مٹی کے برتن بنانے والے شہید کی زندگی سے کچھ باتیں

انقلاب میں ایک مرد کا روپ

الہام صالح
مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2016-9-23


بہت سے لوگ اُس سے متاثرتھے، اُس کی خصوصیات میں سے ایک اُس کا پرکشش ہونا تھا۔ اُس نے چودہ سال کی عمر سے ہی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا، ۳۳ سال کی عمر میں جیل کا مزہ بھی چکھ لیا تھا، ۱۳ سال تک جیل میں رہا۔ کام کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے پڑھائی کا بھی شوق تھا۔ اُس کی پڑھائی اور جدوجہد ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ اُس نے اپنا آخری امتحان ایسے حالات میں دیا جب ساواک اُس کے تعاقب میں تھی۔ فدائیان اسلام کے ساتھ بھی رابطہ میں تھا  اور بازار میں موجود مسجد شیخ علی میں ہفتہ وار دروس میں بھی شرکت کرتا۔ یہ تمام باتیں شہید حاج مہدی عراقی کی کچھ خصوصیات  میں سے ہیں؛  وہ مٹی کے برتن بنانے والی اتحادیہ کا چیئرمین تھا۔ پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد  کے ساتھ ساتھ یہی موضوع کتاب "سیمای یک مرد در انقلاب" کی اشاعت کا بہانہ بنا*(انقلاب میں ایک مرد کا روپ)۔

زبانی تاریخ کی تدوین کے راستے میں کھڑی مشکلات

کتاب" سیمای یک مرد درانقلاب" پہلی نگاہ میں ہی "مارکیٹ اور بازار کے ستاروں" کےدوسرے جلدی مجموعوں سے  ایک بنیادی فرق رکھتی ہے؛ واقعات بیان کرنے والے راوی فہرست اور کتاب کے مطالب میں  مشخص اور جدا ہیں۔ کتاب کی پہلی فصل کا نام "مہدی عراقی کون تھے؟ ہے" اور دیگر تمام فصلوں کا نام  انٹرویو دینے والوں کی اعتبار سے  رکھا گیا "امیر عراقی کا انٹرویو"، "سید اصغر رخ صفت کا انٹرویو"، "ابو الفضل توکلی بینا کا انٹرویو"، حسین مہدیان کا انٹرو یو"۔ اس بات نے کتاب کو ایک خاص طریقے سے منظم کر دیا ہے۔

اس کتاب کا دوسرا  فرق، مؤلف کی طولانی یادداشتیں ہیں  جن کی "پیش گفتار" (مؤلف کی ۹ یاد داشتیں)  کے عنوان سے اشاعت ہوئی ہے اور اُس میں انقلابی اسلامی کی کامیابی کے اوائل میں چھوٹے چھوٹے گروپ کی سرگرمیوں  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے "سیمای یک مرد انقلاب" کی تدوین کے طریقے پر بھی بات کی گئی ہے۔

اس پیش گفتار میں اس لحاظ سے کہ اس میں مؤلف کی مختلف  شخصیات سے انٹرویو لینے  کی مشکلات بیان ہوئی ہیں، بہت اہمیت کی حامل ہے  کیونکہ  زبانی تاریخ کی تدوین اور یاد داشتوں کا لکھنا ،  کام کی بعض مشکلات کا پڑھنے والے کو تعارف کرواتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ واقعات کا فراموش ہونا، بعض شخصیات کا انٹرویو دینے سے انکار، یادداشتوں کے بیان میں جو محدودیتیں موجود  ہیں اور آخر میں بات یہاں ختم ہوتی ہے کہ انٹرویو دینے والے حضرات  بعض واقعات کو  بیان نہیں کرتے،  یہ کچھ مشکلات ہیں جن سے مؤلف کے مقدمے میں سامنا ہوسکتا ہے: "شہید کے کچھ ساتھیوں نے  ان آخری سالوں میں داعی اجل کو لبیک کہا؛ جیسے مرحوم آیت اللہ انواری، مرحوم حاجی حبیب اللہ عسگر اولادی، شہید سید اسد اللہ لاجوری، مرحوم ابو الفضل حاجی حیدری۔  بعض دوسرے انقلاب سے پہلے یا انقلاب کے اوائل میں شہید ہوگئے یا اُن کا انتقال ہوگیا؛ جیسے فدائیان اسلام یا  مختلف جماعتوں کی پہلی تنظیم  میں اُن کے دوست احباب۔"

کتاب کا اہم موضوع شہید حاج مہدی عراقی کی انقلاب کے زمانے میں اپنے اتحادیہ میں سرگرمی ہے کہ انٹرویو دینے والوں نے اس موضوع پر بھی کم بات کی ہے: "ہم نے جن چند افراد سے بات چیت کی ہمیں اُس میں بھی مشکلات کا سامنا ہوا۔  کیونکہ یادداشت کے بیان اور اشاعت میں لحاظ کیا گیا ہے۔ جبکہ  اُن کے کام اور اتحادیہ میں اُن کی سرگرمیوں کے بارے میں اُن کے فرزند کو بھی کچھ زیادہ یاد نہیں اور اُن کے جو بعض واقعات تھے وہ شہید کی سیاسی سرگرمیوں اور جدوجہد کے بارے میں تھے۔"

زبانی تاریخ کی تدوین کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان مشکلات کی طرف اشارہ کرنا ، اُن دوسرے افراد کیلئے ایک مدد ثابت ہوسکتی ہے جو اس زمینہ میں کام کرنا چاہتے ہیں۔

شہید عراقی کی ذاتی خصوصیات

امیر عراقی، سید اصغر رخ صفت، ابو الفضل توکلی بینا اور حسین مہدیان، اس کتاب کے راوی ہیں۔ ان افراد میں سے ہر ایک  شہید حاج مہدی عراقی کے چہرے اور شخصیت سے  پردے کو اٹھاتا ہے۔

شہید کا بیٹا امیر عراقی شہید کی شہادت کے وقت ۲۳ یا ۲۴ سال کا تھا۔ ۷ یا ۸ سال کی عمر میں اُس کے والد گرفتا ر ہوگئے اور بقول اُس کے اُس کی اپنے والد سے زیادہ تر ملاقات جیل کے جالیوں کے پیچھے ہوتی ؛ ایسی ملاقات جس میں شروع میں اُس کی والدہ اور جب وہ کچھ بڑا ہوگیا تو اُس کے دوست اُس کے ساتھ ہوتے۔ اُس نے یاد داشتوں کے بیان میں اپنے والد کے خیالات کی بات کی: "اگر ہم حاج مہدی عراقی کی بازار سے ہٹ کر ایک پڑھے لکھے فرد کے طور پر تحقیق کریں تو  ہمیں دو میں سے ایک چیز کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ ایسی بات جو مجھے اب پتہ چلی اور مجھے جناب کاظم بجنوری (جیل میں میرے والد کے دوست) نے یہ بات بتائی، وہ یہ کہ جناب عالی جیل میں اقتصادی مباحث کا مطالعہ کرتے تھے۔ پتہ چلا کہ وہ جیل میں اقتصادی بحثوں میں زیادہ شریک ہوتے کہ پڑھے لکھے افراد  اور  کالج کے جوان بھی اُن ابحاث میں شرکت کرتے تھے۔ "

ابو الفضل توکلی بینا ، جو پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد میں آگے آگے اور شہید عراقی کے گہرے دوستوں  میں سے ہیں اور انھوں نے  سن ۱۹۴۵ ء میں شہید کے ساتھ انجمن عسگریوں بنائی تھی، ان کی بعض باتیں شہید کی اخلاقی اور پرکشش شخصیت کے بارے میں ہیں: "غصے والا نہیں تھا؛ ٹھنڈے مزاج کا پرسکون آدمی تھا۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ مومن اور مذہبی ہوں لیکن اُن میں کشش نہیں ہوتی۔  ان کی خصوصیات میں سے ایک اُن کا پرکشش اور مخلص ہونا تھا۔ ہر کسی سے اپنی بھائی کی طرح ملتے تھے، وہ بہت ہی دوستانہ رویہ اختیار کرتے۔ اسی وجہ سے امام اُنہیں  بہت پسند کرتے تھے۔"

بے مثال واقعہ

کتاب "سیمای مرد درانقلاب" کا مارکیٹ اور بازار کے ستاروں کے مجموعے کی دوسری جلدوں سے ممتاز ہونے کی ایک اور وجہ ، وہ انقلاب اسلامی کی کامیابی میں خاص طور سے بازاریوں کے کردار پر تاکید کرنا ہے۔  اور یہ تاکید بہت ہی واضح ہے اور کتاب کے راویوں کی یاد داشت  کے بیان میں  اگر شہید  کی صنف کی طرف براہ راست اشارہ نہیں ہوا  تو کلی طور پر بازار کی تاثیر کے بارے میں بات کی گئی ہے۔

شہید حاج مہدی عراقی کے فرزند امیر عراقی نے اس بات پر تاکید کی کہ  کام اور صنف، حاج مہدی عراقی کی داستان کی فرع تھی،  وہ اُن کی صنفی سرگرمیوں کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں: "جیل جانے سے پہلے اُن کا اصلی کام مٹی کے برتن  یا اینٹیں بنانا تھا ۔۔۔ سن ۱۹۷۶ ء میں  جب وہ جیل سے آزاد ہوئے تو انھوں نے دوبارہ یہ کام شروع کردیا۔ اس فیلڈ میں ۶ یا ۷ مہینے سے زیادہ کا عرصہ نہیں ہوا تھا، لیکن اسی کم عرصہ میں اُنھوں نے بہترین اقدامات انجام دیئے۔ اور صنف کے سربراہ بن گئے  اور کارخانوں میں کچھ فلاحی کاموں کا آغاز کردیا۔ اینٹیں بننے والی جگہ کام کیلئے بدترین جگہ تھی۔ اُنھوں نے حکم دیا کہ تمام کارخانوں اور اینٹوں کے پلانٹ پر واش روم اور حمام ہونا ضروری ہے۔"

ابو الفضل توکلی بینا کے پاس بھی  ۵ جون ۱۹۶۳ء کے واقعہ میں بازاریوں کے رد عمل پر "ملک کی بے مثال ہڑتال"  کےعنوان سے ایک واقعہ ہے: " ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لوگوں کا ڈٹ جانا اور تہران کی مارکیٹوں کا ۱۴ دن تک بند رہنا جو ایران کی تاریخ میں بے سابقہ ہے، اس وجہ سے پہلوی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی۔ امام نے فرمایا: "اگر بازار نے انقلاب کی حمایت نہ کی تو انقلاب شکست سے دوچار ہوجائے گا۔" دو ہفتہ سے زیادہ بازار بند رہا تھا۔ "

سید اصغر رخ صفت، تہران کے جنوبی علاقے میں انقلاب سے پہلے سیاسی سرگرم اور مجاہد اور شہید حاج مہدی عراقی کے محلہ دار اور دوست، اس کتاب میں خاص طور سے بازار کے ماضی اور حال کے فرق کی طرف اشارے کرتے ہیں:"اُس زمانے کے بازار اور آج کے بازار  میں  زمین ، آسمان  کا فرق ہے! پچھلے زمانے میں لوگ پڑھے لکھے تھے،  عالم  تھے۔ صبح سویرے آکر مساجد میں بیٹھتے اور تجارت اور کام کے بارے میں علم سیکھتے ؛ پھر اپنے اپنے کام پہ جاتے  تھے ۔۔۔  حتی ہماری فیلڈ میں بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو آدھے مجتہد تھے اور اجتہاد کے قریب تھے لیکن وہ کام بھی کرتے تھے۔"

ایک زندگی کا اختتام

کتاب کا آخری مطلب حسین مہدیان کے ایک واقعہ سے مربوط ہے جو انقلاب سے پہلے بہت سرگرم اور فعال تھے، جنہیں زندہ شہید کہا جاتا ہے۔ مہدیان، شہید حاج مہدی عراقی کی شہادت کے آخری لمحات یعنی  اگست ۱۹۷۹ء کے دنوں میں شہید کے پاس تھے: "حادثہ والے دن، عراقی یہاں آیا۔ کچھ لوگوں کو  ٹیلیفون کرنے  کے بعد پیکان کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اور میں اُس کے برابر میں بیٹھ گیا۔ اور میرے پیچھے حاج مہدی کا بیٹا حسام بیٹھ گیا۔ اُس کے بعد جو محافظ تھا وہ بیٹھا۔ حق تقدم کی خاطر سڑک کے کنارے   رکے ہوئے تھے کہ وہ حادثہ پیش آیا۔ ایک موٹر سائیکل پر تین آدمی تھے۔ اُن میں سے ایک فٹ پاتھ پر بالکل سامنے کھڑا تھا۔ تاک لگائے بیٹھے تھے، ہمارے پہنچتے ہی فائرنگ شروع کردی۔ ہمیں ہسپتال لے جایا گیا۔ مجھے تین گولیاں لگی تھیں ۔۔۔۔"

راویوں اور تصویری حصہ کا مختصر تعارف

کتاب "سیمای یک مرد در انقلاب" کے شروع میں ،  شہید حاج مہدی عراقی کے بارے میں  امام خمینی ؒ، آیت اللہ خامنہ ای اور شہید آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی کے بیانات ہیں۔ امام خمینیؒ نے شہید کی تعریف میں  فرمایا: "میں انہیں تقریباً بیس سالوں سے جانتا ہوں۔ حاج مہدی عراقی میرے لئے بہترین، عزیز بھائی اور بیٹے کی طرح تھے۔ ان کا شہید ہوجانا میرے لیے بہت سنگین تھا، لیکن جو بات دل کو آرام پہنچاتی ہے وہ راہ خدا میں جان دینا ہے۔ تمام مسلمانوں کو اُن کی شہادت مبارک ہو۔ اُسے شہید ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ  بستر پر مرجانا اُس کے لئے چھوٹی سی بات تھی۔"

کتاب "سیمای یک مرد در انقلاب" میں رایوں کے بیانات کو مختلف فصلوں میں لانے کی خصوصیت کے علاوہ  ایک اور خاصیت ہے جو ایک مثبت نکتہ شمار ہوتی ہے؛ ہر فصل کے شروع میں، ہر راوی کی زندگی کو مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے۔

تصویری حصے میں، جبکہ تصویروں کی حالت اچھی نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کتاب کی تصویریں منفرد ہیں۔  ۱۸ اگست ۱۹۵۳ء کی بغاوت اور حکومت گرنے پر فوج کا سرور اور شاہ کی واپسی، ۱۸ اگست ۱۹۵۳ء کے دن ہونے والے واقعات کی وجہ سے  مختلف جھڑپیں،  تبریز کی سڑکوں پر T20 ٹینکوں پر زرہ سوار لشکر میں روسی افواج کا ہونا اور رعب ود بدبہ قائم کرنے کیلئے تہران میں برطانیہ اور روس افواج کی مشترکہ فوجی  پریڈ، ان میں اس طرح کی تصویروں کا شمارہوتا ہے۔

ایک جملہ میں کہا جائے کہ "سیمای یک مرد د ر انقلاب"، مارکیٹ اور بازار کے جلدی مجموعہ کی ایک کامیاب کتاب ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

* سیمای یک مرد در انقلاب: شہید حاج مہدی عراقی کی  زندگی کی پوشیدہ باتیں، مولف: سید مصطفی فرقانی، تہران، :فاتحان ۲۰۱۵ء، موسسہ فرہنگی ہنری رسول آفتاب کی کاوش، ص ۱۶۰۔



 
صارفین کی تعداد: 4141


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔