امام (رہ) کی جلا وطنی کے تناظر میں آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی جلاوطنی

فاطمہ دفتری
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-2-5


امام خمینی (رہ) کے سب سے بڑے فرزند آیت اللہ سید مصطفی خمینی ، امام (رہ) کی غیر موجودگی میں خاص طور سے تہران میں امام کی گرفتاری کے دوران امام اور لوگوں کے درمیان رابط تھے اور اسلامی تحریک کے پیروکاروں کو امام کے پیغامات پہنچاتے۔ اس رابطے کے بارے میں ساواک کی رپورٹ ہے: "آیت اللہ خمینی کا بیٹا با اثرافراد اور حکومت (پہلوی حکومت) کے مخالفوں  سے رابطے میں ہے، چونکہ مذکورہ شخص اپنے والد سے ملاقات کرسکتا ہے،  اس سلسلے میں وہ اپنے والد اور حکومت مخالف افراد کے درمیان رابط  ہے۔" اسی وجہ سےساواک نے آیت اللہ سید مصطفی خمینی کے تعلقات اور میل جول کو زیر نظر رکھا ہوا تھا  اور ان کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کر رہی تھی۔

امریکی باشندوں کو قانون سے استثنیٰ دینے والے بل کی منظوری کے تناظر میں امام خمینی (رہ) نے فیصلہ کیا کہ  ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۴ء والے دن اپنے گھر پر جناب فاطمہ زہرا (س) کی ولادت کی مناسبت سے میلاد رکھیں اور مذکورہ بل کے بارے میں تقریر کریں۔ پہلوی حکومت اس تقریر کے نتائج سے، جو امریکی مفاد کے خلاف تھے، پریشانی کا شکار تھی ، اس نے قم میں امام سے ملاقات کیلئے ایک نمائندہ  بھیجا لیکن امام نے ملنے سے انکار کردیا۔ پہلوی حکومت کے نمائندے نے مجبوراً آیت اللہ سید مصطفی خمینی سے ملاقات کی اور اُن سے کہا کہ وہ امام کو امریکی باشندوں کو قانون سے استثنیٰ دینے والے بل کے خلاف تقریر کرنے سے روکیں۔ (۱) لیکن امام اپنے فیصلے پر عمل کرنے پر ڈٹے ہوئے تھے اور انھوں نے ۲۶ اکتوبر کی تقریر میں، ایسے بل کی منظوری پر اپنے قلبی تاثرات کو بیان کیا۔ (۲) اس تقریر کے بعد پہلوی حکومت نے امام کے وجود اور اُن کے جدوجہد کے تسلسل کو اپنے لئے خطرہ محسوس کیا اور اس کوشش میں لگ گئی کہ انہیں ملک بدر کردے۔

۴ نومبر ۱۹۶۴ کی صبح کمانڈو فورسز امام کے گھر میں گھس گئی اور انہیں گرفتار کرکے تہران اور پھر ترکی کے شہر آنکارا منتقل کردیا۔ امام کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی آیت اللہ سید مصطفی خمینی نے علماء سے مشورہ کیا۔ آیت اللہ مرعشی نے اس امکان کا اظہار کیا کہ امام کے فرزند کو بھی گرفتار کرلیا جائے گا۔ لہذا اُن سے کہا گیا کہ وہ کچھ دنوں تک اُن کے پاس رہیں تاکہ اگر وہ امام کے فرزند کو گرفتار کرنا چاہیں تو وہ اُن کے ساتھ ہوں۔

لیکن اُسی دن صبح ۱۰ بجے، ساواک کا ایجنٹ رضوی تقریباً ۲۰ لوگوں کے ساتھ آیت اللہ مرعشی کے گھر میں داخل ہوکر آیت اللہ سید مصطفی کو دوکانداروں کو دکان بند کروانے کی ترغیب دلانے کے جرم میں گرفتار کرکے اُنہیں قم کے تھانے لے جاتا ہے۔ (۳) اُسی دن شام کو انہیں ایک بس میں بٹھا کر جو ساواک کے افراد سے بھری ہوتی ہے، تہران کے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ادارے اور پھر وہاں سے قزل قلعہ جیل منتقل کردیتے ہیں۔ ۵ نومبر ۱۹۶۵ء والے دن پہلوی حکومت کی فوجی عدالت کے ساتویں تفتیشی شعبے نے  آیت اللہ سید مصطفی خمینی کی عارضی گرفتاری کا حکم صادر کیا اور  وہ صادر ہونے والے حکم کو ملاحظہ کرنے کے بعد اس طرح لکھتے ہیں: "بسمہ تعالیٰ۔ میں اصل فیصلے، گرفتاری کی کیفیت اور گرفتاری کا حکم صادر کرنے والے پر شدید اعتراض کرتا ہوں۔ سید مصطفی خمینی"۔ لیکن اس اعتراض پر دھیان نہیں دیا گیا اور فوجی عدالت کا ساتواں تفتیشی شعبہ ۱۴ نومبر کو عام عدالت کہ جسے فوجی عدالت کی تائید بھی تھی،  کے ذریعے گرفتاری کے حکم سے ساواک کے سربراہ کو آگاہ کرتا ہے  اور اس طرح اُن کی قید جاری رہتی ہے۔ (۴) موجودہ اسناد کے مطابق، فرزند امام کی گرفتاری کے مراحل میں قم  کے تھانے والے اُنہیں قم میں ساواک کے دفتر منتقل کرتے ہیں اور وہاں سے تہران میں ساواک کے دفتر اور پھرقز ل قلعہ جیل کی تحویل میں دیتے ہیں،  یہ سارے کام  ۴ نومبر ۱۹۶۴ء والے دن صبح سے شام تک معمول کے برعکس بہت تیزی سے انجام پاتے ہیں ۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ساواک نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت امام کی جلا وطنی کے تناظر میں اُن کی گرفتاری  کا سوچ رکھا تھا۔ (۵)

آیت اللہ سید مصطفی خمینی نے اپنی قید کے دوران ترکی میں امام خمینی کے پاس جانے کے سوا کوئی اور درخواست نہیں کی۔ اُن کی اس درخواست کا مقصد امام سے ملنا اور اُن   کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھا۔ کیونکہ اُن حالات میں سب ہی امام کی سلامتی کی طرف سے پریشان  اور اُن کی جان کو خطرے میں محسوس کر رہے تھے۔ لہذا ہر ممکن طریقے سے کوشش کر رہے تھے کہ اُن کے بارے میں کوئی اطلاع مل جائے۔ ساواک کی رپورٹ اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ آیت اللہ سید مصطفی خمینی نے اپنی قید کے دوران  بھی علماء اور مراجع سے اس بارے میں مدد طلب کی ہے: " آخری چند دنوں میں آیت اللہ کے بیٹے یعنی امام خمینی کے فرزند نے قم کے دینی مدارس  کے علماء اور مذہبی افراد تک یہ بات پہنچائی کہ امام خمینی کی جلاوطنی کے بعد میرے پاس اُن کی صحت و سلامتی  کی کوئی خبر نہیں ہے اور اس طرح اُن لوگوں سے خاص طور سے آیت اللہ خوانساری سے آیت اللہ خمینی کے بارے میں خبریں لانے کیلئے مدد طلب کی ہے۔" (۶)

پہلوی حکومت آیت اللہ سید مصطفی خمینی کو قید کرکے تحریک کے مجاہدوں اور کارکنوں کے درمیان رعب اور وحشت ایجاد کرنا چاہتی تھی اور وہ چاہتی تھی کہ اُن کے امام اور اُن کے فرزند کے رابطے کو ایک دم ختم کردے اور تحریک کو آگے بڑھنے سے مشکل میں ڈال دے۔ لیکن امام کے فرزند نے قید میں بھی والد کے کام کو آگے بڑھانے اور رابطہ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اسی وجہ سے جب امام نے اپنے بیٹے کی گرفتاری سے بے خبر، ترکی کے شہر برسا سے ۱۰ نومبر ۱۹۶۴ء کو  ایک خط کے ساتھ ایک وکالت نامہ بھیجا، جس میں انھوں نے آیت اللہ سید مصطفی خمینی کو اپنا نمائندہ اور وصی منتخب کیا تھا، شہید آیت اللہ محلاتی کے بقول، امام کے بیٹے نے بھی اپنے جلا وطن ہونے کے خیال سے شہید محلاتی کو نمائندہ بنایا اور انہیں اجازت دی کہ وہ سہم امام سے مربوط شرعی رقوم کو دینی مدارس اور سیاسی قیدیوں اور دوسرے کاموں میں خرچ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح جیل سے ایک خط کے ذریعے، آیت اللہ شہاب الدین اشراقی کو اپنی طرف سے امام کے مقلدین کو مسائل کا جوب دینے والا نمائندہ  بنایا اور اس طرح انھوں نے لوگوں کے درمیان امام خمینی (رہ) کے معنوی حضور  کو اُسی طرح قائم اور  محکم رکھا۔ (۷)

جیل سے باہر بھی علماء، مذہبی افراد ، امام کے حامی اور اور ان کے گھر والوں نے خاموشی اختیار نہیں کی اور امام کی جلاوطنی اور اُن کے بڑے بیٹے کی گرفتاری کے تناظر میں، علماء اور مراجع کرام جیسے آیات عظام میلانی، گلپایگانی، مرعشی نجفی، خوئی اور حکیم نے بڑے سخت الفاظ میں بیانات دیئےاور حکومت کے قبیح عمل پر مختلف ٹیلیگراف بھیجے گئے۔ (۸)

بالآخر پہلوی حکومت جو قم اور تہران میں موجود نسبتاً پرسکون ماحول کو راکھ کے نیچے آگ سمجھتی تھی اور ماہ مبارک رمضان کی آمد اور علماء کے منبروں پر جاکر حکومت کے خلاف تبلیغ کرنے سے خطرے کا احساس کر رہی تھی، اُس نے آیت اللہ سید مصطفی خمینی کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اسی وجہ سے کرنل مولوی نے جیل میں امام کے فرزند سے ملاقات کرکے اُنہیں پہلوی حکومت کے فیصلے سے آگاہ کردیا کہ وہ اُنہیں امام کے پاس بھیجنا چاہتی ہے۔ آیت اللہ سید مصطفی خمینی کو چند دن کی مہلت دی گئی کہ وہ خاموشی کے ساتھ قم جائیں  اور اپنے رشتہ داروں سے ملکر اور ذاتی کام انجام دیکر تہران و اپس آجائیں تاکہ وہاں سے انہیں ترکی بھیجا جائے۔ لہذا انھیں ۲۹ دسمبر ۱۹۶۲ء کو عارضی طور پر رہا کردیا۔ فرزند امام کی رہائی کی خبر سنتے ہی بہت سے لوگ اُن کے استقبال کیلئے شاہراہ ارم پر جمع ہوگئے اور علماء اور دینی طالب علم اُن سے ملنے کیلئے گئے۔

آیت اللہ سید مصطفی خمینی نے بعض علماء اور مراجع تقلید سے ملاقات کی اور کرنل مولوی کی باتوں سے انھیں آگاہ کیا۔ اکثر علماء کا خیال تھا کہ وہ اپنی مرضی سے جلا وطن نہ ہوں، کیونکہ امام کی جلا وطنی کے بعد، قم میں اُن کا وجود امام کے چاہنے والوں اور تحریک کے حامیوں کیلئے ایک محکم پناہ گاہ ہوگا اور حکومت اس بات کا علم رکھتے ہوئے امام کی غیر موجودگی میں فرزند امام کو تحریک کے مرکز سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف سے آیت اللہ سید مصطفی خمینی مراجع اور گھر والوں سےخط و کتابت کے ذریعے اُن کی صحت اور امنیت کی خبر ملنے  کے بعد پریشان بھی نہیں تھے اور اب ترکی جانے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے تھے۔ اس وجہ سے انھوں نے  فیصلہ کیا کہ سفر کیلئے خود سے کوئی اقدام نہ کریں۔ (۹)

چند دنوں بعد تہران میں ساواک کے سربراہ کرنل مولوی نے آیت اللہ سید مصطفی خمینی کے گھر فون کیا اور اُن سے واپس نہ آنے کی وجہ دریافت کی۔ فرزند امام نے جواب دیا: "میں نے قم کے علماء اورمراجع کرام سے مشورہ کیا ہے اور وہ لوگ مصلحت نہیں سمجھتے۔" اس جواب سے پہلوی حکومت کو اندازہ ہوگیا کہ اُنہیں دھمکی اور رعب و دبدبہ سے راضی نہیں کرسکتی،  اتوار، ۲ جنوری والے دن وہ آیت اللہ سید مصطفی خمینی کو گرفتار کرلیتی ہے۔ اُس رات انہیں وزیر اعظم ہاؤس کے کلب میں رکھا جاتا ہے اور اُس سے اگلے دن شام  ۵:۳۰ بجے ہوائی جہاز کے ذریعے استنبول اور وہاں سےترکی کے شہر برسا، اپنے والد کے پاس منتقل کردیتے ہیں۔ (۱۰)

 

حوالہ جات:

۱۔ روح بخش، اللہ آباد،  تحریک امام خمینی (رہ) میں پیغام پہنچانے والا چینل، تہران: انقلاب اسلامی کی اسناد کا مرکز، ۲۰۰۰، ص ۱۰۳۔

۲۔ ساواک کی اسناد میں ۵ جون کا قیام، تہرن: وزارت اطلاعات میں تاریخی اسناد کی تفتیش کا مرکز، ۲۰۰۰، ج۶، ص ۴۴۵ سے ۴۵۲۔

۳۔ امام اسناد کے آئینے میں: تھانے کی اسناد کے مطابق امام خمینی کی جدوجہد، امام خمینی (رہ) کے آثار مرتب اور شائع کرنے والا ادارہ، تہران: ۲۰۰۴ء، ج۲، ص ۱۵۷۔

۴۔ امید اسلام: شہید آیت اللہ حاج سید مصطفی خمینی ساواک کی اسناد کے مطابق، تہران: تاریخی اسناد کی تفتیش کا مرکز، ۲۰۰۹، ص ۷۱۔

۵۔ ایضاً، ص ۲۱۔

۶۔ ایضاً۔

۷۔ تحریک امام خمینی (رہ) میں پیغام پہنچانے والا چینل، ص ۱۱۸۔

۸۔ مقدم، کاظم، قانونی تشدد، تہران: محدث، ۲۰۰۱، ص ۲۲۵۔

۹۔ امید اسلام، ص ۲۳۔

۱۰۔ سید علی اکبر محتشمی پور کی یاد داشت، تہران: انقلاب اسلامی کے ادبی دفتر میں زبانی تاریخ کا حصہ، ۱۹۹۷ء، ص ۴۳۰۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4238


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔