۱۲ اہم یادیں جن کے مختلف پہلو ظاہر سامنے آئے

مجتبی حسینی،محمدحسین مهرزاد
مترجم: سید محمد جون عابدی

2016-2-22


سب جانتے ہیں کہ اپنی زندگی میں ملک کی سیاسی شخصیات کی یادداشتوں کی نشرواشاعت ایک غیرمعمول مسئلہ تھا۔آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی ان چند سیاسی ہستیوں میں سے ہیں جو اپنی اس عظیم سیاسی مصروفیات اور ذمہداریوں کے  باوجود اپنی یادداشتوں کو روزانہ  تحریر کیا کرتےتھے۔روزانہ اپنی یاددشتوں کو لکھنا،زندگی میں ان کے فکروعمل کی ہماہنگی اور آئیندہ نسل تک صحیح اطلاعات پہونچانے کے ان کے جذبے کی نشاندہی کرتی ہے۔ان کے نشر ہونےوالی یادداشتیں محققین اور تاریخ نویس  افراد کے لئے ایک سنہرا موقع ہے۔ وہ اس کے ذریعہ گذشتہ تین دہائیوں کی سب سے مؤثر سیاسی شخصیت کی زبان سے ایک مسلمان انسانی معاشرہ تشکیل دینے کی کوششوں کو سن سکتے ہیں۔

شاہ سے مقابلے کے لئے یاددوں کی جنگ   

میں نے ان سے کہا :صالحی کی بات کرنا تو بیجا ہے لیکن آپ یہ بتائیں کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں اور آپ کی کیا رائے ہے؟انہوں نے کہا:آئیے اور آکر مجاھدین کی مدد کیجئے؛۔۔۔ کہنے لگے:ان کی نماز شب ترک نہیں ہوتی ان کو ہر مہینے ۱۲ہزار تومان تنخواہ ملتی ہے لیکن وہ صرف ۵۰۰ تومان خرچ کرتے ہیں اور بقیہ شاہ کے خلاف مقابلے کے لئے خرچ کرتے ہیں،اور اس طرح کی دیگر باتیں۔

اس ملاقات کے سلسلہ میں مصباح صاحب اور ہاشمی صاحب کی باتوں میں اختلاف پایا جاتاہے ایک کا کہنا ہےکہ یہ ملاقات شہید قدوسی کے مکان پر ہوئی تھی اور دوسرے کا کہنا یہ ہےکہ مصباح صاحب کے گھر پر۔ پہلی گفتگو کے لحاظ سے اس ملاقات کے بعد ۱۰ سال تک رہبر انقلاب ان سے ناراض رہے جبکہ دوسری روایت کے مطابق صرف ہاشمی صاحب ان کے گھر سے ناراض ہوکر نکلے تھے۔اس میں صرف ایک نکتہ مشترک ہے اور وہ ھاشمی صاحب کا  انقلاب سے پہلی والی مجاہدین خلق کی مدد کرنا تھا۔ لیکن انقلاب سے پہلے بہت سے انقلابی علما کی حمایت اس تنظیم کو حاصل تھی جن میں سے ایک ہاشمی صاحب بھی تھے۔ لیکن اب مصباح یزدی صاحب کے دفتر نے اسے’’منافقین‘‘ کی مدد شمار کیا ہے۔آیۃ اللہ مصباح یزدی کی سائیٹ پراس بات کے شائع ہونے بعد،سید حمید روحانی نے تسنیم نیوز ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں کہا:اگر ہاشمی صاحب کے یہ نظریات آیۃ اللہ مصباح کے بارے میں ہیں تو یہ غلط ہے۔‘‘انہوں نے کہا:اور اگر واقعی ہاشمی صاحب کے یہ نظریات آیۃ اللہ مصباح کے بارے میں ہیں تو وہ خود یہ جانتے ہیں کہ مصباح یزدی صاحب انقلابی تحریک کی ابتدا سے ہی امام خمینی رہ کے بہترین شاگردوں میں سے ہیں اورانہوں نے امام کی بہت مدد کی ہے۔‘‘اور انہوں مزید کہا ’’مصباح صاحب اور ہاشمی صاحب کے درمیان اختلافات میں سے ایک تنظیم ’’مجاھدین‘‘ یا اسی منافقین کی تنظیم کے بارے میں اختلاف تھا:آیۃ اللہ مصباح اپنی بصیرت کی وجہ سے مجاھدین(منافقین)کی حمایت کو حرام قرار دیتے تھےھاشمی صاحب ایک زمانے میں مصباح صاحب کے برخلاف اس تنظیم کی حمایت کرتے تھے۔چنانچہ مصباح صاحب اس تنظیم کی حمایت کو حرام قرار دیتے تھے نہ کہ شاہ سے مقابلے اور مزاحمت کو۔‘‘

’’انقلابی خاتون‘‘اس کانفرنس کا عنوان تھا۔جسے مرحومہ خدیجہ ثقفی امام خمینی رہ کی زوجہ کےاعزاز میں منعقد کیا گیا تھا۔اس کانفرنس کے اصلی مقرر ہاشمی رفسنجانی صاحب تھے۔ایک ایسے فقیہ اور سیاسی شخصیت جن کی آمد ورفت امام خمینی رہ کے گھر میں تمام انقلابی شخصیات میں سب سے زیادہ تھی۔ اگرچہ ہاشمی صاحب اپنی بہت سی انکہی باتوں کو روزانہ کی یادداشت کے قالب میں بیان کرتےہیں۔ لیکن بے نظٰیر جنرل ہونے کے عنوان سے بہت سی باتوں کو انہوں نے اپنے سینے میں دبا کر رکھا ہے۔اس کانفرنس میں یہی کافی تھا کا انہوں نے اپنی کسی یادداشت کو لکھنے کے بجائے زبانی طور پر بیان کیا جسے انہوں نے امام خمینی رہ کی زوجہ کے ساتھ گفتگو کے طور پر حاضرین کے لئے بیان کیا۔اور سال ۸۴ کے انتخابات میں ان کے حصہ لینے کی وجہ بھی یہی گفتگو تھی۔انہوں نے کہا:’’سال ۸۴ میں اصلاحات پارٹی کی دورہ حکومت کے خاتمے کے بعد میں الیکشن کے میدان میں اترنے کے لئے راضی نہیں تھا لیکن امام کی اہلیہ نے مجھے بلایا اور مجھ سے فرمایا کہ امام خمینی رہ نے اس انقلاب کو تمہارے سپرد کیا تھا۔کیا تم نہیں جانتے ہوکہ یہ کون لوگ ہیں؟ ہم اس انقلاب کو ان کے ہاتھ میں دیدیں۔ اس گفتگو سے میری آنکھوں میں آنسو جمع ہوگئے۔‘‘امام رہ کی اہلیہ سے متعلق یہ یادداشت اور یادداشت بیان کرنے کا طریقہ ہاشمی صاحب پر تنقیدوں اورحملوں کے لئے کافی تھے۔ تاریخ بیانی کے سلسلہ میں آیۃ اللہ ہاشمی پر ہمیشہ تنقید کرنے والے سید حمید روحانی نے سب سے پہلے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا :’’ یادداشت بیان کرنے میں ہاشمی صاحب نے اس قدر متناقض اور حقیقت کے خلاف باتیں کی ہیں کہ کوئی شخص انکی باتوں کو معتبر نہیں کہہ سکتا ہے۔‘‘انہوں نے کہا:’’ہاشمی صاحب کے خصوصی طور پر یادداشت بیان کرنے کے سلسلہ میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔‘‘ ہاشمی صاحب کے بیانات نامعتبر ہونے کے سلسلہ میں ان کی دلیل یہ تھی کہ وہ ان کی یادداشت بیان کررہے ہیں جو زندہ نہیں ہیں:’’ہاشمی صاحب کیوں ایسے لوگوں سے یادداشت نقل کررہے ہیں جو زندہ نہیں اور اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں؟ابھی حال میں انہوں نے جن باتوں کا اظہار کیا ہے اس میں یہ بات اہم ہے کہ انہوں ان سب باتوں کو جو امام خمینی کی اہلیہ نے امام سے نقل کی تھیں،خود ان کی زندگی میں ہی کیوں بیان نہیں کیں اور ان کے انتقال کے بعد اس بات کو کیوں بیان کیا؟‘‘ یہی بات احمد توکلی نے ہاشمی صاحب کی یادداشت بیان کرنے کا دفاع کرنے والے محمد خامنہ ای کے جواب میں کہی تھی اور ہاشمی صاحب کی باتوں پر سوال اٹھائے تھے۔:’’ہاشمی صاحب کی مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی باتوں کی نسبت ان لوگوں کی طرف دیتے ہیں جو اب زندہ نہیں رہے۔اگرچہ میں ہاشمی رفسنجانی صاحب کو متہم نہیں کررہا ہوں لیکن ان سے کہنا چاہوں گا کے ایسی باتیں نہ کریں جن کے تصدیق کے سلسلہ میں ان کے پاس کوئی ثبوت نہ ہوں۔کیوں کہ یہ طریقہ کار ان کی یادداشت کی کتابوں کی اہمیت کو کم کردیگا اور ان کے صحیح ہونے کے سلسلہ بھی میں سوال اٹھنے لگیں گے۔‘‘ روح اللہ حسینیان،اسلامی انقلاب کے دستاویزات کے انچارج، نے بھی سید حمید روحانی کی باتوں کو دہرایا اور کہا:ہاشمی رفسنجنانی صاحب نےامام خمینی رہ کے سلسلہ میں  اپنے واقعیت کے خلاف اقوال کو نقل کرنے میں ان لوگوں کا حوالہ دیا ہے جو زندہ ہی نہیں ہیں اور دار فانی کو الوداع کہہ چکے ہیں۔تعجب ہے کہ جو شخص خود آٹھ سالوں تک صدرجمہوریہ رہا ہو وہ اس قسم کی باتوں کو نقل کررہا ہے:ہاشمی صاحب کی باتیں  کسی بھی صورت  نہ حجت تھیں اور نہ ہی ہوسکتی ہیں کیوں کہ ان کے بیانات، امام خمینی رہ کے صریح اور محفوظ بیانات کے بالکل بر خلاف ہیں۔‘‘ ان رد عمل کا رنگ کچھ اور ہی ہوگیا جب پروین احمدی نژاد اس یادداشت بیانی کے میدان میں وارد ہوگئیں۔ آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کی یادداشت بیانی کی تکذیب کا سلسلہ رکنے نہ پائے اس لئے انہوں نے بھی امام خمینی رہ کی اہلیہ سے ملاقات کا ایک واقعہ بیان کیا۔انہوں نےاپنی اس یادداشت میں کہا:’’سال ۸۵ میں امام خمینی رہ کی روز وفات  کے موقع پر ڈاکٹر احمدی نژاد اپنے چند ساتھیوں جن میں بھی شامل تھی، کے ساتھ امام خمینی کی زوجہ محترمہ سے ملاقات کرنے جماران گئے۔ ان محترمہ نے اپنی خادمہ اور اہل خانہ کے سامنے ڈاکٹر صاحب کے منتخب ہونے پر خوشی کا اظہار اس طرح کیا کہ انہوں نے انتخابات کے دوران کہا تھا کہ اگر ڈاکٹر الیکشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس جیت کی مٹھائی کے لئے آپ میرے مہمان ہونگے۔اور جو غذا چاہئے میری طرف سے باہر سے منگاوائے گا۔ وہ کہتی تھیں کہ میں نے گھر کی خادمہ سے کہہ رکھا  ہے کہ ٹیلی ویزن میرے لئے صرف اسی وقت کھولنا جب ڈاکٹر یا رہبر انقلاب کی تقریر آنے والی ہو۔اور اس ملاقات کے بعد ڈاکٹر صاحب سے ملنے آئی تھیں جبکہ ان کے اہل خانہ کے مطابق حاج احمد کی رحلت کے بعد وہ بہت کم ہی گھر سے باہر آیا جایا کرتی تھیں۔‘‘اس لفظی حملے کے بعد امام خمینی رہ کے اہل خانہ،آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کی مدد کے لئے آگے آگئےاور انکی یادداشت کی تاکید کردی۔ امام خمینی کی پوتی لیلیٰ بروجردی،نےبھی آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کی یادداشت کو ’’دستاویز‘‘کے برابر قرار دے دیا۔

’’ امام خمینی رہ’’امریکہ مردہ باد‘‘ کے نعرے کو ختم کرنے کے موافق تھے‘‘یہ بات آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی نے سال ۸۹ کے ایک انٹرویو میں کہی تھی اور یہ انٹرویو سال ۹۲ میں ’’صراحت نامہ‘‘نامی کتاب میں شائع ہوا تھا۔ گفت وشنید صرف امام خمینی رہ اورآیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کے مابین ہوئی تھی۔اورہاشمی صاحب کا یادداشت کے عنوان سے یہ بات کہنا ہی ان پر چاروں طرف سے حملوں اور تنقیدوں کےلئے کافی تھا۔ہاشمی صاحب نے اپنی ان یادداشتوں میں جو بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئی تھی،کہا تھا:’’ہم عام مجمع میں کسی کو مردہ باد کہنے کے موافق نہیں تھے۔مثلا اجتماعات میں ’’بنی صدر‘‘مردہ باد کا نعرہ بہت زیادہ تھا میں نے نماز جمعہ میں عوام سے درخواست کی یہ کام نہ کریں۔’’بازرگان مردہ باد‘‘بہت عام تھا میں نے درخواست کی کہ نہ کہیں۔’’روس مردہ باد‘‘بھی عام تھا میں نے کہا اب روس سے ہم کو اتنی زیادہ مشکل نہیں ہے۔اور امریکہ کے بارے میں بھی ہم نے کہا تھا۔‘‘حمید روحانی،حسین شریعتمداری،محمد جواد لاریجانی،احمد توکلی،علی رضا زاکانی اور کچھ دیگر ’’اصول گرا پارٹی‘‘کے افراد اپنے واضح بیانات کے میں امریکہ کے بارے میں امام خمینی رہ نظریات سےمدد لیتے ہوئے ھاشمی رفسنجانی کی باتوں کی تکذیب کررہے تھے۔ سب سے پہلے رد عمل کا اظہار حسین شریعتمداری نے اخبار کیھان میں کیا تھا۔اخبار کیھان کے اڈیٹر نے ھاشمی رفسنجانی سے منسوب اس عبارت’’امام امریکہ مردہ باد کے نعرے کے مخالف تھے‘‘ پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا:ہاشمی صاحب نے متعدد بار کہا اور منجملہ امام  کو خط میں لکھا اورتاکید کیا تھا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات برقرار کرنا  اہم مسائل میں سے ہے۔اور یہ مسائل صرف امام خمینی رہ کے ذریعہ ہی حل ہوسکتے ہیں۔اور ان کی زندگی میں ہی ان مسائل کے سلسلہ میں حتمی فیصلہ لے لیا جانا چاہئے۔ اس مقام پران سے یہ سوال ہوتا ہے کہ امام خمینی نے کیوں ان باتوں کی موافقت نہیں کی جو خود ھاشمی صاحب کی نگاہ میں ’’انتہایئ اہم‘‘ تھے؟ محمد جواد دلاریجانی نے بھی،حسین شریعتمداری کے اعتراض کے دو ہی دنوں کے بعد اس بات پر کہ ’’امام امریکہ مردہ باد کے نعرے کو ختم کرنا چاہتے تھے‘‘ اپنی تقریرمیں عکس العمل کا اظہار کیا۔اورکہا:’’لوگوں کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن اس نظام کے نقطہ نگاہ صرف رہبر انقلاب پر ہی منطبق ہوسکتے ہیں۔ہم ھاشمی صاحب کو اپنی تاریخ کی ایک عظیم شخصیت  ہونے کے عنوان سےدوست رکھتے ہیں اور ان کے قول پر اعتماد بھی کرتے ہیں لیکن بڑی شخصتیں بھی کبھی کبھی غلطیاں کر بیٹھتی ہیں‘‘۔اس کے بعد اصول گرا Fundamentalist پارٹی کی ایک اور شخصیت احمد توکلی نے بھی ھاشمی رفسنجانی کے اس تاریخی بیان پر تنقید کرڈالی۔ ہاشمی رفسنجانی صاحب کی یادداشت کی رد میں احمد توکلی نے امام خمینی رہ کی وصیت کے آخری حصےکی طرف اشارہ کیا۔اور کہا:’’امام خمینی رہ نے اپنی زندگی میں ہی فرمایا تھا کہ اگر میری طرف سے کوئی چیز نقل کی جارہی ہے تو اس کا لکھا ہونا اوراس کی آواز کا رکارڈ ہونا ضروری ہے۔‘‘اگرچہ فارس نیوز کے ساتھ گفتگو کے دوران انہوں نے ی وضاحت بھی تھی کہ وہ ان کا ارادہ ھاشمی صاحب کی تکذیب کرنا نہیں ہے۔لیکن اس بیان اور امام خمینی کی وصیت کے آخری حصے کوذکر کرکے رفسنجانی صاحب کے بیان پر سوال ضرور اٹھا دیا۔سید احمد ھاشمی بھی ان  دیگر ناقدین میں سے ہیں جنہوں نے آیۃ اللہ ھاشمی کے اس بیان پررد عمل کا اظہارکیا تھا۔سید احمد خاتمی نے یہ کہتے ہوئے کہ بعض افراد امریکہ مردہ باد کے نعرےکو ختم کرنے کے لئے بے تاب ہیں، بیان دیا:’’جب تک امریکہ اپنی شیطانیاں کرتا رہیگا امریکہ مردہ باد کا نعرہ جاری رہیگا۔‘‘ اصول گرا پارٹی کے افراد کی طرف سے آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کی  یادداشت پر تنقیدیں جاری تھی یہاں تک نوبت’’ موسسه تنظیم و نشر آثار امام ‘‘کے قائم مقام حمید انصاری تک پہونچ گئی۔انہوں نے  بعض لوگوں کی طرف سے ہاشمی صاحب کے بیان کو توڑ مروڑ کرپڑھے جانے پر عکس العمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا:’’ھاشمی رفسنجانی صاحب نے امریکہ کے سلسلہ میں جس نعرے کو ختم کرنے کی بات کہی تھی اس کا تعلق اس بات سے تھا کہ امام رہ حکومتی ذرائع ابلاغ سے اس نعرے کو ختم کرنے کی موافقت کردیں اور حکم دےدیں۔‘‘حمید انصاری آیۃ اللہ ھاشمی رفسنجانی کی ۱۴ تیر سال ۱۳۶۳ کی یادداشت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں آٰیا ہے:’’(امام موسی صاحب)شوشترکے نمائیندے بھی آئے ہوئے تھے اور انہوں نے امریکہ مردہ باد اورروس مردہ باد کے نعرے کو ختم کرنے کی رائے دی۔میں نے کہا کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے اور امام نے بھی موافقت کردی ہے میں بس ایک مناسب وقت کے انتظار میں ہوں‘‘ حمید انصاری کے بیان کے بعد اور خود آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی کی سایئٹ پر امریکہ مردہ باد کے نعرے کو ختم کرنے والے بیان کی تنقیدوں کے پیش نظر اور یہ کہ یہ بیان بہت پراناہے ہاشمی صاحب نے کہا:سائیٹ کے ذمہ داران نے مجھ سے مشورہ کیا بغیر اس بیان کو نشر کردیا جو کہ ایک نامناسب اقدام تھا۔‘‘ہاشمی صاحب کا یہی رد عمل ان کی یادداشت کے سلسلہ میں پیدا ہونے والے مسائل کے خاتمے کے لئے کافی تھا۔
 
۹۹ افراد کے واقعے کی متضاد اور برعکس یادداشتیں اور میک فیرلن


میک فرلین:ایک ایسا واقعہ جو اب بھی مبہم ہے   


یادداشت نویسی کو کیوں برداشت نہیں کرتے ہیں؟
 صادق زیبا کلام*
یادداشت نویسی اور یادداشت بیانی کسی بھی معاشرے کی تاریخ کا ایک  گرانقدر حصہ شمار ہوتی ہے۔ چونکہ ایران میں تاریخ کے موضوع پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے اوراسی وجہ سے یادداشت نویسی جوتاریخ کا ایک مؤثر رکن ہے اس میدان میں بھی زیادہ توسیع نہیں ہوسکی ہے۔مثلا ً اگر اسلامی انقلاب کی سو مؤثر ہستیاں ہیں تو ان میں سے آیۃ اللہ ھاشمی رفسنجانی اور ابراہیم یزدی جیسی ہی چند ھستیاں ہیں جو اپنی روزانہ کی یادداشت کو تحریر کرتے ہیں۔افسوس کہ دیگر انقلابی شخصیات کے یہاں روزانہ کی یادداشت کے نام پر کچھ نہیں ملتا ہے۔اگر ’’بنیاد انقلاب اسلامی‘‘ یا دیگر گروہوں کے ساتھ انہوں نے گفتگو بھی کی ہے تو وہ ان کی یادداشت نہیں بلکہ سیاسی بیانات تھے:جیسے ان گروہوں کے دیئے جانے والے بیانات کہ شاہ بہت خراب آدمی تھا اور عوام نے اس انقلاب کو کامیاب کرنے کے لئے بہت ایثار کیا تھا۔۔۔ ڈاکٹر ابراہیم یزدی کی یادداشتوں کو اشاعت کی اجازت نہیں ملی اور ھاشمی صاحب کو بھی انتہا پسند اصول گرا یعنی بنیاد پرست پارٹی کے افراد اور اسی طرح انتہا پسند تحریکوں کے حملات کا سامنا کرنا پڑا۔اور ہم ایک ہی واقعے سے متعلق متعدد اقوال اور روایات کو قبول نہیں کرسکتے ہیں کیوں کہ ملک میں موجودہ نظریہ ایک خاص نقطہ نگاہ پر مشتمل ہے۔ جنگ اورامریکی سفارت خانے پر قبضے اور اس طرح کے دیگر اہم تاریخی واقعات میں تو کوئی شک نہیں ہے اور ان کے بارے میں مختلف روایتیں نہیں ہیں کہ جن کے بارے میں کھوج بین کریں اور پھر سے ان کے بارے میں پوچھ تاچھ کریں۔ کیوں کہ اگر اس کے مقابلے میں کوئی دوسری یادداشت ہوتی تو اس میں مشکلا ت ضرور پیدا ہوتیں۔یادداشت نویسی کو ترقی نہ ملنے کی ایک وجہ یہ ہےکہ اس کے برعکس زاویہ نگاہ کا اس خاص نظریہ کے ساتھ  استقبال نہیں کیاجاتا ہے۔درحقیقت رسمی روایات کے ساتھ ان کی  برعکس روایت کو بیان نہیں کیا جاسکتاہے۔مثال کے طور ۱۵ خرداد یا ۲۸ مرداد کے واقعات کے لئے ۳۲ مصادیق موجود ہیں۔اور ایران کی عصری تاریخ کے لئے صرف ایک نظریہ اور قرات ہے جو سرکاری ہے۔اور اس کے نمونے  کامشاہدہ ہم ھاشمی صاحب کی یادداشت نویسی پر رد عمل اور مخالفتوں کی صورت میں کرسکتے ہیں۔اور اس قسم کی یادداشت نویسی کی مخالفت اصول گرا پارٹی کے افراد اس لئے کرتے ہیں کیوں کہ وہ اس خاص نظریہ کا دفاع اور وکالت کرنے والے ہیں۔جب کہ اصلاح طلب پارٹی یا  قومی۔مذھبی افراد یہ دعویٰ نہیں کرتے ہیں کہ تاریخی واقعات کے سلسلہ میں ان کی جو روایات ہیں وہ صد ٖفی صد صحیح ہیں۔اور اصول گرا اس بات پر مصر ہے کہ صرف ایک ہی نظریہ ہونا چاہئے۔


حسین دھباشی**
زبانی تاریخ سے قطع نظر صرف تاریخ  پر توجہ دینا بھی بہت اہم امر ہے۔تاریخ سے پہلے اس کے بارے میں ہماری سوچ یہ ہوتی ہے کہ وہ تخیلات اور کہانی ہیں۔جب کہ تاریخ:وہ واقعات ہیں جو ماضی میں رونما ہوئے تھے۔ جبکہ تخیلات اور اسطورہ:وہ باتیں ہیں جو رونما تونہیں ہوئیں لیکن ہم چاہتے ہیں انکو ویسا ہی بیان کیا جائے۔اس لحاظ سے ہمارے جیسے ممالک میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو رونما تو نہیں ہوئی ہیں لیکن ہم انکواپنی نفسیاتی،جذباتی،ثقافتی یا حتیٰ سیاسی  ضرورتوں کے پیش نظر اسی طرح بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسی ہماری ضرورت ہوتی ہے۔ہمیں بہت سے تخیالاتی واقعات مذھبی،قومی اورثقافتی واقعات کی صورت میں نظر آتے ہیں۔اور یہ طرز نگاہ ایران کی عصری تاریخ تک بھی پہونچ چکاہے۔مثلا آٹھ سالہ تحمیلی جنگ کے سلسلہ میں ایسی روایات کا مشاھدہ کرتے ہیں کہ جو افراد جنگ میں موجود تھے وہ ہی اس کے بارے واقیعیت سے ہٹ کر خیال کرتے ہیں۔جو لوگ انقلاب کی پہلی دہائی میں موجود تھے ان کو بخوبی یاد ہوگا کہ اس وقت قوم پرستی بہت مظلوم تھی اور رائج نہیں تھی۔اور یہ سوچا جاتا تھا کہ جو بھی جنگ پر جاکر شہید ہوجاتا ہے تو خداکے نزدیک اس کا پہلا ،دوسرا یاتیسرا درجہ ہوگا کیونکہ وہ خدا کے لئے اپنی جان قربان کررہا ہے۔ اور اس زمانے میں قوم وملت کے لئے جان دینا عبث شمار کیاجاتا تھا۔اگر آپ جنگ میں گئے ہونگے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر دس پرچم ہیں اور ان پر مختلف مذہبی۔قومی نشانات بنے ہوئے ہیں۔اگر یادداشت کی طرف مراجعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ احتمالا آخری پرچم جسے لوگ پسند کرتے تھے اور ایک عام سپاہی اپنے ہاتھ میں لئے رہتا تھا وہ ایرانی پرچم تھا۔اور اس قسم کے واقعات اس وقت رونما ہونے شروع ہوئے جب جنگ کا زمانہ تھوڑ ا تھوڑا دور ہونے لگا۔ معاشرے میں جنگ کی تعریف بھی تبدیل ہو گئی خدا کی راہ میں اپنے وطن کے لئے جان دینے کو بھی شامل ہوگئی۔ آپ فلموں،تاریخ  اور باتوں میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے ہم گئے تھے تاکہ اپنے وطن کے لئے جان قربان کردیں۔یہ اسی حقیقیت کی تخیلاتی روایت ہے نہ کہ تاریخی حقیقت۔درواقع ہم تاریخ کو اپنے اعتبار سے روایت میں تبدیل کردیتے ہیں۔ جیسی اس وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں تاریخ کو ویسے ہی بیان کرتے ہیں۔یعنی آج کی سیاسی ،ثقافتی اور جذباتی ضرورت کے مطابق تبدیل کردیتے ہیں۔اگرچہ یہ مسئلہ صرف ایران کی حد تک ہی محدود نہیں ہے۔شاید تاریخی واقعیت اتنی دلچسپ نہ ہو جتنا اس تاریخی واقعہ کی ڈرامائی حقیقت ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ زبانی تاریخ ،دستاویزات پر مبتنی نہیں ہوتی ہیں مگر یہ کہ ایک تاریخی دستاویز کو جعلی طور تیار کیا جائے۔ جبکہ اس کے برخلاف دیگر تاریخی عبارتوں میں تخیلاتی،جذباتی صورت میں ڈھل جانےکی صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن ایک زبانی تاریخ میں ذرا سی زبانی مشق کے ذریعہ یہ صلاحیت پیدا کی جاسکتی ہے۔ یادداشت بیانی میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اسمیں ضرورت کے مطابق تبدیلی کی جائے۔اگر کسی سیاسی مکتوب یادداشت، جس میں سیاسی افراد اپنے دعوے پیش کرتے ہیں،کا اصل دستاویز اور عبارتوں سے موازنہ کیا جائے تو اس سے کسی ایک شخص کی باتوں سے ذہن میں انقلاب پیدا نہیں ہوگا۔اگر کوئی ایسی بات کہی جائے جو غلط ہو اور اسمیں شبہات ہوں اور وہ دقیق نہ ہوں تو بھی دیگر متون سے موازنے کے وقت دقیق لگیں گے۔ مثلا ہیلری کلنٹن جنہوں نے اس بار پھر صدارتی انتخابات کی امیداوری پیش کی ہے،آٹھ سال پہلے جب وہ ابامہ کی رقیب تھیں تو انہوں رقابت کے انہیں ابتدائی ایام میں جب اپنے شوہر بل کلنٹن سے ملاقات کرنے بوسنیا گئیں تو وہاں کے بارے میں ایک یادداشت نقل کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ شہر میں آگ ہی آگ تھی تھی اورہم ہوائی جہاز کی سیڑھی سے ھال تک دوڑتے ہوئے گئے۔جبکہ فورا ٹیلی ویژن پر اسی دن کی ویڈئودکھائی گئی جس میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔اس مسئلہ نے کلینٹن کو بہت شدید نقصانات پہنچائے تھے۔اگر اس قسم کے ثبوت موجود نہ ہوں تو انسان اس سے کہیں زیادہ جھوٹے دعوے کرسکتا ہے۔اور ہم ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں اس قسم کے رکارڈ موجود نہیں ہیں اور ہمارے ملک میں محفوظ شدہ دستاویزات کی عمر بھی بہت کم ہے۔اور وہ رکارڈ بھی جو محفوط کئے گئے تھے اب کہیں موجود نہیں ہیں۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے محافظ خانے تک بھی دسترسی نہیں ہے۔لوگوں میں اپنی یادداشت لکھنےکی عادت نہیں ہے۔جب ہمارے پاس دستاویز موجود ہی نہیں ہیں  کہ جنہیں چند سالوں میں ایک بار نشر کیا جائے مجبورا ہمیں انہیں یادداشتوں پر تکیہ کرنا پڑےگاجو ھاشمی صاحب اور محترمہ پروین احمدی نژاد کے واقعے کے موازنے میں بیان کی گئی ہے۔ فقہی میدان میں ہمارے پاس علم رجال ہے جسمیں یہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ ایک خبر متواتر ہے یا واحد؟دوسرا نکتہ یہ ہے کہ روایت بیان کرنے والے کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔یعنی وہاں صرف یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ایک شخص نے کیا کہا اوردوسرے شخص نے کیا کہا اور دونوں برابر ہیں بلکہ اس شخص کو بھی دیکھا جاتاہے۔ روایت علم رضایات کا فارمولا نہیں ہے کہ ایک ایک برابر ہیں۔کیا تاریخی اعتبار سے محترمہ پروین احمدی نژاد صاحبہ آیۃ اللہ ھاشمی صاحب کی برابری کرسکتی ہیں؟
**
ایران کی زبانی اور تصویری تاریخ شفاهی و تصویری کے مرکز کے ایڈیٹر


حزب تودہ(ایران میں کمیونسٹ گروپ) کا انکشاف اور اس کے اعضا کی گرفتاری، شایدانقلاب کی کامیابی کے بعد سیاسی اور حفاطتی تاریخ میں سپاہ کی انٹلیجنس کا سب بڑا کارنامہ ہے۔ایک ایسی پارٹی اور گروہ جس نے ایران میں وسیع پیمانہ پر تمام پارٹیوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ فعالیت انجام دے رکھی تھیں۔’’حزب تودہ‘‘ کے سلسلہ میں جتنے مضامین،رپورٹیں اور نظریات اس وقت کے حکام اور نظام کے ذمہ داران کی طرف سامنے آئے تھے شاید انمیں آیۃ اللہ ھاشمی رفسنجانی صاحب کی ۱۲ خرداد ۱۳۶۱ کی یادداشت بھی ہے جس میں انہوں نے تاریخ میں محفوظ کردینے کے  لئے بہت سے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔تحریر ایک ایسے دن کے بارے میں ہے جس کے بارے میں ویسی ہی بہت سی باتیں موجود ہیں۔آیۃ اللہ ہاشمی رفسنجانی نے اپنی ۱۳۶۱ کی یادداشت میں لکھا ہے:’’جواد مادر شاہی صدر جمہوریہ کے حفاظتی امور کے مشیر،حبیب اللہ صاحب۔۔۔۔،کےساتھ پاکستان گئے۔اور ایران میں روسی انٹلیجنس کی  طرف سے مامور ولادمیر کوزچکن ۱۲ خرداد ۱۳۶۱ کو برطانیہ میں پناہ گزین ہو گیا تھا،سے منسوب دستاویز کو برطانوی جاسوسی ایجنسی(ام۔آئی۔۶) کے نمائیندوں سے حاصل کی۔‘‘سید جواد مادرشاہی جو انجمن حجتیہ کے بزرگ ارکان میں سے تھا اور جن لوگوں نے اسے دیکھا ہے ان کے لئے اس کا ماضی ان کے لئے مکمل طور پر واضح اورروشن ہے۔لیکن حبیب اللہ کا کردار آیۃ اللہ ھاشمی رفسنجانی کی یادداشت میں کسی بھی طور پر مشخص نہیں ہے۔اگرچہ انہوں نے ۱۳۶۱ کی یادداشت میں ۳۰ صفحات کے بعد ۵ مہر ۱۳۶۱ بروز دوشنبہ کی یادداشت میں حبیب اللہ ۔۔۔کو حبیب اللہ عسگر اولادی کے نام سے پہچنوایا ہے اور لکھتے ہیں :’’انجینئر جواد (مادر شاہی) اور حبیب(عسکر اولادی) ایک باخبر شخص سے اطلاعات لینے کے لئے پاکستان گئے تھےاور جب واپس آئے تو وہاں سے بہت دلچسپ اور مفید باتیں لیکر آئے اور ’’کا. گ. ب.‘‘اور حزب توده کی کارکردگی اور ایران میں مستقبل میں روس کی سیاست کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔‘‘اگرچہ مرحوم حبیب اللہ عسکر اولادی نے ھاشمی صاحب کی تکذیب کی اور کہا کہ کسی قسم کی معلومات حاصل کرنے پاکستان گئے ہی نہیں۔مرحوم عسگر اولادی نے انٹرویوں میں کہا تھا:میں آیۃ اللہ ھاشمی رفسنجانی کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان کی یادداشت کے اس حصے میں تصحیح کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان کے  دفتر نے اس یادداشت میں تصحیح کے سلسلہ میں وعدہ بھی کیا ہے۔‘‘

 

 

 

<p style="\&quot;text-align:" justify;\"="">
حبیب اللہ عسگر اولادی نے آیۃ اللہ ھاشمی کی یادداشت میں ذکر ہونے والے ’’حبیب اللہ ۔۔۔‘‘کا  تعارف ’’حبیب اللہ داداشی‘‘ کے عنوان سے کرایا ہے۔



 
صارفین کی تعداد: 4405


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
حسن قابلی علاء کے زخمی ہونے کا واقعہ

وصال معبود

۱۹۸۶ کی عید بھی اسپتال میں گذر گئی اور اب میں کچھ صحتیاب ہورہا تھا۔ لیکن عید کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اندرونی طور پر دوبارہ شdید خون ریزی ہوگئی۔ اس دفعہ میری حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جو میرے دوست احباب بتاتے ہیں کہ میرا بلڈ پریشر چھ سے نیچے آچکا تھا اور میں کوما میں چلا گیا تھا۔ فورا ڈاکٹرز کی ٹیم نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اسے بس تازہ خون ہی زندہ رکھ سکتا ہے۔ سرکاری ٹیلیویژن سے بلڈ دونیشن کا اعلان کیا گیا اور امت حزب اللہ کے ایثار اور قربانی، اور خون ہدیہ کرنے کے نتیجے میں مجھے مرنے سے بچا لیا گیا۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔