شہید "مہدی عراقی" ۵ جون کے قیام کا سربراہ

ابراہیم ذوالفقاری؛ محقق تاریخ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-3-16


حاج مہدی عراقی،  ۱۵ سالہ نوجوان جو ملک کے سیاسی معاملات میں شہید نواب صفوی ، جو خود ۲۱ سالہ طالب علم تھے، کے ساتھیوں میں سے تھے اور فدائیان اسلام کی مرکزی کابینہ تک پہنچے۔ اُنہیں شہید سید مجتبیٰ نواب صفوی کی راہ اور طریقہ کار اتنا پسند تھا کہ اُنھوں نے  سن ۱۹۵۱ء میں اُن کی گرفتاری کے بعد  زندان قصر کے چند دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ احتجاج کیا کہ یہ احتجاج اُن کی گرفتاری اور ۷ مہینے تک جیل میں رہنے کا سبب بنا۔

۱۸ اگست سن ۱۹۵۳ء  کی بغاوت ، فدائیان اسلام کے معاملے کے ٹھنڈا پڑ جانے اور نواب صفوی  اور اُن کے چند ساتھیوں کی شہادت کے سبب سیاسی ماحول میں تبدیل آئی اور پہلوی حکومت کی طرف سے ملک کے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ادارے (ساواک) کی تشکیل کی وجہ سے معاشرے پر رعب و وحشت کی فضا قائم ہوگئی۔

ابھی ان سخت حالات کو گزرے چند سال نہیں ہوئے تھے کہ حوزہ علمیہ قم کے دانا عالم دین جو "حاج آقا روح اللہ" کے نام سے مشہور تھے، انھوں نے جدوجہد کے میدان میں قدم رکھا۔ اُن کا سب سے پہلا کام "ایالتی و ولایتی انجمنوں کے بل" کی مخالفت کرنا تھا کہ جس کے قانونی متن میں، قرآنی قسم  کی جگہ آسمانی کتاب کی قسم نے لے لی تھی اور یہ اسلام کو نابود کرنے کیلئے ایک اور حرکت کا آغاز تھا؛ اگرچہ اس اقدام کے سلسلے میں، پہلوی حکومت کی طرف سے خواتین کو انتخابات میں شرکت کی اجازت دینا ، علماء، مراجع تقلید، روحانیت اور حوزہ ھای علمیہ کی مخالفت کو بیکار کرنے کی ایک شیطانی چال تھی تاکہ عوام کے ایک خاص حصے کو اُن کے مقابلے میں کھڑا  کیا جائے۔

اسی وجہ سے امام خمینی (رہ) نے مثالی لہجے میں واضح طور پر اس سازش کے چہرے سے نقاب کو اُتار پھینکا:

"اے دنیا کے مسلمانو! آگاہ ہوجاؤ ایالتی و ولایتی بل کی منظوری کے سلسلے میں، علمائے اسلام کی مخالفت انتخابات میں خواتین کی شرکت  کی وجہ سے نہیں تھی،  عمومی قیام کے مقابلے میں اس قضیہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ علماء اور دینداروں نے دیکھا کہ ظالم افراد شیطانی حیلے کے ذریعے اسلام کو بدل دیں اور حالات کو پیچھے کی طرف لے جائیں"۔

ایسے موقع پر حاج آقا روح اللہ کے وجود کے سبب حاج مہدی عراقی نے اپنی کھوئی ہوئی شخصیت کو پالیا تھا، وہ  امام خمینی (رہ ) کی تحریک میں اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لایا۔ امام خمینی (رہ) کی جدوجہدی تحریک، کام کے آغاز سے ہی بہت کشمکش کا شکار رہی کہ جن میں سے ایک قم کے مدرسہ فیضہ پر حملہ، طلاب کی مار پٹائی اور قتل تھا۔ اس واقعہ کے بعد کہ جس نے بہت عکس العمل دکھایا، محرم کا مہینہ آ جاتا ہے۔ ایسے موقع پر ماتمی دستوں اور حسینی انجمنوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اُنہیں پہلوی شہنشاہیت کے  خلاف مقابلے کیلئے تیار کرنا، ایک طے شدہ اقدام تھا۔ حاج مہدی عراقی، جن پر تہران کی مارکیٹ والوں کو اس تحریک پر اُکسانے کی ذمہ داری تھی، اُنھوں نے شاہ  چورنگی پر موجود مسجد  حاج ابو الفتح کو لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ قرار دیا اور اس تحریک کے  مختلف اور موثر  گروہوں سے ضروری انتظامات کو طے  کیا۔ اُن ہی میں سے ایک "شہید طیب حاج رضائی" تھا۔ اگرچہ حکومت شاہ کی سیکیورٹی فورسز نے مسجد حاج ابو الفتح کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کیا ہوا تھا لیکن لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ایک دھکا لگنے سے راستہ کھل گیا اور تقریب کا آغاز ہوا اور حاج مہدی اور شہید طیب حاج رضائی کی خاص تدبیروں نے سازشوں کو ناکام بنادیا۔ ریلی  کا راستہ، حاج ابو الفتح مسجد سے تہران یونیورسٹی کی طرف تھا اور سینہ زنی کرنے والے یہ نعرے لگا رہے تھے:

"دین پہ فداہو میرا اکبر/ دین پہ فدا ہو میرا اصغر/ جب تک میری رگوں میں خون جاری ہے، میں ظلم برداشت نہیں کروں گا/ میری بقا دین کی فنا ہے، میرا فنا ہوا ہونا دین کی بقا ہے"

راستے میں اور تہران یونیورسٹی کے دروازے کے سامنے اس ریلی کے ایک خطیب، حاج مہدی عراقی تھے جنہوں  نے اپنی گفتگو کے ایک حصے میں کہا:

"کہاں ہیں وہ لوگ جو جعلی ریفرنڈم کرتے ہیں ... وہ لوگ جو جعلی ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں، آئیں اور قریب سے، اس حقیقی ریفرنڈم کے ایک حصے کو دیکھیں ... ہم ایک مقدس جگہ سے آئے ہیں اور ہم نے اس پروگرام کو ایک دوسری مقدس جگہ پر ختم کرنا ہے، یعنی مسجد سے یونیورسٹی تک"۔

حاج مہدی عراقی اس پروگرام کے فوراً  بعد قم پہنچ جاتے ہیں تاکہ مدرسہ فیضیہ میں عصر عاشورہونے والی امام خمینی کی تقریر میں شرکت کرسکیں۔ اس تقریر میں محمد رضا پہلوی کو مستقیماً مورد خطاب قرار دیا گیا اور علماء اور متدین حضرات کے بارے میں اُس کی نامعقول باتوں کا جواب دیا گیا:

"جناب! میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں؛ اے آقای شاہ!  اے جناب شاہ!میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں؛ ایسے کاموں سے پیچھے ہٹ جاؤ۔ تمہیں غفلت میں رکھا ہوا ہے۔ مجھے پسند نہیں کہ ایک دن اگر تم جاؤ تو سب شکر کریں ... نہیں کرو! قوم کے ساتھ اتنا مت کھیلو! علماء سے اتنی مخالفت نہ کرو! اگر سچ کہتے ہیں کہ تمہارے مخالف ہیں، برا سوچتے ہو۔ اگر تمہارے ہاتھ میں املا ء تھما کر کہتے ہیں پڑھو تو  اس کے گوشہ و کنار کی فکر کرو؛ کیوں ایسے ہی، بغیر سوچے سمجھے ایسی باتیں کرتے ہو؟ کیا روحانیت اسلام، کیا اسلام کے علماء، کیا یہ لوگ نجس حیوانات ہیں؟ قوم کی نظر میں یہ لوگ نجس حیوان ہے جیسا تم کہتے ہو؟ اگر یہ لوگ نجس حیوان ہیں تو پھر لوگ کیوں اُن کے ہاتھوں کا بوسہ دیتے ہیں؟ نجس حیوان کے ہاتھ کو چوما جاتا ہے؟ اُن کے جھوٹے پانی کو کیوں تبرک سمجھتے ہیں؟ نجس حیوان کے ساتھ یہ کام کئے جاتے ہیں؟ جناب ہم نجس حیوان ہیں؟ (لوگوں کا شدید گریہ) خدا کرے اس کا مطلب یہ نہ ہو؛ خدا کرے تمہارا مطلب اس سے کہ "مرتجعین سیاہ نجس حیوان کی مانند ہے اور لوگوں کو اُن سے دوری اختیار کرنی چاہیے"، تمہارا مطلب علماء نہ ہو، وگرنہ ہمارا وظیفہ مشکل ہوجائے گا اور تمہارا وظیفہ مشکل ہوجائے گا۔ تم زندہ نہیں رہ سکتے؛ قوم تمہیں زندہ رہنے نہیں دے گی۔ ایسے کام نہ کرو؛ میری نصیحت پر کان دھرو۔ جناب! آپ ۴۵ سال کے ہیں؛ ۴۳ سال کے ہو، بس کرو، اِدھر اُدھر کی باتیں  مت سنو؛ تھوڑا سا فکر کرو، تھوڑا سا غور کرو! ذرا کاموں کے نتائج کو بھی ملحوظ رکھو! ذرا عبرت حاصل کرو! اپنے باپ سے عبرت لو!"

اس تقریر کی وجہ سے ۱۵ شعبان کو، امام کے گھر کی دیوار پھاند کر داخل ہوتے ہیں اور اُنہیں گرفتار کرکے تہران منتقل کردیتے ہیں ۔ امام خمینی (رہ) کی گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی، ملک کے مختلف شہروں میں شدید ردّ عمل ظاہر ہوا کہ جس میں مشہور ترین، ورامین کے لوگوں کا کفن پہن کر تہران کی طرف حرکت کرنا تھا کہ جس میں بہت زیادہ لوگوں کو قتل کیا گیا۔ اس موقع پر حاج مہدی عراقی تہران واپس آتے ہیں اور تہران کی مارکیٹ کے ایک حجرے میں سکونت اختیار کرلیتے ہیں اور وہیں سے ۵ جون کو ہونے والے قیام کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔

اس بارے میں حجت الاسلام و المسلمین ہاشمی رفسنجانی کہتے ہیں:

"مجھے یاد ہے ۵ جون کے واقعے میں، یہی عراقی جو سب سے زیادہ جوان تھا، ابھی اس کا تجربہ کم تھا، وہ مارکیٹ کے ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور ان دنوں کے اس عظیم انقلاب کو وہ ایک کمرے میں بیٹھ کر چلا رہا تھا۔"

اُس زمانے کی باقیماندہ رپورٹس میں اس سربراہی کی چند مثالیں، مندرجہ ذیل صورت میں  ہیں:

الف: " بازار کی جامع مسجد سے چار – پانچ افراد نکل کر بھاگتے ہوئے کہتے ہیں، لوگوں دوکانوں کو بند کردو، خمینی کو پکڑ لیا ہے" بغیر نمبر کی سند – ۱۵/ ۳/ ۴۲

ب: "مارکیٹ میں دوبارہ فائرنگ شروع ہوجاتی ہے۔ پوری مارکیٹ بند ہے۔ حرکت کرنے والے افراد، لوگوں کو آیت اللہ خمینی کی گرفتاری کی وجہ سے حملہ کرنے کی ترغیب دلا رہے ہیں۔" سند کا نمبر ۱۲ – ۱۵/ ۳/ ۴۲

ج: "پونے بارہ بجے سبزہ چورنگی کے سامنے فائر بریگیڈ کی دو گاڑیوں کو نذر آتش کردیا  ہے اور بعض دفعہ لوگوں نے سپاہی اور انتظامی افسروں پر حملہ کرتے ہوئے اُنہیں پیچھے کی طرف دھکیلا اور بعض افسروں نے پیش قدمی کی ہے لیکن حالات مکمل طور سے مظاہرہ کرنے والوں کے حق میں ہیں ... مارکیٹ میں لوگوں کے ہاتھوں پر کچھ لاشیں ہیں  اور لوگ شدید مظاہرہ کر رہے ہیں ..." بغیر نمبر کی سند – ۱۵/ ۳/ ۴۲

 

حوالہ جات:

- شہید حاج مہدی عراقی ساواک کی اسناد کے مطابق

- صحیفہ امام، ج۱، ص ۱۶۰

- ناگفتہ ھا۔ شہید حاج مہدی عراقی کی یادیں

- حجت الاسلام ہاشمی رفسنجانی کا نماز جمعہ کے خطبے میں شہید حاج مہدی عراقی کو یاد کرنا

- ۵ جون ساواک کی اسناد کے مطابق، ج۲



 
صارفین کی تعداد: 3839


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔