زبانی تاریخ اور اُس کی ضرورتیں – دوسرا حصہ

انٹرویو لینے والے کی خصوصیات

حمید قزوینی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-5-1


زبانی تاریخ میں انٹرویو لینے والے کو انٹرویو کے مسائل سے آگاہی کے علاوہ مطلوبہ مقاصد کی دستیابی کیلئے کچھ خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔

اُسے اس کام کو صرف پیشہ اور پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ زبانی تاریخ، ثقافتی اور اجتماعی رسالت کا ایک حصہ ہے جس کا کسی قوم کی تاریخ اور میراث سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ زبانی تاریخ میں انٹرویو لینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ جس کام کو کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اُس کے بارے میں اُس کے پاس کافی معلومات کا ذخیرہ ہو۔ انٹرویو لینے میں علمی اور معلوماتی کمزروی اُسے نہ صرف واقعات سمجھنے میں مشکل سے دوچار کریں گی بلکہ سوالات پوچھنے اور انٹرویو کو صحیح سے جاری رکھنے میں کمزوری کا سبب بنیں گی۔

اُس (انٹرویو لینے والا)  کے اندر راوی سے رابطہ برقرار کرنے اور بات چیت کے دوران اپنے مقاصد کو بیان کرنے اور سوالات پوچھنے کی مناسب صلاحیت ہونی چاہیے۔ جیسا کہ زبانی تاریخ کا انٹرویو ایک طرح سے تحقیقی طرز کا حامل ہوتا ہے، پس ضروری ہے کہ اُس کے اندر ہمیشہ ناگفتہ واقعات ، دریافت معلومات اور حقائق کو کشف کرنے کی جستجو اور انگیزہ موجود ہو۔

اسی طرح ممکن ہے انٹرویو لینے والے کو اس مشکل کا سامنا ہو کہ انٹرویو لینے والا بعض سیاسی اور اجتماعی رجحانات کی نسبت بہت زیادہ تعصب کا شکار ہو جو اُس کے سوال اٹھانے میں رکاوٹ بن رہا ہو یا انٹرویو کو صحیح طریقے سے چلانے  میں مانع ہو۔ انٹرویو لینے والے کو ایک محقق کے عنوان سے غیر جانبدار ہونا چاہیے، اور اُسے چاہیے کہ وہ انٹرویو کسی میل اور رجحان کے بغیر انجام دے۔

دوسری طرف سے زبانی تاریخ کا لازمہ ہے کہ اس میں سچائی کی رعایت، ہر طرح کے جھوٹ اور ناممکن باتوں  کے وعدے وعید سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسی طرح انٹرویو لینے والے کی ذمہ داری ہے  کہ وہ انٹرویو  میں ہونے والی باتوں کی امانت داری کرے اور راوی کی محرمانہ باتوں کو صیغہ راز میں رکھے۔ اُسے دھیان رکھنا چاہیے کہ ہر طرح کی بے نظمی اور بے دقتی نہ صرف راوی اور انٹرویو لینے والے کے تعلق کو خدشہ دار کرے گی بلکہ اس طرح سے کام کی صحت پر بھی فرق پڑے گا۔

بہت زیادہ صبر و حوصلہ رکھنا، اعصابی اور نفسیاتی جذبات کو ضبط  کرنا اور تمرکز کا خیال رکھنا، یہ سب بھی انٹرویو لینے والے کی دیگر  خصوصیات میں شامل ہیں۔ کبھی کبھار ممکن ہے انٹرویو کئی گھنٹے طولانی ہوجائے یا ایسے مسائل اور مشکلات پیش آجائیں جو طرفین میں رنجش  یاتمرکز کم ہونے کا باعث ہو۔ اسی وجہ سے جلد بازی اور جذبات پر قابو نہ ہونا، طرفین کے تعلق پرکاری ضرب لگاتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور خاص اہمیت کا حامل نکتہ یہ ہے کہ تمام مطالب ریکارد ہونے کے باوجود، ضروری ہے کہ انٹرویو لینے کا حافظہ اچھا ہو تاکہ وہ مختلف واقعات کو اپنے ذہن کے سپرد کرسکے، اس کے علاوہ انٹرویو کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک طرح کی خلاقیت درکار ہوتی ہے جس کی مختلف شرائط میں ضرورت پڑ سکتی ہے۔

بہرحال زبانی تاریخ  میں انٹرویو لینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس کی خصوصیات کو سیکھ کر اس کام میں وارد ہو۔

ایک بہترین انٹرویو لینے والے کی اہم ترین خصوصیات کواجمالی طور پر مندرجہ ذیل صورت میں شمار کیا جاسکتا ہے:

 

۱۔ ثقافتی اور معاشرتی لحاظ سے کافی دلچسپی اور شوق کا حامل ہونا اور زبانی تاریخ کی اہمیت سے آگاہی

۲۔ انٹرویو لینے کیلئے عمومی اور خصوصی معلومات سے آگاہی اور مناسب علمی درجہ کا حامل ہونا

۳۔ راوی سے رابطہ برقرار کرنے کی قدرت اور ارتباط کی مہارتوں سے آگاہی

۴۔ مناسب بیان کے فن سے آگاہ ہونا

۵۔  جستجو اور تحقیق کے انگیزے کو رکھنا

۶۔ انٹرویو کی مہارت رکھنا اور اُن سے  آگاہ ہونا

۷۔ مختلف سیاسی ، معاشرتی افراد اور رجحانات سے تعصب نہ رکھنا

۸۔ اخلاقی اصولوں کا پابند ہونا جیسے: سچائی، راز داری، تواضع، امانتدار وغیرہ

۹۔ مختلف امور اور وقت کی پابندی میں نظم و ضبط کی رعایت کرنا

۱۰۔ انٹرویو کرتے وقت صبر، تحمل اور نفسیاتی اور اعصابی جذبات کو ضبط کرنے کی قدرت

۱۱۔ ذہنی اور فکری تمرکز کیلئے مناسب قدرت

۱۲۔ بہترین حافظہ رکھنا

۱۳۔  خلاقیت اور نئی طرز

۱۴۔ آڈیو، وڈیو وسائل استعمال کرنے کی مہارت

۱۵۔ آئی کیو معیار کا مناسب ہونا

۱۶۔  بحث و مباحثہ اور لڑائی جھگڑے والا نہ ہو

۱۷۔ کاموں میں توجہ اور دقت کرنا

۱۸۔ دھیان سے بات سننے والا۔

 



 
صارفین کی تعداد: 3612


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔