پہلے انقلابی مارچ کی پہلی تصویر

محمد حسین قدمی
ترجمہ: سیدہ رومیلہ حیدر

2017-5-9


ان دنوں جب ایران کے انقلابی عوام اپنے پورے جوش و ولولے کے ساتھ جدوجہد میں مصروف تھے، ہم بھی قلم ہاتھوں میں لئے خوشخطی اور نقش و نگار بنانے میں مشغول تھے اور محلہ کی مسجد کی انجمن کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ در و دیوار کو رنگ کرنے اور ان پر نقش و نگار بنانے میں  مصروف تھے۔ ہم دن بھو دیواروں پر نعرے لکھتے اور راتوں کو چھتوں پر چڑھ کر نعرہ تکبیر لگایا کرتے تھے۔ ہمارے محلے ے انقلابی جوان ہر اس موقع سے فائدہ اٹھاتے کہ جو شاہی حکومت کو نقصان پہنچا سکتا ہو اور اسکے لئے وہ نت نئے آئیڈیاز پر کام کیا کرتے تھے۔

1978 کی عید فطر بھی ایک یادگار عید رہی۔ اس سال عید بھی ہمارے لئے ایک سنہری موقع تحا اور آپس کے صلاح مشورے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ امام خمینی رح کی تصویر کو ایک بہت بڑے کپڑے پر بنایا جائے اور اسے قیطریہ لے جایا جائے۔ اور اسے عید فطر کی نماز کی جگہ کہ جو ایک وسیع و عریض مقام تھا وہاں نصب کر دیا جائے۔ ہم میں سے بعض افراد نے اپنے تحفظات کا بھی اظہار کیا کہ ملک کی مجموعی صورتحال بہت حساس ہے اور ساواک اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کی موجودگی اور شدید سیکیورٹی کی وجہ سے یہ کام نا ممکن ہے۔ لیکن پھر بھی ہم نے توکل کیا اور اس کام کو انجام دینے کی ٹھان لی۔

ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی امام خمینی رح کی تصویر کپڑے پر ڈیزائن کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ میں نے پوری رات لگا کر کپڑے پر تصویر بنائی اور علی صبح دوسرے ساتھیوں کے ساتھ قیطریہ روانہ ہوگئے۔ نماز کی جگہ پر بہت سخت چیکنگ کی جا رہی تھی اور ساواک اور دوسری ایجنسیوں کے اہلکار کیڑے مکوڑوں کی طرح وہاں موجود تھے اور عوام پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہر کسی کی بہت سخت تلاشی لی جا رہی تھی۔ سڑک کی دوسری جانب بھی پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد چہروں پر ماسک پہنے اور ہاتھوں میں بندوقیں تھامے لبلبے پر انگلی رکھے آرڈر کے منتظر تھے کہ کب آرڈر ہو اور ہم فائرنگ کریں۔

ہم بہت تکنیک کے ساتھ اس کپڑے کو نماز کی جگہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے اور اب انتظار کر رہے تھے کہ کب ہمیں اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا موقع ملے گا۔ البتہ ہم یہ طے کر کے گئے تھے اس تصویر کو نماز سے پہلے ہی نصب کر دیا جائے گا لیکن اتنی سخت سیکیورٹی میں یہ کام تقریبا نا ممکن تھا۔ لہذا اس آپریشن کو ہم نے کچھ دیر کے لئے ملتوی کردیا تاکہ عوام کی بڑی تعداد جمع ہوجائے اور پھر کسی کی ہمت نہ ہو کہ وہ آکر اس تصویر کو اتار سکے۔

اس سال عید کی نماز حجت الاسلام مفتح کی امامت میں ادا کی گئی اور اس تصویر کو نصب کرنے کا بہترین موقع ان کی تقریر کے دوران ہی تھا۔ وقت آن پہنچا اور ہمارے جوانوں نے اس کپڑے پر بنی تصویر کو لکڑیوں سے باندھ کر پلک جھپکتے ہی نمازیوں کی آنکھوں کے سامنے بلند کر دیا اور اسے بالکل آگے جا کر نصب کردیا۔ پھر کیا تھا مجمع نعرہ تکبیر اور صلواۃ کی صدائوں سے گونج اٹھا اور عوام نے جوشیلے انداز میں نعرے لگانا شروع کردیئے۔ عوام کا جوش و خروش دیکھ کر سیکیورٹی اہلکاروں کی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اس تصویر کو وہاں سے ہٹا سکیں۔

دوسرا کام یہ کرنا تھا کہ نماز ختم ہوتے ہی ہمیں اس تصویر کو وہاں سے نکال کر لے جانا تھا تاکہ وہ ساواک کہ ہاتھ نہ لگے۔ اس کام میں بھی عوام نے ہماری بہت مدد کی اور چند منٹوں بعد ہی وہ تصویر وہاں سے نکل کر احتجاجی مارچ کرنے والوں کے آگے آگے چل رہی تھی اور ساواک کے اہلکار انگشت بہ دنداں یہ سارا ماجرا دیکھتے ہی رہ گئے۔ یہ انقلاب کی تحریک میں امام خمینی رح کی پہلی تصویر تھی اور اس کے بعد بہ تدریج امام خمینی رح کی تصویروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 3896


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔