دفاع مقدس کے سپاہی اوریونیورسٹی میں علمی انجمن کے رکن، بہزاد آسایی کی یادوں کے ہمراہ –

ہویزہ میرے لئے ایک تعلیمی مرکز اور بدلنے کا مقام تھا

پہلا حصہ

انٹرویو: مہدی خانبان پور

ترتیب: الہام صالح
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-1-14


بہزاد آسایی سن  ۱۹۶۵ء میں  تہران میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے خوارزمی، ہشترودی اور مفید جیسے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی اور وہ سن ۱۹۸۳ء  میں ابتدائی تعلیم سے فارغ ہوئے۔ انھوں نے تہران یونیورسٹی سے الیکٹریکل میں بیچلر اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔  وہ سن  ۱۹۸۷ء سے لیکر سن ۱۹۹۰ ء تک شہید ہمت  میزائل انڈسٹری میں رہے۔ سن ۱۹۹۰ء میں یزد یونیورسٹی کی  علمی انجمن کے رکن بنے اور سن  ۱۹۹۲ء میں  ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے آسٹریلیا کے شہر سڈنی چلے گئے۔  انھوں نے سن ۱۹۹۶ء میں ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرلی۔  سن ۱۹۹۳ ء میں  الیکٹریکل کار بنانے کا کام شروع کیا۔ انھوں نے یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ ایران خودرو (ایرانی گاڑیاں بنانے والی کمپنی) میں  بھی کام کیا۔ انھوں نے یہاں پر پہلی ایرانی الیکڑیکل کار بنائی جو سن  ۱۹۹۷ء میں بننا شروع ہوئی اور  سن ۱۹۹۸ء میں پوری تیار ہوگئی۔ جناب آسایی، ایرانی الیکٹریکل گاڑیاں ڈیزائن کرنے کے انچارج تھے۔  وہ آجکل تہران یونیورسٹی کے الیکٹریکل انجینئرنگ شعبے میں علمی انجمن کے رکن ہیں۔ آپ ۱۷ سال کی عمر میں جنگی محاذ پر گئے۔ ایران کی  زبانی تاریخ کی سائٹ نے ان کے ساتھ گفتگو کرکے اُن سالوں کی یادوں  کو تازہ کیا ہے۔

 

آپ نے جو الیکٹریکل کار بنائی تھی، غیر ملکی مصنوعات کو دیکھتے ہوئے بنائی تھی یا پوری کی پوری آپ نے خود بنائی تھی؟

اُسے مکمل طور پر ہماری ٹیم نے بنایا۔ چونکہ وہ میرا پہلا کام تھا اس لئے بہت مشکل تھا۔میں سن  ۱۹۹۷ء سے سن ۲۰۰۱ء تک ایرانی گاڑیوں کے تحقیقاتی مرکز میں الیکٹریکل ڈیزائننگ کا انچارج رہا۔  یہاں کام کرنا میرے لئے اچھا تجربہ رہا۔  ہم نے شروع سے آخر تک خود ڈیزائن کرکے اُسے تیار کیا۔ ہمیں اس کی بنیادی شکل حاصل کرنے میں ۶ مہینے لگے لیکن پیداوار کے حصول تک تین سال کا عرصہ لگا۔ سن ۲۰۰۰- ۲۰۰۱ ء میں ایران خودرو نے ایک کمپنی بنائی  جو بعض پارٹس بنانے کی خاص کمپنی تھی۔ میں اس کمپنی میں منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدہ پر رہا۔ ہماری تقریباً تین کمپنیاں تھی جو ایران خودرو کیلئے پارٹس بناتی تھیں  اور اُس کے ۳۰ فیصد حصص ایران خودرو کے پاس تھے۔  سن ۲۰۰۶ء  تک ہمارے پاس تقریباً  ۶۰۰ کارکنان تھے۔  اس کے ساتھ میں پڑھاتا بھی رہا، یعنی میرا اصلی کام پڑھانا تھا۔ ابھی بھی پڑھاتا ہوں۔

 

پس آپ کو پڑھانے کا شوق ہے

جی، لیکن تھک چکا ہوں۔ (ہنستے ہوئے) مسلسل پڑھانے سے اُکتا گیا ہوں۔ پڑھانا اُس وقت اچھا لگتا ہے جب اُس کے ساتھ کوئی چیز   تولید بھی کی جائے۔ یونیورسٹیاں، انڈسٹریز سے دور ہیں، لیکن الحمد للہ  پیداوار کا کام میرے لئے بہت لذت بخش رہا۔ ایران میں اس چیز کا تجربہ زیادہ نہیں ہے کہ آپ کوئی چیز بناکر اُسے قابل توجہ مقدار تک پہنچا دیں۔ میں سن ۲۰۰۶ ء کے بعد گاڑیوں کی صنعت سے نکل گیا  اور اُس کے بعد سے اب تک تہران یونیورسٹی کی الیکٹریکل اور کمپیوٹر فیکلٹی میں ہوں۔میں نے انجینئرنگ فیکلٹی میں مپنا گروپ کے ساتھ بھی چند سال کام کیا، یعنی تہران یونیورسٹی اور مپنا کے درمیان ایک انسٹیٹیوٹ قائم  ہوا  کہ میں تین سال تک اُس کا اسسٹنٹ  رہا۔ یونیورسٹی نے مپنا کیلئے ۳۰ سے ۴۰ تحقیقاتی منصوبوں پر کام کیا،  میں کام کرتا رہا اور پڑھاتا بھی رہا۔  میں سن ۲۰۱۳ء میں ماہتاب کمپنی میں چلا گیا کہ جہاں ہم ہوا اور سورج  کی مدد سے قابل تجدید پاور پلانٹ  بناتے ہیں اور ہم اس موضوع میں تقریباً کامیاب بھی ہیں۔ ہم ہی وہ پہلی کمپنی ہیں جو قومی ترقیاتی فنڈ  سے  قابل تجدید توانائی  کے منصوبیں بنا رہے ہیں۔  اس کے ساتھ ہم نے کچھ تحقیقاتی منصوبوں پر بھی کام کیا ہے جیسے سورج سے چلنے والی  گاڑی یا  هیبرید موٹر سائیکل۔ لہذا میں آج کل قابل تجدید توانائیوں کی ابحاث پر کام کر رہا ہوں۔ آئندہ سال گرمیوں میں انشاء اللہ میں یونیورسٹی سے ریٹائر ہوجاؤں گا اور میں چاہتا ہوں کہ اپنی ساری توانائی نئی توانائی کی بحث پر صرف کردوں۔  ہم کچھ رفاہی کام بھی انجام دے رہے ہیں کہ کچھ دیہاتوں کو قابل تجدید توانائی فراہم کریں تاکہ وہ بھی کچھ درآمد کرسکیں۔

 

جناب ڈاکٹر آسایی،  ابھی ہم جن کے حضور میں شرفیاب ہیں، جب وہ پہلی بار محاذ پر گئے تو کتنے سال کے تھے؟

پہلی دفعہ جب گیا تو میں ساڑھے سولہ سال کا تھا۔

 

اپنے محاذ پر جانے کا قصہ ہمارے لئے دھرائیں

میں ہشترودی اسکول میں پڑھ رہا تھا اور میں بہترین طالبعلم بھی تھا۔

 

آپ اُس وقت کونسی کلاس میں تھے؟

میں آٹھویں کلاس میں تھا۔ میرا ایک دوست تھا جس سے بات چیت کرکے ہم نے محاذ پر جانے فیصلہ کیا۔ میرے خیال سے  ۲۳ مارچ، سن  ۱۹۸۲ء کا دن تھا۔

 

یعنی آپ پہلی دفعہ  ۲۳ مارچ، ۱۹۸۲ء کو  محاذ پر گئے تھے؟

جی، ہم نے تہران میں امام حسین (ع) چھاؤنی میں ۲۵ دن تک ٹریننگ حاصل کی۔  یہ چھاؤنی اب امام حسین (ع) یونیورسٹی بن چکی ہے۔ ہم نے بسیج کے تین مرحلے گزارے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ  ہمیں  ۱۷ اپریل، ۱۹۸۲ء  کو  بیت المقدس آپریشن کیلئے  اہواز  بھیجا گیا۔  میں تخریب چی تھا۔ میں  کربلا ہیڈ کوارٹر کے تخریب یونٹ میں گیا جو اُس وقت  اہواز کی ٹیکسٹائل مل میں تھا۔  ہم تقریباً ۴۰ لوگ تھے جنہیں منتخب کیا گیا تھا۔ بقیہ زیادہ تر افراد ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) لشکر (جو اُس وقت صرف ایک بریگیڈ تھا) اور کچھ لوگ سیدالشہداء (ع) بریگیڈ میں گئے۔ میں ایک ہفتہ تک کربلا ہیڈ کوارٹر میں رہا۔ پھر نثارہ نامی گاؤں چلا گیا۔ نثارہ اہواز – آبادان ہائی وے کے جنوب میں تھا۔ ہم وہاں کچھ دنوں تک گاؤں اور کارون نہر کے کنارے رہے کہ وہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے؛ اگر دل چاہا تو بیان کروں گا، بہت لمبی ہے۔ وہاں سے میں فوج (ذوالفقار بریگیڈ) میں شامل ہوگیا؛ یعنی سپاہ فوج میں  ضم ہوگئی اور میں وہاں بھی تخریب چی کے عنوان سے گیا۔

 

آپ نے صرف ڈسٹرائر کی ٹریننگ حاصل کی تھی؟

نہیں، میں نے سب چیزوں کی ٹریننگ کی  اور آخری ہفتے میں خاص طور سے ڈسٹرائر کی ٹریننگ لی تھی۔ اُس کی بھی داستان ہے۔

 

داستان سنائیں

ہم نے چند دن مائنز کے میدان میں ٹریننگ  کی۔ ایک ہفتے میں ٹیکنکس اور دھماکے کرنا سیکھا۔ عمومی طور پر سب لوگ ہی ڈسٹرائر کی ٹریننگ کرتے ہیں۔ لہذا  میں نے بھی  عمومی طور پر تمام مرحلوں کو طے کیا۔

 

ڈسٹرائر ٹیم میں جانے کا فیصلہ آپ نے خود کیا تھا؟

جی ہاں، بہت دلچسپ تھا کہ رتبہ بندی ہوتی تھی۔ میں اُس وقت بھی بہت ہوشیار تھا،  کہا گیا کہ آپ انتخاب کرسکتے ہیں۔  وائرلیس آپریٹر یا ڈسٹرائر ۔ میرے خیال سے ڈسٹرائر، وائرلیس آپریٹر سے بڑا تھا۔ ٹریننگ حاصل کرلی تو ایک رات کو فوجی پریکٹس کا کہا گیا۔ مائنز لگائی ہوئی تھیں، فتح المبین آپریشن کے بعد مائنز کے میدان بہت زیادہ ہوگئے تھے اور ابھی پریکٹس کروانے والے بھی مائنز کے میدان میں زیادہ نہیں گئے تھے۔ میں نے مائنز ڈھونڈ کر اُنہیں ناکارہ کیا،  لیکن تین مائنز نہ مل سکیں۔ ہمارے مربی آئے چونکہ مائنز کو چھوڑ تو نہیں سکتے تھے۔ ٹارچ لیکرآئے لیکن تمام کوشش کی باوجود اُنہیں ڈھونڈ نہ سکے۔ پھر جیپ لائے تو دو مائنز مل گئیں لیکن پھر بھی ایک رہ گئی۔ (ہنستے ہوئے) واقعاً ابتدائی سطح پر ٹریننگ تھی۔  اُس کے بعد ہم نے ذوالفقار بریگیڈ کے ساتھ مل گئے جو فوج کا کمانڈو بریگیڈ تھا۔ آجکل اُس کا نام  نوھد ہے؟

جی ہاں۔

ہری ٹوپی والے۔  جب ہمیں ملا لیا گیا تو کہا اب یہ ماہر ڈسٹرائر ہیں، یعنی جہاں کہیں بھی مائنز ہوتیں تو سب سے پہلے ہم جاتے۔ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ کتنی گولیاں اٹھانی ہیں؟  میرے پاس  فولڈنگ کلاشن تھی۔ (ڈسٹرائرز کی حالت  اچھی تھی، اُن کے پاس فولڈنگ کلاشنکوف ہوتی تھی۔) میں نے اپنے بیگ کو گولیوں سے بھرا، میں بہت مشکل سے چل پا رہا تھا۔  آپریشن والی رات ہم پیدل کارون نہر کے اُس پار والے گاؤں تک گئے پھر وہاں ہم تقسیم ہوگئے۔  ہمارے پاس زیادہ معلومات بھی نہیں تھیں۔ فوج کے کسی ایک سپاہی نے ہمیں بتایا کہ پہلے مرحلے میں ہم اہواز – خرمشھر ہائی وے کی طرف اور پھر بصرہ کی طرف روانہ ہوں گے۔ آپریشن کو چار مرحلوں میں انجام دینا طے پایا تھا۔ ہم نے نقشہ بھی نہیں دیکھا تھا اور ہمیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کتنے کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔  آپریشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ ہم سب،  لوگوں کو لے جانی والی پی ایم پی پر سوار ہوئے۔ اس پی ایم پی پر اسی طرح ایک دو گھنٹے تک چلتے رہے کہ اچانک عراقیوں نے ہماری طرف فائرنگ کرنا شروع کردی۔ ہم باقی راستہ پیدل طے کرنے کیلئے پی ایم پی سے نیچے اُتر گئے۔ کچھ لوگ زخمی بھی ہوگئے تھے۔  ایمبولنس آئی اور میں نے بھی کچھ زخمیوں کی مدد کی۔ جب واپس آئے تو میں نے جسے اپنی کلاشن دی تھی وہ گم ہوچکا تھا۔ میں نے اُسے بہت ڈھونڈا لیکن وہ نہیں ملا۔  وہاں عراقیوں کی کچھ کمین گاہیں تھیں اور کچھ عراقی لاشیں پڑی تھیں، میں نے ایک آر پی جی ڈھونڈ لی، لیکن مجھے پھر نہیں پتہ تھا کہ آر پی جی کی کتنی گولیوں کو چلانا چاہیے۔ میں نے آر پی جی کی پانچ، چھ  گولیاں، آر پی جی اور بہت سارے کارتوس اور دستی بم  اٹھالئے۔ میں بالکل بھی ہل نہیں پا رہا تھا۔ میرے خیال سے جہاں عراقی تھے میں نے اُس طرف حرکت کرنا شروع کردی۔ صبح کا وقت تھا لیکن ابھی صحیح سے نظر نہیں آرہا تھا۔ لوگوں کو اٹھانے والی فوج کی ایک گاڑی آئی ، میں بھی اُس پر چڑھ گیا۔ ہم صبح سویرے پہنچ گئے۔  مجھے ایک مورچہ نظر آیا، میں اُس کے پیچھے ہی ٹھہر گیا۔ میں نے خندق کھودی اور سوگیا۔ صبح ایک آواز سے میں اٹھ گیا، اپنا سر خندق سے باہر نکالا تو ایک خبرنگار کو دیکھا جو کہہ رہا تھا اہواز – خرمشھر ہائی وے کے جانبازوں نے خرمشھر کو آزاد کرالیا۔ (ہنستے ہوئے) ہائی وے آزاد ہوچکا تھا، ہم نے نہ عراقیوں سے جنگ لڑی تھی ، نہ کچھ اور کیا تھا، لیکن کچھ آگے ہونے والی جھڑپوں میں ہمارا ایک دوست –  خدا مغفرت کرے، شہید ہوگیا ہے-  نے ۱۱ یا ۱۳ قیدی پکڑے تھے۔

 

آپ کو اُس کا نام یاد ہے؟

شہید محمد رضا غفاری نیا جو چیذر میں ہے۔

 

یعنی وہ چیذر میں دفن ہوا؟

جی، اُس کی بھی اپنی داستانیں ہیں جو بعد میں ہویزہ میں مائنز کے میدان میں جل گیا۔

 

وہ ڈسٹرائرز میں سے تھا؟

جی ، ڈسٹرائر تھا۔ خلاصہ یہ کہ ہائی وے آزاد ہوچکا تھا  اور پھر ہمیں ڈھونڈ کر دوبارہ نثارہ لے گئے۔ اُس کے بعد ہم بیت المقدس آپریشن کے دوسرے مرحلے کیلئے گئے۔

 

کسی نے آپ سے اسلحہ کھو جانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی؟

افسر نے مجھ سے پوچھا کہ کیاہوا، لیکن میں نے ابھی پوری داستان نہیں سنائی ہے۔ مورچے کے پیچھے مجھے احساس ہوا کہ آر پی جی تو بہت تنگ کر رہی ہے، میں نے ایک زخمی سپاہی کی جی تھری بندوق اٹھالی۔  جی تھری بہت محکم ہے، فائر کرتی ہے لیکن پھنس جاتی ہے۔ میں نے افسر سے جاکر کہا: جناب ایسا ہوگیا ہے اور اب میرے پاس جی تھری ہے۔ انھوں نے کہا: تمہاری کلاشن کہاں ہے؟ تمہارے پاس تھی۔ بالآخر میں نے جی تھری دیکر ایک دوسری کلاشن لے لی۔ نثارہ گاؤں کی بھی ایک داستان ہے۔

 

اس گاؤں کی داستان بھی سنائیں

اُس وقت اپریل کا مہینہ تھا اور مچھروں، مکھیوں نے ہمیں بہت تنگ کیا ہوا تھا۔ مچھر رات کی شفٹ میں ہوتے اور مکھیاں دن میں۔ بیج میں صرف ایک گھنٹہ خالی تھا۔ مکھیوں کو تو برادشت کیا جاسکتا ہے لیکن مچھر وں نے بہت تنگ کر رکھا تھا۔

 

اُس علاقے کے مچھر مشہور ہیں!

ہمارے جسموں کو عادت نہیں تھی۔ آپ یقین نہیں کریں گے؛ ایک کشتی تھی جس وہیں گاؤں کے کنارے ڈرم سے بنایا گیا تھا۔ مچھروں کے ڈنک سے بچنے کیلئے مثلاً ہم ایک گھنٹے کارون کے پانی میں چلے جاتے۔ پانی کا ٹینک بھی موجود تھا۔ عام طور سے ٹینکوں کے اوپر  ریلنگ یا گارڈ لگا ہوتا ہے جو آدمی کو گرنے سے بچاتا ہے، لیکن پانی کے اس ٹینک کا گارڈ صرف ایک سریہ تھا۔ لوگ مچھروں سے فرار کرنے کیلئے سات آٹھ میٹر کی بلندی تک جاتے۔ وہاں ہوا تیز تھی۔ صرف چار پانچ لوگ سو سکتے تھے۔ وہ گرنے سے بچنے کیلئے خود کو رسی سے باندھ لیتے۔ (ہنستے ہوئے) صبح پانچ بجے سے لیکر ساڑھے چھ، سات بجے تک مچھر نہیں ہوتے تھے، اُس وقت لوگ زیادہ سوتے۔ عام طور پر ہم اوپر چھت پر سوتے یا پانی میں، یا ٹینک کے اوپر۔ (ہنستے ہوئے) آپریشن کے پہلے مرحلے سے پہلے، عراق نے چند  گولے برسائے۔ ہم کہ جنہوں نے گولے اور شیل نہیں دیکھے تھے ہمارے لئے بہت خوفناک تھا۔ہم  ۷ مئی،  ۱۹۸۲ء کوآپریشن کے دوسرے مرحلے امام بارگاہ سے سرحد کی طرف گئے۔ میرے خیال سے ہم سرحد سے ۱۷- ۱۸ کلومیٹر  دور ہوں گے۔ اُسی رات بارش ہوگئی عراق کے تمام ٹینکس اور اُن کی گاڑیاں کیچڑ میں پھنس گئیں۔ میں نے مال غنیمت کے طور پر تین جیپیں پکڑیں۔ اُن میں سے ایک کی چابی تھی اور دو کی نہیں تھی۔ میرے پاس بھی لائسنس تھی اور میں سوار نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے کسی ایک کو ڈھونڈا کہ جیپ کو اسٹارٹ کرے اور وہ اُسے غنیمت کے طور پر پیچھے لے گیا۔

صبح ہوئی تو ہم نے سپاہیوں کو ڈھونڈ لیا۔ عراق نے فوجیوں کے آتے ہی  لڑنا شروع کردیا۔ بہت سارے لوگ شہید اور زخمی ہوئے تھے۔ پھر کہا گیا کہ ہمیں خرمشھر کی آزادی کیلئے واپس جانا چاہیے۔ اُس وقت تک  مائنز سے ٹکراؤ نہیں ہوا تھا۔ میں نے ایک گاڑی کو روک کر اُس سے کہا: بھائی ہمیں پیچھے لے جاؤ، اُس نے کہا: نہیں لے جاسکتا، میں صرف زخمیوں کو لے جاؤں گا، صحیح و سالم آدمی  کو نہیں۔ جیسے ہی اُس نے یہ کہا ایک گولی میرے پیر لگی، لوگوں نے کہا: لو! یہ بھی زخمی ہوگیا، اسے لے جاؤ۔ (ہنستے ہوئے) وہ ایمبولنس کے عنوان سے بہت بری تھی۔ (ہنستے ہوئے)، کبھی اوپر ہوتی کبھی نیچے۔ وہاں ایک ہیلی پیڈ تھا جہاں سے زخمیوں کو واپس لے جاتے۔ زخمیوں کو ہیلی کاپٹر پر چڑھانا چاہتے تھے کہ عراق نے بمباری شروع کردی۔ ہمیں وہیں بیج میں، ہیلی کاپٹر اور مورچے کے درمیان چھوڑ دیا۔ بمباری ہوئی، لیکن کسی بھی ہیلی کاپٹر کو نقصان نہیں پہنچا اور ہم بالآخر  ہیلی کاپٹر پر سوار ہوگئےاور ہمیں اہواز منتقل کردیا گیا۔ میں اہواز یونیورسٹی میں تھا اور میرے خیال سے وہ مجھے ٹرین کے ذریعے بابل کے ہسپتال لے جانا چاہتے تھے۔

 

دراصل آپ نے کوئی مائن  ناکارہ نہیں کیا اور  زخمی ہوکر واپس آگئے؟

جی، زخمی ہو کر واپس پلٹ آیا۔ (ہنستے ہوئے) وہ مجھے بابل کی کلینک لے جانا چاہتے تھے۔ (ہنستے ہوئے) میرے خیال سے میں نے تہران ریلوے اسٹیشن سے فون کیا اور کہا: میں زخمی ہوگیا ہوں اور بابل کی طرف جا رہا ہوں۔ مجھے دقیق معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں جارہا ہوں۔ مجھے یزد کے نواحی علاقے اردکان لے گئے اور وہاں بے حس کرکے میرا آپریشن کردیا۔ چلنا میرے لئے مشکل ہوگیا تھا۔ میں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھایا اور مارچ میں ہونے والے تمام امتحانوں میں شرکت کی۔ میں امتحانوں کے بعد دوبارہ محاذ پر چلا گیا۔

 

یعنی ۲۴ مئی کو جب خرمشھر آزاد ہوا، آپ زخمی تھے اور امتحانوں کے بعد آپ کا پاؤں ٹھیک ہوگیا تھا؟

جی، اپریل کی شروعات تھی کہ میں محاذ پر چلا گیا۔

 

امتحان میں کتنے نمبر آئے؟

میرے خیال سے ۹۸ پرسنٹج تھی۔ صرف ایک استاد ایسا تھا جس نے بیس میں ۱۱- ۱۲ نمبر  دیئے۔صرف  اس وجہ سے کہ میں محاذ پر گیا تھا، اُس کا میرے ساتھ بہت ہی برا رویہ تھا۔ جبکہ تمام پیپرز میں اچھے نمبر تھے لیکن صرف اس میں کم ملے۔

 

آپ پھر دوبارہ محاذ پر واپس چلے گئے؟

جب میں پلٹا تو میں قدرتی طور پر دوبارہ اہواز کی ٹیکسٹائل مل اور اُسی کربلا ہیڈ کوارٹر میں گیا۔ ٹیکسٹائل مل، عبداللہ قلعہ میں تھی  اور ہمارا اسٹاف بھی وہیں تھا۔ جب میں پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ سب لوگ ہویزہ جا چکےہیں۔ ہویزہ ویران اور مسمار ہوچکا تھا۔ ہم سوسنگرد میں ٹھہر گئے۔ وہاں بھی کوئی نہیں تھااور ہم  لوگ، وہاں کے چند گھروں میں ٹھہرے ہوئے تھے۔

 

آپ سوسنگرد میں کیا کر رہے تھے؟

گروپس مختلف دستوں میں بٹ گئے تھے؛ سات سے ۱۰ افراد پر مشتمل دستے۔ یہ دستے مائنز کے میدان میں جاکر اُنہیں ناکارہ بناتے۔ جس مہینے میں زخمی رہا اُس میں میرے دوست مجھ سے سینئر ہوگئے تھے اور لوگوں کو ٹریننگ دے رہے تھے۔ وہ لوگ جو مربی بن گئے تھے میرا خیال رکھتے تھے، جیسے کہ میری ترقی ہوگئی ہو۔

 

آپ زخمی بھی ہوئے تھے؟

میں زخمی بھی ہوا تھا۔  عام طور سے تخریب میں انسان کی زندگی ایک مہینے یا دو مہینے  کی ہوتی ہے، یا تو زخمی ہوجاتا ہے یا شہید، لیکن ہم سب بچے رہے۔ (ہنستے ہوئے) البتہ ہمیں گولی لگی اور بعض افراد کے پیر بھی کٹے،  لیکن ٹرین کے کیبن میں ہم ساتھ جانے والوں میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہوا اور ہم اب بھی دوست ہیں۔

 

کیا آپ کو اُس کیبن کے افراد کے نام یاد ہیں؟

ہم چھ لوگ تھے۔ مجھے چار افراد کے نام یاد ہیں؛ سردار عباس عبادی، سردار اسرافیل کشاورز اور جناب وحید بہاری کہ یہ اب سپاہی اور ریٹائرڈ ہیں۔جناب بہاری ابھی بھی ملک کے مغربی علاقوں میں مائنز ناکارہ  بنانے کے انچارچ ہیں اور  ناظر ہیں،  یعنی کمپنیاں مائنز کو ناکارہ بناتی ہیں اور یہ حکومت کی طرف سے نظارت کرتے ہیں،  لیکن ان کی اپنی ٹیم بھی  ہے جو بعض حصوں کو خود ناکارہ بناتی ہے۔

 

 ہویزہ نے آپ  کی زندگی پر کیا اثر ڈالا؟

ہویزہ میرے اندر ایک بڑی تبدیلی لایا۔ ہویزہ ایک پروفیشنل ٹریننگ سنٹر تھا۔ اُس وقت آج جیسے وسائل بالکل نہیں تھے۔ ہم صبح چار بجے اُٹھ کر نماز پڑھتے، ناشتہ کرتے اور پانچ بجے مائنز کے میدان میں ہوتے تھے۔ گرمی بہت تھی، بالکل خوزستان کی  گرمیوں کی طرح۔ ہم ۱۰ بجے تک مائنز کے میدان مائنز کو ناکارہ  بناتے؛ ہر روز چار پانچ گھٹنے ، پھر ہم سوسنگرد جاکر کھانا کھاتے، آرام کرتے اور مسجد جاتے۔ بہت ہی سخت تجربہ تھا۔ بعض میدانوں کی لمبائی ۴۰ کلومیٹر اور چوڑائی ۱۰ کلومیٹر تھی۔ عراق نے ہویزہ میں ہل جوتا تھا۔  ہمیں کرخہ نور اور دوسری جگہوں پر بھی جانا چاہیے تھا، یعنی شاید ۴۰- ۵۰ کلومیٹر لمبائی اور ۳۰- ۴۰ چوڑائی  میں مائنز کے میدان تھے۔

 

آپ کو پتہ ہے کہ تقریباً کتنے مائنز ناکارہ ہوئے؟

تقریباً دس لاکھ، شاید زیادہ۔  ہمارے پاس  نئے یزد اور اُس سے آگے تک مائنز کے میدان کی معلومات تھی۔ ایسا بھی ہوتا کہ عراق نے مثلاً گندم کے کھیت میں مائنز بچھائی ہوئی تھیں، بارش کی وجہ سے گندم دوبارہ ہری ہوگئی تھی، گندم کا کھیت تھا اور اب ایسا تو نہیں ہوسکتا تھا کہ گندم کے کھیت کے وسط میں مائنز کو ناکارہ کریں۔ عام طور سے ہم ٹیم کے ماہر افراد کے ساتھ عصر اور غروب کے وقت جاکر  گندم کو آگ لگا دیتے اور صبح مائنز کو ناکارہ بناتے۔ اب مائنز کا میدان جسے میں آگ لگ چکی ہے، حساس بھی تھا لیکن وہ مائنز نئی تھیں۔ آجکل مائنز بہت پرانی ہوچکی ہیں اور اب رسک نہیں لیتے۔ ہویزہ میں ہر آدمی شاید روازنہ سو مائنز ناکارہ بناتا۔ رمضان آپریشن میں، جوکہ صحرا میں تھا، میں نے حساب لگایا تو میں نے ایک دن میں ۵۰۰ مائنز ناکارہ بنائے تھے!

 

یہ جو آپ ایک دن کہہ رہے ہیں کتنے گھنٹے ہیں؟ یعنی آپ دن میں کس وقت مائنز کو ناکارہ بنانے جاتے تھے؟

مثلاً صبح سویرے سے لیکر تقریبا ۱۰ – ۱۱ بجے تک۔

 

یعنی ۵ گھنٹے میں ۵۰۰ مائنز؟!

جی، لیکن مائنز کی قسم سے مربوط تھا۔ مثلاً اینٹی ٹینک مائنز کو ناکارہ بنانا بہت آسان تھا؛ یعنی ہمارے لئے کوئی خطرہ نہیں تھا،  مگر یہ کہ کوئی جال بچھایا گیا ہو، یا افراد کو مارنے والی مائنز ... ہم ٹریپ وائر والی کا بہت دھیان رکھتے تھے۔ ہم پہلے مائنز کے ٹریپ وائر کو کاٹتے؛  پن بھی نہیں لگاتے تھے۔ دلچسپ ہے کہ پن نہیں لگاتے تھے اور اُس کے سر کو گھوما کر اوپر نکال لیتے تھے۔

 

پن نہ لگانا یعنی کیا؟

مائن کی ٹوپی میں ایک سوئی ہوتی جس میں تین فلزی گولیاں ہوتی ہیں۔ اگر یہ ٹوپی ٹیڑھی ہوجائے تو سوئی اوپر آتی ہے اور تینوں گولیاں اپنی جگہ چلی جاتی ہیں اور پنوں کے پیچھے والا اسپرنگ  آزاد ہوکر فیوز سے ٹکراتا ہے۔  ایک بارودی فیوز ہوتا ہے اور ایک دھماکہ خیز۔ وہ بارود ی سے ٹکراتی ہے اور جب بارود پھٹتا ہے تو مائن کو اوپر اچھالتا ہے۔ ایک سوئی ہوتی ہے جو دھماکہ خیز فیوز سے ٹکراتی ہے اور مائن مثلاً ۳۰- ۴۰ سینٹی میٹر اوپر آتا ہے۔ اُس کے نیچے ایک وزن بھی ہوتا ہے اور جب وہ اوپر آکر تار کے آخر تک پہنچتا ہے، تار کھنچ جاتی ہے، یعنی مائن ہوا میں پھٹتا ہے۔

ہم ان پانچ گھنٹوں میں مائنز کے میدان سے مربوط، روزانہ ۱۰۰ سے ۱۵۰ ناکارہ بناتے تھے۔ ہمیں ٹریپ وائر والی مائنز میں دقت کرنی پڑتی، چونکہ اگر ہمارا پیر ٹکرا جاتا ...

اچانک ...

افراد کو  مارنے والی مائنز بھی  خطرناک ہوتیں لیکن اینٹی ٹینک مائنز کا خطرہ کم تھا۔ جب ہم، لوگوں کو مائنز کے میدان میں لے جاتے تو ہم ایک دستہ ترتیب دیتے۔ مجھے صحیح سے یاد نہیں ہے کہ ہر لائن میں دو آدمی لگاتے تھے یا کتنے۔ ان لوگوں کو نہ  ایک دوسرے کے نزدیک ہونا چاہیے نہ ہی ایک جگہ جمع ہونا چاہیے۔ ہر ہفتے تقریباً دو، تین شہید یا  زخمی ہوتے تھے۔ اگر ہمارے دس یا گیارہ دستے ہوتے اور ہر آدمی مثلاً ۵۰، ۱۰۰ تک مائنز ناکارہ بناتا تو ہر دستہ ۵۰۰ مائنز ناکارہ بناتا یعنی تمام دس دستے ۵۰۰۰ مائنز ناکارہ بناتے تھے۔ ہم لوگ صرف جمعے کو چھٹی کرتے، اُس دن ہم اہواز جاتے، سیر و تفریح بھی کرتے اور نماز جمعہ میں بھی شرکت کرتے اور آئس کریم بھی کھاتے۔ بہت سی یادیں ہیں۔

 

ان میں سے کوئی ایک واقعہ سنائیں

شہید غفاری نیا کہ میں نے جس کے بارے میں بتایا تھا کہ اُس نے گیارہ قیدی پکڑے تھے، وہ اس مضمون کا ایک جملہ گنگناتا: "ہویزہ ہوگیا ہے تمہارے خون سے گلاب کی طرح... " وہ امام حسین (ع) چھاؤنی سے یہ شعر پڑھ رہا تھا۔ وہ ہمارے دستے کا نوحہ خواں تھا۔ اُس نے ایک رات میں گیارہ قیدی پکڑتے تھے، اُس کے پاس عراقی لباس بہت تھے، ہر وقت عراقی لباس پہنے رہتا اور زپ والے عراقی جوتے، بہرحال اُس کی حالت بہت اچھی تھی۔

 

عراقی لباس پہنے رہتا ؟

جی ہاں،  لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ واقعہ ہے۔ ہمارے پاس روزانہ ٹوٹی ہوئی مائنز ہوتی تھیں۔ کرخہ نور  ایسی نہر تھی جو نئے یزد میں داخل ہوتی۔ جب ہمارا کام ختم ہوجاتا تو ہم ہویزہ سے نہر کی طرف چلے جاتے، چند سالوں سے وہاں کے محلے والے تھے نہیں لہذا یہ نہر بھی مچھلیوں سے بھر چکی تھی۔ (خدا ہمیں معاف کرے) جناب غفار نیا ٹوٹی ہوئی مائنز کو نہر میں ڈال دیتے اور مچھلیاں بہری ہوجاتیں۔ دھماکے کی لہر سے پانی کی سطح پر آجاتیں اور وہ سات آٹھ مچھلیاں باہر پھینک دیتا۔ رات کو خود ہی اُن کے چھلکے اُتار کر سب کو مچھلی دیتا؛ پلاؤ اور تازہ مچھلی۔ (ہنستے ہوئے) جناب غفاری نیا اپنے عراقی لباس کے ساتھ حمام نہیں جاتے تھے اور ہم اُن کا  مذاق اُڑاتے تھے۔ ایک جمعہ ہم اہواز جانا چاہتے تھے ، اُس نے کہا: میں حمام جانا چاہتا ہوں۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے کہا: بہت نورانی ہورہے ہو۔ ہم اہواز گئے اور غروب کے نزدیک واپس پلٹے۔ میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا ارے میرے نئے جوتے جو میں نے تین مہینے بعد لئے تھے، نہیں ہیں۔ میں  نےکہا: عجب محاذ اور چوری؟! تھوڑی دیر بہت میں نے کہا: وہ دو افراد جو ہمارے ساتھ نہیں آئے تھے، کہاں ہیں؟

 

وہاں پر جو ٹیم تھی اُس میں صرف دو لوگ رہ گئے تھے؟

جی،  ہم نےکہا کہیں ایسا تو نہیں مائنز کے میدان میں  آگ لگانے گئے ہوں۔ ہم ہویزہ کی طرف بڑھے تو دیکھا وہاں آگ لگی ہوئی ہے۔ ہم نے اُن کی موٹرسائیکل ڈھونڈ لی لیکن ہم نے جتنی بھی آوازیں لگائیں خود انھیں نہیں ڈھونڈ سکے۔ ہمیں صبح پتہ چلا کہ انھوں نے مائنز کے میدان کو آگ لگائی  لیکن جب وہ دوسری طرف جانا چاہ رہے تھے تو ایک ٹی ایکس ۵۰ مائن پھٹ گئی تھی اور پھر آگ اُن تک پہنچ گئی تھی۔ (روتے ہوئے) وہ شہید ہوچکے تھے۔ اُن کا پورا جسم جل چکا تھا، صرف ایک لباس کی سینے والی جیپ بچ گئی تھی۔ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہوئے آگ میں جل گئے تھے۔ اُن کی جیب میں ایک قرآن تھا جو نہیں جلا تھا۔ ہم اُنہیں سوسنگرد کے چمران ہسپتال لے گئے، پھر میں نے دیکھا کہ اُس نے میرے جوتے پہنے ہوئے ہیں۔ (ہنستے ہوئے) آپ جانتے ہیں اُس نے میرے جوتے کیوں پہنے ہوئے تھے؟ میرا دھیان نہیں تھا۔  ہم ایک دن پہلے ماہی گیری کیلئے گئے تھے، وہ مچھلیوں کو لینے گیا ہوا تھا (ہنستے ہوئے)، اُس کے جوتے کیچڑ میں پھنس گئے ۔ اُس نے جوتے کی زپ کھول لی تھی لیکن کیچڑ سے جوتے نہیں نکال سکا ،  اُس نے جوتے وہیں چھوڑ دیئے تھے ...

 

اُس کے پاس جوتے نہیں تھے اور وہ مجبوراً  آپ کے جوتے لے گیا تھا ...

جی، وہ میرے جوتے پہننے پر مجبور تھا۔ مجھے نہیں پتہ وہی رات تھی یا اُس سے اگلی رات، تہران سے ایک انجمن آئی اور ہم نے ان شہداء کیلئے ایک مجلس برپا کی۔ اس انجمن کے نوحہ خوان نے وہی نوحہ پڑھنا شروع کیا جو وہ ہمیشہ پڑھا کرتا تھا۔ یہ نوحہ، اُس کے اپنے حال پر تھا۔

 

ہویزہ کا رہنے والا تھا؟

کون؟

غفاری نیا؟

نہیں، چیذر، تہران کا رہنے والا تھا۔ وہ امام حسین (ع) چھاؤنی سے یہ نوحہ پڑھ رہا تھا اور وہ خود ہویزہ میں شہید ہوا۔ ہمارے ساتھ بہت ہی دلچسپ لوگ تھے، مثلاً ایک آدمی امریکا سے آیا ہوا تھا، لیکن اس نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ جب وہ شہید ہوگیا تو ہمیں پتہ چلا کہ اس نے  اپنی پڑھائی اور ہر چیز چھوڑ دی۔ اُس سے کہا گیا تھا کہ امریکا میں ایرانی سفارت خانے میں کام کرے، اُس نے کہا: نہیں، میں جنگ پہ جانا چاہتا ہوں۔

 

ایران میں پیدا ہوا تھا، پھر امریکا چلا گیا تھا؟

جی، محلہ گیشا میں اُس کا گھر تھا۔

 

آپ کو اُس کا نام یاد ہے؟

جی، شہید محمد ملکی کہ جس کا گھر گیشا کے ۳۶ ویں کوچہ میں تھا۔  جب ملکی شہید ہوگیا تو اُس کے استاد نے امریکا سے ایک دلچسپ خط بھیجا۔ نثارہ میں ہم لوگ جب صبح ۵ سے ۶:۳۰  تک سو سکتے تھے، وہ لکڑیاں جمع کرکے سب کیلئے چائے بناتا تھا۔ پر خلوص اور گمنام افراد دنیا سے اس طرح چلے جاتےہیں۔

 

بالکل صحیح ...

تقریباً دو تین مہینے بعد جب ہم ہویزہ میں تھے تو ہم رمضان آپریشن کیلئے گئے۔ جب آپ روزانہ ۱۰۰تک  مائنز ناکارہ کرنے لگیں تو ماہر ہوجاتے ہیں، لیکن ہمیں زیادہ فخر نہیں کرنا چاہیے۔ چونکہ اگر آپ نے مائنز کے میدان میں غرور کیا تو پھر گئے، یعنی ایک سبق یہ تھا کہ اگر مائنز کا میدان عادت بن جائے تو پھر وہاں سے نکل جاؤ، چھوڑ دو، بالکل جاری نہ رکھو، یعنی اگر ڈر ختم ہوجائے، تو پھر نہیں رہنا چاہیے، چونکہ ایک ہی غلطی کافی تھی ...

پہلی غلطی، آخری غلطی ہوتی ...

بہرحال، ہم دقت کرتے تھے ، ہم میں سے کوئی  شہید نہیں ہوا،  لیکن بہت سے لوگ شہید ہوئے تھے، زخمی اور پیر کٹنے والے بھی زیادہ تھے، ہویز، کرخہ نور سے طلاییہ تک۔ میں رمضان آپریشن میں پھر تخریب چی تھا۔ میں آپریشن سے پہلی والی رات نہیں تھا لیکن جب آپریشن ہوا اور کچھ بٹالینز فرنٹ لائن پر گئیں، ہم مائنز ناکارہ بنانے کے انچارج تھے۔ وہاں بہت آسان تھا، چونکہ مٹی تھی اور پانی بھی پڑا ہوا تھا اور ہویزہ کی نسبت مائنز زیادہ خطرناک نہیں تھیں۔ لیکن وہاں پر صرف مائنز کا خطرہ نہیں تھا۔ چونکہ ہم عراقی حدود میں تھے اور مائنز کا میدان بھی اس طرف تھا۔  عراق گولے اور شیل برسا رہا تھا اور ہم مائنز کے میدان میں تھے۔ مثلاً ہمارے پاس ۵۰۰ فیوززتھے (ہنستے ہوئے)، یعنی ہر لحظہ پاؤڈربننے کا  خوف تھا۔ فیوز کی بھی صحیح سے حفاظت نہیں تھی ہمارے گلے میں ایک رومال تھا جس میں ہم مائنز کے فیوز کو ڈال رہے تھے، یعنی ہم نے اتنی بے توجہی سے کام کیا (ہنستے ہوئے)، لیکن جو مہارت  ہمیں ہویزہ میں ملی، بہت اچھی تھی۔ میں نہیں سمجھتا کہ اتنی آسانی سے اتنی ساری مائنز کسی کے ہاتھ لگ جائیں!

 

رمضان آپریشن کے بعد کیا ہوا؟

میں ۱۹۸۲ء کی گرمیوں کے آخر تک رمضان آپریشن میں رہا، پھر میں پڑھائی کی طرف چلا گیا۔ میرے خیال سے جب میں تہران پہنچا تو ستمبر کے آخری ایام تھے۔ میں خوارزمی اسکول میں پڑھ رہا تھا اور مفید اسکول جانا چاہ رہا تھا ۔ میں ۲۵ ستمبر کو تہران پہنچا، میرا ایک دوست مفید اسکول میں پڑھ رہا تھا، اُس نےکہا: مفید میں آجاؤ۔ اس اسکول میں انٹرویو ہوتا تھا۔ جون، جولائی میں انٹرویو ہوچکے تھے، میں ستمبر میں پہنچا تھا، لیکن میں انٹرویو کیلئے گیا۔ آپ کے خیال میں کس نے میرا انٹرویو لیا ہوگا؟

مجھے نہیں معلوم۔

مثلاً؟

آج کی بڑی شخصیات میں سے ہیں؟

حالیہ وزیر تعلیم، جناب فخر الدین احمدی دانش آشتیانی۔

میں نے سنا ہوا تھایہ مفید اسکول کے پرنسپل رہے ہیں۔

جی، مگر اُس وقت وہ الجبرہ اور ریاضی پڑھاتے تھے، لیکن انھوں نے میرا انٹرویو لیا کہ تم کون ہو؟ کیا کرتے ہو؟

 

اُس وقت ابھی پرنسپل نہیں بنے تھے؟

جی، علوی اسکول اور مختلف جگہوں سے پانچ چھ اساتذہ آئے ہوئے تھے  اور درحقیقت سرپرست تھے  جو اسکول کو چلا رہے تھے۔ میں ابھی بھی ۳۴، ۳۵ سالوں بعد اُن سے رابطے میں ہوں۔ جب یہ وزراء بن جاتے ہیں تو میں عام طور سے ان سے نہیں ملتا، لیکن جب وزیر نہیں ہوتے تو ہمارا رابطہ برقرار رہتا ہے۔ جناب دانش مجھے  یاد ہیں ...

 

آپ کو اُن کے سوالات یاد ہیں؟

مجھے نہیں، لیکن ٹھیک رہا، میری پڑھائی بھی اچھی تھی اور میں محاذ پہ بھی رہا تھا۔

 

آپ نے اُن کو اپنے محاذ پرجانے کا بتایا تھا؟

انھوں نے پوچھا: اب کیوں آئے ہو؟ میں نے کہا: میں محاذ پر تھا۔ انھوں نے فوراً مجھے قبول کرلیا؛ یعنی میں اُسی ۲۵ ستمبر والے دن مفید اسکول میں داخل ہوگیا۔

 

آپ انٹرویو والے کمرے سے سیدھا کلاس میں گئے؟

میں اُسی وقت اپنے مفید اسکول کے دوستوں جیسے اصغر کاظمی کے ساتھ کلاس میں گیا۔ ریاضی میں ہم لوگ تقریباً ۳۵ – ۳۶ لوگ تھے، ۲۰ – ۳۰ لوگ  پریکٹیکل میں۔ اسکول میں نویں کی دو کلاسیں تھیں اور اُس زمانہ میں نویں کلاس آخری کلاس ہوتی تھی۔ میں نے وہاں پڑھا، لیکن ہمیشہ یہی بحث ہوتی کہ محاذ پر جائیں یا   امتحان دیں وغیرہ بہت لمبی بحثیں ہوتیں کہ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہماری یہ گفتگو جناب کشاورز اور جناب عبادی جیسے دوستوں کے ساتھ رہتی۔

 

جاری ہے ...



 
صارفین کی تعداد: 3723


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔