جواد علی گلی کے انٹرویو میں بیان ہونے والی باتیں

محاذ پر گزرے محرم کی یادیں؛ سن ۱۹۸۴ء کی عزاداری مختلف تھی

انٹرویو: مہدی خانبان پور
ترتیب: سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-12-5


دفاع مقدس کے محاذوں پر جنگی روز و شب کی اپنی مخصوص یادیں ہوتی ہیں، لیکن ان روز و شب میں کچھ خاص ایام ہوتے ہیں جیسے عزاداری سید الشہداء، محاذ سے متعلق اس کی یادیں کچھ ایسی ہیں جن پر بیتے ایام کی گرد پڑ جانے کے بعد بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ جواد علی گلی جو دفاع مقدس کے سالوں میں اہل بیت (ع) کے ذاکر اور ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) لشکر میں تبلیغی مسئول تھے، وہ ایرانی اورل ہسٹری سائٹ سے انٹرویو میں محاذ پر گزرے ماہ محرم اور اُن ایام کی  یادوں کو بیان کررہے ہیں۔

 

آپ اپنا تعارف کروائیے اور یہ بتائیں کہ جب آپ پہلی دفعہ محاذ پر گئے تو آپ کتنے سال کے تھے؟

میں جواد علی گلی، ۱۱ ستمبر سن  ۱۹۶۲ء میں پیدا ہوا۔  ۲۳ نومبر ۱۹۸۲ء والے دن جب میں ۲۰ سال کا تھا جنگی محاذوں کی طرف روانہ ہوا اور  ۱۳ ستمبر ۱۹۸۷ء تک  مسلسل محاذ پر رہا۔ اُس زمانے میں مجھ سے کہا کہ آپ عقیدتی یونٹ میں جائیں، لیکن آخر میں مجھے شعبہ تعلقات عامہ میں بھیج دیا گیا۔

 

آپ کونسی بٹالین کے شعبہ تعلقات عامہ میں تھے اور کیا کام کرتے  تھے؟

پہلے تو ہم سلمان بٹالین کے تبلیغٰ یونٹ میں گئے۔جہاں پر  اکبر ہاشمی، قاسم دھقان، محمد اصغری اور یعقوب ولد خانی جیسے شہداء موجود تھے۔مجھے یاد ہے کہ والفجر کا ابتدائی آپریشن شروع ہونے سے کچھ پہلے کا وقت تھا کہ ۲۷ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن میں عمار  بریگیڈ تشکیل دی جاتی ہے۔  وہی زمانہ تھا جب  ۲۷ ویں ڈویژن کے تبلیغی انچارج، جناب فلاح نے مجھے عمار بریگیڈ  کا تبلیغی انچارج بنایا۔ اُس زمانے میں بریگیڈ کمانڈر شہید اکبر حاجی پور  اور  اُن کے پہلے نائب شہید بہمن نجفی تھے۔ ان کے علاوہ شہید ابراہیم علی معصومی جیسے افراد سیکنڈ نائب کے عنوان  سے اور شہید بابائی اسٹاف کمانڈر کے عنوان سے اُن کے ساتھ موجود تھے۔

 

اکثر ڈویژن اور اُس کے زیر نظر مجموعے کے نام اور اسی طرح آپریشن کے رموز اہل بیت (ع) کے ناموں پر رکھے جاتے ہیں، ان ناموں کا انتخاب تبلیغی یونٹ کرتا تھا یا کوئی دوسرا شخص اس کا مسئول تھا؟

نہیں، نام معین کرنے کا طریقہ کار دوسرا تھا۔ مثال کے طور پر جیسا کہ شہید دستوارہ نے بتایا ہے، ہمارے ڈویژن کی تشکیل سے پہلے  حاج احمد متوسلیان اور شہید ہمت ملک کے مغربی کنارے اور عراقی علاقے طویلہ کے اطراف میں "محمد رسول اللہ (ص)" نامی آپریشن انجام  دیتے ہیں اور اُس کے بعد سپاہ کے کمانڈر انچیف کے حکم پر جنوبی محاذوں پر آجاتے ہیں تاکہ ایک بریگیڈ بناکر اُسے منظم کرسکیں یا تو اس لئے کہ وہ لوگ ۲۷ رجب کو جنوبی محاذوں  پر آئے، یا ۲۷ عدد کی  پیغمبر اکرم (ص) کے مبارک نام سے نسبت ؛ اسی وجہ سے ڈویژن کا نام "۲۷ واں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن" انتخاب کرتے ہیں۔ جاننے والی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہ واحد ڈویژن ہے جس کا اپنا مخصوص لوگوہے جو ابھی تک باقی ہے۔ بقیہ ناموں  کا تعین مذہبی  لگاؤ کی وجہ سے تھا اور جسے ادارے اور اُن کے کمانڈر مشخص کرتے۔

 

بٹالین اور بریگیڈ  کے تبلیغی یونٹ  کی کیا ذمہ داری ہوتی تھی؟

ہم ان تبلیغی یونٹوں میں مختلف کام انجام دیتے۔ مثال کے طور پر ہماری اہم مخصوصیوں میں سے ایک محرم کا مہینہ تھا۔ عراقیوں کا خیال تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران محرم کے مہینہ سے جو حساسیت رکھتا ہے اس وجہ سے وہ اپنے آپریشن اس  مہینے میں انجام دیگا۔ یہ بات اُن کی صفوں کی آرائش اور فوجی  تنصیبات کی وجہ سے بالکل واضح ہوجاتی تھی، لیکن ہم اکثر اوقات ایسے ہدف کے پیچھے نہیں جاتے تھے  اور ہمارا اس  مہینے آپریشن کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہوتاتھا۔ دوسری طرف سے ہمیں تبلیغی یونٹ کے عنوان سے ایسے پروگرام منعقد کرنے ہوتے تھے  جن سے محاذ پر موجود سپاہیوں کی ہمت اور جرأت میں اضافہ ہو۔ محرم کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہمارے اکثر  فوجی عزاداری کے پروگراموں میں شرکت کرنے کیلئے اپنے شہروں کی طرف جانے کا ارادہ کرتے۔ ایسے میں افسروں کی ہم سے توقع یہ ہوتی کہ ہم عزاداری کے پروگرام کو ڈویژن کی عمومی سطح اور بٹالین اور بریگیڈ سطح پر منعقد کریں تاکہ اس طرح لوگوں کو جانے سےروک سکیں اور یوں عراقی افواج کے حملے کا خطرہ بھی کم سے کم  ہو۔

 

کیا عراقی محرم کے مہینے میں بھی حملہ کرتے تھے؟

جی ہاں، وہ لوگ حرمت والے مہینوں جیسے ماہِ محرم میں بھی ہم پر حملہ کرتے۔ مثال کے طور پر، سن ۱۹۸۶ء میں عراق نے موبائل ڈیفنس کرتے ہوئے مہران پر قبضہ کرلیا۔

 

اس مہینے میں آپ فوجیوں کیلئے کس طرح کے پروگرام منعقد کرتے ؟

مثال کے طور پر مجھے یاد آر ہا ہے میں نے ایک دفعہ انہی تبلیغی پروگرواموں کیلئے فضل اللہ کریمی نامی ایک شخص کو جو ہماری ڈویژن میں پبلک ریلیشنز  کا مسئول تھا، اُسے تہران بھیجا اور اُس سے کہا کہ محاذ پر اپنے ساتھ ایک ذاکر لیکر آؤ تاکہ ہم بٹالین میں عزاداری کے پروگرام منعقد کرسکیں۔وہ گیا اور اپنے ساتھ تین ضعیف العمر ذاکر  وں کو محاذ پر لے آیا۔  البتہ یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ اُس زمانے میں محاذ پر شرکت کرنے والے مشہور ذاکرین محرم کے مہینے میں دوسرے فوجیوں کی طرح اپنے شہروں میں لوٹ جاتے تھے، اس طرح کے حالات میں ہم بغیر ذاکروں  کے رہ جاتے۔

ایک دفعہ ہم نے دو کوھہ چھاؤنی میں "مجمع الذاکرین محبان الحسین (ع)" نامی ایک انجمن بنائی تاکہ تمام ذاکرین وہاں اکٹھے ہوجائیں  اور خاص موقعوں پر جب ہمیں ذاکروں اور منقبت خواہوں کی ضرورت ہوتی تو ہم مخلتف بٹالین اور گروپس میں اُن سے کام لیتے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ہمارے لشکر  وں میں تقریباً ۲۵ بٹالین اور ۱۸ شعبے تک ہوتے اور محرم جیسے مہینوں میں ہر یونٹ کو  منقبت خواں اور ذاکر کی ضرورت ہوتی۔ اسی وجہ سے میں نے خیال کیا کہ شاید اس طریقے سے  اس کمی کو پورا کرسکوں۔

اکثر محرموں میں ہم پہلے سے نکل جاتے اور پہلے سے مقدمات فراہم کرنا شروع کردیتے۔ اُس زمانے میں پرنٹیڈ پرچم نہیں ہوتے تھے ، ہم سب کو سی کر اُس پر ہاتھ سے لکھتے تھے۔ پھر ہر بٹالین میں کوٹے کے مطابق کچھ پرچم تقسیم کردیتے تاکہ وہ اپنی مجالس میں لگا سکیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک سال سردار بہروز سروری نے کچھ وسائل جیسے پرچم، علم وغیرہ محرم کی عزداری کیلئے جمع کیا اور اپنے ساتھ بٹالین کے تبلیغی یونٹ میں لے آئے۔ ایک رات ہم اُنہی علموں کے ساتھ  بٹالین ماتمیوں کی  انجمن لیکر شوش میں دانیال گئے تاکہ وہاں مجلس عزا کا پروگرام منعقد کریں۔

 

عزاداری کا وہ کونسا بہترین پروگرام ہے جو آپ کے ذہن میں نقش کر گیا ہو؟

اُس زمانے میں امام خمینی ؒ مسلسل تاکید کرتے کہ دفاع مقدس کے جوانوں کو گرم اور جوشیلا رکھا جائے، اسی وجہ سے ہم اپنی پوری کوشش کرتے تاکہ فوجیں محاذ پر ٹھہری رہیں۔ ایک متنوع کام جو ہم نے کیا، ایک دفعہ جناب اثباتی شام اور حضرت زینب (س) کے حرم سے ہمارے لئے جو پرچم  لائے تھے، ہم اپنی مجالس میں اُس سے استفادہ کرتے۔ لیکن زیادہ ترفوجیوں کے عقیدے کے مطابق سن ۱۹۸۴ ء میں ہونے والی عزاداری تمام سالوں سے بہترتھی۔ اُسی سال اور خیبر آپریشن کے فوراً  بعد  کا وقت تھا جب ہم نے شہید ہمت امام بارگاہ کا افتتاح کیا۔ اُس زمانے میں جنگی محاذوں پر ایسا ماحول بن گیا تھا کہ بعض سپاہی مجالس عزا میں چند گھنٹوں تک مستقل ماتم کرتے رہتے، لیکن اکثر سپاہیوں میں اتنی دیر تک ماتم کرنے کی سکت نہیں تھی اور یہی مسئلہ فوجیوں پر اثر انداز ہوا جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اپنے شہر جاکر اپنی عزاداریوں میں شرکت کرنے کا فیصلہ کرلیا  تھا۔ لہذا شہید دستوارہ اور شہید کریمی نے مجھ سے بات کی اور مجھے تاکید کی کہ اس فضا کو قائم رہنے نہ دوں۔ہم نے بھی بٹالینز انچارج کو بلایا اور اُنہیں ضروری امکانات عطا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تمام بٹالینز کی ماتمی انجمنیں جو تقریباً پانچ یا چھ ہزار لوگوں پر مشتمل ہوں گی، سب اپنے ذاکروں کے ساتھ دو کوھہ  میں موجود شہید ہمت امام بارگاہ کی طرف جائیں اور چند منٹوں کی عزاداری کے بعد امام بارگاہ میں مولانا صاحب کی تقریر سنیں۔  اُس سال امام بارگاہ شہید ہمت میں مولانا کے عنوان سے حاج آقا پروازی  منبر  پر بیٹھ کر  ماتمی سپاہیوں کیلئے مجلس پڑھا کرتے۔ اُن کی مجلس کے بعد میں نوحہ خوانی کرتا اور باقی سب ماتم کرتے۔

ہم اُن راتوں میں حوصلے بڑھانے اور بہترین فضا قائم کرنے کیلئے ہر رات کسی ایک انجمن کو دعوت دیتے۔ مثلاً کاشان والوں کی ۱۲ ویں محرم بریگیڈ  جو دو کوھہ چھاؤنی کے باہر موجود تھی، ایک رات اُنہیں امام بارگاہ میں رات کے کھانے پر بلاتے اور اُن کے ذاکر سے کچھ پڑھنے کی درخواست کرتے۔ اگلی رات تخریبی یونٹ کے سپاہیوں کو بلاتے، بعد والی راتوں میں محسن گلستانی اور حسن شیخ آذاری جیسے لوگوں کو دعوت دیتے تاکہ وہ ہمارے درمیان مصائب پڑھیں  اور اتفاق سے ہم نے اُن کی آوازوں کی کیسٹس کو ابھی بھی  دستاویز کی صورت میں سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔

ہم نے اُسی سال بٹالینز میں ہونے والی عزاداری کی چند ہزار ٹیپ ریکارڈ کیسٹ تیار کرکے تقسیم کردیں اور لوگوں کو بہت ہی کم پیسوں کے عوض فروخت کیں۔ البتہ اُس سال ہونے والی عزاداری کی ۸ ملی میٹر والی  فلم بھی موجود ہے۔ حتی ہم نے اُس سال تابوت بھی شہید ہمت امام بارگاہ میں اٹھایا۔ مجھے یاد پڑتا ہے اُس سال ہونے والی آخری مجلس ۱۳ محرم کی شب میں ہوئی ، جس میں جناب رضا پور احمد نے مصائب پڑھے تھے۔

 

کیا آپ نے ان تمام سالوں میں محرم کے ایام دو کوھہ چھاؤنی پر گزارے یا مختلف محاذوں پر بھی موجود رہے؟

نہیں، ہم نے مختلف مقامات پر شرکت کی۔مثلاً ہم نے دو دفعہ  محرم کوزران کیمپ پر گزارے اور وہاں پر مختلف پروگرام منعقد کئے۔ کوزران خاص اہمیت کا حامل تھا۔ مثال کے طور پر وہاں کا ماحول طبقہ طبقہ کی صورت میں تھا اور ہر طبقے کے مختلف شعبے تھے۔ ایسے ماحول میں سپاہیوں کو اکٹھا کرنا مشکل کام تھا۔ بہرحال ہم ایسے میں بھی ہر رات عزاداری کا پروگرام منعقد کرتے  اور ہماری کوشش ہوتی کہ کسی ایک خاص طبقے میں سب کو جمع کرلیں۔ عاشورا والے دن ہم سب ایسی بلند جگہ پر گئے جو بالکل محصولات فراہم کرنے والے دفتر کے سامنے تھی اور ہم وہاں بہترین پروگرام منعقد کرنے میں کامیاب رہے۔

 

محاذ پر ہونے والی مجالس کیلئے  نذر پکانے کا اہتمام بھی ہوتا تھا؟

جی ہاں، جنگی محاذوں پر بھی نذر پکانے کا اہتمام ہوتا۔مثلاً عاشورا والے دن فاقہ شکنی کیلئے دال چاول کی نذر سپاہیوں میں  تقسیم کی جاتی۔ کھانے کو ایک بڑے تھال میں ڈال دیتے اور چند افراد اُس تھال کے گرد بیٹھ کر اکٹھے کھانا کھاتے۔ شہید محمد عبادیان جیسا آدمی جو محصولات کی فراہمی کیلئے حاضر تھا وہ ایسے پروگرام کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑتا۔

 

آپ نے بدر آپریشن کے راستے میں ایک نہر کے کنارے بھی اکثر مصائب پڑھتے تھے،  وہ داستان سنائیں؟

ہم فوٹوگرافرز کے ساتھ فرنٹ لائن پہ جانا چاہتے تھے۔بدر کا راستہ عجیب راستہ تھا۔ ہمیں جنوبی جزیرے سے فرنٹ لائن تک دریائے دجلہ سے گزر کر جانا تھا جس کیلئے ہمیں ۱۲ سے ۱۳ کلومیٹر تک ھور العظیم تالاب  میں حرکت کرنا تھی۔ اُن دنوں ایام فاطمیہ تھے۔ جانے والے راستے میں میری محمد طاہری سے ملاقات ہوئی، میں نے اُن سے کہا آپ کے پاس مجھے دینے کیلئے کچھ اشعار ہیں ؟ انھوں نے بھی مجھ چند اشعار دیئے جنہیں میں اپنے ساتھ لایا۔  خلاصتاً اُس راستے کا ماحول ایسا تھا جس پر عقب نشینی کا احساس ہوتا تھا۔ وہ بھی ایسے حالات میں  جب کسی میں بھی ھور العظیم کے تالاب میں ۱۲ کلومیٹر تک تیرنے کی سکت نہیں تھی، اُسی زمانے میں بیک اپ فورس کے عنوان سے کمیل بٹالین پہنچ جاتی ہے، ہم آگے کی طرف بڑھ رہے تھے کہ عراقی افواج سے سامنا ہوگیا۔ عراقی افواج کے نزدیک ایک نہر تھی جو اُس وقت سوکھی ہوئی تھی اور عراقی فورسز کے نشانے پر تھی۔ ہمیں مجبوراً نہر کی زمین پر سونا پڑا۔ ایسے میں سپاہیوں نے کہا اب ہم یہاں رکنے پر مجبور ہیں تو ہمارے لئے مصائب پڑھو، میں نے بھی وہ اشعار والا کاغذ نکال کر پڑھنا شروع کردیا۔ لوگوں نے وہاں پر بہت ہی رقت کے ساتھ گریہ کیا اور نہر کا ماحول عجیب سا ہوگیا۔

 

عزاداری کے پروگرام میں کیا کرتے؟ کیا وہاں پر آپ نوحہ خوانی کرتے تھے؟

جی ہاں، میں نے سن ۱۹۷۸ء سے ذاکری شروع کی ہوئی تھی اور  جنگی محاذوں پر بھی کئی دفعہ مصائب پڑھے۔ جب میں ان پروگراموں میں مصائب پڑھنا چاہتا تو  دستے میں دو افراد سالار دستہ کا کام انجام دیتے، اُن میں سے ایک شہید جواد صراف اور دوسرا سید محمد مجتہدی تھا جو فوجیوں کو بٹھا دیتے تھے اور اُنہیں بیٹھ کر ماتم کرنے کی ترغیب دلاتے۔ یہ بات ایک دوسرے سے تعاون کا باعث بنتی اور جس سے جتنا ہوسکتا تھا وہ عزاداری کیلئے انجام دیتا تھا۔ میرے عقیدے کے مطابق ہماری کامیابی کی اصل وجہ امام حسین (ع) تھے اور اسی وجہ سے ہمارے فوجیوں کے حوصلے بلند ہوتے تھے۔  شہید ہمت اور شہید اکبر زجاجی کی شہادت کے بعد لشکر حصوں میں بٹ گیا تاکہ شہداء کی تدفین کیلئے کاشان اور اصفہان جائے۔بقیہ لشکر دزفول کی جامع مسجد میں شہید ہمت  کے چہلم میں شرکت کرنے چلا گیا۔میں نے اس پروگرام میں مصائب پڑھے۔ میں تمام محرموں میں جنگی محاذوں پر رہا، سوائے سن ۱۹۸۷ء کا محرم جب میں تہران جانے پر مجبور تھا۔

 

ایسا کیا ہوا کہ آپ سن ۱۹۸۷ء میں جنگی محاذوں سے لوٹنے پر مجبور ہوئے؟

سن ۱۹۸۵ء میں میرے  سر پر ایک گولی لگی تھی اور دو سال بعد طے پایا کہ آپریشن  کے ذریعے اُس گولی کی جگہ ایک مصنوعی ہڈی لگائی جائے۔ لہذا میں نے طبی علاج کروانے کی غرض سے اپنے شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے والا ماجرا بھی یہ تھا کہ میں ۱۹ مارچ سن ۱۹۸۶ء  کو زخمی ہوا اور ایک مہینے تک امام خمینی ؒ ہسپتال میں ایڈمٹ رہا، اُس کے بعد بھی ایک مہینے تک میں نے اپنے گھر میں آرام کیا جو رمضان کا مہینہ تھااور اُس کے بعد بھی جب کہ میں ابھی بالکل ٹھیک نہیں ہوا تھا اور میرے سر میں ہڈی کا ایک ٹکڑا نہیں تھا، میں جنگی محاذ وں پر چلا گیا۔

 

جنگی محاذوں پر اور شہروں میں پڑھے جانے والے مصائب میں کیا فرق تھا؟

محاذ پر زیادہ تر کوشش ہوتی کہ رزمیہ اشعار پڑھے جائیں اور وہاں پر زیادہ تر بات دل سے نکلتی تھی۔ مثال کے طور پر والفجر ابتدائی سے پہلے حضرت رسول (ص) گاؤں سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے ایک ذاکر کی آواز بلند ہورہی تھی، اُس میں ایسی رزمیہ شاعری تھی جو روح کو لرزا رہی تھی۔

 

شہید محمد عبادیان کے بارے میں کچھ اور بتائیں

یہ محترم محصولات کی فراہمی میں بہت ہی سنجیدہ تھے، و الفجر ۸ (فاو) جیسے سخت ترین آپریشن میں بھی ظہر کے وقت فوجیوں تک گرم گرم  کھانا پہنچاتے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ مہران سے قبضہ چھڑانے کا مرحلہ جو جولائی کے مہینے میں  انجام پایا، بہت شدید گرمی ہو رہی تھی اور  سب پیاسے تھے ایسے میں دور سے محصولات فراہم کرنے والی ٹویوٹا کو آتے دیکھا۔ اُس پر برف کی سلیاں اور لیمو کا شربت لدھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی ایک تدبیر یہ تھی کہ وہ موٹر کے ذریعے سپاہیوں تک کھانا پہنچاتے تھے۔

 

کیا آپ کو شہید آوینی کا بھی کوئی واقعہ یاد ہے ؟

جی ہاں، جیسا کہ ہم لوگ تبلیغی یونٹ میں تھے تو شہید آوینی اور دوسرے جنگی رپورٹرز محاذ پر آتے ہی سب سے پہلے ہمارے پاس آتے تھے۔ جیسا کہ سن ۱۹۸۳ء میں شہید امیر اسکندر یکہ تاز نے کچھ عرصہ ہمارے پاس گزارا یا ایک دوسری مثال میں ابراہیم حاتمی کیا اور حسین قدمی بھی ہمارے پاس رہے۔ اس مدت میں ہماری فلمیں تیار کی گئی۔ مثال کے طور پر "گلستان آتش" نامی فلم جس کی ویڈیومسعودی اسعدی اور مہدی فلاحت نے بنائی، حقیقت میں وہ ہماری فلم ہے۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کربلائے ۵ آپریشن شروع ہوچکا تھا اور ٹیلی ویژن والوں نے   اس بارے میں فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ اُس زمانے میں ٹیلی ویژن  کے افراد ہمارے مورچوں تک آئے اور کہنے لگے ٹی وی سے خاتم الانبیاء (ص) ہیڈکوارٹر کا اطلاعیہ نشر ہوچکا ہے، لیکن آج رات خبرنامہ کیلئے ہمارے پاس کوئی ویڈیو نہیں ہے جسے ہم ٹی وی پر دکھا سکیں۔ اُسی وقت انھوں نے ہماری ویڈیو بنائی جو کئی دفعہ ٹی وی سے نشر ہوچکی ہے۔ اُس کے بعد شہید آوینی نے اُسے مرتب کیا  اور وہ "گلستان آتش" کے نام سے روایت فتح میں نشر ہوئی۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3734


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔