"محمود فرہنگ" سے باتیں

دفاع مقدس کے تھیٹر کی زبانی تاریخ سے اقتباسات

انٹرویو: مہدی خانبان پور
ترتیب: مریم رجبی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2017-1-5


ہم اس انٹرویو میں محمود فرہنگ کے واقعات بیان کریں گے؛ وہ سن ۱۹۵۳ء میں ہمدان میں پیدا ہوئے اور وہ  مؤلف، ڈائریکٹر اور تھیٹرپر تنقید کرنے والے ہیں۔ جنہوں نے کئی سال دفاع کیلئے کام کیا اور وہ ہمیشہ سے پر اُمید ہیں کہ فنکاروں کی ترقی سے ایک دن اس دفاع کے  عظیم مردوں کی شہرت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جائے گی۔ ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ  کے محمود فرہنگ سے ہونے والے انٹرویو میں ایسے پروگرام، واقعات اور شخصیات کی باتیں ہوئیں جو دفاع مقدس کے تھیڑ کی زبانی تاریخ  شروع کرنے والا شمار ہوتے ہیں۔

 

انٹرویو شروع کرنے سے پہلے ہم چاہیں گے کہ آپ اپنا تعارف کروائیں۔

میں محمود فرہنگ، مؤلف، ڈائریکٹر اور اداکار ہوں۔ میں آج کل ملک کے مذہبی نظریاتی مرکز کا انچارج ہوں۔ امام خمینی ؒ کی زندگی کے زمانے میں آٹھ سالہ مقدس جنگ میں تھیٹر، شعر، موسیقی، ادب اور چند دوسرے شعبوں میں کارکردگی کرنے والے آرٹسٹوں کی قدر دانی کیلئے ایک پروگرام رکھا گیا۔ اس پروگرام میں، مجھے، مرحوم سعید فلاح اور دو دوسرے افراد کو رہبر انقلاب کے ہاتھوں، جو اُس وقت صدر تھے، آٹھ سالہ مقدس دفاع کا مڈل،سونے کا سکہ اور افتخاری ڈپلومے کی سنددی گئی اور یہ واقعہ میرے لئے اُن عظیم افتخاروں میں سے ہے جو میں نے ان سالوں میں حاصل کئے۔

 

آپ کو یاد ہے کہ یہ واقعہ کس سال میں پیش آیا؟

مسلط جنگ ختم ہونے کے تھوڑے عرصے بعد۔ میرے پاس دفاع مقدس تھیٹر، سنگر تھیڑ وغیرہ فیسٹیول کے بہت سے مڈل ہیں، لیکن یہ مڈل اور یادگار میرے لئے بہت قیمتی ہے۔

 

آپ نے دفاع مقدس کی  نمائش کب سے لگانا شروع کی؟

جس دن ایران کے خلاف عراقی جنگ شروع ہوئی، میں مرحوم سلحشور  اور کچھ دوسرے گروپس کے ساتھ آرٹ گیلری میں تھیٹر کی پریکٹس میں مصروف تھا۔ جیسے ہی پہلا حملہ ہوا، پریکٹس بند ہوگئی۔ ہم جو "اقیانوس" نامی نمائش کی پریکٹس کر رہے تھے ہم نے اُسے  چھوڑ دیا اور دفاع مقدس کیلئے کام کرنا شروع کردیا۔  یعنی اب ہماری پوری کوشش یہ تھی کہ ہمارے تمام کاموں میں سرفہرست دفاع مقدس کا کام ہو۔ اُن سالوں میں جس پہلی نمائش کیلئے کام کیا اُس کا نام "رات کا نام " تھا جس میں کردستان میں ہونے والی جنگوں اور جھڑپوں کو دکھایا گیا۔ہم زیادہ تر نمائشیں تہران کی جامع مسجد میں لگاتے۔ مجھے یاد ہے کہ جب شمال میں بائیں بازو، مارکسسٹوں، فدائیوں اور تودہ گروپ والوں کی جھڑپیں زیادہ ہوگئی تھیں، ہم سے  فومن شہر میں شفٹوں میں نمائش لگانے کا کہا گیا۔ہماری نمائش کے بعد ، فومن میں مظاہرے شروع ہوگئے  اور اس شہر میں ان بغاوتی گروپس کی فائلیں بند ہوگئیں۔ اس واقعہ سے فومن شہر کے امام جمعہ بہت خوش ہوئے ، انھوں نے کہا کہ کردستان میں زخمی ہونے والے  بسیجیوں اور سپاہیوں کو یہاں لانے کے باوجود ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان فساد برپا کرنے والوں کے ساتھ کیا کریں۔

میرا بھائی آبادان کا محاصرہ توڑنے والے آپریشن میں شہید ہوگیا تھا اور میں نے آبادان پہلے دیکھا ہوا تھا اس کے باوجود میں اپنے بھائی کے شہید ہونے کا مقام قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ میں آبادان گیا، وہاں رہتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ وہاں ایک نمائش لگنے والی ہے۔ مجھے تعجب ہوا کہ شیلوں کی فائرنگ  میں یہ کام کیسے ہوگا۔ اسی وجہ سے میں قریب سے دیکھنے کیلئے وہاں گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ خرمشہر کی سپاہ کے افراد "خرمشھر کا محاصرہ" نامی نمائش پیش کر رہے ہیں۔ عراقیوں کے ذریعے محاصرہ ہونے والے سب سے آخری گھر کی  سچی  کہانی تھی۔ اس نمائش میں جناب سعید بھروزی، جناب کرمی، جناب کاہدی اور کچھ دوسرے افراد نے کام کیا تھا۔

جس رات، میں ان دوستوں کے پاس پہنچا تو مجھے پتہ چلا کہ انہیں میک اپ کی مشکل ہے اور جیسا کہ میں میک اپ میں بھی ماہر تھا، کچھ وسائل کے ذریعے میں نے ان کی یہ مشکل حل کردی۔ کام کے دوران میں نے دوستوں سے میک اپ کیلئے مصنوعی خون کی درخواست کی، ایک دوست نے کہا کہ مہیا ہوجائے گا۔ وہ ہسپتال سے چند فاسد خون کی تھیلیاں لے آیا۔ یہاں مجھے اپنے بھائی کی یاد آئی کہ جس کے جنگی ساتھی نے بتایا تھا کہ وہ اُسے نخلستان میں کندھے پر اٹھائے تین کلومیٹر تک سوزوکی  کی تلاش میں ہسپتال لے جانے کیلئے پھرتا رہا ۔ لیکن جو میرے بھائی کا بلڈ گروپ تھا وہ خون نہیں ملا۔ خلاصہ یہ کہ ہم ہر رات خون کی ایک تھیلی سےا ستفادہ کرتے اور اُس شہر میں نمائش کے بعد وہاں پر تھیٹر کے لوگوں سے دوستی ہوگئی اور یہ دوستی ابھی بھی قائم ہے۔

ہمارے دوسرے کام کا نام "لیکن ہمارے امام نے کہا" تھا؛ ایسے واقعہ پر تھا جو ریڈیو سے نشر ہوا تھا اور یہ فیروز نامی نوجوان کی کہانی تھی جس کے سارے گھر والے بچھڑ گئے تھے اور صرف وہ عراقیوں کے چنگل سے فرار کرسکا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں آرٹ گیلری سے شہید مفتح یونٹ گیا اور ہم نے وہاں ایک منصوبہ بنایا اور اس نوجوان کی زندگی، اس کے گھروالوں اور اُن کی شہادت  کی کہانی کو  ڈرامے  میں تبدیل کردیااور محاذ پر جانے کا فیصلہ کیا۔ گروپ تیار ہوا۔ ہم سپاہ کے روابط عمومی کے ذریعے پہلے اہواز پھر آبادان گئے۔ہم نے پہلے یہ نمائش شہید مفتح یونٹ میں اور پھر  دس دن تک آبادان میں لگائی اور وہیں پر اسے ریکارڈ بھی کیا۔ یہ نمائش اُس وقت لگی تھی جب بنی صدر کی صدارت کا آخری دور چل رہا تھا۔ جو فوجی بھی اس نمائش کو  دیکھتے ، اُنہیں بہت پسند آتی۔ اس نمائش دکھانے کی مدت میں لوگوں نے پرچی پر دلچسپ باتیں لکھ کر ہمیں بھیجیں،  جو سب موجود ہیں؛ انھوں نے لکھا تھا کہ دعاکریں کہ ہم شہید ہوجائیں،  حالات ایسے تھے کہ اسلحہ نہیں دے رہے تھے اور بنی صدر خیانت کر رہا تھا۔

بعد والی نمائش کا نام "سوئے ہوئے بیدار" تھا؛ اُن نو بسیجی افراد کے بارے میں تھی جو خود سے راستے میں بچھائی گئی مائنز پر لیٹ جاتے تاکہ لوگ اُن پر سے گزر جائیں۔ ہم نے یہ کام پہلے شادگان، پھر اہواز اور پھر آبادان میں دکھایا۔ جناب اسماعیل سلطانیان کو آنے کا بہت شوق تھا، میں خود بھی نمائش پیش کرنے کیلئے  انہیں وہاں لے گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم نے تقریباً ایک سال تک مولوی ہال میں "تاجر و نیزی" نمائش کی پریکٹس کی تھی۔ مرحوم سلحشور نے ڈائریکٹر ڈاکٹر پناہیان سے کہا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے  اور قرارداد منظور ہوگئی ہے، ہمیں محاذ پر جانے کی اجازت دیں، وہ بھی دباؤ کا شکار ہوگئے اور "تاجر و نیزی"والی نمائش ایک سال پریکٹس کے بعد  اور اتنے زیادہ مخاطبین کے ہوتے ہوئے بند ہوگئی۔ پھر ہم نے دس دن میں ایک گروپ بنایا اور جنوب کی طرف جاتے ہوئے بس میں "روزی روزگاری" کے نام سے نمائش تیار کی۔ ہم نے سب سے اسے پہلے علی بن ابی طالب (ع) لشکر کے سامنے  پیش کیا ، پھر دز نہر کے کنارے پیش کی، جہاں جنوبی آپریشن کی انٹیلی جنس اور ۲۲ ویں بریگیڈ کا ہیڈکوارٹر تھا، جس میں تعلیمی ادارے کے فوجی تھے ۔ مجھے پرویز فلاحی پور کا اس ڈرامے میں اداکاری کرنا یاد ہے۔ اُس زمانے میں فوجی سست پڑ گئے تھے اور اس طنزیہ کام کی وجہ سے اُن لوگوں پر اچھا اثر پڑا۔

اس کے بعد میں نے "دوسرا معاہدہ" والی نمائش پر کام کیا؛ یہ ایک گھر کی داستان تھی، جن کا ایک ہی بیٹا تھا اور اب وہ اپنے اس بیٹے کو جنگ پر بھیجنا چاہتے  ہیں۔ یہ نمائش وحدت ہال میں دکھائی گئی۔ اس کے بعد والا کام "پھولوں کی محفل" جسے سید مہدی شجاعی نے لکھا تھا جوچھار سو ہال میں دکھائی گئی ، اس کہانی کا موضوع ہمارے کچھ اسیر تھے؛ جنہوں نے کسی زندان سے فرار کا منصوبہ بنایا تھا۔ میری بعد والی نمائش کا نام "خطاب"تھا جو حقیقت میں صدام کے ایک خطاب کے بارے میں تھی جو بین الاقوامی نمائش میں دکھائی گئی۔ اس کے بعد والا میرا کام "دوسرا عزیز" کی نمائش  تھی  جسے دو کوھے چھاؤنی کی قرآنی نمائش میں دکھایا گیا۔

 

آپ نے جو آخری نمائشوں کے بارے میں بتایا، دراصل یہ جنگ کے بعد بنائی گئیں؟

جی ہاں۔ میری بعد والی نمائش کا نام "سبز پتے پر سرخ دھبہ" تھا، جو فوجیوں کے کیمیکل بمب لگنے کے بارے میں تھی، میرا یہ کام گڑیوں کے فیسٹیول میں دکھایا گیا۔ جو تصویر ابھی میرے پیچھے لگی ہوئی ہے یہ "زمین سے آسمان تک" نامی نمائش  سےمربوط ہے جو سن ۲۰۰۶ء میں دکھائی گئی۔ جب یہ کام سن ۱۹۸۵ء میں انجام پایا تو مجھ سے بھی اس نمائش میں کام کرنے کا کہا۔ میں نے کہا کہ میں صرف ماہر لوگوں کے ساتھ کام کروں گا۔ اس تصویر میں جناب فلاحی پور، جناب سیروس کبودنژاد اور جناب اکبر عبدی ہیں۔ جناب عبدی نے مجھ سے کہا: میں ایک مزاحیہ شخصیت ہوں اور مجھے دفاع مقدس  کے آثار میں کام کرنے میں مزہ نہیں آتا۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا: اس کی وجہ میرے بھائی اصغر کا کردستان جنگ میں زخمی ہونے کے بعد شہید ہوجانا ہے اور اب اس کے بعد مجھے حتی اسلحہ بھی پسند نہیں۔ ہماری اس نمائش کی ٹیم میں کافی لوگ تھے،  ہم نے اس کے وسائل فراہم کئے ہوئے تھے۔ طے تھا کہ ہم بڑے ہال میں تقریباًٍ ۲۶ دھماکے  کریں گے اور حتی ہم نے ایک ٹی ۷۲ ٹینک بھی بنایا ہوا تھا جسے منظر پر آکر فائر کرنا تھا۔ میں نے جناب فلاحی پور سے کہا کہ ہم جمعہ کو تیر چورنگی جائیں گے اور میں نے اُن سے درخواست کی کہ جب تک جناب عبدی سے اس بارے میں کوئی بات نہ کریں۔ بہرحال ہم سپاہ کے کچھ افراد کو اپنے ساتھ دماوند کے نزدیک تیر چورنگی  لے گئے۔ جب ہم چورنگی کے قریب پہنچے، جناب عبدی نے گولی کی آواز سن کر پلٹنا چاہا، میں نے اُنہیں سیروس کبود نژاد کی مثال دی جو کم سن ہونے کے باوجود  ۴۵ ریوالور سے فائر کر رہا  ہے۔ جب وہ گاڑی سے اُترے تو  جی تھری سے چلنے والی گولی کی آواز آئی۔ چونکہ آواز زوردار تھی، وہ ڈر گئے، میں نے فائرنگ کرنے والے انچارج سے اُنہیں ایک کلاشنکوف دینے کا کہا، اور مختصر یہ کہ وہ بندوق پکڑنے میں کامیاب رہے اور یہ اتنا اثر انداز رہا کہ جو بھی اس نمائش کو دیکھتا وہ تصور کرتا کہ یہ آٹھ سال تک جنگ میں شریک  رہے ہیں۔ بعد میں جناب دہ نمکی نے آکر ہماری پریکٹس دیکھی پھر ایک کام اُن کے ذریعے بھی تیار ہوا ۔

اس کے بعد والی میری نمائش شام میں ہونے والی داعشیوں کی جنگ کے بارے میں ہے جو اصل میں حجر بن عدی کی قبر کھولنے کے ماجرے کو بیان کر رہی ہے۔ یہ کام سن ۲۰۱۳ء میں بین الاقوامی نمایشگاہ اور شہر کی کھلی فضا میں دکھایا گیا۔ میرے دوسری طرف جو دوسری تصویر آپ ملاحظہ کر رہے ہیں یہ اُس نمائش سے مربوط ہے جس میں،میں نے شہید چمران کے بارے میں کام کیا، اس کا نام "شہید چمران؛ بوڑھے فوجیوں کی شجاعت زندہ کرنے والا"۔ میں نے یہ نمائش شہید بابانظر ، جو نصر خراسان لشکر کے کمانڈر تھے، کی زندگی پر مشتمل کتاب سے لی۔ سوسنگرد کے بارے میں ہے۔ ہم نے اس نمائش میں سوسنگرد پر قبضے کے موضوع اور شہید چمران اور فوجیوں کی کامیابی اور اُن کے کردار کو پیش کیا۔ یہ کام  زاہدان چھاؤنی میں تقریباً ۳۰۰ لوگوں  کے ساتھ انجام پایا۔ میں نے ٹی وی پر ۴۰ قسطوں پر مشتمل بھی ایک کام کیا ہے کہ جس میں بچوں اور نوجوانوں کو نمائش کی ادبیات کا تعارف کرانا تھا۔ اُن سالوں میں ہم دفاع مقدس کے موضوع پر بچوں اور نوجوانوں کیلئے کام کرنے کی فکر میں تھے۔ تقریباً ۴۵۰ سکرپٹ لکھے گئے کہ جس کا ایک بڑا حصہ چھپا  ہے جو دفاع مقدس کے موضوع پر بچوں کیلئے تھا۔ ملک کے تمام سکرپٹ نگاروں کے آثار تھے۔ اصل میں ہمارے بچوں نے بڑے ہوکر اسکول اور یونیورسٹی جانا ہے اور ہمیں انہیں بچپن سے ہی دفاع مقدس کے موضوع سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اسی وجہ سے میں نے اُس ۴۰ قسطوں والے پروگرام کو جس میں ۳۰ افراد تھے، چینل ۲ سے نشر کیا۔

کچھ مدت بعد میں نے فیصلہ کیا کہ دفاع مقدس کے موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ اسکولوں میں کام کروں۔ طے پایا کہ ہم تہران میں ۴۰۰ اسکولوں کا انتخاب کریں  اور ان اسکولوں میں دفاع مقدس سے متعلق ۴۰۰ پروگرام پیش ہوں۔ ضروری کاموں کو انجام دیا گیا، اصل میں دفاع مقدس کے قیمتی آثار کو نشر اور چاپ کرنے والے ادارے اور اسی طرح طالب علموں نے اس کام میں ہماری مدد کی۔ ہم نے تہران کے دس علاقوں کو منتخب کیا اور  ۴۰۰ اسکولوں کے ۴۰۰ پرنسپل سے ہمآہنگی کی، ہم نے رمضان کے مبارک مہینے میں ۱۵ دنوں تک ان آثاروں کو پیش کیا۔ ان نمائش میں ہمارا طریقہ کار بہت پرکشش تھا مثال کے طور پر ایک اسکول کے   ۶۰۰ بچے  بہت دلچسپی سے،  ہمارے نمائش دیکھتے  جسے ۲ سے تین لوگ پیش کر رہے ہوتے؛  اُن دنوں کی بچوں کے شوق سے بھرپور حیرت انگیز تصاویر موجود ہیں۔

یہ پروگرام چند گروہوں کے ذریعے انجام پائےہوں گے؟

جی ہاں، اس کام کے آخر میں بعض گروپ متاثر ہوگئے تھے؛ دیئے گئے اُن تحائف کی وجہ سے جسے شہید کے رشتہ دار نے خود اُن لوگوں کو دیئے تھے جیسے اپنے شہید چچا کا بیگ یا رومال وغیرہ۔

 

آپ کو یاد ہے کہ یہ کام کس سن میں انجام پایا؟

جی ہاں، تقریباً ۱۲ سال پہلے جو دراصل سن ۲۰۰۴ یا ۲۰۰۵ ہوگا۔

اس کے بعد والا میرا کام صدر اسلام میں ہونے والی جنگ کے بارے میں تھا۔ صدر اسلام کی تاریخ میں، جب مشرکین حالیہ شہر الانبار پر حملہ کرتے ہیں اور مسلمانوں اور شیعوں کو قتل کرتے ہیں، حضرت علی (ع) جہاد کا حکم دیکر مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نخیلہ میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ کام اصل میں نخیلہ میں ہونے والی جنگ پر تجزیہ ہے؛ جنگ کیلئے صحابہ کے فیصلے، اور امام علی (ع) کا اس بارے میں فیصلہ کرنا کہ کون آگے، کون دائیں طرف اور کون بائیں طرف ہو۔ یہ پروگرام تقریباً ۳ سالوں تک ہر سال رمضان میں دکھایا گیاجو تقریباً ۱۰۰ پروگرام بنتے ہیں جسے وحدت ہال میں دکھایا گیا۔

 

اس کام کا نام کیاتھا؟

"اذان صبح"، جسے جناب مہدی توسلی نے لکھا اور میں نے ہدایات دیں۔ اس کام میں جناب ناصر فروغ اور جناب انوشیروان ارجمند شریک تھے، اب یہ دونوں خالق  حقیقی سے جاملے ہیں۔

جب جنگ کا آغاز  ہوا، تو پہلا فیسٹیول جو منعقد ہوا وہ فجر تھیٹر فیسٹیول تھا؛ سن  ۱۹۸۱ء میں؛ سن ۱۹۸۱ سے لیکر نوے کی دھائی تک،  ہمارے پاس دفاع مقدس کے تھیٹر کے عنوان سے ایک سیکشن تھا کہ جس کا انچارج میں تھا۔ حتی ہم نے بعض سالوں میں جنوب لبنان کے کچھ شیعوں کو دعوت دی کہ فجر تھیڑ فیسٹیول میں جنگ کے موضوع پر کام کریں؛ ان گروپس کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔

میں نے ایک یونٹ بنایا جس کا نام "سڑکوں پر دکھائے جانے والے تھیٹر کا یونٹ" تھا، میں تقریباً گیارہ  سال تک اس کاانچارچ رہا۔ اس عرصے میں سڑکوں پر ہونے والے تھیڑ کا اہم حصہ دفاع مقدس سے مربوط تھا۔ اصل میں ہم دفاع مقدس سے متعلق تھیٹر کو تہران کے پارکوں میں پیش کرتے۔ کبھی کبھی یہ کام اتنا زیادہ پھیل جاتا  کہ تھیٹر کے بین الاقوامی فجر فیسٹیول سے ایک مہینے پہلے ہی گروپس اپنے کاموں کو تہران کے تمام پارکوں میں شروع کردیتے۔ بسیج فیسٹیول تو مسلسل چلتا تھا اور میں کچھ مدت تک اس کا رکن بھی رہا۔ یہ فیسٹیول کبھی جنگی علاقوں میں منعقد ہوتا  کہ جس میں کام کرنے کا فخر مجھے بھی ہے۔  ایک زمانے میں دفاع مقدس کے قیمتی آثار کونشر کرنے والی فاؤنڈیشن میں ایک شوریٰ تھی جس کا نام "دفاع مقدس کے تھیٹر میں سیاسی شوریٰ" تھا کہ میں جس میں تین سال رہا۔

جب سڑکوں پر تھیٹر کی نمائش کا یونٹ بنا، تقریباً تمام فیسٹیول میں سڑکوں پر تھیڑ  کےعنوان سے ایک سیکشن ہوتا۔ مثلاً دفاع مقدس کے تھیٹر کا فیسٹیول جو ابھی تک خرمشہر میں منعقد ہوتا ہے، اس میں سڑکوں پر ہونے والے تھیٹر کا سیکشن بہت سرگرم ہے۔ جب سے راہیان نور والا معاملہ شروع ہوا، ہماری سرحدی حدود پر کچھ گروپس آئے ہیں  اور انھوں نے وہاں کچھ آثار پیش کرنا شروع کئے ہیں۔ اصل میں راہیان نور میں خوزستان ہر سال چار یا پانچ آثار پر تقریباً ۶۰ یا ۷۰ لوگوں کے ساتھ دفاع مقدس کے موضوع پر نمائش لگاتا ہے اور جس کا دورانیہ بھی تقریباً دو گھنٹے ہوتا ہے۔

میں نے ایسی تصویروں کو دیکھا جن سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ نمائشیں جنگ کے زمانے میں، جنگی علاقوں میں جیسے دو کوھہ میں حاج ہمت امام بارگاہ میں دکھائی گئیں۔ کن لوگوں نے یہ پروگرام تیار کیا؟ کیا یہ کام لوگوں یا اداروں کے زیر نظر ہو رہا تھا؟ ٹیمیں کس طرح جنگی علاقوں میں جاکر کام کرتی تھیں؟

ہم نے شہید رجائی کی وزارت کے زمانے میں شہید مفتح یونٹ میں تعلیمی ادارے کے مربیوں کیلئے   دو سالہ  کلاسوں کا انعقاد کیا۔ اُن ہی میں سے جواد شیدائیان یا سید جواد ہاشمی جیسے لوگ تھے جن کے اپنے گروپ تھے اور یہ گروپس پرجوش طریقے سےکام کرتے۔ البتہ وحدت ہال میں ہمارے کچھ مذہبی ساتھی بھی تھے کہ جن سے ہم کبھی کبھار مدد لے لیتے، لیکن کلی طور پر یہ کام ذاتی جوش و جذبہ کے تحت ہوتا تھا۔ دس سے پندرہ افراد کے گروپ کو جنگی علاقے میں لے جانا بہت مشکل تھا۔ کیونکہ ہمیں نہیں پتہ تھا کہ صحیح و سالم واپس آئیں گے یا نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ "لیکن ہمارے امام نے کہا" والے کام میں، میرے ساتھ میری بیوی اور ایک شہید کی بہن تھی۔ ہم جیسے ہی ہال کے قریب پہنچے، ہم سے سو میٹر کے فاصلہ پر ایک شیل آکر گرا ، سب اُس کی آواز کی لہر میں آگئے، سب زمین پر لیٹ گئے؛ لیکن جس طرح امام خمینی (رہ) نے فوجیوں کو حکم دیا ہے، تھیٹر کے گروپ نے بھی اُسی ذمہ داری کو محسوس کیا۔ اُس زمانے میں لوگوں کے درمیان پیسے اور تنخواہ کی بات نہیں تھی اور ہر کام کے وسائل  مہیا کرنے کیلئے ، مثلاً ایک آدمی گاڑی لے آتا، ایک ڈرائیور کو لے آتا اور تمام ضرورتیں اسی طرح پوری ہوجاتیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہم ایک گروپ کے ساتھ جنگی علاقے میں پہنچے۔ رات کا وقت تھا اور گولیاں برس رہی تھیں۔ منی بس کے ڈرائیور نے کہا کہ اب میں اس سے آگے نہیں جاسکتا۔ ہم نے کہا کہ گروپ کے پاس بہت سارے کپڑے اور وسائل ہیں اور تمہیں بھی حرکت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس طرح سے تھا کہ لوگوں کے قلبی احساس اور اسی طرح احساس ذمہ داری کے ساتھ ہم نے یہ کام انجام دیئے۔

 

پس فوجی اداروں سے ضروری ہماہنگی ہوتی تھی؟

جی ہاں، پہلے ہم ان اداروں سے ایک حکم لیتے تھے ، پھر اہواز جاکر جنگی علاقوں میں داخل ہونے کیلئے دوسرا حکم لیتے۔ پھر اُس کے بعد جس لشکر میں جانے کا ارادہ کرتے، ہم پہلے اس  کے تفتیشی ادارے میں جاتے تاکہ وہ ہماری پہچان کرلیں، اس کے بعد گروپ آگے جاتا۔

مجھے یاد ہے کہ ہم ایک بریگیڈ کے ہیڈ کوارٹر میں تھیٹر شو لگانے گئے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس شو دکھانے کیلئے اسٹیج نہیں ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ فاصلہ پر پل کا ایک گیلا ٹکڑا ہے جسے دفاع مقدس کے سالوں میں بنایا گیا تھا، ہم نے کہا ہم اسی ٹکڑے پر تھیٹر شو کریں گے۔وہ ٹکڑا بھی کافی عرصے سے بارش میں بھیگتا رہا تھا۔ ہم نے شو کے درمیان دیکھا کہ اُس میں سے  بچھو نکل رہے ہیں  اور ہمارے پیروں پر سے گزر رہے ہیں۔ ہم اپنے وسائل کو اسی طرح مہیاکرکے نمائش پیش کرتے تھے۔

بہتر ہوگا کہ آپ کو ایک واقعہ سناؤں۔ جب دشمن کے طیارے آئے اور تقریباً ۲۰ سے ۲۵ منٹ تک کرمانشاہ پر بمباری کرتے رہے۔ ہمارے ایک دوست کا گھر منہدم ہوگیا تھا جو  اپنی ڈیوٹی پر تہران آیا ہوا تھا ۔ اتفاق سے ہم اُسی زمانے میں فجر فیسٹیول کیلئے جانا چاہتے تھے اور ہمیں آبادان، خرم آباد اور دزفول سے ایک اثر انتخاب کرنا تھا۔ میں نے دو ساتھیوں اور اس شخص سے اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔ اُس نے کہا جناب میں وہاں سے فرار کرچکا ہوں، مجھے دوبارہ وہاں نہ لے جائیں۔ وہ بہت پریشان تھا۔ بہرحال ہماری گاڑی نے حرکت کی اور جب ہم خرم آباد کے قریب پہنچے تو دشمن کے طیارے نے آکر بمباری کی۔ یہ آدمی دوبارہ واپس جانا چاہتا تھا۔ ہم نے وہاں سے گزرنے کے بعد ایک جگہ رات بسر کی اور پھر دزفول پہنچے ۔ اُسی وقت ہمیں بتایا گیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے یہاں میزائل مارا گیا ہے۔ اُس نے کہا جناب ہم مارے جائیں گے۔ رات کو ہم اپنے ایک دوست، جس کا نام عبد الرضا خدرچی تھا، کے گھر گئے۔ طے پایا کہ آبادان کی سپاہ میں جائیں اور بالآخر ہم نے "حافظون لحدود اللہ" نامی کام کا انتخاب کیا جس کی ہدایات جناب حسن برزیدہ نے اور ادکاری جناب باشہ آھنگر نے کی تھی۔ ہمارے پاس نمائش دکھانے کا کوئی وسیلہ بھی نہیں تھا۔ اتفاق سے میں متوجہ ہوا کہ کوئی گاڑی ہارن بجا رہی ہے۔ جب وہ قریب آئی تو دیکھا روح اللہ برادری ہے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ روح اللہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ اُس نے کہا کہ ڈیوٹی پر ہوں۔ اُس کے ساتھ حسین فرخی اور ایک کردی ڈرائیور بھی تھا۔ ہم گاڑی میں بیٹھ گئے تاکہ ایک ساتھ اہواز جائیں۔ اُس کے پاس آبادان کی طرف حرکت کرنے کا حکم تھا اور اُسے کمانڈر کے پاس جاکر خرمشہر میں داخل ہونے کا حکم نامہ لینا تھا۔ جب ہم چیک پوسٹ پر پہنچے تو ہمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ روح اللہ نے بڑی مشکل سے اُس افسر کو راضی کیا  اور ہم نکل گئے ۔ ہم نے لوہے کے پل (سفید پل) کو کراس کیا۔ وہاں کچھ گروہ تھے جو دوپہر کا کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ روح اللہ برادری نے کہا ذرا چل کر فرنٹ لائن  والوں سے ملتے ہیں۔ وہ بصرہ جانے والے ہائی وے پر ۱۲۰ کی رفتار سے حرکت کر رہے تھے۔ راستہ بند ہونے کی وجہ سے ایک دم بریک لگایا  اور اُس کے ساتھ والے کچے راستے پر چلنے پر مجبور ہوگئے۔ کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ راستہ بند ہے۔ ہم گاڑی سے اُترے ہمیں ایک مورچہ نظر آیا۔ حسین فرخی مورچے میں گیا اور ہم بھی اُس کے پیچھے مورچے میں داخل ہوگئے۔ ہمیں پتہ چلا کہ یہ مورچہ تو عراقیوں کا ہے۔  حسین فرخی کو ایک عراقی ٹوپی ملی تو اُس نے کہا یہ نمائش کیلئے اچھی ہے۔ روح اللہ نے بھی ایک پینٹ اُٹھالی۔ کسی نے مڈل، اور درجے کے نشان کا خالی پر اٹھالیا۔ اچانک کوئی آواز آئی۔ دیکھا تو دھویں والا شیل تھا۔  میں نے روح اللہ سے کہا دوسرا شیل حتماً ہمارے سر پر گرے گا۔ اُس نے دھیان نہیں دیا۔ دوسرا گولہ ہم سے نزدیک کچھ فاصلہ پر گرا۔ جہاں پر یہ دوست مخصوصاً حسین فرخی  تہران میں ہونے والے تھیٹر کیلئے لباس، ٹوپی اور دوسرے عراقی سامان جمع کر رہے تھے، پھر اُس نے ڈرائیور کو لیا اور جانے کیلئے تیار ہوگیا۔ ہم بھی تمام سامان کو چھوڑ چھاڑ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ میں صرف ایک ٹوپی اٹھاسکا۔ ہمارے جانے کے بعد اُسی جگہ کو اڑا دیا گیا۔ ہم بھی نخلستان اور سفید پل کی طرف چلے گئے اور فوجیوں کے ساتھ بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر اہواز کی طرف گئے۔

 

اس معاملے میں، تعلیمی ادارے نے کوئی کارکردگی دکھائی؟ میوزیکل گروپ، تھیٹر گروپ یا اس طرح کے گروپس جنگی علاقوں میں جاتے تھے؟

تعلیمی ادارے کا ایک بریگیڈ تھا  جس میں استادوں کو تربیت دینے والے افراد تھے  حتی اُن کی اپنی چھاؤنی بھی تھی۔ وہاں تعلیمی ادارے کے مسئولین تھے  اور اسی وجہ سے تھیٹر یا میوزیکل گروپس جنگی علاقوں  میں جاتے تھے،  لیکن گروپس کے مربیوں کو حتماً شوق دلانے والا اور فداکار ہونا چاہیے تاکہ گروپس کو تمام سختیوں کے باوجود محاذ پر لے جائے۔ البتہ عام طور سے یہ گروپس فرنٹ لائن پہ نہیں جاتے تھے، فرنٹ لائن سے پیچھے، بریگیڈ کے ہیڈکوارٹر یا مثلاً دو کوھہ کی چھاؤنی میں پروگرام پیش کرتے۔ دز نہر کے کنارے، تہران کے فوجیوں اور لشکروں  کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ جب کبھی فوجی اس ہیڈکوارٹر  میں مشق کرنے جاتے اور تھک جاتے تو یہ ثقافتی گروپس ان کیلئے پروگرام منعقد کرتے۔ لیکن ہم جو کہ لاپرواہ تھے، ہم محاذ کے بالکل نزدیک جاکر تھیٹر شو کرتے جسے بہت زیادہ پسند کیا جاتا۔

 

پس جنگ کے زمانے میں رونما ہونے والے عمومی واقعات ذاتی جوش کی بنا پر تھے اور ان کی ہدایت کیلئے کوئی خاص ادارہ نہیں تھا؟

جی ہاں۔بالآخر تعلیمی ادارے میں محاذ پر بھیجنے والا ایک سیکشن تھا کہ اگر کسی کو دلچسپی ہو تو وہ اس طریقے سے اقدام کرے۔  جو طلبہ محاذ پر جانا چاہتے تھے اُن کے اندر دلچسپی ہونی چاہیے تھی۔  چونکہ جو کام وہ کرنا چاہتے تھے وہ ہنرمندانہ اور قیمتی کام تھا۔ البتہ تقریباً ۱۰ گروپس تھے جو لوگوں کو نمائش منعقد کرنے کیلئے ٹیم کی صورت میں محاذ پر لے جاتے، جیسے جناب شیدایی یا وزارت دفاع کے ایک دو گروپس تھے۔ زیادہ تر جو پروگرام  پیش کرتے تھے وہ مزاحیہ ہوتے اور بعض سنجیدہ۔ مثلاً ہم نے آبادان میں دو آثاروں کو پیش کیا کہ دونوں بہت زیادہ وسائل ہونے کی وجہ سے دوسرے کاموں سے ممتاز تھے۔ ہم نے آخری نمائش جو پیش کی وہ "روزی روزگاری" تھی، جسے جناب فیاض موسوی نے طنزیہ انداز میں لکھا تھا۔ بہت مشکل کام تھا، جسے سپاہیوں نے بہت زیادہ پسند کیا۔ بعض اوقات ایسے آثار پیش کئے جاتے کہ جن کا موضوع جنگ ہوتا لیکن وہ طنزیہ انداز میں ہوتے؛ ایسا طنز جو سپاہیوں کیلئے تفریح کا باعث ہو۔ 

 

جنگ کے زمانے میں، انقلاب کے موضوع پر بھی نمائش دکھائی جاتی یا صرف دفاع مقدس کی نمائش پیش کی جاتی تھیں؟

بہرحال ہر نمائش  کے اندر انقلاب اسلامی کا مطمع نظر موجود ہوتا۔

 

میرا مطلب ایسی نمائش کہ جن میں انقلاب کی کامیابی کے واقعات دکھائے گئے ہوں

نہیں، زیادہ تر جنگی موضوعات پیش ہوتے تھے؛ جس میں محاذ سے ہٹ کر اجتماعی موضوع شامل ہوتے  جیسے خاندان یا مقاصد۔ مجھے یاد ہے کہ رہبر معظم نے ۱۱ فروری کو ریلی منعقد کرنے والی تنظیم کو ایک پیغام دیا اور اس میں انھوں نے کہا تھا کہ اس دن آرٹسٹک کام کریں۔ اُسی سال ہم ے شہید نواب صفوی چوراہے  سے لیکر آزادی اسکوائر تک ۲۲ ٹریلر کھڑے کئے  اور ہر ٹریلر کی چھت پر ۵ آرٹسٹک گروپس منتخب ہوئے۔ فوج، بسیج، سپاہ، بحری افواج، فضائی افواج کے میوزیکل گروپس تھے اور تھیٹر کے گروپ، جنہوں نے انقلاب اسلامی کے موضوع پر شو پیش کئے۔

 

یہ واقعہ کس سال میں پیش آیا؟

تقریباً ۱۰ سال پہلے۔ اسلامی انقلاب کے علاوہ نمائشوں میں جو موضوعات پیش ہوئے ، انقلاب سے پہلے والی شخصیتوں کا تجزیہ و تحلیل اور انقلاب کا ہدف تھے جو پہلوی حکومت کی نسبت آگاہ کرنے سے مربوط تھے۔ بہت پرکشش کام تھے اور لوگوں نے اس سے فائدہ بھی اٹھایا۔ مجھے یاد ہے کہ دوپہر کے دو   بج رہے تھے لیکن اس کے باوجود تقریباً ۱۵۰۰ لوگ ابھی تک استاد معین اسکوائر پر کھڑے انقلاب سے متعلق گڑیوں کی نمائش دیکھ رہے تھے ۔

 

کیا ملک میں انقلاب اور دفاع مقدس کے تھیٹر کے نام سے کوئی انجمن  ہے؟

جی ہاں۔

 

کیا کام کرتی ہے؟

اُس کا کام دفاع مقدس سے متعلق تھیٹر شو دکھانا ہے۔ یہ انجمن کبھی  کبھار اجلاس منعقد کرتی ہے۔ جس میں آرٹسٹو کو مدعو کیا جاتا ہے اور انہیں راہیان نور کی ٹیم کے ساتھ محاذ پر لے جایا جاتا ہے تاکہ اُس ماحول میں راویوں کی باتیں  ان پر اثر انداز ہوں اور یہ کوئی آثار خلق کرسکیں ۔  دفاع مقدس کے قیمتی آثار نشر اور حفظ کرنے والی انجمن نے بھی  ۱۳ عاشورائی فیسٹیول منعقد کئے جن میں سے ایک سنندج میں ہوا اور آخری سال مشہد میں بھی منعقد ہوا۔ اور اسی طرح دفاع مقدس کا فیسٹیول ہر سال خرمشہر میں ہوتا ہے۔ اب مزاحمتی فیسٹیول  بھی ہے جو دوسال میں ایک مرتبہ منعقد ہوتا ہے۔ ہم نے آخر میں ۱۲۵ منتخب اثروں کو پڑھا ہے۔ بسیجی آرٹسٹوں نے ہمیں ۹۰۰ سکرپٹ بھیجے تھےکہ جن میں سے ۱۲۵ آثار ڈرامے میں تبدیل ہوگئے  تھے۔

 

اس گفتگو کے آخر میں کوئی بات یا نکتہ اگر بیان کرنا چاہیں

میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کا شکریہ ادا کروں، اس لئے کہ آپ نے مجھے اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کیا۔ شاید یہ باتیں کسی دن کام آئیں اور کچھ لوگوں کو پتہ چلے کہ دفاع مقدس کے عروج پر کچھ چھوٹے آرٹسٹ تھے،جنہوں نے کوشش کی، لہذا وہ بھی اٹھ کھڑے ہوں اور اس راہ میں قدم بڑھائیں۔ روایت میں ہے، جس وقت حضرت ابراہیم آگ میں تھے، شہد کی مکھی اپنے چھوٹے سے منہ میں پانی کا قطرہ لاکر آگ پر ڈالتی ۔ حضرت ابراہیم ا ُس سے کہتے ہیں تم کیوں اپنے آپ کو زحمت میں ڈال رہی ہو، پانی کے اس قطرہ سے آگ تھوڑی بجھ سکتی ہے، شہد کی مکھی کہتی ہے کہ جب مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہہ سکوں کہ میں نے کوشش کی تھی۔ اب ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم دفاع مقدس کے موضوع پر اپنے اندازے کے مطابق کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ مواقع فراہم کرنے چاہئیں تاکہ ماہر آرٹسٹ  آسکیں، جیسے جناب بروز ارجمند جو ایک گاڑی پر پردہ ڈال کر پانچ صوبوں میں گئے اور وہاں نمائش دکھائی اور فجر مڈل بھی دریافت کیا۔ وہ مجھ سے ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ دفاع مقدس کے توسط سے ہے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3887


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔