۲۷۰ ویں یادوں بھری رات

نہر اروند میں ہونے والے آپریشن کی داستانیں

سارا رشادی زادہ
مترجم: سید مبارک حسنین زیدی

2016-9-8


ایران کی زبانی تاریخ کی  ویب سائٹ  کی رپورٹ کے مطابق، یادوں بھری رات کے پروگرامز کے سلسلے کا ۲۷۰ واں پروگرام ۲۸ جولائی، ۲۰۱۶ء کو جمعرات کی شام حوزہ ہنری کے سورہ  آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔  اس پروگرام میں سید الشہدا (ع) ڈویژن نمبر ۱۰ کے دلاور محمد رضاجعفری اور محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن نمبر ۲۷ کے وائرلیس آپریٹر عبد الرضا طرازی نے شرکت کی اور عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ  اور دفاع مقدس میں اپنی گزری یادوں کو بیان کیا۔

جناب جعفری جنہوں نے  والفجر ۸ اور کربلائے ۵ میں شرکت کی تھی، اُنھوں نے پہلے مقرر کے طور پر اپنی یادوں کے دریچوں کو وا کرتے ہوئے کہا: "آرٹ گیلری میں غوطہ ور شہداء کی تدفین ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت ہوچکا ہے اور اُن کی یاد ہمارے دلوں میں ابھی تک باقی ہے۔ جس طرح اُس زمانے کی ریکارڈ شدہ ویڈیوز اور فلموں میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ میں ایران کی فوج میں زیادہ تر کم سن لڑکے شامل تھے؛  لیکن یہی بچے اپنے چھوٹے جسم اور کم عمری کے باعث نہر اروند کو عبور کرکے دشمن کی خطوط میں شامل ہونے میں کامیاب رہے۔"

اُنھوں نے اُس وقت کی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ہماری اور سپاہیوں کی ایک مشکل یہ تھی ہم بقیہ سپاہیوں اور انٹرویو لینے والوں کو  آسانی سے اپنے مشکلات بیان نہیں کرسکتے تھے،  کیونکہ جاسوسی کی وجہ سے ہمیں کسی پر اعتماد نہیں تھا اور  ایک طرف سے ہم انٹیلی جنس مسائل کی وجہ سے بھی پریشان تھے۔"

جناب جعفری نے  اپنی گفتگو کے دوران  سپاہیوں کی عمروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: " ۱۹۸۴ء سے لیکر ۱۹۸۶ تک کے آپریشن میں شرکت کرنے والی دلاوروں کی  عمر تقریباً ۱۹ سے ۲۰ سال تک تھی  اور شہداء کے مزار پر رجوع کرکے  اس کا مجموعی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ سن ۱۹۸۶ء جنگ کے سخت ترین سالوں میں سے  تھا  اور اسی سال سب سے زیادہ لوگ شہید ہوئے ہیں؛ کیونکہ بہت ہی تھوڑے عرصہ میں شدید آپریشنز کئے گئے؛ اس طرح سے کہ ۱۹۸۶ء میں ہماری ڈویژن نے ۵ آپریشنز میں شرکت کی اور کربلائے ۵ آپریشن بھی ۵ مرحلوں میں انجام پایا۔ یعنی میں نے خود ایک لشکر کی سپاہی کے عنوان سے ایک سال میں ۱۰ آپریشنز میں شرکت کی۔ اس بات کا جنگی دستاویزات اور کتابوں میں بھی ذکر  ہوا ہے اور مجھے یاد ہے کہ ایک جگہ لکھا ہوا تھا: " جو ۱۹۸۶ء  میں  میدان جنگ میں حاضر نہ ہوسکا یعنی اس نے نے اصلاً دفاع مقدس میں شرک  ہی نہیں کی۔" اس سال بہت سے آپریشن  ہوئے  جو کربلائے یک سے شروع ہوکر کربلائے ۵ تک جاتے ہیں۔ "

اُنھوں نے اپنے واقعات کے بیان میں مزید کہا: " سن۱۹۸۵ء کے اواخر میں بھی ہم نے سخت ترین آپریشنز کئے کہ جن میں سے والفجر ۸ آپریشن کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ آپریشن پانی پر بھی انجام پایا اور خشکی پر بھی، پانی پر ہونے والا آپریشن ام الرصاص کے نام سے مشہور ہوا اور  اسی نام سے منسوب ایک جزیرہ اس سے ۹ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔خشکی پر ہونے والا یہ آپریشن عراق کے شہر فاو میں انجام پایا اور یہ بھی بتاتا چلوں کہ ۱۹۸۶ء کے اوائل تک  ہم و الفجر ۸ آیریشن میں ہی مصروف رہے۔ "

ہم نشاندہی کرنے والے گروپ کے ساتھ کئی دفعہ پانی میں سے گزرے

جناب جعفری نے ہر آپریشن سے پہلے فوجیوں کی آمادگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ایرانی فوجیوں نے اس آپریشن کے دوران صرف ایک  دفعہ نہر اروند کو پار نہیں کیا، بلکہ اپنی ٹریننگ کے دوران کئی بار اروند اور دز کی نہروں کو عبور کیا اور جھیل آزادی، بندر انزلی اور بوشہر میں غوطہ خوری کی ٹریننگ سینٹر میں ٹریننگ کی۔ ہر فوجی ہر طرح کی شرائط میں بعثی دشمن کا مقابلہ کرنے کی آمادگی میں اپنے اسلحہ اور وسائل کو مختلف طریقوں سے چیک کرتا جیسے پانی سے گزرنا اور اپنے ضروری وسائل کی تعداد  کی بھی چیکنگ کرتا۔ میں اُس زمانے میں تباہ کرنے والے یونٹ میں تھا اور کربلائے ۴، کربلائے ۵ اور والفجر ۸ میں ہمارے یونٹ کا کام یہ تھا کہ ریگولر  انٹیلی جنس فورسز کے ساتھ پانی کو عبور کریں اور واپس آئیں تاکہ  نشاندہی کرنے والا کام انجام دے سکیں۔ ام الرصاص آپریشن میں جو کہ و الفجر ۸ آپریشن کا واٹر سیکشن تھا، نشاندہی کرتے ہوئے ہمارے دو ساتھی شہید ہوگئے۔ اسی کے ساتھ اسی آپریشن میں ہمارے تین ساتھیوں کو  ام الرصاص جزیرہ میں داخل ہوتے ہی  اُجالے کا سامنا کرنا پڑا اور وہ  مجبور ہوگئے کہ ۲۴ گھنٹے تک جزیرے میں چھپے رہیں تاکہ رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے واپس پلٹیں۔ ہم پانی سے گزرنے والے ان آپریشن میں پانی میں آنے والے بھنور کی شرایط کو بھی چیک کرتے تھے۔"

اُنھوں نے اروند نہر میں بھنور کی سخت شرائط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "جیسا کہ نہر اروند خلیج فارس میں جاکر گرتی ہے، بھنور کی صورت میں اس نہر کا پانی ایک دو میٹر اوپر تک آجاتا اور پانی کی رفتار نہر کی معمولی رفتار سے کئی گنا بڑھ جاتی۔ اس طرح سے کہ جب ہم ایسی شرائط میں  نہر کو عبور کرتے تو مشخص شدہ جگہ سے تین سو میٹر آگے جا پہنچتے۔ اس کے علاوہ ہم نہر کی چوڑائی میں تیراکی کرتے ہیں، نتیجتاً ۳۰۰ میٹر ترچھا تیرتےہیں، پانی ہمیں ادھر سے اُدھر لے جاتا ہے اس طرح ہم تقریباًٍ ۹۰۰ میٹر تیرتے۔ ان تمام موارد کی آپریشن سے  پہلے ماہرانہ اور  ٹیکنیکی چھان بین ہونی چاہیے۔"

سردیوں میں غوطہ  خوری کی ٹریننگ

اُنھوں نے اپنی گفتگو میں کہا: "ہمیں  ہر دفعہ نشاندہی کرنے کے بعد فوجیوں کو ٹریننگ دینی چاہیے تھی اور کچھ امور جیسے پانی کی سطح پر دھماکہ اور اس سے روبرو ہونے کی شرائط،  اچانک پھٹ جانے والے بمبوں سے روبرو ہونے اور اُن کو ناکارہ بنانے کی ٹریننگ دیتے۔ کیونکہ دشمن نے فرنٹ لائن پر دھماکہ خیز مواد کو اس طرح سیٹ کیا گیا تھا کہ ایرانی فوجی واپس پلٹنے کی صورت میں زخمی ہوجاتے۔ ہم نے سردیوں اور دسمبر میں اپنے ٹریننگ کا آغاز کر دیا تھا۔ اس شرائط میں ٹمپریچر کے حوالے سے جس علاقے کا  پانی فوجیوں کیلئے مناسب تھا وہ جنوب کا علاقہ تھا؛ لیکن اس حال میں بھی دسمبر کے مہینے میں جنوب کی نہروں کا پانی ٹھنڈا تھا اور پانی میں داخل ہونے کے بعد ہمارے فوجیوں کے دانت اس طرح بجنے لگتے کہ فوجیوں کے ہونٹوں کے اطراف سوجھ جاتے۔ البتہ پانی میں ٹریننگ کیلئے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس مسائل کی وجہ سے بعض فوجیوں کو دوسری جگہوں پر جیسے کچھ کو تہران، کچھ کو بوشہر اور بعض کو بندر انزلی میں ٹریننگ دی گئی۔ شدید سردیوں میں دی جانے والی ان ٹریننگ میں ہم اپنے فوجیوں کو پوشیدہ بمبوں اور ٹریپنگ سے روبرو ہونے کی ٹریننگ دیتے تھے۔ "

جناب جعفری نے کہا: "ایسی شرائط میں، کیونکہ ہمارا شمار غوطہ ور فوجیوں میں سے ہوتا تھا، ہم غوطہ وری کے مخصوص جوتوں کے   نیچے فوجی جوتے نہیں پہن سکتے تھے اور ہمیں مجبوراً کشتی والے جوتے پہننے پڑتے تاکہ لہروں  کے درمیان فوجی آپریشن انجام دیں سکیں۔ تمرینات کے دوران کئی مرتبہ جوتوں کے تسموں کو باندھتے تھے، لیکن پانی کا پریشر اتنا زیادہ ہوتا تھا کہ نہر کی دوسری طرف  پہنچنے تک ہمارے جوتوں کے سارے تسمے   کھل جاتے تھے اور ہم زمین پر گرتے رہتے۔ اس بناء پر آپریشن کے دوران جنگی شرائط کچھ اس طرح کی تھیں تسمے باندھنے کی فرصت نہیں ملتی اور فوجی اپنے اسلحہ اور وسائل کے ساتھ کئی بار زمین پرگرتے  اور اُن کا چہرہ اور پورا بدن کیچڑ اور مٹی میں لت پت ہوجاتا۔ اس بات کا مشاہدہ ریکارڈ ہونے والی فلموں میں بھی کیا جاسکتا ہے۔"

کسی اور ہی ساحل اور کنارے پر پہنچ گئے

جناب جعفری نے ام الرصاص آپریشن کی جزئیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:"ام الرصاص آپریشن میں ہماری ڈیوٹی یہ تھی کہ  اپنے ساتھ دھماکہ خیز مواد لیکر جائیں تاکہ نہر کے اُس پار پہنچنے تک راستے میں آنے والی رکاوٹوں مثلاً آہنی رکاوٹوں کو اُڑا سکیں۔ یہ دھماکہ خیز مواد سی فور ڈیٹونیٹ  کے ۲۰ قالب میں ہوتا تھا کہ ہر ایک کا وزن ۶۵۰ گرام تھا۔ ۱۲۰ میٹر دھماکے کا فیتہ، فیوز اور بارودی فیتے، ان سب نے ہمارے ہر فوجی کو ایک موبایل بمب بنا دیا تھا۔ سی فور ڈیٹونیٹ کو اپنے سینوں پر باندھ لیتے تھے تاکہ پانی کے اندر  کشش ثقل کی وجہ سے پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ اُس آپریشن میں ۵ سے ۷ غوطہ وروں کے گروہوں کی شکل میں ستونی صورت میں پانی اُترے اور ہم نے اپنے سروں پر بوریوں کی چھتری بنائی ہوئی تھی تاکہ پانی پر چاند کا عکس ہمارے وجود کا بھانڈا نہ پھوڑ دے۔ ابھی پانی میں تھوڑا آگے ہی گئے تھے کہ دو ایسی مشکلات کا سامنا ہوا کہ جنکے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ پہلی مشکل، بوریوں کی وجہ سے ہمارے چہرے پر شدید خارش ہونے لگی  اور دوسری مشکل یہ تھی کہ پانی میں جاتے ہی بوری گیلی ہوگئی، جس کی وجہ سے ہم اپنے ساتھیوں کو  نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ لہذا اس وجہ سے ہم نے بوریوں کو چھوڑ دیا۔ ہماری شکلیں بغیر کسی حجاب کے دشمن کے سامنے تھیں اور ہمیں خطرہ تھا کہ  دشمن کا واچ مین ہمیں دیکھ نہ لیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس لڑائی میں  دشمن جن اسلحوں سے لیس تھااُن کے نام یہ ہیں:  دوشکا میزائل، ایک سطح کی ۵/۱۴، دوہری سطح کے ۵/۱۴ اور ۲۳ اینٹی ایئر کرافٹس۔

جناب جعفری نے  آپریشن میں پیش آنے والی غیر متوقع مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اظہار نظر کیا: "ہماری فورسز اس کے باوجود کہ اُنھوں نے مختلف نہروں  میں ٹریننگ حاصل کی تھی، لیکن جب وہ نہر اروند کی چوڑائی کی طرف متوجہ ہوئیں تو اُنہیں پتہ چلا کہ اس نہر کی شرائط دوسری نہروں سے فرق کرتی ہے اور یہاں پر پانی کی رفتار ۶۰ کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اور اوپر سے آپریشن کی ٹینشن بھی سوار تھی۔ ان شرائط کی وجہ سے سب نے دعا اور بلند آواز میں ایک دوسرے سے باتیں کرنا شروع کردیں کہ اچانک ٹپ ٹپ بارش شروع ہوگئی  اور اس وجہ سے ہمارے فوجی دشمن کی دید سے محفوظ ہوگئے، لیکن دوسری طرف سے ایک مسئلہ اور پیش آیا، تیز بارش ہونے کی وجہ سے موجیں بھی بلند ہونے لگی اور کبھی ہمارے قریب سے ایک میٹر لمبی لہر گزرتی اور ہم مستقل چپّو چلاتے رہتے تاکہ پانی میں ڈوب نہ جائیں۔ اس بات کی وجہ سے ۵ غوطہ ور فوجی، جو فاو کے علاقے سے کسی دوسری بٹالین سے آئے تھے، وہ پانی میں ڈوب گئے اور درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔"

جناب جعفری نے پیش آنے والی شرائط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ہم ڈوبنے کے ڈر سے مسلسل فریاد کر رہے تھے اور جیسے ہی بارش تھمی ہمیں اپنے پیروں کے نیچے زمین کا احساس ہوا ، ہم سمجھ گئے کہ دشمن کا ساحل آگیا ہے۔ ہماری قسمت اچھی تھی کہ ساحل کے اطراف میں اُگی جھاڑیوں میں مو جود مینڈکوں نے شور مچانا شروع کردیا اور ہم جبکہ عراقی فورسز سے ۳۰ میٹر کے فاصلے پر تھے لیکن ہماری آوازیں اُن کی آوازوں میں دب گئیں۔ بہرحال نہر میں لہروں کے بپھرنے کی وجہ سے ہم ساحل سے ۳۰۰ میٹر کے بجائے ۳۸۰ میٹر  کے فاصلے پر کہیں اور پہنچ گئے تھے۔ اسی وجہ سے ہم نے پھسلتے ہوئے اور نہر کے کنارے لگی ہوئے خاردار تاروں اور گھانس پھونس کو پکڑتے ہوئے  خود کو اپنی معین جگہ تک پہنچایا۔ ہمارے پہنچنے کے بعد، کمانڈر نے کہا: "اپنے گولہ بارود کھڑی کی گئی کو رکاوٹوں پر  رکھ دو۔" طے یہ تھا کہ این گولہ بارود کو اُس وقت فکس کیا جائے جب فرنٹ لائن کو شکست دیدی جائے اور افراد جنگ میں مشغول ہوں، کیونکہ ہمیں دشمن کی لائن کے ساتھ ساتھ حرکت کرنی تھی۔ ایسی صورت حال میں پوشیدہ نہیں رہا جاسکتا  اور ہر کوئی و اضح طور پر نظر آرہا ہوتا ہے۔ یہ خبر سننے سے ہم سمجھے کہ ہمارے فوجی فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں اور ہم نے اپنا کام شروع کردیا  اور بمب لگانے شروع کردیئے  کہ ہمیں عراقی فوجیوں کی طرف سے گن لوڈ کرنے کی آ واز آئی، ہمیں اُس وقت پتہ چلا کہ دشمن کی فرنٹ لائن پر تو ابھی حملہ ہوا ہی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم اپنے کام میں تیزی لائے اور اپنے کمانڈر حاج قادر سے جا ملے تاکہ اُنہیں  اپنے کام کی اطلاع دیں۔ اُنھوں نے ہم سے کہا ابھی آپریشن شروع نہیں ہوا ہے اور دستور کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ "اللہ اکبر" کی صدا سے آپریشن کا آغاز کریں۔"

پانی کی دوسری طرف سے علامت دینا

جناب جعفری نے کہا: "تین بلند تکبیروں سے آپریشن کا حکم صادر ہوا اور ہماری فورسز دشمن کے مورچوں کے پیچھے پہنچ گئیں اور ہم نے بھی تکبیر کی آ واز سنتے ہیں فیتوں کو آگ لگانا شروع کردیا۔ مطمئن ہونے کیلئے ہر فیتے کو دو دفعہ جلایا جاتا۔ میں پانی میں چلا گیا تاکہ رسی کو پکڑلوں اور میں تقریباً دھماکے کی جگہ سے ۱۰ قدم کے فاصلے پر تھا۔  چند لمحوں بعد دھماکہ ہوا اور مسلسل میرے ذہن میں یہ بات رہی کہ تمام آہنی رکاوٹیں ہمارے جسموں میں  پیوست ہوجائیں گی۔ جب میں پانی سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا وہ تمام آہنٹی رکاوٹیں پھٹ چکی ہیں اور زمین پر بکھری ہوئی ہیں۔  اس کے بعد خاردار تاروں کو کاٹنے کا مرحلہ شروع ہوا  اور ہم نے گیلے ہاتھوں کے ساتھ اور دستانوں کے بغیر   خاردار تاروں کو کاٹنا شروع کردیا اور پھر اُنہیں پانی میں کھینچ لیتے تاکہ اُس کے ذریعے ۵۰ میٹر لمبی ایک ساحلی دیوار بناسکیں کیونکہ آدھے  گھنٹے بعد کشتیوں نے ہمیں لینے آجانا تھا۔"

کردستان میں سخت شرائط کا سامنا

عبد الرضا طرازی، محمد رسول اللہ (ص) ڈویژن نمبر ۲۷ سے تعلق رکھنے والے ایک اور مہمان جنہوں نے میدان جنگ  میں پیش آنے والے اپنے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "محاذ جنگ پر جانے کے بعد، میں ابتدائی ایام میں کسی رات ایک خندق میں بیٹھا ہوا تھا  کہ میرے ایک ساتھی عباس نوری نے مجھ سے کہا: "اس لالٹین کے شیشے کو صاف کرلو تاکہ رات میں جلا سکیں۔" جب میں لالٹین کے چراغ کو صاف کر رہا تھا تو اُس نے مجھ سے کہا: "چراغ مجھے دیدو، تم شہری لوگوں کو یہ کام نہیں آتا۔ ہم دیہاتیوں کی اسی کام میں زندگی گزری ہے۔" تھوڑی بات چیت کے بعد پتہ چلا کہ ہم دونوں کا تعلق خمین سے اور وہ میرے والد صاحب کو جانتا ہے۔ اسی لئے وہ ہمیشہ میرا خیال رکھتا۔"

انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران کردستان میں پیش آنے والی داستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: " سن ۱۹۸۲ء میں ہمیں کردستان بھیجا گیا اور اُس زمانے میں کردستان کے حالات ایسے تھے  کہ اگر کوئی بسیجی کوملہ گروپس کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتا تو وہ اُس کا سر کاٹ دیتے۔ ہم پہلے کرمانشاہ گئے پھر سقز میں وسائل سے لیس ہوئے۔ وہاں ہمیں جی تھری گن دی گئی اور بتایا گیا کہ کوملہ اور ڈیموکریٹک افراد کے پاس فقط کلاشنکوف ہے  اور فائرنگ کے وقت صرف آواز سے سمجھا جاسکتا ہے کہ فائرنگ کس طرف سے ہو رہی ہے۔ ہم سخت سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ یعنی کچھ ایسی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں جن میں دوشکا میزائل اور بسیجی فورسز کی گاڑیوں کے آگے پیچھے آر پی ج نصب تھی، سقز سے بانہ کی طرف چلے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب آپ لوگ شہر بانہ میں سپاہ کے گیٹ پر پہنچیں گے تو شہر کے لوگ فوجیوں کے ردّ و بدل  کو دیکھنے کیلئے بلڈنگ کے سامنے جمع ہوجاتے ہیں اور اُن میں لوگوں میں کوملہ اور ڈیموکریٹ پارٹی کے جاسوس بھی ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ کوئی بات اور مذاق کئے بغیر اور نہایت ہی سنجیدہ حالت میں شہر میں داخل ہوں تاکہ لوگ آپ  کو نہایت ماہر اور عمدہ فوجی کے تصور کریں۔  اس کے علاوہ ہم ہر دفعہ چھٹی پر جانے اور شہر میں آنے کیلئے مکمل فوجی وسائل سے لیس ہوتے اور گروہ کی صورت میں حرکت کرتے تاکہ کوملہ اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے حملوں سے محفوظ رہیں۔"

جناب طرازی نے اُس زمانے میں کردستان حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی: اُس زمانے میں شہر بانہ میں صرف ایک ہی پٹرول پمپ تھا کہ جسے ہر ہفتے آگ لگادی جاتی۔ ہم بانہ میں موجود سپاہ کی چھاؤنی میں پہنچنے کے بعد تقسیم ہوگئے اور ہر گروہ بانہ  یا  سردشت کی کسی ایک چھاؤنی میں جاتا۔ میں بھی گاڑی پر سوار ہوگیا اور ہم سخت سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ شہر بانہ کے نزدیک ایک گاؤں کوخان کی طرف گئے۔ اس گاؤں میں ہمارے رہنے کی جگہ محلے کی مسجد تھی۔ اس مسجد میں پتھروں سے بنا ہوا ایک حوض تھا، میں نے وہاں پہنچتے ہی کپڑے اُتارے اور حوض میں چھلانگ لگادی۔  کچھ دیر بعد محلے کے کچھ بوڑھے افراد حوض کے اطراف میں کھڑے نظر آئے اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھ پر اعتراض کریں گے۔ میں باہر نکلا اور کسی سے کچھ کہے بغیر کپڑے پہن کر  چلا گیا۔ کچھ دیر بعد آفیسر نے ہم سب کو جمع کرکے بازپرس شروع کردی اور پھر وہاں مجھے پتہ چلا کہ یہ حوض گاؤں کے لوگوں کا وضو خانہ ہے۔"

پیچ چہار پر نگہبانی دینا

جناب طرازی نے کہا: "ایک مہینے گاؤں میں رہنے   اور فوجیوں سے بات چیت کے بعد میں سمجھ گیا کہ رہنے کیلئے چھاؤنی بہتر ہے اور میں نے اپنی جگہ چینج کرنے کے بارے میں آفیسر سے کہا اور  سردشت کے نزدیک چاترابیل کی بلند ی پر  موجود چھاؤنی  منتقل ہوا گیا۔ بانہ سے سردشت جانے والے راستے میں سیدھے ہاتھ پر بلند پہاڑی سلسلہ تھا اور اُلٹے ہاتھ پر  گہرائی میں درہ تھا، جس میں ٹینک، جیپ (jeep) اور آرمی کی تمام گاڑیاں تھیں، ان سب کا تعلق شہید صیاد شیرازی کے فوجی یونٹ سے تھا۔ معاملہ یہ تھا کہ ایران پر عراقی کی مسلط کردہ جنگ سے پہلے، اس کمانڈر کا یونٹ علاقے سے گزر رہا تھا کہ کوملہ اور ڈیموکریٹ کے حملے کے باعث پورا یونٹ درہ میں گر گیا۔"

جناب طرازی نے کردستان میں اپنی ڈیوٹی کے بارے میں کہا:" کردستان میں موجود بسیجیوں کی تمام چھاؤنیوں کا کام صبح ۸ بجے سے لیکر شام ۴ بجے تک روڈ کو پر امن بنانا تھا، کیونکہ ان  اوقات کے بعد  یہ روڈ کوملہ اور ڈیموکریٹ پارٹیوں کے اختیار میں ہوتا تھا۔ ہم اُس پہاڑ پر تھے کہ جس کا بعض حصہ آرمی کے اختیار میں اور بعض حصہ  بسیج کے اختیار میں تھا۔ میں ہر روز آٹھ بجے سٹرک کی حفاظت کیلئے ایک جگہ پہنچ جاتا۔ دس دن گزرنے کے بعد، ایک رات پاسبخش جو حفاظتی امور کا مسئول تھا، اس نے مجھ سے میری پوسٹ کے بارے میں پوچھا اور اُسے میرے جواب سے لگا کہ میں پیچ چہار کے علاقے میں اکیلا نگہبانی دے سکتا ہوں۔ وہ علاقہ اتنا خطرناک تھا کہ وہاں نگہبانی کیلئے ہمیشہ کم سے کم دو لوگ ہوتے تھے۔

ایک دفعہ میں اپنی پوسٹ پر کھڑا ہوا تھا اور بہت ہی بور ہو رہا تھا، میں سوچنے لگا: "جی تھری بندوق کی نالی  سے گولی کس طرح باہر نکلتی ہے؟" میں نے بندوق کو کھول دیا اور چاقو کی نوک سے اُلٹی گولی بندوق کی نالی میں ڈال دی۔ اب مجھ سے جو ہوسکتا تھا وہ میں نے کیا لیکن گولی بندوق کی نالی سے باہر نہ نکلی، میں بھی تھک چکا تھا وہیں نزدیک میں بلوط کے درخت کے نیچے لیٹ گیا اور سوچنے لگا: "کیا میں اپنی بندوق سے بلوطوں کا نشانہ لگا سکتا ہوں؟"گن اٹھا کر فائر کردیا کہ جی تھری بندوق اچانک پھٹ گئی اور اُس کا سرا بالکل ہی خراب ہوگیا۔ میں جو بہت ہی زیادہ ڈر گیا تھا میں نے بندوق کو رومال سے باندھ دیا اور چھاؤنی لوٹنے کے بعد چھاؤنی کے مسئول سے کہا: "مجھے نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا!؟ اگلی صبح بندوق کو اسلحہ ڈپو لے گیا اور ضد کرکے بندوق چینج کروائی۔"

اُنھوں نے اپنی گفتگو میں چھاؤنی میں جنگ چھڑنے کے واقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "میں ایک رات چھاؤنی میں سو رہا تھا ، میں نے خواب میں دیکھا کہ جنگ شروع ہوگئی ہے؛ اچانک کسی نے میرے پیٹ پر پاؤں رکھا اور میں نیند سے اٹھ بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ واقعاً جنگ شروع ہوگئی ہے۔ میں فوراً ایک خندق کی طرف دوڑا اور وہاں جاکر پناہ لی  اور اپنے پیچھے گرینڈ بھی پھینک رہا تھا اچانک مجھے ایسا لگا کہ اپنی ہی چھاؤنی کی طرف سے گولہ کی آواز آرہی ہے۔ میں تجسس میں مبتلا ہوگیا، میں نے چھاؤنی کی طرف لائٹ  فائر مارا تو ہماری پوسٹیں بالکل دن کی طرح عیاں ہوگئیں۔ تھوڑی دیر بعد کمانڈر بہت ہی غصہ کے عالم میں میرے پاس آیا اور مجھ سے بہت سختی سے پیش آیا۔"

جناب طرازی نے اپنی گفتگو کے آخر میں کہا: "ہماری چھاؤنی ربط ٹاؤن کی طرف تھی اور ہم جس ٹیلے پر رہتے تھے اُس کے نیچے ایک چشمہ تھا، ہم وہیں سے اپنے پینے کا پانی مہیا کرتےتھے۔ ایک دن میں نے چاہا کہ جاکر اپنے کپڑے دھولوں  اور چشمے پر اکیلے جانے کی اجازت نہ ہونے کے باوجود میں اکیلا ہی چشمہ پر چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ داداشی نام کا ایک سپاہی میرے کنارے سے نیچے کی طرف گیا ہے اور وہ  تمام وسائل سے لیس تھا ، لیکن میں نے اس پر توجہ نہیں دی۔ غروب کے و قت یہ بات میں نے اپنے افسر کو بتائی انقلاب کے بعد آرمی اور بسیج کی مکمل ٹیم نے پورے وسائل کے ساتھ  اس گاؤں میں قدم رکھا اور گاؤں کے لوگوں سے باز پرس کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ اُس سپاہی نے ربط ٹاؤن میں جاکر پناہ لے لی ہے۔

یادوں بھری رات کے پروگرامز کے سلسلے کا ۲۷۰ واں پروگرام ۲۸ جولائی، ۲۰۱۶ء کو جمعرات کی شام حوزہ ہنری کے سورہ  آڈیٹوریم میں  اسٹڈیز، لٹریچر ،کلچر ریسرچ سنٹر کی کاوشوں سے منعقد ہوا۔ 



 
صارفین کی تعداد: 4030


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔