آیت اللہ غفاری، امام خمینی (رہ) کی تحریک کے دوران مستقل جدوجہد کرنے والی شخصیت

سارہ جمالی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-1-31


آیت اللہ حسین غفاری سن ۱۹۱۳ء میں تبریز کے دھخورقان آذر شہر میں پیدا ہوئے ۔ وہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تبریز چلے گئے اور اس شہر کے دینی مدارس میں علم دین حاصل کرنے لگے۔  اسکے بعد سن ۱۹۴۵ء میں قم چلے گئے،  جہاں انھوں نے آیت اللہ العظمیٰ بروجردی، آیت اللہ سید محمد حجت کوہ کمرای، امام خمینی (رہ)، آیت اللہ مرعشی نجفی اور علامہ طباطبائی وغیرہ جیسے عظیم لوگوں سے علم حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ تہران چلے گئے اور وہاں پر پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔

آیت اللہ غفاری سن ۱۹۵۶ء میں امام خمینی (رہ) کے حکم پر تہران آئے اور اجتماعی اور مذہبی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے تہران نو نامی شاہراہ پر موجود مسجد کو  اپنی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا اور تہران کے فسادی مراکز کا مقابلہ کیا۔

۸ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو  جب اُس وقت پہلوی حکومت کے  وزیر اعظم، اسد اللہ اعلم  کے ذریعے  ملکی و غیر ملکی انجمنوں کا بل پاس ہوا، تو امام خمینی (رہ)، علماء اور مذہبی افراد کے لئے سنجیدہ جدوجہد کا ماحول فراہم ہوگیا۔ اس عرصہ میں آیت اللہ غفاری نے بھی امام خمینی (رہ) کی تحریک کے ساتھ علی الاعلان کام کا آغاز کیا ۔ آیت اللہ غفاری اس قدر شجاعانہ تقریریں کرتے تھے کہ ساواک کے ایجنٹ  اُس جگہ کو محاصرے میں لے لیتے تھے۔ اس بارے میں نقل ہوا ہے کہ ۵ جون ۱۹۶۳ء سے پہلے  وہ کسی مسجد میں تقریر کر رہے تھے۔ تقریر کے دوران غضب و غصے کی حالت میں ایک پولیس افسر مسجد میں داخل ہوا اور لوگوں کے پیچھے، کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ آیت اللہ غفاری نے گرج دار آواز میں کہا: "جناب آفیسر، آپ بھی دوسرے لوگوں کی طرح بیٹھ کر سنیں۔ آپ اس طرح کیوں کھڑے ہیں؟ کیا لوگوں کو ڈرانا چاہتے ہیں؟!"

جون ۱۹۶۳ء میں ہونے والی جدوجہد میں آیت اللہ غفاری سر فہرست تھے، اس طرح سے کہ ۱۲ محرم کی شب جو ۵ جون ۱۹۶۳ کی رات بھی تھی، پہلوی حکومت کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔ اس موقع پر ۵ جون کی تحریک میں ایک ساتھ کام کرنے والے علماء اور مذہبی افراد کو گرفتار کرکے تھانے لے جایا گیا اور اُن سے تفتیش کی گئی۔ تفتیش کرنے والے نے، آیت اللہ غفاری سے پوچھا: "کیا آپ آیت اللہ خمینی  کے حکومت کے خلاف اقدامات کرنے کی تائید کرتے ہیں یا نہیں؟"آیت اللہ غفاری ہوشیاری سے جواب دیا: "امام حسن عسکری (ع) نے نائب عام کی تعیین کے مسئلے میں فرمایا ہے کہ تمام مراجع کی اطاعت واجب ہے  اور جو اُن کی بات کو ٹھکرائے گویا اُس نے ہماری بات کو ٹھکرایا؛ هم حجتی علیکم و انا حجه‌الله الراد علیهم کالراد علینا" اور اس طرح انھوں نے امام کی انقلابی تحریک کی حمایت کی۔

آیت اللہ غفاری  ستمبر ۱۹۶۳ء میں  کافی ثبوت نہ ہونے کی بناء پر استغاثہ کی اپیل پر جیل سے رہا ہوگئے۔ وہ رہائی پانے کے بعد دوبارہ اپنی اجتماعی، سیاسی اور انقلابی سرگرمیوں  میں مصروف ہوکر شاہراہ تہران نو پر موجود مسجد خاتم الاوصیاء میں ایران میں امریکیوں پالیسیوں اور پہلوی حکومت کے ظلم کو آشکار کرنے لگے۔

ایسے حالات میں کہ امام خمینی (رہ) تسلیم ہوجانے والے بل کی مخالفت کے تناظر میں ترکی اور وہاں سے عراق، نجف جلا وطن ہوچکے تھے، اُن کے سچے پیروکاروں نے ایران کے اندر  جدوجہد کو جاری رکھا، اُن میں سے ایک آیت اللہ غفاری جیسی شخصیت  ہےکہ جنہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ آیت اللہ غفاری ۱۹ جنوری ۱۹۶۵ء والے دن یعنی مسجد خاتم الاوصیاء میں پرجوش اور آشکارا تقریر کے دو دن بعد ایک مرتبہ پھر پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوکر جیل چلے گئے۔ ۱۷ جنوری ۱۹۶۵ء کو ہونے والی تقریر کے بارے میں ساواک کی رپورٹ میں آیا ہے: "اُس نے منبر پر جاکر کہا ہے کہ کسی ایک نمائندے  نے ہمارے رہبر آیت اللہ خمینی کی توہین کی ہے، جو بھی مذہبی علماء کی توہین کرتا ہے وہ سراسر بت پرست ہے۔"

آیت اللہ غفاری اپریل ۱۹۶۵ء میں تہران سے باہر نہ نکلنے کی شرط پر جیل سے آزاد ہوگئے۔  لیکن انہوں نے جدوجہد ترک نہیں کی اور انھیں ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۱ء  کے دوران دو مرتبہ گرفتار کرکے تفتیش کی گئی۔ اُن کی جدوجہد جاری رہی یہاں تک کہ جولائی ۱۹۷۴ء میں ایک بار پھر گرفتار کرکے اُن سے تفتیش کی گئی۔ تفتیش کے دوران آیت اللہ غفاری سے امام خمینی (رہ) کے بارے میں سوال کیا گیا، انھوں نے اس طرح جواب دیا: "امام خمینی کا دشمن کافر ہے ...میرے خیال سے  امام خمینی کی شخصیت وہ تنہا ذات ہے جو ایران کو نجات دلاسکتی ہے۔" شاہ کی حکومت کے ایجنٹوں نے اُن پر شدید تشدد کیا اور بہت اذیتیں ڈھائیں؛ پیروں کو تیل میں گرم کرنا، جسم کی ہڈیوں پر ڈرل چلانا اور  کھوپڑی میں سوراخ کرنا، ناخن کھینچنا، دانتوں کو توڑنا وغیرہ کہ بالآخر  وہ ۲۸ دسمبر ۱۹۷۴ کو شدید تشدد کہ وجہ سے جام شہادت نوش کیا۔

پہلوی حکومت کی جیل میں آیت اللہ غفاری کی شہادت کی خبر سے لوگوں میں بیزاری اور عمومی نفرت وجود میں آئی اور مختلف علاقوں میں بہت سے مظاہرے، خاص طور سے قم میں ہوئے۔ ان کی شہادت تعلیمی اداروں اور حتی ملک سے  باہر اور مسلمانوں اور شیعوں پر  اثر انداز ہوئی، جس کی وجہ سے ملک میں اور ملک سے باہر پہلوی حکومت کے خلاف ایک انقلابی تحریک کی لہر اٹھی۔ قم کے مدرسہ فیضہ میں تین زبانوں  فارسی، عربی اور انگلش میں پوسٹر  نصب ہوئے جس میں آیت اللہ غفاری کی گرفتاری اور قید کے دوران اذیت دینے کے طریقے کو بیان کیا گیا تھا۔ پوسٹر میں آیت اللہ غفاری کی دو تصویریں لگی ہوئی تھیں، ایک روحانیت کے لباس میں اُن کی عام تصویر  اور دوسری جیل کی تصویر۔

آیت اللہ غفاری کی شہادت کی وجہ سے جو لہر اٹھی تھی اُس نے ۱۹۷۵ء میں اُن کی شہادت والے دن اور اسی طرح ۱۹۷۶ء اور ۱۹۷۷ء کے سالوں میں اہم کردار ادا کیا اور ساواک اور پہلوی حکومت کے ایجنٹ اس شہید کے نام اور ان کی شہادت کے مسائل برملا ہونے سے خوف میں رہتے۔ امام خمینی (رہ) نے ۴ نومبر ۱۹۷۸ء اور انقلاب کی کامیابی کے نزدیک تقریر میں آیت اللہ غفاری کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: " ...ہماری مصیبت تو یہ ہے جناب کہ ہمارے علماء  کے پیروں کو آرے سے کاٹا گیا ہے! تیل میں جلایا گیا ہے!ہماری مصیبت تو یہ ہے کہ ہمارے علماء دس سال، پندرہ سال، آٹھ سال، سات سال قید میں رہے ...۔"

 

حوالہ جات:

- "وہ مجاہد علماء کی نسل کا پاکیزہ شہید تھا"، مجلہ جہاد، شمارہ ۲۴

- ہادی منش، ابو الفضل، ۲۰۰۵ء،  پنجرے میں پرندہ: آیت اللہ شیخ حسین غفاری کی شہادت کا دن"، مجلہ گلبرگ، شمارہ ۷۰

- امام کے ساتھی ساواک کی اسناد کے مطابق: شہید آیت اللہ حاج شیخ حسین غفاری، تہران، تاریخی ا سناد کا مرکز،  ۲۰۰۲ء

- ابو الفضل، ملکوت کا مسافر: شہید آیت اللہ غفاری کی زندگی کا جائزہ، تہران، انقلاب اسلامی کی اسناد کا مرکز، ۲۰۱۱ء



 
صارفین کی تعداد: 4216


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔