امام خمینی (رہ) کی گرفتاری کے بعد علماء اور مذہبی افراد کی انقلابی تحریک

مراد سلیمانی زمانہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-4-20


پہلوی حکومت، امام خمینی (رہ) کی عوامی تحریک کو ناکامی سے دوچار نہ کرسکی، لہذا  اُس نے تصور کیا کہ شاید ان کی گرفتاری سے لوگوں کی مخالفت میں کمی آجائےکیونکہ امام تحریک کے رہبر کی حیثیت رکھتے تھے اور علماء کرام نے بھی مساجد میں اعلانات کے ذریعے پہلوی حکومت  کے خلاف لوگوں کو امام کی رہبری کی طرف مائل کیا تھا۔ لیکن نہ صرف یہ کہ وہ لوگ کامیاب ہوئے بلکہ امام خمینی (رہ) اور دوسرے علماء ، واعظین کی گرفتاری سے جدوجہد جاری رکھنے کا ایک نیا موقع فراہم ہوگیا۔

امام خمینی  (رہ) کی گرفتاری کے ساتھ پہلوی حکومت کی طرف سے افواہ اُڑا دی گئی کہ ان کے خلاف مقدمہ چلا کر سزا دی جائے گی جس کی وجہ سے لوگ ان کی سلامتی کی طرف سے پریشان ہوئے۔ وزیر اعظم اسد اللہ علم نے اعلان کی کیا کہ: پہلے درجے کے مذہبی افراد کے خلاف مقدمے چلایا جائے گا۔ اُس نے ڈھکے چھپے الفاظ میں حکومت مخالف علماء کےمقدے اور سزا کی طرف اشارہ کیا جس میں سرفہرست امام خمینی (رہ) تھے۔ دوسری طرف سے اس اضطراب اور بے چینی کی وجہ سے لوگوں نے علماء  اور مذہبی افراد سے امام خمینی (رہ) کی آزادی کیلئے کوشش کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ لوگ بھی روحانیت کے مقام کو جانتے ہوئے خود بھی امام  کی آزادی کیلئے  اپنے وظیفے سے آگاہ تھے ۔ ملک کے تمام نقاط سے امام خمینی (رہ) اور گرفتار شدہ علماء کی حمایت پر مبنی ٹیلی گرافوں اور خطوط کا تانتا بندھ گیا۔

امام خمینی (رہ) کیلئے ایران کے علماء اور مذہبی افراد کی حمایت اور طرفداری صرف بیانات، ٹیلی گرام اور خطوط تک محدود نہیں رہی بلکہ حوزہ ھای علمیہ قم اور مشہد   کے اول درجے کے علماء سے لیکر دور دراز علاقوں کے علماء کرام نے  اپنی ہماہنگی اور اتحاد کو ثابت کرنے کیلئے ، ایک ساتھ مرکز کی طرف حرکت کی اور انھوں نے حکومت سے قانونی طور پر اُن کی  بغیر شرط آزادی کا مطالبہ کیا۔

شروع میں تو مذہبی افراد کی اس حرکت پر ساواک اور پہلوی حکومت نے کوئی خاص توجہ نہیں کی، لیکن ہجرت کرنے والے علماء کی وسیع فعالیت، متعدد نشستوں اور اُن کے بیانات نے حکومت  کو مجبور کیا کہ وہ موضوع پر سنجیدہ ہوکر اُس کا حل تلاش کرے۔ ساواک کی ایک رپورٹ میں بیان ہوا:

"درجہ اوّل کے علماء  کو  زیادہ عرصہ تہران میں رہنے اور لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کی فرصت فراہم کرنے سے وہ اپنی سکونت کے عرصہ کو بڑھا دیں گے اور خود کو اپنے مخفی مورچوں میں مسلح کرلیں گے، لہذا بہتری اس بات میں ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے اُن کے لئے کوئی اٹل فیصلہ کرلیا جائے اور حکومت غیر جانبدار علماء اور مارکیٹ کے سینئر افراد سے استفادہ کرکے اُنہیں مربوط علاقوں میں بھیج دے۔" (۱)

دوسری طرف سے دربار کی نمائندگی  میں سلیمان بہبودی کی چند افراد کے ساتھ علماء  سے ملاقات کے نتیجے میں، مہاجرین اسد اللہ علم کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے اور علماء و مبلغین کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور بہبودی بھی موافقت کا اظہار کرتا ہے کہ وہ  ان مراحل کو شاہ کے سامنے پیش کریگا اور پھر جواب کا اعلان کردیا جائے گا۔ (۲)

۸ جولائی ۱۹۶۳ء کو ساواک، شاہ اور پہلوی حکومت کے بارے میں رپورٹ پیش کرتی ہے کہ اُس نے جواب دیا ہے: "اولاً، حکومت میں تبدیلی کی بارے میں علماء جان لیں  کہ تمام کام میرے حکم سے انجام پاتے ہیں، عَلَم  ایک کارکن ہے، اگر وہ چلا بھی جائے اور میں اُسے ہٹا دوں، پھر بھی طریقہ کار یہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، لیکن قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں چند افراد کے علاوہ باقی سب کو بہت جلد رہا کر دیا جائے لیکن اُن چند افراد کے خلاف مقدمہ چلے گا اور یہ بات جان لیں کہ ہر چیز اور تمام امور میرے ہاتھوں اور میرے نظروں کے سامنے ہیں، حکومت کی تبدیلی کوئی معنی نہیں رکھتی۔" (۳)

محمد رضا پہلوی نے علماء کو اس طرح کا جواب دیکر عملی طور پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، وہ اُن کے ردّ عمل کا اندازہ لگانا چاہ رہا تھا تاکہ اُس کے مقابلے میں کوئی بڑا فیصلہ کیا جائے۔ مہاجرین نے ۱۷  جولائی ۱۹۶۳ء والے دن امام خمینی (رہ) کو ایک ٹیلی گراف ارسال کیا  جس میں اُن سے ہمدردی اور حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اور ۵ جون کے واقعہ کے تمام قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کریں گے۔ (۴) اسی دوران شاہ نے روحانیت کو خلع اسلحہ  کرنے کیلئے، امام خمینی (رہ)، آیت اللہ محلاتی، آیت اللہ قمی اور تہران کے کچھ سرکردہ تاجر افراد کے علاوہ، سانحہ ۵ جون کے بہت سے قیدیوں کو رہا کردیا۔ (۵) مہاجرین نے مذکورہ اقدامات اور پہلوی حکومت کے امام خمینی (رہ) کے خلاف مقدمے کے موقف سے آگاہی کے بعد  امام کی مرجعیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی جو اُن کے خلاف  ہر طرح کے اقدام میں مانع قرار پائے؛ کیونکہ اس زمانے میں امام خمینی (رہ) کو سنندج جلا وطن کرنے  کی بات بھی ہو رہی تھی ، حتی اُن کی رہائش کیلئے ایک گھر بھی  دیکھ لیا گیا تھا۔ (۶) علماء نے اس عمل کی شدید مخالفت کی اور ہجرت کرنے والے علماء اور ساواک کے سربراہ پاکروان کے درمیان ہونے والی نشست  میں دونوں طرف سے تند لہجہ اختیار کیا گیا اور بالآخر مذاکرات اور گفتگو کے ذریعہ حل نکالنے والے علماء بھی جدوجہد کرنے علماء کی صف میں کھڑے ہوگئے۔ (۷)امام کی مرجعیت کے بارے میں مراجع اور لوگوں کے اس  جدید عمل سے، حکومت کو ایک نئے مسئلہ کا سامنا ہوا، دوسری طرف سے دنیائے اسلام کے علمی مراکز اور علماء کرام نے بھی  امام کی گرفتاری او ر قید کے بارے میں اپنے بیانات میں اعتراض کا اظہار کیا، جیسا کہ الازھر یونیورسٹی کے سربراہ اور مصر کے جید عالم شیخ محمود شلتوت اور نجف کے علماء نے ۱۸ محرم ۱۳۸۳ ہجری قمری کو اپنے سخت و تند بیانات میں شاہ کے اقدامات کی مذمت کی۔ (۸) موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے پہلوی  حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مہاجرین کو اُن کے شہروں میں واپس بھیجے تاکہ اُن کے آئندہ اقدامات سے جلوگیری کرسکے۔ لہذا ۲۷ جولائی ۱۹۶۳ء والے دن حکومت کی طرف سے مہاجروں کو انتباہ کیا گیا کہ جلد از جلد اپنے شہروں کو واپس چلے جائیں۔ (۹)

مہاجر علماء کرام نے اعلامیہ صادر ہونے پر موجودہ بنیادی قانون کی ترمیم کے دوسرے آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے، جس کے مطابق ملک کے درجہ اول کے مراجع اور مجتہد عدالتی کاروائی سے محفوظ ہیں،  امام خمینی (رہ) کے علمی مقام اور مرجعیت پر تاکید کی اور امام خمینی (رہ) اور آیات عظام محلاتی اور قمی کے قید میں رہنے پر اعتراض کیا اور اُن کی آزادی کا مطالبہ کیا اور انھوں نے اعلان کیا کہ ہجرت ختم کرنے کیلئے پہلوی حکومت  نے اُن پر دباؤ ڈالا ہوا ہے۔(۱۰) پہلوی حکومت پہلے تو چاہتی تھی امام  کو سزائے موت کا حکم سنائے اور پھر اُس حکم میں ایک درجہ رعایت دیکر عمر قید کی سزا سنا دے۔ لیکن وہ  تمام نظامی،  انتظامی اور سیکیورٹی افواج کو منظم کرنے کے باوجود،  ایرانی مسلمان عوام کے عمومی افکار کے دباؤ میں آکر وہ امام پر مقدمہ چلانے کیلئے کوئی ثبوت ڈھونڈ کر اُنہیں ملزم قرار نہ دے سکی۔ لہذا اسمبلی اور سینیٹ کے انتخابات سے پہلے اُس نے امام خمینی (رہ) اور آیت ا... عظام محلاتی  اور آیت ا...قمی کو ایک نئی سازش کے تحت جیل سے آزاد کردیا،  لیکن ۴۸ گھنٹے بعد جب مہاجرین  کے ذریعے پورے ملک میں اُن کی آزادی کی خبر پھیل گئی، ساواک نے اُنہیں تہران کے قیطریہ نامی محلے میں انتخابات ہونے تک دو مہینے کے لئے نظر بند  کردیا۔ اس طرح علماء کی ہجرت اپنے اختتام  کو پہنچتی ہے۔ حکومت نے ۳ اگست ۱۹۶۳ء  والے دن کثیر الاشاعت اخبار میں ایک متن کے ذریعے اپنے کامیابی کا اعلان کیا، (۱۱) لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو جن باتوں کا  مہاجرین نے مطالبہ کیا تھا بالآخر وہی ہوا۔

مہاجرین کی اہم ترین کامیابیاں مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ علماء کا بیان نشر ہوتے ہی سب کو امام خمینی (رہ) کی مرجعیت کے بارے میں پتہ چل گیا اور اس اقدام سے انھوں نے اُن کے خلاف مقدمہ چلنے نہیں دیا۔

۲۔ امام خمینی (رہ) اور قیدی علماء کی آزادی کیلئے کوشش کرنا، جس سے اُن کی قید، پہلے تو  نظر بندی اور پھر آزادی میں تبدیل ہوگئی۔

۳۔ اس ہجرت کا ایک اور نتیجہ، حکومت میں تبدیلی اور  اسد اللہ علم کی اسمبلی کا انحلال تھا۔ اگرچہ مہاجر علماء کے جواب میں شاہ نے دھمکی آمیز اور اپنے اٹل فیصلے میں حکومت بدلنے سے  انکار کیا تھا، لیکن آخر میں عَلَم کو برطرف کردیا۔

۴۔ ۵ جون کے قیام کے بعد یہ علماء کی پہلی تحریک تھی جس میں اُن کا حکومت اور پہلوی نظام سے دوبدو سامنا ہوا اور انھوں نے اپنے مطالبات کو پیش کرکے ثابت کیا کہ وہ مقصد تک پہنچنے کیلئے   تمام قانونی اور شرعی  صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں گے۔

۵۔ اس ہجرت کی ایک اور کامیابی، تمام علاقوں کے علماء کے درمیان ہماہنگی، جس کے نتیجے میں تمام انقلابیوں کے درمیان پیش آنے والی یکجہتی تھی جس کے سبب علماء کی طرف سے امام کی مکمل حمایت، تحریک کے رہبر کی شناخت کا باعث بنی ۔

۶۔سن ۱۹۶۳ ء میں منعقد ہونے والے پارلیمنٹ کے ۲۱ ویں انتخابات کی مخالفت، کہ ایران کے مذہبی افراد نے بھی علماء کی پیروی کرتے ہوئے اس مخالفت کو عملی جامہ پہنایا۔ اس طرح، اگرچہ ہجرت کرنے والے علماء حکومت کے دباؤ کی وجہ سے تہران چھوڑنے پر مجبور ہوئے، لیکن انھوں نے مذکورہ نتائج حاصل کرکے اپنے اہداف کوحاصل کرلیا تھا اور اُن کے اپنے شہر واپس پلٹنے سے لوگ اس ہجرت کے نتائج اور مقاصد سے آگاہ ہوکر اُن کے  ہمراہ اور ساتھی بن گئے۔

حوالہ جات:

۱۔  ساواک کی اسناد کے مطابق ۵ جون کا قیام، تیسری جلد (جیل)، پہلا ایڈیشن، تہران: تاریخی اسناد کا مرکز، ۱۹۹۹، ص ۳۸۳- ۳۸۲۔

۲۔ ایضاً، ص ۳۴۵

۳۔ ایضاً، ص ۴۲۷ – ۴۲۸

۵۔ انقلاب اسلامی کی اسناد کا مرکز، انقلاب اسلامی کی اسناد، تیسری جلد، تہران: انقلاب اسلامی کی اسناد کا مرکز، ۱۹۹۵، ص ۸۷۔

۵۔ روحانی، سابق، ص ۵۶۸۔

۶۔ انقلاب اسلامی کی اسناد کا مرکز، امام خمینی (رہ) کی محفوظ شدہ فائل ، کوڈ: ۲۲/ ۱۱۱۔

۷۔ ایضاً، کوڈ ۲۱/ ۱۱۱۔

۸۔ انقلاب اسلامی کی اسناد کا مرکز، انقلاب اسلامی کی اسناد، پہلی جلد، تہران: انقلاب اسلامی کی اسناد کا مرکز،  ۱۹۹۵، ص ۱۴۵۔

۹۔ ۵ جون کے واقعات (تہران)، تالیف: علی باقری، تہران: سورہ مہر، ۲۰۰۹، ص ۴۸ -۴۷۔

۱۰۔ انقلاب اسلامی کی اسناد کا مرکز، مجاہد علماء کی محفوظ شدہ فائل، کوڈ: ۱۳۶۵

۱۱۔ ۳ اگست ۱۹۶۳ء کا اطلاعات اخبار؛ امام خمینی (رہ) خبر سے آگاہ ہوتے ہی  شدت سے اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں: "اگر خمینی کو پھانسی بھی دیدی گئی تو تفاہم نہیں ہوگا۔" (امام خمینی، صحیفہ امام (بیانات، پیغامات، انٹرویوز، احکام، شرعی اجازات)، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (س)، ۱۹۹۹، جلد اول، ص ۲۷۰)



 
صارفین کی تعداد: 3652


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔