۵ جون کوقیام کرنے والے ساتھی کی یاد

شیخ حسین خندق آبادی

طیبہ سادات رضائی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-2-12


شیخ حسین خندق آبادی (۱۹۱۷ء – ۱۹۶۷ء) تہران کے خطباء اور واعظوں میں سے تھے، حوزہ علمیہ قم سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تہران واپس پلٹے اور دین کی تبلیغ میں مصروف ہوگئے۔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے کئی دفعہ ساواک کی طرف سے اذیت و پریشانی کا شکار ہوئے اور جیل میں رہے۔ برین ہیمبرج کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں وعظ و تقریر سے منع کردیا، لیکن انھوں نے  اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اور اپنا فرض جانتے ہوئے اپنے کام کو جاری رکھا، یہاں تک کہ ۲۱ رمضان کی شب، شب قدر کے اعمال کے درمیان، جنوری ۱۹۶۷ کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔

اس خطیب کی زندگی کے بارے میں ملنے والے کاغذات اور اسناد کے مطابق؛ کچھ ایسی باتیں تھی کہ جن کی وجہ سے ساواک ان کے بارے میں ہوشیار رہا کرتی تھی۔ اسی وجہ سے ان کے انتقال کے بعد، ساواک نے ان کی تشییع جنازہ پر پابندی عائد کردی، لیکن اس کے باوجود لوگوں نے ان کے جنازے کو ایمبولنس میں نہیں جانے دیا اور جنازے کی ہمراہی کی۔ حجت الاسلام و المسلمین خندق آبادی کا جنازہ پہلوی حکومت کے خلاف احتجاج کی صورت اختیار کر گیا اور ا سکی سب سے اہم وجہ مرحوم کی انقلابی تقریریں اور ۵ جون ۱۹۶۳ء کے قیام سے پہلے اور اس کے بعد ان کی حکومت کی مخالفت تھی۔ ان کے جنازے میں حرکت کرنے والے لوگ یہ نعرے لگا رہے تھے: "ہمارے عالم دین دنیا سے گزر گئے/خمینی بت شکن ہماری مدد کوآئیے"۔

شیخ حسین خندق آبادی شروع میں عام واعظوں کی طرح تھے۔ عمومی وعظ وہ ہوتا ہے جس میں اکثر دینی اور اعتقادی مسائل کی تبلیغ ہوتی ہے۔ ثبوت و شواہد کے مطابق، حجت الاسلام و المسلمین حسین خندق آبادی کی اپنی زندگی کے آخری ایام میں بالخصوص ۵ جون کے قیام کے بعد سے، ان چند اہم لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست تھی جو انقلابی تقریریں کیا کرتے تھے۔  ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۷ء کے درمیانی عرصے میں ان کے حجت الاسلامی فلسفی کے ساتھ  تعلقات اور آناجانا  تھا جو پہلوی حکومت کو بہت بھاری پڑا۔ مثال کے طور پر تاریخی اسناد سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۶۷ء میں ماہ شعبان کے آخری دن، حجت الاسلام فلسفی نے علماء اور دینی طالب علموں کو اپنے گھر مدعو کرکے  ایک اجلاس منعقد کیا تاکہ ان سے خطاب کریں۔ انھوں نے اپنی اس تقریر میں اسلامی معاشرے کی نسبت دینی طالب علموں کی نہایت ہی اہم ذمے داری کا ذکر کیا اور ان کی ذمے داریوں کی نسبت ان کی طرف سے سستی اور بے اہمیتی کے بارے میں متنبہ کیا۔ اس اجلاس میں موجود مشہور افراد میں سے ایک خندق آبادی تھے۔ وہ اب ایک انقلابی خطیب  میں تبدیل ہوچکے تھے۔ جیسا کہ تاریخی اسناد سے پتہ چلتا ہے؛  نومبر ۱۹۶۴ء میں شہر قزوین  کی شاہراہ دروازہ پر واقع امام حسن مجتبیٰ (ع) مسجد جو کمپانی مسجد  کے نام سے معروف تھی، اس مسجد میں انھوں نے حکومت کے خلاف کھل کر تقریر کی اور کہا: " لوگو! ہم اپنے ملک کو کھو چکے ہیں۔ حضرت آیت اللہ خمینی نے فرمایا ہے؛ یہ جعلی پارلیمان امریکا کہ طرف سے حفاظت میں ہے، تم لوگ کیوں خواب غفلت میں ہو اور اس سب کے خلاف کچھ کرتے کیوں نہیں۔" اس تقریر میں تقریباً ایک ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔

حجت الاسلام و المسلمین خندق آبادی کی طرف سے پہلوی حکومت کی  مخالف سن ۱۹۶۲ء میں شروع ہوئی۔ علماء، مراجع تقلید اور دینی طالب علموں کی طرف سے صوبائی انجمنوں کے لائحہ عمل کی  مخالفت میں اسد ا ۔۔۔ علم کی حکومت کو خط لکھا گیا، جس میں اس پر اعتاض کیا گیا۔ انھوں نے اس خط میں لکھا کہ یہ پروگرام اسلامی قوانین اور مالک کے آئین کے خلاف ہے اور کیونکہ تہران کے واعظ اور مقررین جن میں حسین  خندق آبادی بھی تھے، عام لوگوں کی ذہنیت سے آگاہ تھے؛ انھوں نے حکومت سے چاہا کہ اس بارے میں نظر ثانی کرے۔ حکومت نے اس خط کا جواب ایسا دیا کہ جس سے علماء کی مخالفت اور مزید بڑھ گئی۔

۵ جون ۱۹۶۳ء کے قیام میں تہران کے کئی خطباء اور علماء نے امام خمینی (رہ) کی پیروی کرتے ہوئے پہلوی حکومت کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے ان کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ شیخ حسین خندق آبادی بھی انہی علماء اور خطباء میں سے تھے کہ جنہیں ۵ جون کے قیام کے بعد پولیس کی جیل میں قید کرلیا گیا تھا۔ انھوں نےجیل میں اپنی یادوں کو قلمبند کیا کہ جس میں لکھتے ہیں: "بہت خوشی کا مقام ہے کہ بالآخر مسلمانوں میں ہر طرف سے ایک تحرّک دکھائی دے  رہا ہے اور خرابیوں، کرپشن،  ظلم کے خلاف اور قر آن اور رسول و آل رسول کے حقوق کی حرمت کے دفاع میں کئی ہزار لوگ قتل ہوچکے ہیں اور ہزاروں قید ہیں۔ انہی میں سے تہران کے تقریباً پچاس علمائے اسلام اور دین کے مبلغ ہیں کہ جنہیں تقریباً ایک مہینے سے پولیس کی عارضی جیل کے ایک مختصر  حصے میں قید کرکے رکھا گیا ہے۔ جن کا یہ پختہ ارادہ ہے کہ کامیابی ملنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔"

پہلوی حکومت کے خلاف احتجاج اور مخالف خندق آبادی خاندان میں شروع سے ہی عروج پر تھی کہ شیخ حسین خندق آبادی کے بھائی جن کا نام جواد تھا، وہ امام خمینی (رہ) سے رابطے میں رہتے تھے اور امام خمینی (رہ) انہیں اپے خطوط اور ٹیلی  گراموں میں مہربانی اور شفقت سے یاد کرتے تھے۔ مرحوم آیت ا ۔۔۔ مہدوی کنی کہتے ہیں: "امام خمینی (رہ) کا تہران کے دین طالب علموں سے نزدیکی رابطہ تھا، ان کی تہران کے دین طالب علموں سے ملاقات کروانے میں مرحوم مولائی اور مرحوم شیخ جواد خندق آبادی بہت زیادہ سرگرم رہتے تھے۔"

شیخ حسین کے چچا بھی حکومت کے ان مخالفین میں سے تھے جو ۵ جون کے قیام کے دوران اور اس کے بعد سرگرم  رہے۔ ان کا نام جعفر خندق آبادی تھا۔ تاریخی اسناد کے بقول شیخ جعفر خندق آبادی بعض دیگر خطباء اور دینی طالب علموں کے ساتھ مل کر محرم کے دنوں میں بالخصوص ۹ اور ۱۰ محرم کو احتجاج جلسے جلوسوں کی سربراہی کیا کرتے تھے۔ تاریخ کی ایک سند جو ۴ جون ۱۹۶۳ء کی ہے؛ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ساواک نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے: "مختلف ذرائع سے ملنے والے اطلاعات کے مطابق اس سال تہران میں ہونے والی عزاداری گذشتہ سالوں کی نسبت بےنظیر رہی ہے اور جلوسوں اور مجلسوں میں لوگوں کی اکثریت نے شرکت کی، جس کی شاید گذشتہ دس سالوں میں مثال نہیں ملتی، بالخصوص ۹ اور ۱۰ محرم کی شبوں میں، حاج ابو الفتح مسجد، فخریہ مسجد، بھبھانی منزل، شاہراہ سروس میں حاج سید آقا جواہری کے امام بارگاہوں کی عمومی مجلسوں اور بقیہ مجالس میں حکومت اور حکومتی کمیٹیوں کے خلاف شدید تقریریں ہوئیں اور (امام) خمینی کی تصاویر اور ان کی وہ تقریریں جو انھوں نے خطباء سے کی تھیں اور آیت ا۔۔۔ میلانی اور بقیہ علماء کے بیانات چھپوا کر لوگوں کے درمیان تقسیم کروائے گئے اور حکومت کے خلاف شدید تقریریں کرنے والے مقررین: فلسفی، حاج شیخ فضل ا۔۔۔ محلاتی، حجازی، سید غلام حسین شیرازی، اعتماد زادہ، شیخ جعفر خندق آبادی تھے۔ یہ چند افراد اس طرح کے خطباء میں سرفہرست تھے جبکہ ان کے علاوہ باقی بھی کم و بیش مخالفت کر رہے تھے۔ تمام علموں اور تعزیوں پر (امام) خمینی کی تصویریں لگی ہوئی تھیں اور ایسے نوحے پڑھے جا رہے تھے جن سے (امام) خمینی کی حامیت کا اظہار ہو رہا تھا۔ "

 

حوالہ جات:

۔ امام (خمینی) کے ساتھی، ساواک کی زبانی: کتاب نمبر ۹، اسلام کی بولتی زبان؛ حجت الاسلام محمد تقی فلسفی، تہران: تاریخی اسناد کی تفتیش کا مرکز؛ سن ۲۰۰۰، ص ۵۹۴

۔ ۵ جون کا قیام ساواک کی زبانی، تہران: تاریخی اسناد کی تفتیش کا مرکز، سن ۲۰۰۰، ج۲، ص ۳۸۹؛ ۲۰۰۴ء ج۶، ص ۴۵۴

۔ کرباسچی، غلام رضا، اسلامی انقلاب کی زبانی تاریخی، تہران؛ اسلامی انقلاب کی اسناد کا مرکز، ۲۰۰۳ء، ج۲، ص ۳۶۲

۔  ۱۵ خردار ۴۲ ویب سائٹ؛ (http://www.15khordad42.ir)

۔ وارثون ویب سائٹ؛ (http://varesoon.ir)



 
صارفین کی تعداد: 4009


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔