سید رشید: دستاویزات اور زبانی تاریخ کے آئینے میں

غلامرضا آذری خاکستر
ترجمہ: سیدہ افشین زہرا

2015-12-7


تاریخ ، نیکیوں اور بدیوں کاامتزاج ہوتی ہے،مگر بعض مورخین ،فتوحات،خوبیوں اور نیکیوں میں اتنا غرق ہوجاتے ہیں کہ بدصورتی ،بدی ،شکست یا دوسرے لفظوں میں تاریخ کے تاریک پہلوؤں سے غافل ہوجاتے ہیں اور تاریخ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ بدصورتی ،فساد،کرپشن ،چوری،لوٹ مار،قتل وغارتگری،استحصال اور بداخلاقی جیسے مسائل کی مورخین کے درمیان کوئی جگہ ہے ہی نہیں لہذا ان موضوعات و مسائل پر کبھی آزاد و تفصیلی تجزیہ کیا ہی نہیں گیا،گرچہ عام عوام کے درمیان ،تایخ شفاہی کی روایات کے توسط سے ،ان موضوعات پر بہت زیادہ بات کی گئی ہے مگر پھر بھی  ضروری ہونے کے باوجود یہ موضوعات عملی طور پر محققین تاریخ کی دلچسپی کا باعث نہیں بنے اور زمانِ گذشتہ سے لیکر اب تک گناہ و جرم پر کوئی مستقل و مکمل بحث اور تحقیق سامنے نہیں آئی ہے۔

زبانی تاریخ، تاریخی مطالعات میں اپنے جدید طریقوں کی بدولت،ریسرچ کے کئے عنوان اور زاویے،تاریخی محققین کیلئے فراہم کرتی ہے اور درحقیقت ایک محقق ،ان انٹرویوز کے ذریعے ،جدید اور نئے مسائل پر تحقیق کے میدان میں باآسانی قدم رکھ سکتا ہے جو کہ کسی بھی علاقے کی تاریخ کو جنم دیتے ہیں زیادہ تر افراد جنہیں اچھے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ،ان پر دو طریقوں سے تحقیق کی جاسکتی ہے،پہلا یہ کہ ،دستاویزات، تاریخی مدارک کے مطالعے یادیں،اور مختلف لوگوں سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرکے تاریخ شفاہی کے ذریعے ان کا تعارف کرواسکتے ہیں اور دوسرایہ کہ اس شخصیت کے منفی پہلوؤں اور نقاطِ ضعف کو ڈھونڈیں اور بیان کریں ،گرچہ مقامی اور علاقائی تاریخ کی تحقیق میں کسی شخصیت کے بارے میں دستاویزات و تحریریں نہیں ملتیں مگر شفاہی و زبانی روایات اور انٹرویوز کے ذریعے ،لوگوں کے حافظوں میں محفوظ معلومات کو اس معاملے میں تحقیق و تحلیل کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے جو کہ کسی بھی محقق کیلئے ،تحقیق کا سبب بن سکے گا۔

کبھی کبھی ہیرو ازم اور متعصبانہ نظر کسی مقامی شخصیت سے متعلق،تاریخی روایات میں اثرانداز ہوئیں اور اسطرح محققین کی تحریروں میں تضاد کا باعث بنیں اور تاریخ میں ناتجربے کار افراد کا عمل دخل باعث بنا کہ تاریخ کے کچھ پہلو نظر انداز یا پوشیدہ رہ گئے۔

خراسان کا شمالی علاقہ،ایک تاریخی گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے یا ایسے علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں مختلف تاریخی واقعات و حادثے رونما ہوئے یہ علاقہ ثقافتوں کا مجموعہ ،تاریخ و زبانی ادبیات اور مختلف اقوام کا مسکن رہا جس میں کردی، کرمانجی، ترک،ترکمانستانی ودیگر اقوام شامل ہیں اور یہ علاقہ گذشتہ دو صدیوں سے کچھ ایسے واقعات کی آماجگاہ بنا کہ جو بعض اوقات قابل فخر اور بعض اوقات قابل تفکر بنے،یہاں پر دو طریقوں سے آمرانہ حکومتوں کا مقابلہ کیا جاتا تھا فرار ہوجانا یا سینہ سپر ہوکر ڈٹ جانا اور انہی ڈٹ جانے والوں میں سے بعض لوگوں کے ہیرو بن گئے اور ان پر نغمے اور گانے بنے اور ان پر داستانیں لکھی گئیں کہ" کلیدر" اسی کی ایک مثال ہے (1)    

سید رشید چنارانی بھی،شمالی خراسان کی شفاہی (زبانی)روایات میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں،اُن کے کئے گئے اقدامات ،علاقے کی ناامنی کا سبب بنے جنکی وجہ سے انکے خلاف قانونی چارہ جوئی ہوئی،دراصل سن 1952سے  1964تک کی خبریں ،رپورٹیں اور ان کے متعلق شائع ہونے والی تحریریں اور دستاویزات، بالخصوص کلات و درگز،چناران،قوچان،شیروان،بجنورد،اسفراین ومانہ وسملقان سے لیکر ملک کے شمال تک کے لوگوں کی یادیں اور کلکشن ،جوکہ ان بغاوت کی نوعیت اور اچھی اور بری شخصیت کی باتوں سے بھرا پڑا ہے۔


تاریخ کی تحقیق :

کتاب " افسانہِ سید رشید" ایک مستند تحریر ہے جو کہ بلواسطہ اور ناول کی شکل میں لکھی گئی ہے اور ان کی زندگی کے مختلف حصّوں اور اقدامات کا احاطہ کرتی ہے گرچہ شاپور آرین نژاد نے اس کتاب کے مقدمے میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ یہ صرف ایک ناول ہے اور کسی شخص یا خاندان سے مربوط نہیں مگر کتاب کا عنوان جس میں سید رشید کا نام آتا ہے یا داستان کا علاقہ ،بعض شخصیات کے نام جو ان کی زندگی سے مربوط تھے،خودبخود قاری کو سید رشید کی زندگی میں لے جاتے ہیں او ربعض اوقات مصنف نے خودہی ان کی زندگی کے بعض ادوار جیسے پھانسی کا طریقہ کار،یازندگی کے نشیب و فراز کو اسطرح بیان کیا ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی ذہن سید رشید کی طرف جاتاہے یہ کتاب " افسانہ رشید " سن 1993 میں دنیائے کتاب انشارات کے توسط سے شائع ہوئی ہے۔

سید رشید (دشتِ گرگان کے مردوں میں سے ایک مرد کی باقی رہ جانے والی داستان) محمود رضا شیخ نژاد کے قلم سے لکھی گئی ایک ایسی کتاب ہے جو ابھی تک شائع نہیں ہوئی اور سید رشید کی سوانح حیات پر مبنی ہے گرچہ اس کتاب کے کافی حصّے اور اقتباسات مستند ہیں مگر مصنف کا ہیرو ازم ،باعث بنا کہ بعض صفحات اور اقتباسات پر انکی شخصیت کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے ،اسکے علاوہ کتاب " غصّہ و قتل و غارت" خراسان کی غیور ملت کی ہولناک کہانیوں پر نئی تحقیق ہے ،احمد عضدی کی لکھی ہوئی ہے اور سید رشید کے اقدامات اور کارناموں پر مبنی ہے یہ کتاب سن 2006 میں انشثاراتِ عضری کے توسط سے شائع ہوئی اسکے علاوہ کچھ یادوں کے حصّے جو خانلر قراچورلو کے سید رشید کے بارے میں ہیں انہیں شائع ہوئے ہیں۔

حسن حمیدی خبوشان (2 ) سید رشید کے گھر والوں اور ساتھیوں سے لئے گئے انٹرویوز،بھی سید رشید کے اہم اقدامات اور زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں گرچہ یہ انٹرویوز بھی ایک خاص انداز سے لئے گئے ہیں مگر پھر بھی بعض مواد جیسے پھانسی دینے کے طریقہء کار کے ساتھ دیگر اہم موضوعات کا بھی احاطہ کرتے ہیں۔ اسی طرح کے چند انٹرویوز تاریخ شفاہی کے دستاویزی مرکز اور آستان قدس رضوی کی مطبوعات کے شعبے نے بھی لئے جو خالصتاً سید رشید کے بارے میں تھے ،مگر اب تک کوئی ایسی تحریر یا دستاویز سامنے نہیں آسکی ہے جوسید رشید کے اقدامات اور کارناموں کے پیچھے مقاصد و وجوہات کو بیان کرسکے۔

مرحوم سید رشید عرب جبل عاملی بمعروف سید رشید چنارانی،سید خان جان کے بیٹے تھے اور1907 میں پیدا ہوئے ،اور نشیب و فراز سے پر زندگی گزارنے کے بعد بالاخر 22 اگست 1964 کو پھانسی چڑھا دیئے گئے۔(3)

سید رشید کی زندگی کے حوالے سے اب تک محققین کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکے ہیں بعض روایات و تحریریں ان کو منفی کردار و خصوصیات و کاروائیوں میں ملوث بتاتی ہیں تو بعض روایات ان کا تعارف ایک ہیرو،جواں مرد بہادر نڈر شخص کے طور پرکراتی ہیں اور بعض ان کو دوسری تاریخی شخصیات سے ملا کر ابہام پیدا کرتی ہیں لہذا ایسا لگتا ہے کہ محققین تاریخ کی اس موضوع کی جانب عدم توجہی باعث بنی کہ سید رشید کی افسانوی شخصیت ،ان کی حقیقی شخصیت پر غالب آگئی۔

بعض اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں میں ان کو باغی بتاتا گیا ہے جس نے مسلحانہ ڈاکہ چوری وقتل و غارت گری کی(4) حتٰی کتاب افسانہ سید رشید میں بھی یہ موضوع چھپ نہ سکا اور مصنف ان کی تعریف کے بعد اس طرف بھی اشارہ کرتا ہوا نظر آتا ہے ،گرچہ تاریخ شفاہی کی روایات نے اس موضوع کو ابھارا ہے مگر انٹرویوز میں بھی جیسے سھراب محمدی کے انٹرویو میں یا ھنر مند خراسان شمالی نے بھی اپنے انٹرویو میں انہیں ایک " دادرس " کی حیثیت سے بیان کیا ہے (5)یا ایک نشریات میں انہیں " نام پانے والے گمنام اور مشرقی گلستان کے عوام کے خوابوں کی تعبیر( خوابوں کے ہیرو) کے نام سے یاد کیا گیا۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شخصی مقاصد باعث بنے کہ سید رشید کی سن1952 میں کچھ ملکی اختلافات کے باعث چناران کے ایک گاؤں میں پولیس فورسز سے جھڑپ ہوئی اور کچھ اہلکاروں کو مارنے اور کچھ کو زخمی کرنے کے بعد وہ ہزار مسجد کے پہاڑوں میں روپوش ہوگئے،بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ہر شخصیت کے کچھ دوست کچھ دشمن ہوتے ہیں اور ہر شخص اپنے ذاتی تجربے اور عقیدے کی بنیاد پر کسی بارے میں رائے دیتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بے غرضی اور بے طرفی کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی جانے والی تحقیق ،ایسے مطالب کی جمع آوری کا سبب بنتی ہے جو علاقائی تاریخ کیلئے موثر اور مفید ہو اورہیروازم اور طرفدارانہ مطالب ،تحقیق و تاریخ کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔

سید رشید کے بارے میں کی جانے والی تحقیق کسی خاص علاقے سے مخصوص نہیں بلکہ درحقیقت ہزار مسجد کے پہاڑی سلسلے کے اردگرد پھیلے کئی علاقے جیسے گلیل اور شاہ جہاں سے لے کر گالیکش کے جنگل تک اور اسکے اردگرد کے گاؤں اور ان میں بسی کئی آبادیاں شامل ہیں جن کے پاس سید رشید کے بارے میں کچھ آنکھوں دیکھی داستانیں اور کچھ سنے ہوئے قصّے ہیں کہ جن میں کسی جگہ کی داستانوں میں سید رشید کو گھوڑے پر سوار ایک ہیرو سے تعبیر کیا گیا ہے جو پہلوی حکومت کے کارندوں سے نبرد آزما ہے اور فتح و کامران ہے اور بعض داستانوں میں اسے بچوں کو ڈرانے والا ہیولا،یا شب خون مارنے والے برے انسان سے تشبہیہ دیا گیا ہے لہذا اس صورتحال کے حل کیلئے یہی راہ موثر ہے کہ شفاہی و مکتوب روایات و آراء کو جمع کیا جائے اور ریسرچ سینٹرز میں مقالوں ،کتابوں اور تحقیق کی صورت ان سب پر کام کیا جائے تاکہ سید رشید اور ان جیسے دیگر تاریخی کرداروں کے مقاصد،اقدامات وعلت و وجوہات کو حقیقی شکل میں بیان کیا جاسکے اورجو کچھ انجام پایا اسکو کسی بھی قسم کی محبت و نفرت سے دور رہ کر لکھا جاسکے۔

سید رشید کے بارے میں بیان کردہ مختلف موضوعات جیسے سید رشید کی پھانسی انکی بہن کی زبانی ان کے دفن کا واقعہ اور دوسرے واقعات ان کے چھوٹے بیٹے سید جلیل کی زبانی اور اسی طرح مختلف حادثات و واقعات کا وقوع پذیر ہونا ان کی روپوشی اور ان کو ڈھونڈنے میں چھاپے مارنے کی کارروائیاں ایک اہلکار (7) کی زبانی اور ۔۔۔۔۔۔دیگر موضوعات ان انٹرویوز کے اہم حصّے ہیں۔

اب تک جو کچھ بھی سید رشید کے بارے میں لکھا گیاہے سب مصنف کے تخیلات اور سنے ہوئے واقعات پر مبنی ہیں گرچہ ان کے گھر والوں نے انکی سوانح حیات کو بیان کیا ہے مگر پھر بھی مصنفین کے تخلیق کردہ " سید رشید کی افسانوی شخصیت " کافی مقبول ہے۔

 



 
صارفین کی تعداد: 4763


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔