اسلامی انقلاب کے بعد پہلا ریفرنڈم

زینب دهقان حسام‌پور
ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2017-5-19


" استقلال، آزادی، جمہوری اسلامی" کا نعرہ یوں تو پہلوی دور حکومت میں کئی بار لگایا جا چکا تھا لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اب یہی نعرہ حکومت سازی کے لئے لگایا جانے لگا۔

اس موقع پر امام خمینی رح کی ہدایات پر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے چند مہینوں کے اندر اندر ہی عوامی رائے جاننے کے لئے ریفرنڈم کروایا گیا جس کے نتیجے میں ایران میں اسلامی طرز حکومت کو ایران کے اصل نظام حکومت کے طور پر چن لیا گیا۔

 

ریفرنڈم کے بارے میں امام خمینی رح کی نگاہ:

امام خمینی رح رہبر انقلاب کے عنوان سے بارہا اس بات کا تذکرہ کر چکے تھے کہ نظام حکومت کے انتخاب کے لئے ریفرنڈم کروایا جائے۔ مثال کے طور پر عبوری حکومت کے حکم نامے میں بھی آپ نے اس بات کی تاکید کی کہ عبوری حکومت کی یہ ذمہ داری ہے ہ وہ " ریفرنڈم کا انعقاد کرے اور رائے عامہ کی بنیاد پر ملک کے سیاسی نظام کو اسلامی جمہوری نظام میں تبدیل کرے اور اس نئے اسلامی نظام کے قانون اور ملک کی نمائندہ پارلیمنٹ کے نمائندوں کو منتخب کرنے کے لئے اس قانون کو تصویب کرنے کے لئے ایک اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دے ۔

 

امام خمینی رح نے صرف رسمی طور پر بیان کی حد تک اکتفا نہیں کیا بلکہ انہی ابتدائی ایام میں آقائے احمد خمینی کے ذریعے مسلسل یہ پیغام بھجواتے رہے کہ جلدی جلدی ممکن ہو ذمہ داران ریفرنڈم کے انعقاد کی راہ ہموار کریں۔

 

محمد صادق طباطبائی کہ جو بیت امام خمینی رح سے نزدیک اور ریفرنڈم منعقد کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ " میں نے کہا، آقا اب جبکہ دنیا آپ کو، آپ کی رہبری کو اور اس انقلاب کو قبول کر چکی ہے اور اس بات کا رسمی طور پر اعلان بھی کیا جاچکا ہے تو اب ریفرنڈم کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ "اسلامی جمہوریہ" کے مقولے کا ملک کے سیاسی نظام حکومت کے طور پر اعلان بھی کریں گے تو ہم، عوام اور دنیا اس کو با آسانی قبول کرلیں گے۔ امام خمینی رح نے جواب میں کہا کہ تم ابھی نہی سمجھو گے۔ پچاس سال بعد کہیں گے کہ لوگوں کے جذبات و احساسات سے کھیل کر اپنا مورد نطر نظام عوام پر لاگو کر دیا گیا۔ نہیں حتما ووٹنگ ہونی چاہئے تاکہ مخالفین اور حمایت کرنے والوں کی تعداد مشخص ہو سکے۔

 

در حقیقت امام خمینی رح ابتدا سے ہی اس کوچچ میں تھے کہ ہر طرح کی تبدیلی عوام کے زریعے آئے تاکہ اسلامی انقلاب کو مظبوط پشت پناہ مل سکے اور دشمن کی سازشوں کا شکار نہ ہو۔

 

ریفرنڈم کے انعقاد کی تیاریاں

وزارت داخلہ میں  ۱۱ مارچ ۱۹۷۹ کو ریفرنڈم کمیٹی بنائی گئی۔ ملک میں بنیادی وسائل کی کمی کی وجہ سے امام خمینی رح کے قابل اعتماد علمائے کرام سے درخواست کی گئی کہ وہ ریفرنڈم کے بہتر انداز میں انعقاد کے لئے اپنے مراکز اور صوبوں میں وسائل اور امکانات فراہم کریں۔

 

ریفرنڈم کے قانون کو شورائے انقلاب نے تصویب کرنے تھا۔ چونکہ انقلاب کے بعد یہ پہلا ریفرنڈم تھا جس کے زریعے ملک کے سیاسی نظام کا تعین کیا جانا تھا اس لئے یہ بہت اہم اور حساس مسئلہ تھا۔ شورائے انقلاب نے یہ قانون تصویب کیا کہ ووٹنگ کے لئے چھاپے گئے کاغذوں میں ہاں کا لفظ ہرے رنگ سے جبکہ نا کا لفظ لال رنگ سے پرنٹ کیا جائے گا اور ووٹرز خفیہ ووٹنگ کے زریعے اپنے ووٹ کاسٹ کریں گے۔

 

عید کی چھٹیوں کی وجہ سے آئین پر بہت زیادہ بحث نہیں کی جاسکی تاکہ عوام کو اس سے آشنا کروایا جا سکتا۔ صادق طباطبائی جو اس وقت نائب وزیر داخلہ تھے انہیں امام خمینی رح کی اجازت سے ریفرنڈم سے چند دنوں پہلے اس بات کا موقع ملا کہ وہ ٹی وی پر چند لائیو پروگراموں میں شرکت کریں اور عوام کو اس مسئلے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں۔ اس کے علاوہ اخبارات میں بھی آئین کے چیدہ چیدہ نکات عوام کی آگاہی کے لئے چھاپے گئے۔

 

جیسے جیسے ریفرنڈم کے دن نزدیک آرہے تھے، عید کی چھٹیوں کے باوجود عوام کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔ مجموعی طور پر اس سلسلے میں سب سے زیادہ جوش و خروش تہران کے مرکزی بازار کے اطراف میں دیکھنے کو ملا۔ بازار تہران میں شہر کے دیگر مقامات سے زیادہ پلے کارڈز اور بینرز آویزاں کئے گئے تھے اور کاروباری افراد نہایت جوش و خروش سے عام افراد کو ووٹ ڈالنے کے لئے مائل کرتے نظر آرہے تھے۔ سڑکوں پر بھی گاڑیوں میں لاوڈ اسپیکرز لگا کر اعلانات کئے جا رہے تھے عوام گھروں سے نکل کر اسلامی جمہوری نظام کے حق میں ووٹ ڈالیں۔

 

آخری ایام میں اخبارات مختلف شخصیات، سیاسی، مذہبی، اجتماعی، ثقافتی گروہوں کی جانب سے ریفرنڈم کے حق میں دیئے گئے بیانات اور اشتہارات سے بھرے ہوئے تھے۔ عوام کو بھرپور شرکت کی دعوت دی جارہی تھی لیکن اسکے ساتھ ساتھ اکا دکا اعلانات اور اشتہارات ریفرنڈم کی مخالفت میں بھی چھاپے گئے تھے۔

امام خمینی رح نے تیس مارچ کو عوام کے نام اپنے ایک پیغام میں عوام کو فرقہ واریت اور اختلافات سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ امام خمینی رح نے اس پیغام میں فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ میں تمام تر افراد کے حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ آپ نے اعلان کیا کہ وہ کود بھی اسلامی جمہوری نظام کے حق میں ووٹ دالیں گے لیکن عوام آزاد اور خود مختار ہیں کہ وہ اسکے حق یا مخالفت میں ووٹ ڈالیں۔ آپ نے بعض افراد کے اس اعتراض کا جواب بھی دیا کہ کیوں اس کاغذ پر صرف ہاں یا نہ ہی لکھا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ریفرنڈم اسی انداز میں منعقد ہوتا ہے اور اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ شاہی حکومت کو واپس بلا لیا جائے گا بلکہ عوام اگر اسکے علاوہ کسی چیز کی کواہاں ہے تو وہ ان کاغذوں پر اپنا مورد نطر نظام بھی لکھ سکتی ہے کہ وہ ڈیموکریٹک ری پبلک ہونا چاہئے یا ڈکٹیٹر حکومت۔

 

امام خمینی رح کے اس پیغام کے بعد ٹیلیویژن سے اعلان کیا گیا کہ ریفرنڈم کے ٘خالفین نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ ریفرنڈم میں شرکت کریں گے۔ درحقیقیت امام خمینی رح کا یہ پیغام پوری ملت ایران کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لئے بہت موثر ثابت ہوا تھا۔

 

ریفرنڈم کا دن:

وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ ریفرنڈم ۳۱ مارچ اور یکم اپریل کو منعقد کیا جائے گا۔ دو دنوں کا وقت اس لئے رکھا گیا تھا کیونکہ دور افتادہ علاقوں میں بیلیٹ بکس پہنچ ہی نہیں پائے تھے۔ ووٹنگ کے لئے اٹھارہ ہزار سینٹرز بنائے گئے تھے اور اٹھارہ میلین بیلیٹ پیپرز چھاپے گئے تھے۔ لیکن ان دو دنوں کے دوران عوام کی جانب سے ریفرنڈم کے بے پناہ استقبال کی وجہ سے مزید چھ میلین بیلیٹ پیپرز چھاپنے پڑ گئے۔ اس طرح چوبیس میلین بیلیٹ پیپرز تقسیم کئے گئے۔ وزارت داخلہ نے ریفرنڈم کو کامیاب بنانے کے لئے عوام کو سہولیات بھی دے رکھی تھیں۔ مثال کے طور پر بیرون ملک مختلف سفارتخانوں، قونصلیٹ اور دیگر ایرانی اداروں میں ریفرنڈم کا انعقاد کیا گیا تھا۔

 

اخبارات نے ریفرنڈم کی رپورٹ میں لکھا تھا کہ عوام نے ۳۱ مارچ کو ریفرنڈم میں بھرپور شرکت کی اور بعض علاقوں میں شدید ازدحام کی وجہ سے ووٹنگ ایک گھنٹہ پہلے ہی شروع کر دی گئی۔

 

امام خمینی رح ان دنوں قم میں تھے۔ آپ نے قم کے علاقے چہار مردان میں کہ جس علاقے نے اسلامی انقلاب کے زمانے میں سب سے زیادہ شہید دیئے تھے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ گرچہ آخری وقت تک کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ امام خمینی رح کس علاقے میں جا کر ووٹ کاسٹ کریں گے لیکن پھر بھی عوام کی ایک بڑی تعداد امام خمینی رح سے پہلے ہی چہار مردان پہنچ چکی تھی۔ امام خمینی رح کے پہنچتے ہی عوام نے انکو اپنے گھیرے میں لے لیا اور سب کی یہی خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طرح امام کے نزدیک ہوجائیں۔ عوام کے جم غفیر کی وجہ سے امام خمینی رح اپنی گاڑی سے نیچے نہیں اتر سکے اور انہوں نے اپنی جگہ اپنے فرزند حاج احمد خمینی رح کو اپنے دستاویزات کے ساتھ گاڑی سے باہر بھیجا۔ اس موقع پر موجود اخباری رپورٹرز اور کیمرہ مین امام خمینی رح کی ووٹ ڈالتے وقت کی تصویریں نہیں لے پائے جس کی وجہ سے امام خمینی رح سے یہ درخواست کی گئی کہ اگر ممکن ہو تو ایک بار پھر اپنا ووٹ کاسٹ کریں تاکہ آپ کی تصویریں اور ویڈیوز بنائی جا سکیں۔ امام خمینی رح نے جواب دیا کہ میں ایک فرد ہوں اور ایک فرد ایک ہی رتبہ ووٹ دال سکتا ہے اور مجھے ایک سے زیادہ مرتبہ ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے۔

 

ملک کے چھوٹے بڑے شہروں سے مسلسل مزید بیلیٹ پیپرز کا تقاضہ کیا جا رہا تھا اور وزارت داخلہ ان شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ہواءی جہازوں، ہیلی کاپٹروں حتی دشوار پہاڑی علاقوں میں خچروں کے زریعے نئے بیلیٹ پیپرز پہنچانے میں مصروف تھی۔

 

اسپتالوں، فوجی اڈوں، چھانیوں، پولیس اسٹیشنوں حتی جیلوں میں بھی بیلیٹ بکس پہنچائے گئے تاکہ ہر ہر فرد اپنا ووٹ کاسٹ کر سکے۔ قصر نامی جیل میں ووٹنگ سے پہلے ایک افسر نے قیدیوں کو اس سلسلے میں وضاحت کی کہ انکے ووٹوں کی وجہ سے انکی سزائوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ صرف نئے حکومتی نظام کے لئے ووٹنگ کی جارہی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ قصر جیل کے تمام قیدیوں نے اسلام نظام حکومت کے حق میں ووٹ ڈالے۔

 

انقلاب مخالف افراد نے ریفرنڈم کو ناکام بنانے کے لئے افواہیں اڑانا شروع کر دیں۔ بابل شہر میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ خواتین کو گھروں سے نکنلے کی ضرورت نہیں بلکہ بیلیٹ بکس انکے دروازوں پر ہی پہنچا دیئے جائیں گے، لیکن الیکشن کمیشن نے بروقت اعلان کیا کہ یہ صرف افواہ ہے اور خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ووٹ ڈال سکتی ہیں۔ سقز شہر میں مخالفین نے عوام کو گھروں سے ہی نکنلے نہیں دیا یا گنبد کاووس نامی شہر میں نقض امن کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن مجموعی طور پر عوام نے رنگ، نسل، قومیت، مذہب، فرقے وغیرہ سے بالاتر ہو کر اس ریفرنڈم میں شرکت کی۔

 

ہر الیکشن آفس میں ایک نگراں کمیٹی بنائی گئی جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔

 

اس ریفرنڈم کے موقع پر غیر ملکی میڈیا کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ماسکو ریڈیو نے اس موقع پر رپورٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ عوام  اپنے جوش و جذبے کے ساتھ ریفرنڈم میں شرکت کر رہے ہیں۔ لندن ریڈیو نے اسلامی جمہوری نظام کے حق میں زیادہ ووٹ پڑنے کی پیشنگوئی کی تھی جبکہ فرانس ریڈیو نے ایران بھر میں موجود الیکشن آفسز کے بارے میں رپورٹ پیش کی تھی۔

 

بالآخر یکم اپریل کو رات دس بجے ووٹنگ کا وقت ختم ہوا اور بلا فاصلہ ووٹوں کی گنتی شروع کر دی گئی۔

 

نتیجہ:

چونکہ کاغز پر بس دو ہی آپشنز تھے اور دو لفظ دو مختلف رنگوں سے لکھے ہوئے تھے اس لئے ووٹوں کی گنتی بہت ہی آسانی سے انجام پائی اور ایک بیلیٹ بکس کے ووٹوں کی گنتی کے لئے ایک سے دو گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں لگا۔ اس طرح دو اپریل کی صبح کو تمام مراکز سے مرکزی الیکشن آفس میں نتائج کی خبر دی جا چکی تھی۔

 

نائین وہ پہلا شہر تھا جس نے سب سے پہلے نتائج کا اعلان کیا اور یہاں ۲۶۷۹۵ ووٹ اسلامی حکومت کے حق میں دالے گئے تھے۔ بیرون ملک موجود الیکشن آفسز میں لندن وہ پہلا شہر تھا جس نے نتائج کا اعلان کیا اور اعداد و ارقام کے مطابق تہران، مشہد، اصفہان، تبریز اور شیراز میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے تھے۔

 

وزارت داخلہ نے فیصلے پر اعتراض کے لئے ایک ہفتے کی مہلت کا علان کیا ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اعلان کیا کہ اگر کسی جگہ بے نظمی یا دھاندلی کی رپورٹ ملی تو اس جگہ دوبارہ ووٹنگ کروائی جائے گی۔

 

کرمان کے علاقے باغین کے شہری کربلائی شجاعی سب سے عمر رسیدہ ووٹر تھے جن کی عمر ۱۴۰ سال تھی اور انکے بقول انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ جبکہ سولہ سال سے کم عمر چند نوجوانوں نے امام خمینی رح کو خط لکھا تھا کہ انہیں بھی اسلامی جمہوری نظام کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے لیکن انہیں اجازت نہیں دی گئی۔

 

صادق طباطبائی نے ووٹوں کی گنتی مکمل ہوجانے کے بعد امام خمینی رح کو رپورٹ پیش کی کہ اعداد و ارقام کے مطابق ۹۴ فیصد افراد نے ووٹنگ میں شرکت کی ہے اور ۹۸۔۲ فیصد ووٹ اسلامی نظام کے حق میں پڑے ہیں۔ صادق طباطبائی نے اس موقع پر کہا کہ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ پوری تاریخ میں حتی اسکے بعد بھی نہ صرف یہاں بلکہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں ریفرنڈم کے ایسے نتائج سامنے آئیں گے۔ امام خمینی رح نے بھی انکی تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا امر ہے کہ جس کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے اور حتی اسکے بعد ایران میں بھی یہ بات تکرار نہیں ہوگی۔

 

امام خمینی رح نے اسی مناسبت سے عوام کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ میں اس مبارک دن، امت کی امامت اور ملت ایران کی فتح و ظفر کے دن کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کا اعلان کرتا ہوں۔ آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے جوانوں کی شہادتوں اور والدین کے لئے داغ دل اور طاقت فرسا مصیبتوں کے باوجود غول پیکر اور فرعون زماں دشمن کو شکست دی اور اسلامی نظام کو ووٹ دے کر عدل الہی پر مشتم حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ یکم اپریل کہ جو الہی حکومت کا پہلا دن ہے یہ دن قومی اور مذہبی عیدوں میں سے ایک ہے۔ ملت ایران کو چاہئے کہ وہ اس دن کو عید کے طور پر منائے۔ وہ دن کہ جس دن ڈھائی ہزار سالہ طاغوتی حکومت کا خاتمہ ہوا اور شیطانی تسلط بھاگ اٹحا اور اس کی مستضعفین کی حکموت قائم ہوئی کہ جو خدا کی حکومت ہے۔

 

امام خمینی نے اپنے اس تاریخی پیغام میں ملت ایران سے تقاضہ کیا کہ وہ مغرب و مشرق سے خوف زدہ ہوئے بغیر طاغوتی حکومت کے باقی ماندہ آثآر بھی مٹا دیں اور غرب زدگی کہ جو حکومت کے اندر راسخ ہو چکی تھی اسے مٹا کر اسلامی رنگ و بو پیدا کریں اور ملک کے ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی استقلال کو کسی نتیجے تک پہنچائیں۔ اسی طرح آپ نے تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ میں مرد و عورت، یا اقلیت و اکثرت، مذہب و قوم، سیاہ و سفید اور ترک، لر، کرد و بلوچ کا فرق ہرگز موجود نہیں ہے۔

 

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 3529


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔