۲۷۳ ویں یادوں بھری رات کی رپورٹ

کمان ۹۹ اور دیگر فضائی آپریشن سے متعلق خلابازوں کی یادیں

سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-12-5


ایرانی زبانی تاریخ کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق،  ۶ اکتوبر سن ۲۰۱۶ء، جمعرات کی شام آرٹ گیلری میں یادوں بھری رات کے سلسلے کا ۲۷۳ واں پروگرام منعقد ہوا۔ اس تقریب میں محمد صدیق قادری، مصطفی نعمت اللھی اور محمود ضرابی جیسے پائلٹس نے ایران پر مسلط کی گئی جنگ میں پیش آنے والے واقعات کو بیان کیا۔

خلاباز محمد صدیق قادری نے پہلے اسپیکر کے عنوان سے آغاز جنگ سے پہلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "مسلط کردہ جنگ سے ۹ مہینے پہلے، تقریباً صبح کے وقت میں نے بہت ہی برا خواب دیکھا پھر میری آنکھ کھل گئی۔ میں  تین دن تک یہی خواب دیکھتا رہا اور میں ہر دفعہ خواب میں دیکھتا کہ میرا جہاز سقوط کر گیا ہے اور میرا جنازہ پیراشوٹ کے ذریعے زمین کی طرف جا رہا ہے،  ایسے میں منظر تبدیل ہوتا ہے اور میں کچھ ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو بہت تاریک جگہ پر ہیں۔ وہاں پر میں فالج کی حالت میں ہوتا ہوں اور مجھ میں ذرا سی حرکت کرنے کی قدرت نہیں ہوتی۔ ہر دفعہ خواب میں اُس اندھیری جگہ پر میرے پاس ایک لمبے قد کا آدمی آتا ہے اور میرے ہاتھ میں کچھ تھماتا ہے۔ میں نے یہ خواب اتنی بار دیکھا کہ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میرے ساتھ کچھ ہوگا۔"

انھوں نے مزید کہا: "اس خواب کے بعد فوج سے باہر نکالے جانے کا عمل شروع ہوگیا  اور ان نکالے جانے والوں میں،میں  تیسرا آدمی تھا۔ جبکہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ البتہ یہ بات میری بیوی کیلئے خوشی کا سبب بنی اور  اُسے یقین تھا کہ اس وجہ سے مجھے میرے خواب کی تعبیر نہیں ملے گی، لیکن بھاگ دوڑ کرنے، اور شہید چمران سے مسلسل ملاقات کی وجہ سے ۴ ماہ بعد، میں دوبارہ پرواز بٹالین میں واپس آنے میں کامیاب ہوا۔  میرے واپس آتے ہی میرا خواب بھی تکرار ہونےلگا۔ یہ ماجرا جنگ میں ۱۰ دن رہ جانے تک چلتا رہا اور پھر میرا نام ایسے افراد کی لسٹ میں تھا جنہیں فوج سے نکالنا تھا۔ تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ مجھ میں اور اخراج ہونے والے دوسرے ۱۰ افراد میں یہ مماثلت تھی کہ ہم سب ایران،امریکا پائلٹ دوروں کے بہترین اسٹوڈنٹس تھے۔ میں نے اُسی زمانے میں حضرت امام خمینی ؒ کے نمائندے جناب رضوان   اور ہیڈکوارٹر چیف جناب گلچین سے  ملاقات کی اور اُن سے یہ کہہ کر چلا آیا کہ آغاز جنگ  کے ساتھ ہی فوج سے نکالنے  کا طریقہ صحیح نہیں ہے۔  ۲۲ ستمبر کو یہ  معاملہ ختم ہونے کے بعد میں ایک فلیٹ بک کرنے کیلئے کرج گیا ہوا تھا، میں نے دوپہر تین بجے کے قریب آسمان کی طرف نگاہ کی تو بولا:"یہ عراقی طیارے ہیں، جنگ شروع ہوگئی۔" ہم نے اُسی وقت ریڈیو کھولا  اور اُس سے آنے والی الارم کی آواز سے سمجھ گئے کہ میرا خیال صحیح تھا۔ میں نے سب کو آزادی چوک کے نزدیک  اُتار دیا  اور اُن سے کہا آپ لوگ گھر جائیں مجھے چھاؤنی جانا پڑے گا پھر میں ہمدان کی شہید نوژہ چھاؤنی کی طرف پلٹ گیا۔ چھاؤنی میں داخل ہوتے ہی، میں نے جنگ میں شرکت کا اعلان کیا اور کہا کہ جنگ ختم ہوتے ہی چھاؤنی سے چلا جاؤں گا۔"

انھوں نے کمان ۹۹ آپریشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ہم نے پہلا حملہ ۲۳ ستمبر ۱۹۸۰ء کو کیا تھا جس میں ایران کی طرف سے ۲۰۰  طیاروں نے پرواز کی  اور بہت سے ٹارگٹس کو نشانہ قرار دیا، لیکن ۱۴۰ طیارے عراقی سرزمین پر داخل ہوتے ہی درگیر ہوگئے کہ جس کے باعث اس  آپریشن کو کمان ۹۹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُنہی دنوں میں نے اپنے ایک ساتھی شہید خسرو جعفری سے بات کی اور طے پایا ہم تجویز پیش کریں کہ روزانہ چند طیارے ایک خاص ہدف کو مشخص کرکے اُس پر حملہ کریں  اور ہم مطمئن تھے کہ اس طریقہ کار سے صدام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہوجائے گا، لیکن اس تجویز کی مخالفت ہوئی۔"

 

اسیری کے دنوں کا معجزہ

پائلٹ جناب قادری نے اپنی گفتگو کے دوران کہا: "جنگ کے تیسرے دن، ریڈار نے اطلاع دی کہ ۴ عراقی طیارے سرحدی حدود عبور کرچکے ہیں  اور کرمانشاہ کی طرف بڑھ رہے ہیں، میں اپنے طیارے کے ساتھ کرمانشاہ پہنچا تو دیکھا عراقی طیارے بمب پھینکنے کیلئے تیار ہیں۔ میں نے دیکھا کہ میرے پاس ڈائریکٹ اُن کی طرف بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بالآخر عراقی طیارے شہر سے باہر بمب پھینکنے اور اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک طیارہ کرمانشاہ کی فضائی چھاؤنی کی پانچ منزلہ عمارت سے ٹکرا گیا اور دوسرا طیارہ بیستون پہاڑی کی طرف گیا اور وہاں سقوط کرگیا۔ اُن میں سے ایک پائلٹ پیراشوٹ کے ذریعے زمین پر اُترا تو اُسے ایرانی فوجیوں نے گرفتار کرلیا۔ بقیہ دو طیاروں کے پیچھے بھی دوسرے دو پائلٹ گئے  اور آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہوگیا۔"

انھوں نے اپنی اسیری کی داستان سناتے ہوئے کہا: " ۳۰ ستمبر سن ۱۹۸۰ء کو رات ۱۲ بجے میں فضائی ڈیوٹی پر تھا اور میں صبح ۱۱ بجے تک آسمان پہ رہا۔ وہاں سے آنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ۴ طیاروں کو بغداد کی طرف جانا ہے، میں نے بھی بغداد جانے کی حامی بھرلی۔ دوپہر ایک بجکر ۱۹ منٹ پر ہم بغداد کی فضاؤں میں تھے۔ ہمیں الدورہ چھاؤنی کو اُڑانا تھااور اُس کے بعد امام خمینی ؒ کا پیغام جو بغداد کے لوگوں کیلئے تھا اُسے آسمان سے منتشر کرنا تھا اور آخر میں بغداد کے شرق میں موجود نصف ایٹمی پاوربیس  کو نشانہ بنانا تھا۔ دوسرے وظیفے کی انجام دہی کے وقت ہم نچلی سطح پر پرواز کرنے پر مجبور تھے اور اسی وجہ سے  دشمن کی فائرنگ کی زد میں آگئے۔ طیارے کے انجن میں آگ لگ چکی تھی ہم جانتے تھے کہ اگر ہم نے طیارے کو چھوڑ دیا تو اطراف کی عمارتوں میں آگ لگ جائے گی۔ کسی طرح سے طیارے کو کنٹرول کرنے کے میں باہر کود پڑا ، ہوا کا پریشر اتنا زیادہ تھا کہ میرا بایاں بازو ٹوٹ گیا۔ اُس کے بعد میں فائرنگ کی زد میں آگیا اور مجھے ۲۳ گولیاں لگیں۔ اُس کے بعد چوکی تک لے جانے کیلئے مجھے دوسرے پائلٹوں کے ساتھ سوزوکی کے پیچھے ڈال دیا گیا ۔ پہلے ہمیں ہسپتال لے گئے اور ہمارے جسم کے مختلف حصوں پر پلاسٹر چڑھا دیا اور میرے ٹوٹے ہاتھ کو جوڑ دیا گیا پھر اس کے بعد ہم تفتیش کیلئے گئے۔ تفتیش کے دوران میں تین دن تک بیہوش بنا رہا تاکہ یہ مرحلہ گزرجائے اور اس طرح ہماری اسیری شروع ہوگئی ۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ میں جس عمارت کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ اس میں عام لوگ رہتے ہیں اور اُسے آگ نہیں لگنی چاہیے وہ عراقی انٹیلی جنس کی عمارت تھی ، اس پر میں بہت ہی پشیمان ہوا۔"

پائلٹ قادری نے اپنی گفتگو   کے آخر میں ان دنوں پیش آنے والے ایک معجزہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: "ایک تفتیش کے دوران کہ اُس تفتیش کے ساتھ مرحوم سید علی اکبر ابو ترابی سے بھی تفتیش ہوئی، میرے ہاتھ کو ایک دفعہ پھر توڑ دیا اور وہ ہاتھ ساڑھے چھ سال تک میری گردن سے لٹکا رہا۔ میری اسیری کے ساتویں سال انھوں نے میرے ہاتھ کو کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس کام سے ایک رات قبل تفتیش کرنے والے میرے پاس آئے تاکہ مجھے بغداد لے جاکر ٹارچر کریں۔ اُنھوں نے راستے میں میری آنکھوں سے پٹی  کھولی تو میں نے دیکھا کہ میں حضرت ابو الفضل العباس  علیہ السلام کے روضہ کے پاس ہوں، میں نے اُن سے دعا مانگی کہ میں نہیں چاہتا کہ میرا ہاتھ کاٹا جائے اور اُس کے بعد وہ مجھے کیمپ میں واپس لے آئے۔ اگلے دن صبح کیمپ میں ہر پندرہ دن بعد آنے والے ڈاکٹر نے مجھ سے کہا میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے جس کی وجہ سے جیسے بھی ہو میں تمہارے ہاتھ کا آپریشن کروں گا۔ دوپہر ۲ بجے مجھے تکریت کے صلاح الدین ہسپتال لے گئے اور ایک گھنٹے بعد میں آپریشن تھیٹر میں تھا۔ تین دن کے آپریشن کے بعد طے پایا کہ ریڈکراس والے میرا ہاٹھ کاٹنے کیلئے آئیں گے، لیکن جب وہ آتے ہیں تو میرے ہاتھ کو صحیح و سالم پاتے ہیں۔"

 

۸ گھنٹوں میں ۶ ہزار لوگوں کو بھیجنا

پائلٹ مصطفی نعمت اللھی نے بھی یادوں بھری رات کے سلسلے کی ۲۷۳ ویں  تقریب میں اپنی گفتگو  کے دوران اپنے واقعات کو بیان کیا: "مجھے یاد ہے کہ جنگ کی پہلی رات ایئر فورس کے تمام اعلی حکام ایک جگہ جمع ہوئے  اور ہم نے عراقیوں کی شہر کی طرف ہونے والی حرکت کی چھان بین کی۔ اگلے دن ایران کی طرف سے ۱۴۰ طیارے عراق کی طرف گئے جس سے حالات کچھ قابو میں آئے۔ اُس زمانے میں میرے پاس فضائی حمل و نقل کا عہدہ تھا میں آپریشن کی تیاری کیلئے امیدیہ جاتا ہوں۔ ۱۹۸۰ء میں جولائی کے گرم مہینے میں موسم گرم ہونے کی وجہ سے امیدیہ ایئربیس کا ماحول بہت ہی سخت تھا، لیکن بنی صدر کے فرار کے وقت جب میں کرنل تھا  میرا تہران میں ٹرانسفر ہوگیا اور  ایئر فورس نقل و حمل چھاؤنی کے کمانڈر کے عنوان سے  میری ڈیوٹی وہاں لگ گئی۔"

انھوں نے دفاع مقدس میں فضائی حمل و نقل کے کردار کی طرف ا شارہ کرتے ہوئے کہا: " فضائی حمل و نقل کی ذمہ داری ہمارے اوپر تھی۔ مثال کے طور پر بیت المقدس آپریشن میں جو ہمارے مشہور ترین آپریشنز میں سے تھا،  ہمارے پاس فوجیوں کی تعداد کم تھی۔ اسی وجہ سے جبکہ ہمارے ہر ۷۴۷ طیارے میں صرف ۳۰۰ سے ۴۰۰ افراد کی جگہ ہوتی ہے،  لیکن ہم اُس میں چار گناہ زیادہ تعداد بھر کے فرنٹ لائن کی طرف جاتے اور اس طرح ہم نے آٹھ گھنٹوں میں ۶ ہزار فوجی فرنٹ لائن تک پہنچائے۔ اُس کے بعد ہم نے زخمیوں کو بھی مختلف شہروں کی طرف بھیجا۔"

 

ہم نے صدام کی بحری افواج کو نابود کردیا

پائلٹ محمود ضرابی نے بھی آخری اسپیکر کے عنوان سے جنگ کے ابتدائی ایام میں گزرے اپنے واقعات کو بیان کیا: "جنگ کے پہلے دن  اور ایران پر عراقی حملہ کے بعد، تبریز، دزفول، بوشہر اور تہران ایئر بیسز سے ایرانی طیارں نے عراق کی طرف پرواز کی اور انتقامی آپریشن انجام دیا۔ اس آپریشن میں ایرانی طیارے اتنا نیچے پرواز کر رہے تھے کہ مجھے یاد ہے  بصرہ، بغداد کا سائن بورڈ  بوشہر  طیارے کے نچلے حصے میں پھنس گیا اور طیارہ اسی حالت میں بوشہر کی چھاؤنی پر اترا۔ کمان ۹۹ آپریشن کے دس دن بعد، دشمن کی باتوں سے ایرانی ایئرفورس کی قدرت کے اثر کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔"

انھوں نے آخر میں مروارید آپریشن کی طرف اشارہ کیا: "ہم نے اُس دوران بوشہر ایئر بیس سے مروارید آپریشن میں شرکت کی کہ جس میں شہید عباس دوران، حسین خلعتبری، مفتخری، منوچھر محققی، رضا سعیدی، رضا عسگری اور بہت سے دوسرے عظیم لوگوں نے شرکت کی اور ہم نے دو ہفتوں کے اندر عراق کی پوری بحری افواج کو ۱۰ فریگیٹ کے ساتھ تباہ کردیا۔"

یادوں بھری رات کے سلسلے کا ۲۷۳ واں پروگرام  مراکز مطالعات، ثقافتی تحقیق، ادبی استحکام  اور فن و ہنر کے دفتر کی کوشش سے، جمعرات کی شام، ۶ اکتوبر سن ۲۰۱۶،  کو آرٹ گیلری میں منعقد ہوا۔  



 
صارفین کی تعداد: 3881


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔