دفاع مقدس کے سپاہی اوریونیورسٹی میں علمی انجمن کے رکن، بہزاد آسایی کی یادوں کے ہمراہ – آخری حصہ

مفید اسکول کے ساتھی

انٹرویو: مہدی خانبان پور
ترتیب: الہام صالح
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-1-16


ہم نے بہزادآسایی کے انٹرویو کے پہلے حصے میں، اُن کے پہلی دفعہ جنگی محاذ پر جانے کے بارے میں پڑھا یہاں تک کہ وہ زخمی ہونے کی وجہ سے  جون ۱۹۸۲ء میں ہونے والے امتحانات میں شرکت کرکے دوبارہ محاذ پر چلے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا: "ہویزہ میرے اندر ایک بڑی تبدیلی لایا۔ ہویزہ ایک ماہر ٹریننگ سینٹر تھا"، کیونکہ وہ وہاں روزانہ چار پانچ گھنٹے تک مائنز ناکارہ بناتے۔ جناب آسایی نے اپنے شہید ساتھیوں کو یاد کیا اور اُن کا تذکرہ کیا اور وہ ان دنوں تک پہنچے جب ملک کے حالیہ وزیر تعلیم  نے تہران کے ایک مدرسہ میں داخلے کیلئے ان کا انٹرویو لیا : "انھوں نے پوچھا: اس وقت  کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا: میں محاذ پر تھا۔ انھوں نے فوراً قبول کرلیا؛ یعنی میں اُسی ۲۵ ستمبر والے دن مفید اسکول میں داخل ہوگیا۔" اب دفاع مقدس کے اس سپاہی اور تہران یونیورسٹی میں  علمی انجمن کے رکن کی مزید یادیں آپ کے پیش نظر ہیں۔

 

آپ مفید اسکول  کے طالبعلموں کی تصویر میں ایسے افراد کے ساتھ ہیں جو سب اس وقت  ملک کے منتخب افراد ہیں۔

یہ تو اس پر منحصر ہے کہ ہم منتخب کی کیا تعریف کریں، لیکن پھر بھی۔

وہ لوگ جو آج  مشہور و معروف  ہیں ...

منتخب افراد تو شہید ہوگئے ...

میں چاہ رہا تھا کہ ہم اُن شہداء کے بارے میں بات کریں  اور آپ وہ تصویر بھی ہمیں دیدیں۔

جی ، میرے پاس سیکنڈری اسکول کی تصویر ہے۔

ان میں سے کچھ ساتھی شہید ہوگئے ہیں؟ اور باقی جو زندہ ہیں ...

وہ یونیورسٹی کے استاد ہیں، یا کارخانے کے مالک ہیں، یا بالآخر کوئی کام کرتے ہیں۔  میرے خیال سے اُن ۳۶ لوگ میں سے سات آٹھ لوگ شہید ہوگئے ہیں۔

یہ تعداد، آپ کے کلاس کے ساتھیوں کی ہے؟

جی، اُن میں سے بیس، پچیس فیصد لوگ شہید ہوگئے کہ جن میں سے ہمارے ساتھ کچھ لوگ تہران کی شریف نامی سائنس اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے تھے۔

پوری کلاس کو یونیورسٹی میں قبول کرلیا گیا؟

اُس وقت یونیورسٹی میں قبول ہونا بہت مشکل تھا اور آزاد یونیورسٹی جیسی چیزیں بھی نہیں تھیں۔ سب قبول ہوگئے۔  صرف ایک دو لوگ اچھے شعبے میں قبول نہیں ہوئے، جیسے شہید بلورچی جو منصرف ہوگیا اور بعد میں اچھے شعبے میں قبول ہوگیا۔ شہید بلورچی، شریف یونیورسٹی کی الیکٹرونکس شعبے کا طالبعلم بن گیا۔

آپ تہران یونیورسٹی کے الیکٹرک شعبہ میں قبول ہوئے ؟

جی، میں الیکٹریکل پاور میں قبول ہوا۔ خلاصہ یہ کہ  ۱۹۸۳ء میں ان دوستوں کے ساتھ بحث یہ تھی کہ کیاکریں؟ داخلے کیلئے امتحان دیں؟ یا محاذ پر جائیں؟ کچھ دوست رہ گئے،  ہم لوگ ہم عمر تھے، وہ لوگ جنگ پہ رہ گئے، لیکن ہم نے امتحان دیا۔ وہ لوگ فوجی اور سربراہ بن گئے اور اب ریٹائر ڈ ہوگئے ہیں۔ انھوں نے جنگ کو پڑھائی پر ترجیح دی۔

آپ کے والد نے کبھی آپ کو  محاذ پہ جانے سے نہیں روکا؟

جب میں پہلی دفعہ محاذ پر گیا تو میں نے اپنی والدہ سے اجازت لیا تھا۔ بالآخر وہ ماں باپ تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ میں جاؤں، لیکن میں پھر بھی جاتا تھا اور پھر اُن کیلئے عام سی بات ہوگئی۔ پہلی دفعہ مشکل ہوئی تھی۔

اُن سے اجازت لینے میں؟

جی، والدہ سے اجازت لینے میں۔ امتحان کو دو دن نہیں گزرے تھے کہ ہم سب محاذ پر چلے گئے۔ اُس کی تصویر بھی ہے کہ ہم والفجر ۲ آپریشن والے علاقے، حاج عمران اور پیرانشھر گئے۔ ہم ہمیشہ ساتھ ہی جاتے تھے۔ اُس زمانے میں ہمارے اسکول میں عام طور سے تین چار بجے دوپہر تک پڑھائی ہوتی  تھی اور ہم رات آٹھ، نو بجے تک ایک ساتھ مباحثہ کرتے۔ ہر ہفتہ منگل والے دن ہم کسی ایک دوست کے گھر جمع ہوتے تھے۔ جناب دانش، جناب رفیعی، جناب ڈاکٹر ظفرقندی یا جناب مظفری اخلاق، قرآن اور تفسیر کا درس دیتے اور ہم سب نماز پڑھتے۔ ہم مٹھائی، پھل، رات کا کھانا یا سوپ کھاتے، پھر گھر چلے جاتے۔ یہ پروگرام ہر ہفتہ کسی ایک دوست کے گھر پر ہوتا ۔ہماری تقریباً ۲۴ گھنٹے کی دوستی تھی، ہم نے بھائیوں کی طرح صیغہ اخوت پڑھا ہوا تھا اور ہم سب اُسی سال نویں کلاس میں ایک دوسرے کے بھائی بن گئے۔

اُس وقت جو لڑکے مفید اسکول میں آتے تھے،  کس طبقے کے لوگ تھے؟

شہر کے جنوب سے تھے، شمال سے تھے، ایسا نہیں تھا کہ کسی خاص علاقے سے ہوں۔

میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ معاشرے کے عمومی لحاظ سے کیسے تھے؟ اُن کی مالی صورتحال کیسی تھی؟

اُس وقت  مفید اسکول پیسے تو لیتا نہیں تھا۔ انھوں نے کہا ہوا تھا کہ جو دینا چاہے دیدے، لیکن بہت سوں نے نہیں دیئے۔  مثلاً میرے والد نے صرف ہزار تومان دیئے۔ داخلے کے وقت پیسے نہیں لیتے تھے، اس اسکول میں پڑھنے کی شرط صرف مسلمان ہونا تھی،  حتی اچھے نمبروں کی بات بھی نہیں تھی۔ بیس پچیس فیصد لڑکے شہر کے جنوبی علاقے سے تھے۔ میں ابھی بھی اُن سے رابطے میں ہوں اور ہمارا رابطہ محکم اور پائیدار ہے۔ آگے بڑھتے ہیں۔ سن ۱۹۸۳ء میں انٹری امتحان دیا۔ میں جولائی کے مہینے میں ارومیہ اور وہاں سے پیرانشھر، حاج عمران اور سید الشہداء (ع) بریگیڈ میں چلا گیا۔ چونکہ ہم ایک ساتھ رہنا چاہتے تھے اس لئے دو بٹالین میں چلے گئے،  ۲۵۱۹ کی بلندی پر والفجر ۲ آپریشن والے علاقے میں دو بٹالینز ایک ساتھ دفاعی پوزیشن پر۔ ہم حاج عمران میں بیس دن تک رہے۔ اگر آپ چاہیں تو میں وہاں کی داستان بھی  سناؤں۔

سنائیے...

ہماری خندق میں، شہید صالِحی، ہمارے ساتھی اور شہید بلورچی تھے۔ برابر والی بٹالین میں (جو دفاع میں سب سے آگے تھے) شہید کریمیان، ڈاکٹر کرمی جو خواجہ نصیر یونیورسٹی کے استاد ہیں، جناب مرتضی میناپرور جو کارخانے کے مالک ہیں، جناب عباس جہانگیری جو سالوں سے کسی پروجیکٹ پر آفریقا میں کام کر رہے ہیں، تھے۔ شہید صالِحی کا تہران یونیورسٹی کے مکینیکل شعبہ میں چوتھا سال تھا کہ وہ شہید ہوگیا۔ شہید بلورچی بھی شریف یونیورسٹی میں الیکٹرونکس کے چوتھے سال میں تھا۔ ہم تقریباً بیس دن سے ایک مہینے تک رہے اور جب دفاع ختم ہوگیا تو ہم پیرانشھر سے سرپل ذھاب اور ابوذر چھاؤنی چلے گئے۔ میرے خیال سے ہم وہاں ایک مہینے تک رہے اور میں نے اپنے ڈسٹرائر دوستوں کو دوبارہ ڈھونڈ لیا۔ (ہنستے ہوئے) میں وہیں پر ابوذر چھاؤنی سے الگ ہوکر دوبارہ سید الشہداء (ع) بریگیڈ کے ڈسٹرائر یونٹ میں چلا گیا۔ جناب عبادی نے مجھ سے وہاں جانے کا کہا ہوا تھا اور میں بریگیڈ کی کاروائیوں کا ڈسٹرائر ہوگیا۔ خدا مغفرت کرے، شہید حاج عبد اللہ نوریان بھی وہیں تھے۔ وہ ہمارے کمانڈر تھے۔ شہید کُرد، بریگیڈ کی کاروائیوں کے انچارج اور شہید رستگار بھی بریگیڈ کے کمانڈر تھے۔

یہ بریگیڈ سید الشہداء (ع) وہی بریگیڈ ہے جو بعد میں دسویں سید الشہداء (ع) لشکر میں تبدیل ہوگیا؟

جی،  میں  سرپل ذھاب گیا۔میں شناخت کیلئے تقریباً ہر رات قورہ تور نہر اور آہنگران پہاڑ کے کنارے جاتا تھا۔ میں دن کے وقت علاقے پر نظر ڈالنے جاتا اور راتوں کو بھی میں تقریباً سترہ  سے بیس ہزار قدم چلتا۔ میں ٹیلوں، نہروں، کھیتوں اور مائنز کے دو تین میدانوں سے گزر کر عراقیوں تک پہنچتا۔ میں ہر رات مختلف جگہوں پر جاکر ایک ایک جگہ کو چیک کرتا کہ فوجیں کہاں سے گزر سکتی ہی۔ ہم وہاں پر موجود فوج کے ساتھ رات کا کھانا کھاتے اور پھر چل پڑتے اور صبح کے نزدیک واپس آجاتے۔ اس درمیان ہمارے ساتھ مختلف واقعات پیش آتے۔

مثلاً کس طرح کے واقعات؟

مثلاً ایک رات جب ہم واپس چیک پوسٹ  پر پلٹے، تو انہیں بتایا نہیں گیا تھا کہ ہم آگے گئے ہوئے ہیں۔ جب ہم لوگ آگے ہوتے ہیں تو وہ لوگ فائرنگ نہیں کرتے؛ وہ دھیان رکھتے تھے۔ لیکن ایک رات جب ہم  پانچ لوگ آرام آرام سے،تھکے ہوئے واپس آرہے تھے، ہمارے لوگوں نے جی تھری سے فائرنگ شروع کردی۔ بہرحال ہم نے سٹرک کے کنارے چھلانگ لگائی اور آہستہ آہستہ بڑھے۔ ہم نے کہا: کیوں مار رہے تھے؟ ہم تو اپنے ہیں۔ (ہنستے ہوئے) اُس نے کہا: مجھے کسی نے بتایا  ہی نہیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ اُس کے فون کی تار کٹی ہوئی تھی اور کسی نے آکر اُسے بتایا نہیں کہ کچھ لوگ آگے گئے ہوئے ہیں۔ بہت بری طرح فائرنگ کی۔ وہ راستہ بھی پرسکون تھا۔ کچھ وقت عراقی گولے برساتے تھے اور کچھ مدت ایرانی ۔ صبح کے وقت ہمیں اچھا دکھائی دیتا تھااور ہم دس گیارہ بجے تک گولے برساتے۔ شام میں جب اُنہیں اچھا دکھائی دیتا تھا، وہ چار پانچ بجے تک گولے برساتے۔ یہ مدت کسی لکھی ہوئی قرار داد کے تحت نہیں تھی۔ دس سے گیارہ بجے تک کوئی عراقی نظر نہیں آتا تھا، اور چار پانچ بجے ہم میں سے کوئی نہیں ہوتا تھا۔ باقی مدت ہم آزاد تھے، والی بال کھیلتے تھے، چونکہ اگر ہم ہر وقت مورچوں میں رہتے تو تھک جاتے۔ تمام عراقی ہماری نظر میں ہوتے، لیکن اُن کی طرف فائرنگ نہیں کی جاتی۔ کھلے عام آ جارہے ہوتے، اس کے برعکس بھی تھا۔

بیس ہزار قدم چلنا اور پھر مائنز کے تین چار میدانوں، گھانس، کھیت اور نہروں سے گزرنا اور مائنز کے میدان کو ہاتھ نہ لگانا، بہت مشکل تھا۔ ہمیں ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی۔ نہ ہی مائنز ناکارہ بناتے اور نہ ہی فیوز اٹھاتے تھے۔ تاروں کے جال سے گزرتے اور ہمیں ان تاروں کو کاٹے بغیر گزرنا ہوتا تھا۔ پہلے دن میں نے کہا خدایا کیا ہمیں ان خار دار تاروں پر سے گزرنا ہوگا؟ جب ہم گئے  تو پتہ چلا آسان ہے اور ہم گزر گئے۔ شیار کوہ میں ایک گاؤں تھا جو دکھائی نہیں دیتا تھا، لیکن ہم وہاں جاتے۔ وہاں میٹھے لیمو کے درخت تھے، ہم ہر رات ایک لیمو توڑ کرکھاتے تھے۔ آہستہ آہستہ سردیاں آگئیں اور موسم ٹھنڈا ہوگیا۔ ہمیں نہر عبور کرنے کیلئے اپنے جوتوں کو اُتارنا پڑتا، پھر کھیت میں پہنچ کر اُسے بھی پار کرنا پڑتا۔ ان گھانس اور کھیتوں میں مائنز تھیں، اس کے فوراًٍ بعد مائنز کے میدان شروع ہوجاتے۔ نہر کے اُس طرف عراقی مورچوں میں کمین لگائے بیٹھے ہوتے تھے۔ شیار کوہ میں کمین کے  دو مورچوں کے درمیان ۱۰۰ یا ۱۲۰ میٹر کا فاصلہ تھا۔ہم چار لوگ تھے اور ان مورچوں کے درمیان ایک راستہ تھا جہاں سے کمین لگانے والے آتے جاتے تھے، ہم اُس راستے سے نہیں جاسکتے تھے، ہمیں مائنز کے میدان سے گزرنا پڑتا۔ مورچوں کو عبور کرنے کے بعد دوبارہ مائنز کا ایک میدان تھا اور پھر ہم عراق کی فرنٹ لائن پر پہنچتے۔ ایک رات جب ہم ان دو مورچوں سے گزر رہے تھے، عراقی کھڑے ہوئے تھے، سگریٹ پی رہے تھے، باتیں کر رہے تھے۔ ہمیں گزرے ہوئے دس منٹ ہوئے تھے کہ ایک شور اٹھا۔ ہمارے پاس لال شعاعوں والا کیمرہ تھا، لیکن ہمیں اُسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم سمجھے کہ ہمیں دیکھ لیا گیا ہے۔ پھر ہمارے ٹیم کے انچارج شہید کیان پور نے کیمرے سے دیکھا۔ آپ نے اُس کا نام سنا ہے؟

نہیں...

میرے خیال سے وہ شہید کرد کے بعد دسویں لشکر کی انٹیلی جنس کا انچارج بن گیا تھا اور پھر کربلائے ۴ آپریشن میں اسیر ہوکر وہیں شہید ہوگیا۔ ہم اس فکر میں تھے کہ اب کیا کریں؟ لڑیں یا نہیں۔  ہم نے لڑنے کا فیصلہ کرلیا اور ہماری بندوقیں لڑائی کیلئے تیار تھیں۔ شہید کیان پور نے کیمرے سے دیکھا اور کہا: چار اس طرف ہیں، چھ اُس طرف ہیں، آٹھ ... ہمارے چاروں طرف عراقی تھے اور کمین گاہ بھی نیچے تھی؛ یعنی ہم مائنز کے میدان کے بیچوں بیج اور ہمارے چاروں طرف عراقی۔  لڑنے کی صورت میں ہم حتماً شہید ہوجاتے۔ پانچ دس منٹ بعد معاملہ ٹھنڈا ہوگیا۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ اپنی پوسٹ بدل رہے ہیں۔ ۱۲ بجے اُن کی پوسٹ بدلنے کا وقت تھا۔

شور و غل پوسٹ بدلنے کی وجہ سے تھا؟

جب لوگ حرکت کرتے ہیں، پوسٹ بدلتے ہیں، کمین گاہ کی طرف آرہے ہوتے ہیں، تو ہم سمجھتے کہ ہماری طرف آ رہے ہیں، لیکن وہ پہلے والوں کی جگہ آرہے ہوتے تھے۔ ہم نے ایک رات یہ گزاری۔ میں ایک اور رات کا واقعہ بھی سناؤں؟

جی، ضرور!

ایک اور رات میں ہم نہر سے گزر کر ایک کینال کو چیک کرنے گئے۔ مائنز کے میدان سے بھی گزرے۔ ہم چار لوگ تھے، ہم نے دو لوگوں کو مائنز کے میدان کے پیچھے چھوڑا۔ میرے خیال سے میں اور شہید کیان پور گئے تھے۔ میں انہیں مائنز کی جگہ بتانے کیلئے آگے چل رہا تھا۔ وہاں مجھے ایک نئی مائن نظر آئی جو میں نے اب تک نہیں دیکھی تھی۔ ہم نے صرف اُسے دیکھا اور آگے بڑھ گئے اور کینال کے کنارے پہنچے۔ میں چاروں ہاتھ پیروں کے ذریعے کینال میں جھانک رہا تھا کہ اچانک گولی کی طرح ایک پتھر کی آواز آئی۔ میں نے آواز سنتے ہی اپنا سر اٹھایا، میں نے دیکھا کینال کے اُس طرف پانچ چھ میٹر کے فاصلے پر کمین گاہ ہے۔ میں نے دوبارہ آواز سنی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مجھے حیوان سمجھ بیٹھےہیں۔ میں چاروں ہاتھ پیروں کے ساتھ واپس پلٹا اور کہا: بھائی کیان پور آؤ چلیں۔ ہم مائن کے میدان سے واپس آگئے۔

عراقی اصلاً سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ آپ وہاں تک پہنچ سکیں گے۔

نہیں معلوم،  لیکن ہم چاروں ہاتھ پیر کے ذریعے گئے  تھے کہ وہ ہماری طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ چونکہ وہاں حیوانات بھی زیادہ تھے اور یہ حیوانات مائنز کے اوپر بھی چلتےتھے۔ یہاں پر آپریشن ہونا تھا اور ہمیں مائنز کو ناکارہ بنانے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک اور رات میں  بھی ہم اس نہر سے گزرے اور ہم نے کھیتوں کو عبور کیا۔ میں گھاس پر مرغی کی طرح چل رہا تھا۔ مائنز کا بہت ہی برا میدان تھا۔ پہلی نظر میں خاردار تار نہیں تھی اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا کہ ہم مائنز کے میدان میں داخل ہوگئے ہیں۔ پھر دیکھا تو اُس کی خاردار تار زمین پر گری ہوئی ہے۔ میں اسی طرح مرغی کی طرح چل رہا تھا، میں نے اپنا پاؤں گھاس کے ایک ٹکڑے پر رکھا جو پھٹ پڑااور مجھے دو تین میٹر اُس طرف اچھال دیا۔ میرے جوتوں کے پرخچے اُڑ گئے۔ میں مائنز کے میدان میں تھا اور عراقی بھی آگے تھے۔ میں لہر کی شدت سے حواس باختہ ہوگیا تھا اور سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ عراقی کہاں ہیں۔ عراقیوں نے لائٹ مارنا شروع کردی لیکن فائرنگ نہیں کی۔ اُن کے خیال میں پھر کوئی حیوان مائن پر چڑھ گیا تھا۔ خلاصہ یہ کہ دوستوں نے مجھے اوپر اٹھایا۔ میرا پیر سوج چکا تھا۔ میں نے اُسے ہاتھ لگا کر دیکھا تو کٹا نہیں تھا، لیکن بہت سوج گیا تھا۔ میں دوستوں کی مدد سے واپس پلٹا  لیکن مجھے زخمی ہونے کے بارے میں کسی کو نہیں بتانا تھا کیونکہ اگر بتا دیتا تو آپریشن کا راز فاش ہو جاتا۔ جب میں واپس پہنچا تو مجھے موٹر سائیکل کے ذریعے ابوذر چھاؤنی لے گئے اور وہاں سے پھر ہسپتال۔ میں زیر نظر تھا، یعنی مجھے کسی سے رابطہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ میرا اُلٹا پیر تقریباً ڈیڑھ مہینے تک سوجھا رہا، لیکن مجھے تہران واپس جانے کی اجازت نہیں دی۔ دو تین ہفتوں تک ہسپتال میں رہا جب میری حالت بہتر ہوگئی تو میں بریگیڈ کے ہیڈ کوارٹر میں واپس آگیا۔اس دفعہ حاج عبد اللہ نے مجھے آپریشن و الفجر ۴ کے علاقے میں بھیج دیا۔ ہم مریوان، پنجوین اور کانی مانگا گئے۔ میرا پیر سوجھا ہوا تھا اور میں پیدل  نہیں چل سکتا تھا، لیکن جس طرح بھی ہوا میں گیا۔ میں پھر آپریشن کے انٹیلی جنس یونٹ میں تھا کہ جہاں رستمی اور جناب کیان پور بھی تھے۔

کتنا وقت لگا؟

میرے خیال سے چھ مہینے۔ میرے خیال سے فروری ۱۹۸۴ء تھا، جس مہینے انٹری امتحان کا رزلٹ آیااور ہمیں انٹرویو کیلئے بلایا۔ میں امام صادق (ع) یونیورسٹی اور تہران یونیورسٹی دونوں میں قبول ہوگیا تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس کا انتخاب کروں۔ میرے خیال سے امام صادق (ع) یونیورسٹی میں قبول ہونےکیلئے جناب باقری کنی نے میرا نٹرویو لیا تھا، لیکن میں نے تہران یونیورسٹی میں الیکٹریکل شعبے کا انتخاب کرلیا۔

آپ فروری کے مہینے سے ہی کلاسوں میں چلے گئے؟

جی، میں فروری سن ۱۹۸۴ء  سے کلاس میں چلا گیا ۔

آپ نے اس  اسٹوڈنٹ ہونے اور محاذ پہ جانے کو کیسے ہم آہنگ کیا؟

ہم اسٹوڈنٹس بہت ڈرتے اور کانپتے ہوئے محاذ پر جاتے تھے۔کچھ نہیں بتایا جاتا تھا، ہمارے پاس وسائل بھی  نہیں تھے۔ ایسا ہوتا تھا کہ جب بھی آپریشن ہوتا تو دوست احباب بتا دیتے  اور ہم آپریشن کیلئے چلے جاتے۔ میں ماہر ڈسٹراٹر بن چکا تھا اور میں اب ٹریننگ دیا کرتا تھا۔ میں بعض اوقات خاتم ہیڈکوارٹر، کربلا ہیڈ کوارٹر یا  بریگیڈ ۱۱۰ اور بریگیڈ سید الشہداء (ع) چلا جاتا تھا۔ بعض اوقات دوستوں کے ساتھ پیدل بٹالین میں چلا جاتا، مثلاً ایک دو دفعہ، میں لشکر حضرت رسول (ص) گیا۔ چونکہ میرا کام تھوڑا خصوصی ہوگیا تھا، میں ڈسٹرائر آپریشن کیلئے جاتا تھا۔ کبھی میں چھ مہینے کیلئے پندرہ لوگوں کے ساتھ اینٹی زرہ یونٹ میں جاتا۔ ہم ایک دوسرے سے جدا ہونے کیلئے تیار نہیں تھے، ہم پندرہ سولہ افراد ایک ساتھ ہی دورے پر جاتے۔

یونیورسٹی کے ساتھی تھے یا مفید اسکول کے ساتھی؟

نہیں، مفید کے دوست احباب جو یونیورسٹی میں دوسرے تیسرے سال میں بھی تھے۔

وہ نشستوں والا پروگرام جو پہلے تھا، اُسی طرح چلتا رہا؟

جی، ابھی بھی چل رہا ہے۔

ابھی بھی چل رہا ہے؟!

جی، مثلاً اب مہینے میں ایک بار، دو مہینے میں ایک دفعہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ہر ہفتے ہونے والی نشستیں اُسی طرح جاری رہیں، جب لوگوں کی شادیاں ہوگئیں، تو نشستیں آہستہ آہستہ مہینے میں ایک دفعہ ہونے لگیں، لیکن ہمیشہ جاری رہیں۔

ان جلسات میں آپ کے اساتید بھی شرکت کرتے ہیں؟

جی، ہم اب بھی رابطے میں ہیں۔ تمام نشستوں میں نہیں، لیکن بعض شادیوں اور تقریبات میں اُن سے ملاقات ہوتی ہے۔

آپ کی ٹیم کا آپس میں رابطہ ہے؟

جی، ایک دو مہینے پہلے ہمارے ایک دوست کی بیٹی کی شادی تھی، سب آئے تھے۔ ہمارا رابطہ بہت پائیدار ہے جو ٹوٹ نہیں سکتا۔ آپ ایک ۳۶ لوگوں کی ٹیم فرض کریں کہ جس میں سے آٹھ نو افراد شہید ہوچکے ہوں۔

آپ پندرہ لوگ ایک ساتھ ۲۷ ویں لشکر میں گئے۔

جی، لیکن وہ سب صرف ہمارے دورکے نہیں تھے۔ ہم میں سے سات آٹھ لوگ تھے؛ ہم تیسرے دورے میں تھے۔ چوتھے پانچویں دورے اور دوسرے دوروں میں سے بھی تھے۔ اب ہم پندرہ لوگ تھے جو سب کے سب اسٹوڈنٹ تھے۔ افسران کہتےتھے: ایسا نہیں ہوسکتا کہ پندرہ لوگ ایک ساتھ شہید ہوجائیں۔ ہمیں تم لوگوں کو تقسیم کرنا پڑے گا۔ مثلاً ہر تین لوگ ایک بٹالین میں جائیں۔ لیکن ہم کہتے تھے: ہم سب ایک ساتھ ایک بٹالین، ایک گروپ  اور ایک دستے میں ہوں گے۔ (ہنستے ہوئے) انھوں نےکہا: نہیں ہوسکتا۔ ہم نے بھی ہڑتال کردی اور دو کوھہ چھاؤنی کے امام بارگاہ میں چلے گئے۔ ہم راتوں کو بھی وہیں پر سوجاتے تھے۔

کسی ایک بھی بٹالین میں نہیں گئے؟

نہیں۔ بعد میں مذاکرات کئے کہ چلو کم از کم تم لوگوں کو ایک بٹالین میں رکھتے ہیں لیکن تین گروپس میں۔ ہم نے کہا: ہم ایسا بھی نہیں کرسکتے! آخر میں  اس پر راضی ہوئے کہ ایک گروپ کے تین دستوں میں رہیں (ہنستے ہوئے)، لیکن ایک دستے میں نہیں۔ ہم نے قبول کرلیا۔ سن ۱۹۸۵ء میں آپریشن بدر بھی انجام پایا۔ میرے خیال سے میں اُس وقت ۱۱۰ ویں خاتم بریگیڈ میں چلا گیا تھا۔ کربلا ہیڈ کوارٹر میں بھی گیا ۔ وہ دشمن کے تین چار آئل ٹرمینلز میں سے، العمیہ کو اُڑا نا چاہتے تھے۔

کیا جنگ میں ایسا ہوا کہ آپ نے اپنے تعلیمی شعبے کے بارے میں کوئی کام انجام دیا ہو؟ مثلاً آپ کے ذہن میں کوئی آئیدیا آیا ہو؟

زیادہ نہیں، ہم ڈسٹرائر یونٹ میں صرف اس فکر میں تھے کہ مثلاً تار والے دھماکہ خیز فیوز کو چابی اور بیٹری سے اُڑا دیں؛ اس طرح کے بہت ہی سادہ کام۔ میں یونیورسٹی کے دوسرے یا تیسرے سال میں تھا، ابھی اتنا ماہر نہیں ہوا تھا کہ کوئی کام کرسکتا۔ جو دوست  ٹیلی کمیونیکشن یونٹ میں گئے  تھے انھوں نے وائرلیس کی تعمیر اور اس طرح کے کام انجام دیئے۔ خلاصہ یہ کہ میں یونیورسٹی جاتا، سبق پڑھتا اور پھر محاذ پہ واپس آجاتا۔ ایک سمسٹر میں مجھے دو سمسٹرز کے امتحان دینے پڑے۔ چونکہ میں پچھلے سمسٹر میں یونیورسٹی میں نہیں تھا، فقط میرے ساتھ یہ مہربانی کی گئی کہ انھوں نے کہا کہ تم دو سمسٹرز کے  امتحان ایک ساتھ دیدو۔ یعنی  بی اے  کے ۱/۴ نمبرز۔

وہ بھی انجینئرنگ کے شعبہ میں !

میں و الفجر ۸ آپریشن (فاو) میں مورچے کے اندر، کتاب مدار پڑھتا تھا۔ (ہنستے ہوئے)

آپ اپنی کتابوں کو اپنے ساتھ محاذ پر لے جاتے تھے؟

جی ہاں،  گرمیوں میں سردی میں، مورچے میں، حتی پورے علاقے کے کیمیائی ہونے  کے باوجود میں کتاب پڑھتا اور اچھے طریقہ سے پڑھتا تھا، چونکہ دشمن سے لڑنے کے علاوہ کوئی اور کام تو تھا نہیں، مجھے نمبر بھی اچھے ملتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک سبق کیلئے میں نے دوستوں سے نوٹس لیئے۔ میرے پورے نمبر آئے اور جس سے میں نے نوٹس لئے تھے اُس کے نمبر کچھ کم تھے۔

اُس سمسٹر کا نتیجہ کیا رہا؟

کچھ نہیں، میں نے ساری کتابیں پاس کرلیں اور  میں نے ایک سمسٹر میں بی اے کے  ۱/۴ کتابیں پاس کرلیں۔

آپ کی پرسنٹج کیا رہی؟

مجھ یاد نہیں،  لیکن ٹوٹل ۸۱ پرسنٹ بنی۔

بی اے کی پرسنٹج؟

جی،  ایم اے کی  پرسنٹج  بھی ۸۵ بنی۔ محاذ، جنگ اور تہران یونیورسٹی کی سختی کی وجہ سے یہ نمبرز آئے۔ آج کی نسبت اُس وقت  زیادہ سختی تھی۔ یعنی بی اے کا زمانہ بھی سخت تھا۔  میں یونیورسٹی میں شہید حسین جلایی پور کا کلاس فیلو تھا۔ شہید صالِحی بھی تہران یونیورسٹی میں تھا۔

یہ لوگ یونیورسٹی کے دورے میں آپ کے ساتھ تھے؟

جی، جناب فرہود کاظمی جو ہیں انھوں نے الیکٹرک پڑھی۔ ڈاکٹر مرادی تہران یونیورسٹی کے استاد تھے۔ شہید منصور جو مفید اسکول میں ساتھ تھا وہ بھی تمام نشستوں میں شرکت کرتا۔ یہ پانچ چھ لوگ یونیورسٹی میں ایک ساتھ تھے۔ پہلے دوسرے سال تو عمومی کلاسیں تھیں، ہماری یونیورسٹی کی بھی کیا کہانیاں ہیں۔ ہم محاذ پر ساتھ تھے، یونیورسٹی میں ساتھ تھے، نشستوں میں ساتھ تھے۔ حتی جنگ کے کئی سال بعد بھی ہماری ہفتہ وار نشستیں برقرار رہیں۔ سن ۱۹۸۵ء میں شہید حسین جلایی پور مکہ گیا۔ وہ بہت شرارتی تھا لیکن جب واپس آیا تو بالکل بدل چکا تھا۔ اُس نے اپنے والدین سے ہاتھ پاؤں  جوڑ کر محاذ پر جانے کی اجازت لی کہ صرف پیچھے سے فوجیوں کی مدد کرے گا اور فرنٹ لائن پر نہیں جائیگا۔ لیکن راویوں کی ٹیم کے ساتھ قسمت سے فرنٹ لائن پر چلا گیا۔ کربلائے ۴ آپریشن (جنوری ۱۹۸۷ء) میں شہید ہوگیا۔ وہ مجھ سے بہت قریب تھا، بہت ہی مزاحیہ اور شیطان تھا۔ سب دوست اُداس تھے۔ اُس کے چہلم کے وقت ہماری ہفتہ وار نشست میرے گھر پر ہوئی۔ میں نے اِدھر اُدھر بھاگ کر ، لوگوں سے التماس کرکے ایک کیمرہ لیا۔ ہمارے گھر میں آش (سوپ) بنا ہوا تھا اور ہم نے حسین جلایی پور کے چہلم میں سب دوستوں کی مووی بنائی۔ یہ مووی، تاریخ ساز ہوگئی۔ سب دوست آش کھا رہے تھے، مذاق کر رہے تھے، اس کے بعد  سب نے حسین جلایی پور کے تشییع جنازہ کی مووی دیکھی۔  ہم تقریباً ۲۶ لوگ جمع ہوئے تھے۔ اُس وقت تک رحمانی، رستم خانی اور ہمارے ایک دو اور ساتھی جو ہمارے درمیان تھے شہید ہوچکے تھے؛ اُس کی مووی ہے۔ (غمگین لہجے میں) مووی میں پتہ چل رہا ہے کہ شہید ہوجائیں گے۔ مجھے بھی یہ بات پتہ تھی کہ شہید ہوجائیں گے اس لئے میں اِدھر اُدھر بھاگ کا کیمرہ لے آیا تھا۔ آپ کو وہ فلم دیکھنی چاہیئے، میں بیان نہیں کرسکتا۔ (غمگین لہجے میں) میرے خیال سے شہید کاظمی، شہید کریمیان، شہید بلورچی اور شہید صالِحی مووی میں ہیں، پانچواں بھی شہید فیض ہے جو نہیں تھا۔ مووی میں ہے کہ شہید بلورچی کہتا ہے کہ بدر آپریشن میں کیا ہوگا اور اُس نے کہا: خدایا مجھے شہادت عطا کر! ان سب باتوں کی مووی بن رہی ہے۔ یہ لوگ تقریباً ایک مہینے بعد شہید ہوجاتے ہیں، پانچ چھ لوگ ایک رات میں۔ (غمگین لہجے میں) بہت دلچسپ مووی ہے۔ عجیب و غریب چیز ہے کہ یہ مووی ابھی تک باقی ہے۔  



 
صارفین کی تعداد: 3867


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔