیں محترمہ لشکری نے جھیلی ہیں اگر وہ اس موضوع سے متعلق ہیں تو میں نے اُنہیں اس طرف رغبت دلائی۔

 

آپ نے کون سا نیا تجربہ حاصل کیا، خاص طور سے اس کام میں اور راوی کے انٹرویو  اور یادداشتیں لکھنے سےمتعلق  کیسا تجربہ ہوا؟

میں نے سابقہ کاموں میں ایسی خواتین اور مردوں کا انٹرویو کیا تھا کہ جن کا ذہن آمادہ اور جدوجہد کیلئے تیار تھا۔ مثلاً میں نے ایسی خواتین سے انٹرویو لیا جن کی خواہش تھی کہ وہ پاسدار سے شادی کریں۔ تاہم انھوں نے اپنے شوہروں کی شہادت کے بعد بہت زیادہ سختیاں جھیلی تھیں؛ لیکن بہت سی سختیوں کو برداشت کرنے کیلئے وہ لوگ پہلے سے آمادہ تھیں۔ اس کام میں، میں ایسی عورت کے روبرو تھی جس کی زندگی مختلف ہے۔ غصے کے عالم میں کہتیں: "میں انتخاب کئے بغیر کیوں ایسے حالات کا شکار ہوئی؟!" جب آپ کو ایسے آدمی کا سامنا ہو، تو پھر بحث صرف یاد داشت لکھنے کی نہیں ہوتی۔ ایک عور ت اور ایک انسان کے ذہن کے تجزیہ کا قصد ہوتا ہے جو ناچاہتے ہوئے حالات میں گِھر گیا ہے۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ کوئی زلزلہ آیا ہے جس نے اس عورت کی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسی عورت جس نے ایک ایسے مرد کا انتخاب کیا جو امریکا گیا ہے اور ماڈرن ہے، دو زبانوں پر عبور حاصل ہے اور اٹھارہ سال بعد اُس کا ایسے مرد سے سامنا ہوتا ہے جو حافظ قرآن ہے، جس کی ذہنیت بدل چکی ہے اور حتی جب وہ کھیرے کے چھلکوں کو پھینک رہی ہوتی ہے، وہ اُس سے جھگڑتا ہے کہ یہ اسراف ہے! ان دو لوگوں کی ذہنی سوچ بالکل بدل چکی ہے۔ وہ عورت جس نے اس مرد کے واپس آنے کا اٹھارہ سال تک انتظار کیا اور اب وہ اپنے شوہر کے ساتھ نئے حالات کا تجربہ کر رہی ہے۔ ا س عورت کی زندگی بہت پیچیدہ ہے۔ درحقیقت میں سوچتی ہوں کہ جتنا کام بھی میں نے مزاحمتی ادب میں انجام دیا ہے وہ ایک طرف اور محترمہ منیژہ لشکری کی یاد داشت پر کئے جانے والا کام ایک طرف۔

البتہ محترمہ لشکری جیسی شخصیت میرے لئے غیر متوقع نہیں تھی۔ میں نے اس پہلے شہید آب شناسان کی فیملی کا انٹرویو کیا ہوا تھا اور اُن کی زوجہ کے حالات بھی محترمہ  لشکری سے ملتے جلتے تھے۔ ایسی عورت جو ظاہر کو بہت اہمیت دیتی ہو، آج سے وابستہ اور بہت ماڈرن تھی، لیکن وہ اپنی مرضی سے پردہ کرتی ہے، جو اپنے شوہر پر بہت یقین رکھتی تھی اور انقلاب پہ اعتقاد تھا، دراصل اُس کی زندگی کا طریقہ بدل گیا تھا۔ لیکن اُس موقع پر شہید آب شناسان کی بیٹی، اُس کے اندر یہ تبدیلی نہیں آئی تھی اور اُس کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ میں پندرہ سال کی عمر میں کیوں اپنے والد سے محروم ہوجاؤں ؟ کیوں میرا تعلق آب شناسان فیملی سے ہو؟ اور آب شناسان کا نام میرے لیئے بہت سے عواقب لئے ہوئے ہو؟ البتہ اب وہ ذہنی سطح پر رشد کر رہی ہے اور اپنے والد کو پہچان رہی ہے۔ اب اگر اُسے کسی مشکل کا بھی سامنا ہوتا ہے، وہ قرآن یا دیوان حافظ اٹھاکر بہشت زہرا میں اپنے باپ کی قبر کے سرہانے پہنچ جاتی ہے؛ یعنی یہ رشد و کمال پانا انہی افراد کیلئے ہوتا ہے ۔

میں چاہتی ہوں خاطرہ نگاری کا رجحان ایسے لوگوں کی طرف ہو جائے اور اُنہیں بھی اپنی باتیں کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ میں نے اس چیز کو کافی عرصہ پہلے درک کرلیا تھا اور میرا دل چاہتا تھاکہ ان افراد  کیلئے کام کروں۔  کم سے کم پانچ سالوں سے میں اس موضوع پر فکر کر رہی ہوں، مزاحمتی ادب کو حتماً ایسے لوگوں کے درپے ہونا چاہیے جنہوں نے فکر کے اس مرحلے کو طے کیا ہے۔ شہادت کوئی رنج و سختی نہیں ہے لیکن ان کی نظر میں، کسی محبوب کو کھو دینا ہے اور یہ وہی رنج ہے۔ ایسے افراد کیلئے یہ بات سمجھنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے کہ اُن کا شوہر یا اُن کے والد کس راستے پر گئے ہیں اور کیوں گئے ہیں۔ ان افراد کو بھی اپنے واقعات بیان کرنے چاہئیں تاکہ دوسروں کو پتہ چلے کہ یہ لوگ یہ تکالیف اور رنجشیں سہ کر اس کمال تک پہنچے ہیں یا اصلا ًپہنچے ہی نہیں۔ جب میرا محترمہ لشکری سے سامنا ہوا، میں نے کہا خدایا تیرا شکر ہے تو نے مجھے یہ موقع فراہم کیا کہ میں ایسی خاتون کے دردوں اور رنجشوں کی منظر کشی کروں جس کا دل آہستہ آہستہ تیرے امتحان کیلئے تیار ہوا اور اُسے خود نہیں پتہ تھا کہ وہ اس راستے میں کھڑی ہے۔یہ کہ ہم دونوں خاتون تھے اس چیز نے ہمارے کام کو آگے بڑھانے میں بہت مدد دی۔ زبانی تاریخ کے معاملے میں کہا جاتا ہے کہ اس بات کی اہمیت نہیں کہ انٹرویو لینا والا چاہے مرد ہو یا عورت، لیکن اس کام کے مختلف مراحل سے گزر کر میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ راوی کی نسبت یہ نکتہ بہت اہم ہے۔

 

کتاب میں راوی کی زندگی کی تقسیم، تقریباً اس طرح سے ہے: حسین لشکری کی اسیری سے پہلے ۷۱ صفحات پر مشتمل راوی کی یاداشتیں، ۳۰ صفحات پر مشتمل راوی کی وہ یادداشتیں جس میں اُس کا شوہر اسیر رہا اور ۵۰ صفحات پر مشتمل راوی کی اپنے شوہر  کی آزادی سے لیکر اُن کی وفات تک کی یادیں۔ آپ بھی بتائیے کہ اس کتاب میں آپ نے کس حصہ پر زیادہ زور دیا اور کیوں؟

میں یہاں پر ایک بریکٹ کھولوں اور اس تقسیم بندی میں ایک اور حصے کا اضافہ کروں اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں منیژہ اپنے شوہر کی تقدیر  سے بے خبر ہیں جو تقریباً  دس سال کا طولانی عرصہ ہے اور جس میں انہیں سخت حالات کا سامنا رہا۔

البتہ یہ زمانہ راوی کی اُنہی یادوں پر مشتمل ہے جن سالوں میں ان کے شوہر  اسیر رہے۔

دیکھئے،  میرے لئے تمام فصلیں بے مثال ہیں اور میرا کسی فصل کو نمایاں کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میرے خیال سے کتاب کے ہر حصے کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے۔ جب یہ دو لوگ ایک دوسرے سے آشنا ہوتے ہیں اور شادی کرتے ہیں ایسا جذبہ اور حالت ہوتی ہے کہ آپ یقین نہیں کریں گے طے یہ ہے کہ ان دو لوگوں کی خوشحال زندگی  تنزلی کا شکار ہو۔ وہاں ہر چیز غیر معمولی ہے۔ بعد والے حصے میں، جنگ شروع ہوتی ہے اور منیژہ اپنے زندگی میں طوفان سے روبرو ہوتی ہے۔ وہاں پر بھی راوی پر خاص حالات مسلط ہوتے ہیں  اور ہم خواتین کی دنیا میں سے راوی کی ایک خاص صورت ملاحظہ کرتے ہیں۔ منیژہ کیلئے بہت عجیب دنیا ہے، تنہائی کو تحمل کرتی ہے اور بالآخر خود کو پالیتی ہے، ایسے میں اُس میں زندگی کا جذبہ اور شوق  پلٹ آتا ہے اور وہ فیصلہ کرتی ہے کہ انتظار کرے اور اپنے ماں کے کردار کو بہت اچھی طرح نبھاتی ہے۔ یہ اُس کیلئے رشد و کمال ہے۔ وہ ستائیس اٹھائیس سال کی عمر میں فیصلہ کرتی ہے کہ اپنے شوہر کا انتظار کرے گی اور بغیر کسی گلے شکوے کے اپنے بیٹے کو پروان چڑھاتی ہے۔ جب اسراء عراق سے آزاد ہوکر آتے ہیں منیژہ ایک بار پھر  پریشان ہوجاتی ہے، اُس کی آنکھیں شوہر کا رستہ تکنے لگتی ہیں۔ اُس کے پڑوس میں سے جس کا شوہر اسیر تھا اور اب واپس آگیا ہے، خوشی کی صدائیں بلند ہورہی ہیں اور انھوں نے اپنے گھروں کو سجایا ہوا ہے، لیکن اُسے اپنے شوہر کی کوئی خبر نہیں ، وہ پھر مشکلات اور نا اُمید ی میں مبتلا ہوجاتی ہے جو اُس کے سامنے نئی شرائط کھڑی کرتے ہیں۔ اس مرحلے میں بھی ہم اُن کی فکر کو رشد کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ میرے خیال سے، منیژہ اس رستے میں رُشد کر رہی ہیں۔ اسی وجہ سے تو میں کہتی ہوں کہ ہمیں ایسے لوگوں کے پیچھے جانا چاہیے۔  جب حسین کا خط اس کے ہاتھ لگتا ہے کہ میں زندہ ہوں، کیا تم میری منتظر ہوں؟ یہ اس کیلئے ایک نیا مرحلہ ہے۔ لیکن وہ فصل جب حسین واپس لوٹتا ہے، منیژہ کیلئے ایک نئی زندگی کا آغاز ہے، اُس کے سامنے ایک ایسا شخص ہوتا ہے جسے وہ نہیں جانتی۔

واقعاً اس زندگی میں بہت زیادہ نشیب و فراد ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں نے کس فصل پر زیادہ توجہ  دی ہے۔ چونکہ ہر ایک اپنی جگہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اسی لئے تو میں کہتی ہوں یہ کام سو فیصد منیژہ لشکری کی زندگی سے متعلق ہے۔ اگر کسی حصے میں زور بھی دیا گیا ہے تو وہ محترمہ لشکری کی طرف سے تھا اور میں کام سے باہر رہی۔ چونکہ اس عورت کی زندگی میں اتنے نشیب و فراز ہیں  کہ مجھے کہیں سے نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کون سی فصل نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور جسے میں پسند کرتی ہوں، تو میں کہوں گی جب حسین قید سے لوٹ کر آیا۔ میرے خیال سے منیژہ کی سخت زندگی شروع ہوتی ہے۔ دوسرے لوگوں کے تصور کے برخلاف جو سوچتے ہیں، جدائی کا زمانہ ختم ہوگیا ہے۔ میرے خیال سے یہ دو لوگ جو ۱۸ سال تک ایک دوسرے سے دور  رہے، ایک دوسرے سے دلچسپی رکھنے کے باوجود، ایک دوسرے کیلئے بہت اجنبی ہیں۔ اُس زمانے میں شاید ایسے معاملات میں رواداری سے کام لیا جاتا ہو۔ کئی سالوں بعد گھر والے دوبارہ ایک ساتھ جمع ہوں اور بیویاں اپنے شوہروں کے روبروں ہوں۔ شاید  اس نئے رابطے میں ماہرین نفسیات کو داخل ہونا چاہیے تھا اور دوسرے کام انجام پانے چاہیئے تھے کہ نہیں ہوئے! شاید اگر میں نے  ناول لکھنا چاہا تو اس فصل کو مزید وسیع کروں اور پھیلاؤں ۔

 

کیا ممکن ہے کہ اس کتاب کے راوی کی کامل تر کتاب شائع ہو یا وہ بس اسی مقدار پر اکتفاء کریں گی؟

میرے خیال سے محترمہ لشکری ابھی اپنے آپ سے الجھی ہوئی ہیں کہ انھوں نے اپنی یادیں شائع ہونے کی اجازت کیوں دی۔ اس کے علاوہ کتاب پر ہونے والی رائے پر بھی مربوط ہے؛ اگر اسے مثبت رائے ملی جو اُنہیں سکون کا احساس دلائے گی، یہ احتمال دیا جاسکتا ہے حتی فلم اور ڈاکومنٹری بنانے کیلئے بھی تیار ہوں۔

 

آپ نے اپنا وقت ایرانی زبانی تاریخ کی سائٹ کو فراہم کیا ، ہم اس پر آپ کے شکر گزار ہیں۔

میں بھی انٹرویو لینے اور اچھے سوالات پوچھنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3612


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔