۲۷۱ ویں یادوں بھری رات

محلہ اصفہانک کے دلاروں کی داستانیں

سارا رشادی زادہ
مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2016-9-23


ایران کی زبانی تاریخ کی سائٹ کی رپورٹ کے مطابق، یادوں بھری رات کے سلسلہ کا ۲۷۱ واں پروگرام، آرٹ گیلری کے اندیشہ آڈیٹوریم میں جمعرات کی شام بمطابق ۲۵ اگست، ۲۰۱۶ کو منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں عبد الرضا طرازی جو ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کے وائرلیس آپریٹر تھے اور کربلا بٹالین کے ڈپٹی کمانڈر اور عراق کی طرف سے ایران پر تھونپی جانے والی آٹھ سالہ جنگ کے رہائی یافتہ رحیم قیمشی نے دفاع مقدس میں مغربی اور جنوبی محاذوں پر پیش آنے والے اپنے واقعات کو بیان کیا۔

جناب طرازی، ۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کے وائرلیس آپریٹر، جنہوں نے  بدر، خیبر،  والفجر ۸ اور اس کے علاوہ دفاع مقدس کے دوران بہت سے آپریشنوں میں شرکت کی، انہوں نے پہلی خطیب کے عنوان سے   محاذ پر رونما ہونے والے اپنے واقعات  کو بیان  کرتے ہوئے کہا: "جب کردستان کے محاذوں پر میری ڈیوٹی اپنے اختتام پر پہنچی اور جب میں تہران پلٹا، تو میں نے اپنے دوستوں کے اصفہانک محلے  کی احباب الحسین نامی مسجد میں یہ فیصلہ کیا کہ سب مل کر دوبارہ نام لکھوائیں اور سب ایک ساتھ کسی خاص علاقے میں جائیں۔ چند راتیں گزرنے کے بعد سب کی رائے اور بحث مباحثے کے بعد ہم نے ۱۴ افراد کی ایک ٹیم بنائی اور مالک اشتر چھاؤنی سے رابطہ کرکے اہل بار ]جر جنگی محاذ پر جانے کے لیے نام لکھوا دیئے۔  اور عین ۲۲ آبان ۱۳۶۱ والے دن اتفاق سے ہم سب  ایک ہی علاقے میں بھیجے گئے۔ یہ وہ دن تھا ، جب میں تیسری بار جنگی محاذوں پر جا رہا تھا اور میں مالک اشتر چھاؤنی کے صحن میں ایسے ہی کھڑا ہوا تھا کہ میرے ذہن میں وہ واقعہ آیا جو پہلی دفعہ جنگ پر جاتے ہوئے پیش آیا تھا ۔"

جوہری توانائی کے کیمپ میں

انھوں نے مزید کہا:"اس سفر میں مسجد احباب الحسین کی بسیج کے مسئول خلیل باجلانی بھی ہمارے ساتھ تھے  اور ہم سب ٹرین کے ذریعے اہواز گئے۔ اہواز پہنچنے کے بعد یہ جانے بغیر کے ہمیں کونسے علاقے میں جانا ہے، ہم جنگی سامان سے بھری  ایک بس میں  سوار ہوگئے۔ اہواز شہر سے باہر نکلنے کے بعد جب ہم نے سڑک کی سائیڈ پر ٹریفک سائن بورڈ پر نگاہ ڈالی تو ہمیں پتہ چلا کہ  ہم آبادان کی طرف روانہ ہیں۔ ہم آبادان کے قریب بس سے اُتر گئے اور ایک طولانی مسافت طے کرنے کے بعد ہمیں دور سے کنٹینرز بنا ہوا ایک کیمپ  دکھائی دینے لگا، ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہاں کے علاقائی لوگ اُس علاقے کو "آبادان کا ایٹمی پلانٹ" کہتے ہیں۔  اُس کیمپ کی بالائی سطح دریائی ریت سے ڈھکی ہوئی تھی، کنیٹینرز بہت ہی نظم اور ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے برابر میں رکھے  تھے اور ہر کنیٹینر کا اپنا مخصوص نمبر تھا۔ تھوڑا آرام کرنے کے بعد سب ہی لوگ بٹالین، گروپس، اور دستوں میں بٹ گئے  اور ہم ۱۴ افراد بٹالین ۳ کے تیسرے گروپ کے تیسرے دستے میں خلیل باجلانی کی نگرانی میں قرار پائے۔  اُن دنوں میں اگر فرصت میسر ہوتی تو لوگ دریا کی کالی، سفید، براؤن مٹی سے تصویر بناتے اور حتی اُس سے سجدہ گاہ، تسبیح اور لاکٹ بھی بناتے۔ اتنی زیادہ مشکلات ہونے کے باوجود ہماری یہ کوشش ہوتی کہ خود کو مصروف رکھیں۔"

جناب طرازی نے اپنے دوستوں ۱۴ نفری ٹیم کی داستان بیان  کرتے ہوئے کہا: "ان چودہ افراد میں سے ہمارے ایک دوست محمد ثقفی نے ہمارے گروہ کا نام " اصفہانک بریگیڈ" رکھ دیا تھا اور زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ہماری شیطانیوں اور  شرارتوں کی وجہ سے پوری بٹالین میں ہم چودہ لوگوں  کی  شہرت ہوگئی اور جب بھی کہیں کوئی حادثہ ہوتا تو سب کہتے: "یہ حتماً اصفہانک بریگیڈ والوں  کا کام ہے۔"

۲۷ ویں محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن کے وائرلیس آپریٹر نے  جوہری توانائی کے کیمپ  میں موجود مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس کیمپ کا حال بھی دو کوھہ کی چھاؤنی جیسا تھا۔ اُس کا کچھ حصہ ایئر فورس والے کے پاس تھا اور کچھ حصہ ہماری فورسز کے پاس تھا  اس چھاؤنی کے دونوں حصوں کو باڑ لگا کے تقسیم کیا گیا تھا۔ ان دنوں کی مشکلات میں سے ایک غذا کا نا کافی ہونا تھا  اور ہم میں سے کوئی بھی پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھاتا ۔ایک دن دوستوں کے ساتھ باڑ کے قریب کھڑے ہوئے تھے کہ خلیل باجلانی نے کہا: "میں باڑ کے اُس طرف جا کے دیکھتا ہوں کہ دوستوں کیلئے کچھ غذا لانے میں کامیاب ہوتا ہوں یا نہ۔" لیکن اپنی تمام تر کوشش کے باوجود وہ باڑ کو  عبور نہیں کرسکا، اسی وجہ سے ہم گئے اور ڈھونڈ کے ایک بیلچہ لائے اور زمین میں گڑھا کھودنا شروع کردیا اور ہم نے جناب خلیل کو باڑ کے نیچے سے ایئر فورس والی سائیڈ کی طرف بھیج دیا۔  بیس منٹ تک انتظار کرتے رہے کہ اچانک دیکھا کہ خلیل خوف کے عالم میں ہماری طرف بھاگتا ہوا آرہا ہےاور باڑ سے عبور کرتے ہی ہم سے کہنے لگا کنیٹینرز کی طرف بھاگو۔ جب تھوڑا فاصلہ بڑھا تو ہم نے اُس سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟" خلیل نے کہا: "جب میں ایئرفورس بلڈنگ  کی طرف گیا تو میں نے دیکھا کہ بہت صاف ستھری اور منظم عمارت ہے، لیکن وہاں کوئی بھی نہیں ہے۔ کچھ دیر ڈھونڈنے کے بعد جب مجھے کچن نظر آیا تو میں نے  دیکھا کچھ لوگ کچن میں تھے ، میں نے اُنہیں سلام کرکے حال احوال پوچھا اور میں نے اُن سے کہا کہ میرا تعلق بسیج سے ہے اور میں کھانے کی تلاش میں باڑ کی اس طرف آیا ہوں؛ لیکن میں جتنی وضاحت کرتا کہ میں کھانے کیلئے آیا ہوں،  وہ مستقل مجھ سے سوال کر رہے تھے کہ کون تمہیں اس طرف لایا ہے؟  اور اُس لحظے جب وہ آفسر کو فون کرنا چاہتے تھے،  میں وہاں سے خالی ہاتھ ہی بھاگ آیا۔"

جناب طرازی نے کہا:ایک  اور مشکل چینی کا کم ہونا تھا: "یہ مسئلہ زیادہ تر عمر رسیدہ اور سگریٹ پینے والوں کیلئے تکلیف دہ تھا۔  ایک خلیل باجلانی اور رضا مہریزی جو اُن دنوں حوزوی کلاس اٹینڈ کر رہا تھا، یہ دونوں  تیسری بٹالین کے ڈپٹی علی میر کیانی کے پاس گئے اور اُن سے کہا: "یہاں نزدیک میں  نخلستان موجود ہیں اگر آپ ہمیں کوئی گاڑی عنایت کریں تو وہاں سے کھجور لاکر اُسے شکر کے بدلے استعمال کرسکتے ہیں۔" ظاہراً خلیل کی بات صحیح تھی اس لئے وہ گاڑی لینے کامیاب رہا اور رضا مہریزی اور جناب ذو النور کے ساتھ وہ کھجور توڑنے چلے گئے۔  کچھ گھنٹوں بعد تین کھجور سے لدی گاڑی کے ساتھ واپس لوٹے اور کہنے لگے ہم نے بہت ہی مشکل  سے کھجور توڑے ہیں،  کیونکہ جب جناب ذو النور خرما توڑنے کیلئے درخت پر چڑھتے، عراقی توپیں پورے علاقے پر گولیاں برسانا شروع کردیتی۔ خلیل باجلانی اور رضا مہریزی  بھی خوف کے بارے میں کھجور سے لدی گاڑی لیکر فرار کرجاتے  ہیں اور جناب ذوالنور جو درخت پر سے مسلسل چیخ رہے تھے "مجھے اکیلے نہ چھوڑو" اُنہیں وہیں چھوڑ کر آجاتے ہیں۔"

احمد متوسلیان سے پہلی ملاقات

انہوں نے احمد متوسلیان کے واقعہ  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: " اکثر اوقات جب مغرب ٹائم ہوتا تو سب لوگ ایک جگہ جمع ہوجاتے اور والی بال کھیلتے۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ کھیل دیکھنے والے کی تعداد بہت زیادہ ہے، جب ہم نے دوسرے سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے، تو اُنھوں نے بتایا کہ  بریگیڈ کے سربراہ کھیل رہے ہیں، بہت زیادہ پوچھ گچھ کے بعد ہماری سمجھ میں آیا کہ بریگیڈ کے سربراہ  سے اُن کی مراد جناب احمد متوسلیان ہیں۔  اُس دن پہلی دفعہ میں نے جناب احمد متوسلیان کو دیکھا  اور یہ میرے لیے عجیب تھا کہ  کسی بریگیڈ کا کمانڈر بغیر کسی غرور و تکبر ، ننگے پیر اور مٹی سے اٹے لباس میں دوسرے کے ساتھ کھیل رہا ہے۔  اُسی وقت چند لڑاکا طیارے بہت ہی نیچی پرواز کرتے ہوئے ہمارے سروں پر سے گزرے اور کھیل رُک گیا۔ سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ یہ ایرانی فورسز تھیں یا عراقی کہ ایک دفعہ پھر لڑاکا طیارے ہمارے سروں پر سے گزرے  اور علاقے پر بمباری کی۔"

جناب طرازی نے کہا: "ایک دن باجلانی، رضا مہریزی کے ساتھ گروپ کمانڈر کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ ہمیں تین دن کی چھٹی مرحمت فرمائیے تاکہ ہم  چھاؤنی کی ضرورت کی چیزیں جمع لیکر آسکیں۔ جیسا کہ باجلانی نے سنایا، تہران پہنچنے کے بعد مختلف  کمپنیوں والوں جیسے پلاسٹک بنانے والی،  جرسی بنانے والی اور جوتے بنانے والوں سے  ہم نے بات کی اور اُنھوں نے مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے محلے کی بسیج کے لوگوں سے بھی بات کی  تاکہ گاڑی پر لاؤڈ اسپیکر لگا کر لوگوں سے مدد کرنے کا اعلان کریں  اور سب کچھ ملا کے تین ٹرک امداد جمع ہوئی۔  لیکن جب وہ لوگ جوہری توانائی کی چھاؤنی پہنچے تو پتہ چلا کہ سب دو کوہہ چھاؤنی منتقل ہوچکے ہیں۔ وہ لوگ بھی ٹرک لے کے دو کوھہ چھاؤنی آگئے اور وہاں امداد  کے سامان کو اتارا۔"

چھاؤنی میں پیش آنے والے اپنے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُنھوں نے  کہا: "ایک دن لوگوں کی امداد سے بھرا ہوا ایک ٹرک بریگیڈ پہنچا،  اتفاق سے میں بھی وہیں سے گزر رہا تھا کہ مجھے آواز دی اور کہا: "آؤ اور ہماری مدد کرو۔" جب میں اُن کے ساتھ سامان اُتار رہا تو میں نے راستے میں شکر کی ایک تھیلی  اپنے لیے اُٹھالی  تھی ۔  خلیل باجلانی نے کہا: "اُس دن جب ہم نے تمہیں دیکھا تو ہم سمجھ گئے تھے کہ تم نے کچھ اُٹھایا ہے، جب پتہ چلا کہ تم نے شکر اُٹھائی ہے تو ہمیں بہت خوشی ہوئی"  اور ہمارے پاس ناشتہ کیلئے روزانہ شکر ہوتی۔ ایک دفعہ ہم آبادان شہر کے اندر گئے اور  مجھے آبادان کی ٹوٹی پھوٹی تھانے کی بلڈنگ میں ایک  ہتھکڑی ملی  جو میں نے  اٹھالی ۔اُس نے ہمارا ایک اور دوست رضا زارع بھی ہمارے ساتھ تھا،  میں نے مذاق میں وہ ہتھکڑی اُس کے ہاتھ میں لگادی جبکہ اُس کی چابی بھی ہمار پاس نہیں تھی، وہ ہتھکڑی اُس کے ہاتھ پر بند ہوگئی۔  مزے کی بات یہ ہے کہ ہم جتنی کوشش کرتے  کام اُتنا ہی خراب ہوجاتا۔اُسی لمحے شہر کا گشت لگانے  فوجی وہاں سے گزرنے لگے تو خلیل باجلانی نے اُنہیں روک کر کہا: "ہم لوگ یہاں پر گشت لگا رہے تھے تو ہمیں ایک عراقی فوج مل گیا  ہم نے اُسے ہتھکڑی لگا دی ہے۔ آئیے اور اُسے پکڑ کر اپنے ساتھ لے جائیے۔" ادھر سے رضا بھی  اس وضعیت سے تھک چکا تھا اور اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا  تھا کہ کرے۔  بہرحال  ہم نے کچھ  ہنسی مذاق کے بعد   حقیقت کو اُن پر برملا کر دیا اور وہ رضا کو اپنے ساتھ لے گئے۔ طے پایا گیا کہ ہم اُن کے پیچھے ہیڈکوارٹر تک جائیں  تاکہ اُس کا ہاتھ کھول دیا جائے۔"

و الفجر کے ابتدائی آپریشن کیلئے تیاری

جناب طرازی نے دلاوروں کے درمیان موجود انجمن حجتیہ  کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا:"اس انجمن کے افراد لوگوں میں نفوذ کرچکے تھے اور یہ لوگ لوگوں کے مذہبی عقائد کو خراب کرنا چاہتے تھے۔ اس گروپ کا ایک بندہ ہمارے درمیان بھی موجود تھا جو دیکھنے میں صحیح لگتا تھا، لیکن جب بھی دعا شروع ہوتی وہ ابتداء میں ہی بیہوش ہوجاتا۔  ہر دفعہ محمد ثقفی اُسے کندھے پر اٹھا کر ہیلتھ سنٹر لے جاتا  اور اُسی حالت میں اُسے واپس بھی لے آتا۔ یہ آدمی جب بھی ہمارے کمرے میں آتا  مختلف لوگوں کی طرف رُخ کرتا اور ہر کسی سے  ایک نئی بات کرتا۔ مثلاً کسی سے کہتا کہ میں نے بیہوشی کے عالم  میں دیکھا کہ گولی بالکل تمہاری پیشانی کے بیچ میں لگی،  کسی اور سے کہتا کہ تمہارا ہاتھ کٹ جائے گا اور کسی کو اطلاع دیتا کہ تم اپنا پیر گنوا بیٹھو گے ، خلاصہ یہ کہ ہم ہمیشہ اس انتظار میں رہتے کہ دیکھیں ہمارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ بالآخر اس گروپ کا راز فاش ہوگیا اور سب گرفتار کرلیئے گئے۔ کچھ عرصہ بعد دو کوھہ سے ایک پراسیکیوٹر ہماری چھاؤنی آئے اور اُنھوں نے اُن کے  جرائم کو پڑھ کر سنایا اور ہم سمجھ گئے کہ اُن کے سزا میں سے ایک سزا بھرے مجمع میں کوڑے کھانا ہے۔ وہیں پر محمد ثقفی نے کہا: "یہ آدمی جب بھی بیہوش ہوتا تھا میں اُسے اٹھاکر لے جاتا تھا۔" قصاص کیلئے  طے پایا کہ محمد ثقفی جو لمبے قد کا ہٹا کٹا تھا ، وہ محمد ثقفی کو کندھے پر بٹھا کے چند چکر لگائے، لیکن پہلے ہی چکر  میں اُس کی سانس اُکھرنے لگی ، محمد ثقفی نے اُسے پہلے ہی چکر میں معاف کردیا اور اُس کا قصاص ختم ہوگیا۔"

اُنھوں نے دو کوھہ چھاؤنی کی صبح کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا: "ایک دن صبح ہی صبح اعلان ہوا کہ اپنے گروپ کیلئے کسی خاص نام  کو اختیار نہ کریں  اور ہم سب سمجھ گئے کہ اُن کا مطلب  اصفہانک بریگیڈ ہے۔ ایک دن طے پایا کہ  فوجی ٹریننگ انجام دی جائیں جو و الفجر کے ابتدائی آپریشن کا جزء تھی۔ اُس ٹریننگ میں ہم دو کوھہ چھاؤنی کے جنوب مغربی  حصے سے لیکر اندیشمک  کے طولانی راستے کو پیدل طے کیا ۔ تقریباً اکتوبر کا آخر تھا اور سردی بھی بہت شدید تھی، ہماری بٹالین  کے آگے چند بٹالیں اور ہمارے پیچھے دو بٹالین حرکت میں تھی۔ چلنے کی تھکاوٹ کی وجہ سے استراحت کرتے وقت اصفہانک دستہ  سوجاتا اور ہمارے پیچھے آنے والی دوسری دو بٹالین بھی اس وجہ سے وہیں پہ رک جاتی کہ سب کے سب استراحت کر رہے ہیں۔  ابھی آدھا ہی گھنٹہ گزرا تھا کہ میر کیانی سمجھ گئے کہ ماجرا کیا ہے اور  وہ ہمارے پیچھے چلنے گئے۔ یہ بات بھی کہتا چلوں کہ اُس زمانے یعنی  سن ۱۹۸۲  میں رائج تھا کہ سگریٹ پینے والے افراد کو ، سگریٹ کا کوٹہ دیا جاتا تھا البتہ بعد میں اسے ختم کر دیا گیا۔ اُس دن علی میر کیانی نے ہمارے مسئول خلیل باجلانی جو اصفہانگ بریگیڈ کے سربراہ تھے ، کا سگریٹ کا  کوٹہ بند کردیا ۔"

جناب طرازی نے و الفجر کے ابتدائی آپریشن   کے شروع میں پیش آنے والا ایک اور واقعہ سنایا: "آپریشن کے آغاز کیلئے ہمیں چنانچہ کے علاقے میں لے گئے  جو حضرت رسول  گاؤں کے نام سے بھی مشہور تھا۔ اُس آپریشن میں بریگیڈ محمد رسول اللہ (ص)، آپریشن کا آغاز کرنے والی بریگیڈ نہیں تھی  اور طے  تھا کہ ہم بعد والے مراحل میں وارد آپریشن ہوں۔  جس رات کی صبح ہم نے آپریشن میں وارد ہونا تھا، ہم نے دیکھا کہ کوئی آثار نہیں ہیں۔ کوئی بھی وضاحت دینے نہیں آرہا اور کوئی بات بھی نہیں کی جارہی،  افواہ اُڑ گئی تھی  کہ آپریشن شکست سے دوچار ہوگیا ہے اور ہم سب جنگل میں انتظار کر رہے تھے۔  تھوڑا وقت گزرنے کے بعد بھی ہم  منتظر اور بیکار تھے۔ ایک دن ہمارا ایک ساتھی جس کا نام جلال شاہ محمدی  تھا وہ اپنے ساتھ ایک سبزی لایا  تھا جسے وہ سبزی کھانے لگا  اور کہا  ہمارے گاؤں میں یہ گیاہ جو قاسم کے نام سے مشہور ہے  جو بہت ہی لذیذ ہے،  ہم نے بھی تھوڑا سا کھایا سب کو پسند آیا۔ جیسا کہ ہم بیکار بیٹھے تھے  اسی وجہ سے ہم سب جنگل میں پھیل گئے  اور مغرب تک جو قاسم نامی گیاہ چننے میں لگے رہے۔"

۱۹۰۴ کی بلندی پر آپریشن

انھوں نے مزید کہا:"اس سفر میں ، ہم چودہ افراد میں سے کوئی بھی زخمی نہیں ہوا  اور بعد  میں بھی ہم سب اکٹھے والفجر ۴ آپریشن کیلئے محاذ کی طرف گئے اور حمزہ بٹالین  میں جناب حسن زمانی کی سربراہی میں قرار پائے۔ اُس آپریشن میں اصفہانگ بریگیڈ کے ۹ افراد من جملہ محمد ثقفی  درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔  آپریشن شروع ہوتے ہی فائرنگ شروع ہوگئی اور ہم نے علاقے کی بالاترین بلندی جو ۱۹۰۴ میٹر تھی اُس کو سر کرنا تھا، فائرنگ کی وجہ سے فوجی لائن اس طرح سے درہم برہم ہوگئی تھی کہ میں  وہاں پر سٹین گن سے فائرنگ کرنے والے کا مددگار تھا اور تمام گولیاں میرے پاس تھیں ، وہ فائر کرنے والا اُنہی ابتدائی لمحات میں   کھو جاتا ہے۔ جس طرح سے بھی ہوسکا اونچائی تک پہنچ گئے  اور اتنی شدید گولہ باری تھی کہ ہمیں ظہرا تک مجبوراً  پیچھے ہٹنا پڑا۔ اُس پوری بٹالین میں سے صرف ایک دستہ باقی بچا تھا۔"

جناب طرازی نے اس آپریشن کے راستے کی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اندھیرا چھا چکا تھا اور  اور جب بھی لائٹ ماری جاتی ہم اُن کی دید میں ہوتے، ایک دفعہ جب لائٹ ماری گئی  اور ہم سب لوگ سوئے ہوئے تھے، میں علی خوب بخت کو ہلا ہلا کر اٹھا رہا تھا، لیکن وہ نہیں اٹھ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ اُس کے سر میں گولی لگی ہوئی ہے اور وہ شہید ہوچکا ہے، لائن ایک دفعہ پھر درہم برہم ہوگئی اور آدھے لوگ ختم ہوچکے تھے۔ سب ہی وحشت کے عالم میں اندھیرے میں کھڑے ہوئے تھے کہ اُنہیں ہمارے نہ ہونے کا احساس ہوا اور ہمیں ڈھونڈنے میں لگ گئے ۔ تین بعد  دوبارہ تیار ہوکر علاقے کی طرف پلٹے اور آپریشن کو جاری رکھا۔ اس آپریشن میں سردی اتنی زیادہ تھی کہ  ہم شہید ہونے کیلئے تیار تھی، لیکن تھوڑا سا سونا مل جائے۔  طے پایا گیا کہ ۱۹۰۴ کی بلندی پر تین اطراف سے چڑھا جائے؛ اوپر جاتے ہوئے گروہ کا ایک آدمی جو دوسرے راستے سے اوپر آرہا تھا،  اُس نے غلطی سے مالرو ہائی کے کنارے کو دیکھ لیا اور اُسے گمان ہوا کہ خندق کا کنارہ ہے،  اُس نے چیخ کر "اللہ اکبر" کہا  اور سب کچھ برملا ہوگیا اور لڑائی شروع ہوگئی، لیکن اتفاق سے ہم لوگ پہلے پہنچ کر نجات پانے میں کامیاب ہوگئے، لیکن ہم ہل بھی نہیں سکتے تھے۔ ہم نے دشمن کی طرف فائرنگ شروع کردی  اُسی وقت میرے پیچھے ایک ہینڈ گرینڈ   آکر گرا اور اُس کا ایک ٹکڑا میرے پاؤں میں گھس گیا  اور پھر دوسرے ٹکڑے میرے ہاتھ اور بازو میں بھی لگے اور میں زخمی ہوگیا۔  میں نے اس حالت میں اپنے اسلحے کا سہارا لیتے  پیدل چلتے ہوئے خود کو پہاڑ کے نیچے تک پہنچایا۔"

نائٹ ڈیوٹی دینے والے سے مذاق

رحیم قمیشی بھی دفاع مقدس کے اوائل میں رضا کارانہ طور پر سپاہ پاسدران میں شامل ہوکر  جنگی محاذ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ اُنھوں نے اپنے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا: "جنگ تحمیلی کے زمانے میں منصور شاکریان نامی میرا ایک دوست تھا جو شہید ہوچکا ہے۔  وہ اس زمانے میں  جنگ محاذ پر مقابلے کرواتا تھا   اور کہتا تھا کہ جو کوئی بھی مجھے ہرانے میں کامیاب ہوجائے اُسے انعام  ملے گا،  لیکن وہ اتنا ہٹا کٹا تھا کہ کوئی بھی اُس ہرا نہیں سکتا تھا۔ وہ ہمارے ٹیلی فون ایکسنچ کے انچارج تھے  اور تاروں کو سیٹ کرتے تھے،  جیسا کہ راتوں کو تار کٹ جانے والا مسئلہ بہت ہی دشوار تھا ، طے پایا کہ رات میں جب بھی کوئی مشکل پیش آئے تو منصور نئے تاروں کا ایک بنڈل لے جائے اور اُنہیں بدلنے کا کام انجام دے۔ ایک رات ہم لوگ خندق میں سو  رہے تھے کہ محمد رضا آزادی جو نائٹ ڈیوٹی دے رہا تھا کی چیخ سے  ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ محمد رضا بضد تھا کہ اُس نے جن دیکھا ہے  اور ہم اُس کو پرسکون نہیں کر پا رہے تھے۔ تھوڑا وقت گزرنے کے بعد جب ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ منصور خندق میں نہیں ہے، ہمیں جیسے منصور کہ نہ ہونے کا شک ہوا، ہم سب گئے کہ اُس نے مذاق میں تاروں کے بنڈل کو سر پر رکھ کر نائٹ ڈیوٹی کرنے والے کو ڈرایا ہے۔"

یادوں بھری رات کے سلسلے کا ۲۷۱ واں پرگروام  ۲۵ اگست، ۲۰۱۶ ء کو جمعرات کی شام  آرٹ گیلری کے اندیشہ آڈیٹوریم میں ، اسٹڈیز، لٹریچر، کلچر ریسرچ سنٹر کی کاوشوں سے منعقدہوا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 3700


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔