دینی علوم میں مورد بحث عناوین میں سے ایک موضوع کا تاریخی نشان

شہید محمد مفتح کی سب سے پہلی تحریر

تألیف: جعفر گلشن روغنی
ترجمہ: سید مبارک حسنین زیدی

2016-11-15


شہید آیت اللہ محمد مفتح (۱۹ جون سن ۱۹۲۸ء – ۱۸ دسمبر ۱۹۷۸ء) پرائمری اسکول کی تعلیم کے ساتھ دینی علوم کی ابتدائی تعلیم اور ادبیات اپنے والد حجت الاسلام میرزا محمود مفتح سے حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے۔ سن ۱۹۴۱ء کے نزدیک اپنی جائے ولادت ہمدان میں دینی علوم کے حصول کیلئے مدرسہ علمیہ آخوند ملا علی معصومی ہمدانی میں داخل ہوئے۔ دینی علوم کا کچھ حصہ حاصل کرنے کے بعد انہیں ایک دوسرے بہتر مدرسے میں جس کے اساتذہ اور بھی بہتر ہوں میں داخلے کی ضرورت محسوس ہوئی، اسی لئے والد، دوستوں اور اساتید کے مشورے کے بعد سن ۱۹۴۵ء میں عازم قم ہوئے اور مدرسہ دار الشفاء میں علم حاصل کرنے لگے۔  اور اجہتاد تک پہنچنے کیلئے چند سالوں تک مختلف اساتید کے شاگرد رہے، جن میں آیت اللہ العظمیٰ بروجردی، محقق داماد، سید محمد رضا گلپائگانی، علامہ طباطبائی اورامام خمینی (رح) شامل ہیں۔ اپنی تعلیمی زندگی کے دوران ہی سن ۱۹۴۹ء میں محترمہ فاطمہ جابری انصاری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے اور اپنا گھر تشکیل دیا۔

قم میں ان کی موجودگی اور دینی علوم کا حصول ان کیلئے خاص حالات مہیا کرنے کا سبب بنا۔ تعلیمی مشغولیت اور برجستہ اساتید سے کسب فیض کرنے سے قطع نظر، پر رونق علمی فضا، مختلف ابحاث و گفتگو اور دینی طالبعلموں کی محققانہ با نشاط فضا، جو کہ دینی اور اجتماعی مسائل کا ذوق رکھنے والے تھے، نے شہید مفتح کی اجتماعی مسائل جو کہ مذہبی و دینی مسائل سے مربوط تھے، کی طرف توجہ مبذول کروانے کیلئے زمینہ سازی کی۔ ان سب اسباب کی وجہ سے ان مسائل کے بارے میں ان کی دلچسپی، معلومات اور سرگرمیوں میں اضافہ ہوا۔ اسی دلچسپی کے سبب انھیں قلمکاری کے میدان میں کام کا ذوق پیدا ہوا اور یہ احساس ہوا کہ کئی جگہوں پر ضروری ہے کہ بحث، گفتگو، تقریروں کے علاوہ قلم کے ذریعے سے مقالات، فقہی، اجتماعی اور سیاسی نقطہ نظر پیش کیا جائے (کیونکہ) قلم کا میدان بہت مؤثر ہے۔ شہر قم اور حوزہ علمیہ کی محققانہ فضا، اس زمانے (انیسویں صدی کی چوتھی دھائی) میں شائع ہونے والے مجلوں اور رسالوں کی ایک مفتح جیسے جوان سے آشنائی کا سبب بنی۔ اسی لئے ان کی فکر اس طرف گئی کہ مورد توجہ مسائل کو اور ان کے بارے میں اپنی نظر کو ان رسالوں، مجلوں اور مطبوعات کے ذریعے لوگوں تک پہنچائیں۔ یہی چیز سبب بنی کہ انھوں نے سن ۱۹۴۱ء میں پہلی مرتبہ اس میدان میں قدم رکھا اور ایک تحریر مرتب کی جو کہ منتشر بھی ہوئی۔

انھوں نے گذشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں معاشرے میں رجحان رکھنے والی ثقافتی اور اجتماعی فضا کی وجہ سے، بالخصوص روزبروز مختلف انجمنوں اور گروہوں میں اضافے اور الحاد و بے دینی کی موج کا مقابلہ کرنے کیلئے مذہبی اور دینی شخصیتوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے اس چیز کی ضرورت کا احساس کیا کہ حجاب اور اس کی نگہداری اور بے حجابی سے مقابلے کیلئے ضروری ہے کہ ایک کالم لکھا جائے، جس میں اسلام کے اس بارے میں واضح نقطہ نظر کو بیان کیا جائے او راسے ایک مذہبی اخبار میں چھپوایا جائے۔ اس کام کیلئے انھوں نے روزنامہ "پرچم اسلام " کا انتخاب کیا کیونکہ یہ ایک ایسا اخبار تھا کہ جس کے مدیر اعلیٰ مایہ ناز شخصیت کے حامل ڈاکٹر سید عبد الکریم فقیھی شیرازی تھے اور اس کے کچھ شمارے شائع ہوچکے تھے اور یہ اخبار دینی مسائل کا ذوق رکھنے والے لوگوں کے درمیان اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ اسی لئے انھوں نے اس موضوع حجاب کے بارے میں اپنے کالم کو اس اخبار میں چھپوانا مناسب سمجھا۔

بنابریں روزنامہ پرچم اسلام کا شمارہ ۳۳ جو کہ ۲۸ نومبر سن ۱۹۴۶ء کو شائع ہوا، اس میں ایک کالم چھپا جس کا عنوان "معاشرتی اعتبار سے بے حجابی کے نقصانات" تھا۔ اس مقالے کے آخر میں انھوں نے اس طرح سے اپنے دستخط کیئے: "الاحقر محمد مفتح"۔ یقیناً ان کی یہ تحریر، قلم کے میدان میں ان کا سب سے پہلا قدم ہے جو کہ شہید مفتح نے ۱۸ سال کی عمر میں اٹھایا۔ درحقیقت انھوں نے جوانی میں قلمکاری شروع کی اور پوری جرأت کے ساتھ اپنی مستحکم تحریر میں حجاب اور بے حجابی کے بارے میں فقہی اور اجتماعی نظر کا اظہار کیا۔ شاید یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان کی یہ تحریر ان کے حوزہ علمیہ قم میں آنے کے بعد شروع کے سالوں میں ان کی فکر اور نظریات کی عکاسی کر رہی تھی۔ اِسی طرح سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس موضوع پر تحریر، اس وقت حوزہ علمیہ قم میں اور بالخصوص اساتذہ اور طالب علموں کے درمیان اس طرح کے اجتماعی مسائل مورد بحث واقع ہونے کی ترجمانی کر رہی تھی۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان کی تحریر زمانے میں پیش آنے والے مسائل کی شناخت کیلئے نبض کا کردار ادا کر رہی تھی جو کہ بے حجابی اور بے دینی کے رائج ہونے سے ہر ممکن صورت سے مقابلہ کرنے کی نصیحت  و تاکید کر رہی تھی۔

البتہ یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ شہید مفتح کی طرف سے جوانی میں لکھی جانے والی یہ تحریر اس موضوع (حجاب و بے حجابی) پر آنے والی تحریروں میں گام اوّل کی حیثیت رکھتی ہے اور قلم کے میدان میں مذہبی سرگرم افراد اور علمائے دین کی طرف سے اس موضوع پر بعنوان ردّ عمل شروع کی تحریروں میں سے شمار ہوتی ہے ۔ اور اسی وجہ سے انھیں اس موضوع پر قلم اٹھانے والے پہلے لوگوں میں سے شمار کیا جاسکتا ہے۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4989


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔