شعلہ بیان خطابت کے مالک؛ آیت اللہ دستغیب کی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ

(سن ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۴ء تک)

میثم غلامپور
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-1-26


اگر ہم چند ایسے علماء کا نام لینا چاہیں کہ جن کا نام شروع ہی سے امام خمینی (رہ) کی تحریک کی ساتھ جڑ گیا ہو تو بغیر کسی شک کے اُن میں سے ایک نام سید عبد الحسین دستغیب کا ہے۔ آیت اللہ دستغیب جنہوں نے  سن  ۱۹۱۳ء میں شیراز کے ایک شریف گھرانے میں آنکھ کھولی، انھوں نے اسی شیراز میں بہت جلد دینی تعلیم کا آغاز کر دیا۔ ابھی وہ ۱۷- ۱۸ سال کے بھی نہیں تھے کہ شہر کے محلہ  کی ایک مسجد میں نماز پڑھانے لگے۔ آیت اللہ کی سیاسی سرگرمیاں بھی بہت جلدی شروع ہوگئی تھیں۔ سن ۱۹۳۵ء میں رضا شاہ کی حکومت نے علماء پر دباؤ ڈالا کے وہ علماء کا مخصوص لباس زیب تن نہ کریں  اور آیت اللہ نے کئی مرتبہ  اس حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، بالآخر اُنہیں اس کام کیلئے ۲۴ گھنٹے کی مہلت دی گئی تو وہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ آیت اللہ دستغیب نجف چلے گئے اور اسے اُن کیلئے  اجباری توفیق کہا جاسکتا ہے۔ نجف میں انھوں نے مراجع کرام محمد کاظم شیرازی، سید ابو الحسن موسوی اصفہانی، سید میرزا اصطہباناتی اور میرزا علی قاضی طباطبائی   جیسے اساتید کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے اور بہت کم سنی یعنی  ۲۴ سال کی عمر میں نجف کے کئی بڑے مراجع کرام نے اُنہیں  اجازہ اجتہاد دیدیا۔ منقول ہے کہ اُن کے پاس ۸ مراجع تقلید کے اجازہ  اجتہاد تھے۔ (۱)

آیت اللہ سن ۱۹۴۲ء میں شیراز واپس آتے ہی  ایک بہت ہی پرانی مسجد کی تعمیر میں لگ گئے  جو اُس زمانےمیں بالکل کھنڈر بن چکی تھی جو جامع مسجد عتیق کے نام سے مشہور ہے۔ (۲) البتہ شہید دستغیب نے اس مسجد کے علاوہ بھی بہت سی مساجد اور مدارس کی دوبارہ تعمیر کروائی اور حتی ہزاروں ایکٹر زمین  غرباء  کو گھر بنانے کیلئے انفاق کردی۔ (۳)آیت اللہ دستغیب چین سے بیٹھنے والے علماء میں سے نہیں تھے۔ وہ شعلہ بیاں تقریریں کرتے اور سیاست میں بھی سرگرم تھے۔ اسی بات کی وجہ سے انھوں نے سن ۶۳ اور ۶۴ میں عشرت آباد اور قزل قلعہ نامی جیلوں  کا مزہ چکھا اور سن  ۱۹۷۸ء میں بھی وہ چند مہینے کیلئے جیل گئے اور جلاوطن ہوئے۔ وہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد فارس سے مجلس خبرگان کے نمائندے منتخب ہوئے  اور شیراز کے امام جماعت بھی بنے۔ (۴)

البتہ شہید دستغیب کی سیاسی سرگرمیاں اُن کے عارفانہ سیر و سلوک میں رکاوٹ نہیں بنی اور انھوں نے ہمیشہ ایک عارفانہ اور زہدانہ زندگی بسر کی۔ انھوں نے عرفان میں آیت اللہ محمد جواد انصاری ہمدانی جیسے استاد سے استفادہ کیا  اور آیت اللہ نجابت جیسی شخصیت اُن کی ہم نشین تھی۔ (۵) اسی طرح آیت اللہ دستغیب نے  تالیف کے میدان میں بھی بہت کام  کیا اور متعدد کتابیں لکھیں، جیسے صلوۃ الخاشین، داستان ھای شگفت، گناہان کبیرہ، قلب سلیم، نفس مطمئنہ، استعاذہ وغیرہ۔ بالآخر  ۱۰ دسمبر ۱۹۸۱ء کو جمعہ والے دن جب وہ اپنے گھر سے نماز جمعہ پڑھانے جا رہے تھے، منافقین کے ہاتھوں شہادت کے درجہ پر فائز ہوجاتے ہیں؛  ایسا شخص جس کے تعزیتی پیغام میں امام خمینی (رہ) نے اُنہیں ان صفات سے یاد کیا: "قابل قدر شخصیت"، "عظیم مربی"، "عالم با عمل جس کا گناہ صرف اسلام کی پابندی تھی"، استاد اخلاق"، "پاکیزہ نفس"، "اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے پابند"۔ (۶)

سخت اور زوردار اعتراضات

آیت اللہ دستغیب  کی ۱۹۶۱ سے ۱۹۶۴ کے اردگرد کی زندگی پر نظر ڈالنے سے  پتہ چلتا ہے  کہ آیت اللہ اُس وقت  اجتماعی، ثقافتی اور سیاسی حالات پر تنقید کرنے والوں میں سے تھے اور انھوں نے کئی مرتبہ اپنی تقریروں میں کھلے عام  ان خدشات کی طرف اشارہ کیا۔ شہید دستغیب کی تقاریر اس حد تک سخت اور زور دار تھیں  جس نے ساواک کو اپنی طرف متوجہ کرالیا اور اس ادارے کے ایجنٹ اُن کی مجالس میں مستقل شرکت کرتے تھے۔ یہ بات ساواک کی کچھ بقیہ رپورٹوں میں مل سکتی ہے۔ سن ۱۹۶۱ء میں ساواک کی ایک رپورٹ میں شہید دستغیب کی اس طرح توصیف کی گئی: " جناب سید عبد الحسین دستغیب ایک ایسا خطیب ہے  جو اکثر اوقات منبر سے مذہبی مسائل کے علاوہ  حکومتی عہدیداروں اور معاشرے کی صورتحال پر  سخت اعتراض کرتا ہے۔" (۷) البتہ خود آیت اللہ کو بھی ساواک کے ایجنٹوں کی موجودگی کا  پتہ ہوتا تھا : "میں جب شاہ اور حکومت کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا تو فوراً مجھے متوجہ کرواتے، میں کہتا جناب عالی کوئی مسئلہ ہے، وہ کہتے جی ہاں فلاں شخص جو میری مجلس میں آیا تھا  وہ انٹیلی جنس اور  کسی دوسرے زہریلے ادارے کا جاسوس تھا، یہ جاسوس لوگ معاشرے کے پست  ترین لوگ ہوتے ہیں..." (۸)

شہید دستغیب مختلف پہلوؤں پر تنقیدیں کرتےتھے۔ خواتین کے حجاب اور عفت، غربت، نا امنی وغیرہ سے لیکر اسلام کی مذہبی کتب کی اشاعت پر پابندی  کے پہلو پر۔ سن ۱۹۶۲ء کے اواخر میں فارس کی معاشی صورتحال پر آیت اللہ کے اعتراضات اس حد تک بڑھ گئے تھے کہ انھوں نے عید نوروز کے قریب اعلان کیا کہ  اگر ایک ہفتہ کے اندر فارس کی معاشی صورتحال بہتر نہ ہوئی تو سوگ کا اعلان کیا جائے گا اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ عید کی خوشیاں نہ منائیں۔ وہ اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور ۲۱ مارچ ۱۹۶۳ء کو  منبر سے اعلان کیا کہ وہ اُس وقت آیت اللہ حکیم کو دو مرتبہ ٹیلی گراف بھیج کر جہاد کی اجازت طلب کرچکے تھے لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ (۹) اس مدت میں قم کے مدرسہ فیضیہ میں ہونے والا حادثہ بھی اُن کی تقریر میں شامل ہوگیا اور انھوں نے اس واقعہ کے ردّ عمل میں تمام مساجد میں تین دن کی تعطیل  کا اعلان کیا۔ (۱۰)

آیت اللہ کی منبری فعالیت کے درپے، ۳۰ مارچ ۱۹۶۳ کو تہران سے اس مضمون پر مشتمل ایک ٹیلی گراف شیراز پہنچا " موصولہ اطلاعات کے مطابق دستغیب نے اشتعال انگیز بیان دیئے ہیں، گورنر سے تبادلہ نظر کے بعد اُنہیں گرفتار کرکے فوراً کسی مناسب علاقے میں جلاوطن کردیا جائے..." (۱۱) حتی آیت اللہ کی گرفتار کا حکم بھی صادر ہوگیا۔ اس حکم کے متن میں اشارہ ہوا کہ  اُن کی گرفتار ی کا عمل بغیر کسی عجلت کے رات میں  انجام پائے۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ بازار والوں کے خوف  (ان لوگوں میں آیت اللہ  کے نفوذ اور ساکھ  کی وجہ سے ) کے مدنظر انہیں گرفتاری کے فوراً بعد ہوائی جہاز کے ذریعہ تہران بھیج دیا جائے۔ (۱۲) شہید دستغیب پر جو الزام لگایا گیا وہ یہ تھا، زرعی اصلاحات کے اعلان پر  حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کی توہین  اور خاص طور سے قم کے واقعہ کے بعد لوگوں کو پہلوی حکومت کے خلاف قیام کرنے کی دعوت دینا۔ (۱۳) البتہ ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی وجہ سے شہید دستغیب کو اس وقت گرفتار نہیں کیا گیا اور یہ معاملہ ایک دو مہینے کیلئے ٹل گیا۔

اس کے بعد آیت اللہ کا دھیمے لہجہ میں بات کرنا تو دور کی بات، اُن کی تقاریر اور زیادہ سخت ہوگئیں۔ انھوں نے ۲۷ مئی  ۱۹۶۳ء کو تقریر میں اُس دور کے ہر مسلمان کے سکوت کو حرام قرار دیا اور اُس زمانے کو ایسا زمانہ قرار دیا کہ جس میں جان و مال سے گزر جانا چاہیے۔  آیت اللہ کے عقیدے کے مطابق علمی مدارس پر حملے، طلبہ اور سادات کی قتل و غارت گری، اُن کے ہاتھ پاؤں توڑنا وغیرہ جیسے اقدامات،  یہ سب حکمرانوں کے کفر کی دلیل ہے: "لوگ خون دل پی رہے ہیں۔ اے لوگو! علماء نے اپنی جان کی بازی لگادی ہے۔ آپ یقین کریں اگر ابھی منبر پر بیٹھے بیٹھے میرے سینے پر گولی لگ جائے تو میں سعادت مند ہوں۔آج کے دور کےعلماء کی مثال امام حسین (ع) کی طرح ہے۔ اُنہیں کسی بات کا خوف نہیں۔ جدوجہد کر رہے ہیں اور یہ جدوجہد مقصد کے حصول تک جاری رہے گی کہ جس کے حصول میں کوئی شک نہیں۔ جاری رکھیں گے۔ انہیں گولی اور توپ سے کوئی خوف نہیں..." (۱۴)

گرفتاری اور جلا وطنی

۷ جون ۱۹۶۳ء  والے دن شیراز سے تہران بھیجی جانے والی ساواک  کی ایک رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ دستغیب کی گرفتاری کی بات چلی۔ یہ گرفتاری ۵ جون ۱۹۶۳ء والے واقعہ کے بعد اور امام خمینی (رہ) کی گرفتاری کی خبر پھیل جانے کے بعد ہوئی۔ شہید دستغیب پر "ملک کے اندرونی امن کے خلاف اقدام" کا  الزام لگا۔ فارس کی ساواک کو آیت اللہ دستغیب کے گھر کی تلاشی کے دوران  شہید دستغیب کو لکھا گیا امام خمینی (رہ) کا ایک خط ملا جو ظاہراً کسی دوسرے خط کا جواب تھا جسے شہید دستغیب نے امام کیلئے لکھا تھا۔ امام خمینی (رہ) نے اس خط میں اشارہ کیا تھا کہ وہ آیت اللہ دستغیب کے بیانات سے مستفیض اور محظوظ ہوئے ہیں۔ (۱۵)

رہ جانے والی اسناد کے مطابق شہید دستغیب  کو پہلے عشرت آباد چھاؤنی کے جیل  اور پھر وہاں سے  ۲۲ جون ۱۹۶۳ء کو  قزل قلعہ نامی جھیل بھیج دیا گیا۔ (۱۶) انھوں نے قید کی مدت تمام ہونے کے بعد بھی اپنی جدوجہد کو جاری رکھا  اور انھوں نے اپنی بہت سی تقریروں میں امام خمینی (رہ) کی آزادی کیلئے بھی  دعا مانگی۔ (۱۷) اُن کی گفتگو کے دوران حتی پر معنی تاریخی اشارے اور  کنایات بھی نظر آتے ہیں جو ساواک کے ایجنٹوں سے پوشیدہ نہیں رہے اور انھوں نے اپنی رپورٹ میں  اس طرف اشارہ کیا ہے۔ (۱۸)

امام خمینی (رہ) کی قید سے آزادی کے بعد، بقیہ اسناد میں سے  ایک مجلس کی رپورٹ  ملی جو آیت اللہ دستغیب کی دعوت پر اسی مناسبت سے شیراز کی مسجد عتیق میں اپریل ۱۹۶۴ء میں منعقد ہوئی؛  اس مجلس میں ایسا واقعہ پیش آیا کہ جس کے نتائج  شہید دستغیب کے سامنے آئے۔ اس مجلس کے اختتام پر  ایک تیرہ سالہ لڑکے نے محمد  رضا پہلوی کے خلاف بہت ہی سخت اور  اشتعال انگیز پمفلٹ تقسیم کیا۔ ساواک نے اس معاملہ سے آگاہ ہونے کے بعد اس لڑکے سے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ اُسے یہ پمفلٹ آیت اللہ دستغیب کے نو سالہ فرزند نے دیئے تھے۔ آیت اللہ کے فرزند نے بھی اعتراف کرلیا کہ   اُس کے والد نے اُسے مسجدمیں بانٹنے کیلئے دیئے تھے۔ اس طرح ساواک نے شہید دستغیب کو پمفلٹ نشر کرنے کا اصلی محرک قرار دیکر   ان کی فائل اعلیٰ ریاستی حکام تک پہنچائی  تاکہ اُن کے بارے میں  فیصلہ کیا جائے۔ اس دفعہ بھی انھیں رات کو اور پہلے کی طرح گرفتار کرکے ہوائی جہاز کے ذریعے تہران بھیجنے  میں مصلحت سمجھی گئی ۔ اس سلسلے میں ۱۴ اپریل ۱۹۶۴ء والے دن فارس کے گورنر ہاؤس میں اُن کی گرفتاری کیلئے ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میٹنگ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ منتشر ہونے والے پملفٹ کی تعداد بہت کم ہے اور  جو بات منتشر ہوئی ہے حتی اس کا ایک کاغذ  بھی ہاتھ نہیں لگا اور آیت اللہ نے بھی واقعہ کا انکار کیا ہے؛  لوگوں کو اس بات کی خبر نہ ہونے کیلئے فیصلہ کیا گیا کہ گرفتار کرنے کے بجائے الٹی میٹم کے طور پر  اُن سے تعہد لیا جائے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ حقیقت میں کچھ اور ہی ہوا۔ ساواک کے ہیڈ کوارٹر نے شیراز  کے دفتر ایک ٹیلی گراف  بھیجا کہ آیت اللہ دستغیب کو فوراً گرفتار کرکے ہیڈ کوارٹر بھیجا جائے۔ "ضابطوں کے خلاف کام  کرنے اور اشتعال انگیز بیانات دینے "  کی وجہ سے  آیت اللہ کو  ۲۲ اپریل  ۱۹۶۴ء والے دن گرفتار کرلیا اور اگلے دن ہوائی جہاز کے ذریعے تہران بھیج دیا، البتہ وہ اُسی سال  ۲۸ جون کو آزاد بھی ہوگئے۔ (۱۹) شہید دستغیب نے جیل سے آزاد ہونے کے بعد اپنی روش کو جاری رکھا، اُن کی گرفتاری نے اُن پر کوئی اثر نہیں ڈالا اور انھوں نے اپنی شلعہ بیاں تقریروں کو جاری رکھا۔ 

حوالہ جات:

۱۔ نور آبادی، علی، شاہد عتیق (شہید آیت اللہ  دستغیب کی زندگی کا جائزہ) انقلاب اسلامی کی دستاویزات کا مرکز، تہران: ۲۰۱۱، ص ۱۵ سے ۱۹۔

۲۔ محراب سے معراج تک (آیت اللہ شہید سید عبد الحسین دستغیب کی برسی) شیراز یونیورسٹی میں ثقافتی امور کی اشاعت کی جدوجہد ،  شیراز، ۱۹۸۲ء، ص ۳۵۔

۳۔ نور آبادی، علی، ص ۲۳ سے ۲۴۔

۴۔ امام کے ساتھی ساواکی اسناد کی نظر میں؛ شہید آیت اللہ سید عبد الحسین دستغیب (نفس مطمئنہ) وزارت اطلاعات میں تاریخی اسناد کی تحقیق کا مرکز، تہران،  ۱۹۹۹، ص ۱۳ سے ۱۵۔

۵۔ ایضاً، ص ۷۔

۶۔ محراب سے معراج تک، ص ۶۔

۷۔  امام کے ساتھی ساواکی اسناد کی نظر میں...، ص ۱۲۔

۸۔ ایضاً، ص ۱۶۔

۹۔ ایضاً، ص ۲۳ اور ۲۴۔

۱۰۔ ایضاً، ص ۳۲۔

۱۱۔ ایضاً، ص ۳۱۔

۱۲۔ ایضاً، ص ۵۰۔

۱۳۔ ایضاً، ص ۶۶۔

۱۴۔ ایضاً، ص ۹۶ سے ۹۸۔

۱۵۔ ایضاً، ص ۱۲۷ سے ۱۳۱۔

۱۶۔ ایضاً، ص ۱۳۷۔

۱۷۔  ایضاً، ص ۱۵۴۔

۱۸۔ ایضاً، ص ۲۱۱۔

۱۹۔ ایضاً، ص ۲۳۵ سے ۲۴۸۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4665


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔