تاریخ شفاہی کی رو سے بو شہر میں انقلاب اسلامی(2)

گروہوں کا اتحاد اور انقلابی افراد

محمد جمیری
ترجمہ: سیدہ افشین زہرا

2015-11-27


نوٹ : زیر نظر مضمون میں ہم بو شہر صوبے میں پہلوی حکومت کے خلاف اور انقلاب اسلامی کے حصول میں ہونے والے تنازعات پر بات کریں گے اس مضمون میں بو شہر کے لوگوں کی رہبر انقلاب امام خمینیؓ کی پیروی پر تحقیق اور معلومات ،انٹرویوز کی صورت میں جمع کی گئی ہیں اور اسی طرح ان تنازعات میں مجاہدین اور عالموں کا تعارف کرانا بھی اس مضمون (آرٹیکل) کا مقصد ہے۔

پچھلے ہفتے اس گفتگو کا پہلا حصّہ آپکی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اب اسکے دوسرے حصّے کا مطالعہ کریں۔


درحقیقت انقلابی جلسوں کی قیادت اور اس جدوجہد کو جاری رکھنے کیلئے کچھ ایسے اہم مطالب درکار تھے جنکی حیثیت بالکل ایسی تھی جیسے بدن کیلئے غذا کی حیثیت و ضرورت ہوتی ہے جبکہ بوشہر میں ایسے مطالب کی شدید قلت تھی جسکا سدباب صرف یہی تھا کہ تہران یا قم سے ،کیسٹس،کتابیں،امام خمینیؒ کے رسالے یا اسی طرح پہلوی حکومت کے مخالف دیگر علماء کی کتابوں اور کیسٹوں کو ،بو شہر لایا جائے تاکہ بو شہرکے لوگوں کی اس ضرورت کوپورا کیا جاسکے لہذا اس کام کی ذمہ داری کو چند افراد نے قبول کیاجسکو بعد میں ایک تنظیم یا ایسوسی ایشن کے تحت منظم کیا گیا،اسی حوالے سے چند موارد درج ذیل ہیں۔


شیخ سلمان بحرانی جو قم کے جوان طلباء اورشہید عاشوری کے رشتہ داروں میں سے تھے اس حوالے سے بیان کرتے ہیں(1)" میں 1972 میں تعلیم حاصل کرنے قم گیا اور وہیں سے بوشہر کے انقلابی افراد جن میں امامبارگاہ ارشاد اور مرحوم محمد علی کامکاری اور حاج رضا محمدی باغملائی کے ساتھ مل کر محمد رضا حکیمی،بازرگان طالقانی ،شریعتی اور امام خمینی ؒ کی کیسٹوں اور کتابوں کو بوشہر منتقل کیا کرتا تھا یہاں تک کہ جناب مصطفی خمینی ؒ کی وفات کے بعد حجتہ الاسلام معاد یخواہ کی کیسٹوں کو گاڑیوں میں رکھ کر قم سے بو شہر لایا،یہ کام لوڈر گاڑیوں میں اسطرح مخفی رہ کر کیا جاتا تھا کہ کسی کو شک نہ ہو۔


ارشاد امامبارگاہ کے رکن محترم رضا قادریان اس بارے میں ایک دلچسپ نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں (2)شہید حاج قاسم ہندی زادہ،سوشل سیکوریٹی ایڈمنسٹریشن میں ملازمت کرتے تھےاسی وجہ سے ہم اُنہیں مختلف جگہوں پر بھیجتے تھے اسی طرح

1977 میں تہران بھیجا گیا تاکہ بوشہر کیلئے سوشل سیکویٹی کی گاڑی لیں،جسکو لے کر انہوں نے امام خمینی کے اعلانات و بیانات و رسالوں سے بھرا اور اہواز کے راستے بو شہر لیکر پہنچے، عبداللہ فاتحی نے بھی اس حوالے سے کافی خدمات انجام دیں وہ تہران میں تحصیلات علم کے دوران بو شہرکے انقلابی گروہوں کیساتھ رابطے میں تھے وہ بیان کرتے ہیں،تہران میں تحصیلات علم کے دوران یعنی سن1974 سے77 تک گرفتار ہونے سے پہلے یعنی 1977 سے پہلے اپنی چھٹیوں کے دوران بو شہر آیا کرتا تھا اور امام خمینیؒ شریعتی صاحب اور دوسری انقلابی شخصیات کی کیسٹیں اپنے انقلابی دوستوں کیلئے لایا کرتا تھا،اسی طرح کتابچوں کی تقسیم ،کیسٹوں اور تصویروں کو پہنچانے میں متعدد افراد حصّہ لیتے تھے،رضا قادریان اس حوالے سے بیان کرتے ہیں " ہم کتابچوں کی تقسیم کے علاوہ ،دوسرے کام بھی کرتے تھے جیسے شہید باقر میگالی نژاد کے تعاون سے ہم نے کیسٹوں کو کاپی کرنے والی مشین کا انتظام کیا تھا جو ایک وقت میں تین کیسٹوں کو کاپی کیا کرتی تھی،اسٹینسل کا غذ چھاپنے والی مشین بھی محمد علی کامکاری ،اپنی ذاتی سرمایہ کاری کرکے،ان بیانات کو خود چھاپتے تھے اور بوشہر کے دوسرے مراکز جیسے قم و تہران سے رابطوں میں ایک اہم حیثیت رکھتے تھے ،وہ قم سے بو شہر آتے ہوئے جبکہ ان کی گاڑی بیانات و رسالوں سے بھری ہوئی تھی ،بو شہر سے پہلے براز جان کے مقام پر مردہ حالت میں پائے گئے،شہری پولیس نے ان کی موت کی وجہ ایکسیڈنٹ بتائی مگر ان کے گھر والے اور دوست متفق ہیں کہ انہیں ساواک نے شہید کیا۔

ماشاء اللہ عالی حسینی ،کامکاری کی موت کے بارے میں بتاتے ہیں" شہید محمد علی کامکاری کی شہادت کے ذریعے ساواک نے امامبارگاہ ارشاد اور اسکے مضبوط گروہ پر ایک کاری ضرب لگائی اور ان کی شہادت سے ساواک کامیاب ہوگئی کہ اس گروہ کے کلیدی کردار کو راستے سے ہٹا سکے،مظفری زادے اس بارے میں بیان کرتے ہیں " شروع میں ہمارے پاس بیانات کو چھاپنے کی کوئی مشین نہ تھی لہذا ہم یا تو کاربن پیپر کے ذریعے کاپی کرتے تھے یا محمد قنبر پور کی ٹائپ رائٹر سے جو کہ ان کے گھر میں تھی ،فائدہ اٹھاتے تھے اور کسی کو شک نہ ہو اسلئے بو شہر کیلئے تمام بیانات کو بھی کازرون سے چھپوا کر منگواتے تھے اور امام خمینیؒ کے رسالے (توضیح) کے اوپرکسی دوسرے عالم کا نام لکھتے تھے تاکہ کسی کو شک نہ ہوسکے۔(4)

اسی طرح فدائیان اسلام کے کچھ اراکین جیسے احمدوردیانی ،خسرویان وسید حسین صفوی،امام خمینیؒ کے بیانات اور کیسٹوں کو تقسیم کرتے تھے۔ ایک قابل بیان نکتہ اس زمانے میں شہید عاشوری کی قم کے صف اول کے انقلابی علماء کیساتھ روابط رکھنا ہے اور فنڈز کی جمع آوری ہے اس واقعے کو حجت الاسلام سلمان بحرانی اسطرح بیان کرتے ہیں" میں تحصیل علم کیلئے 1972 میں قم گیا اس سال قم کے طلباء و علماء نے مدرسہ فیضیہ میں احتجاج کیا جس پر حکومتی اہلکاروں نے حملہ کیا اور مدرسہ فیضیہ کو بند کردیا گیا میں نے بھی اس احتجاج میں شرکت کی اور قم سے ہی شہید عاشوری سے جان پہچان ہوئی۔

اسی دوران قم کے سینما ہال کو جلادیا گیا اور آیت اللہ مرعشی نجفی ؒ نے حکم دیا کہ اس جگہ دینی مرکز تعمیر کیا جائے جسکی خبر میں نے شہید عاشوری کو دی اور اسی کے بعد قم کے صفِ اول کے علماء جیسے آیت اللہ مشکینی ،راستی کاشانی، آذری قمی جو کہ شہید عاشوری کو بخوبی پہچانتے تھے سب نے مل کر،جن میں بو شہر سے بھی فنڈز آئے اور اسطرح تعمیر کیلئے جمع آوری شروع ہوگئی۔


پہلوی حکومت کے خلاف احتجاجات وسعت اختیار کرگئے اور انقلابی گروہ کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی ،نیم مذہبی،ملی،نیم ملی اور غیر مذہبی گروہ بھی سرگرم ہوگئے،لہذا فطری طور پر یہ لہر بوشہر میں بھی اٹھی اور کئی دستوں اور گروہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا،رضا قادیان نے بھی اس حوالے سے بیان کرتے ہیں " ہمارے اسکول کے تعلیمی زمانے میں زیادہ تر اساتیذہ ان تنازعات کے مخالف تھے یا بنیادی طور پر غیر مذہبی تھے اسی طرح کچھ افراد جو اس جدوجہد کا حصّہ تھے،وہ بھی باغی فورسز میں شمار کئے جاتے تھے


بو شہر میں انقلاب اسلامی سے مربوط واقعات کی تحقیق و تحلیل کے دوران ،اور حتی تقریباً پورے ایران میں حکومت کے خلاف لوگوں کی آگاہی اور جدوجہدکے ایک دلچسپ نکتے پرپہنچتے ہیں مثال کے طور پر رضا قادر یان اس حوالے سے بیان کرتے ہیں شہیدان میگلی نژاد اور ہندی زادہ کے ہمراہ ہم نے ایک سفر کا ارادہ کیا تاکہ ملک کے مختلف حصّوں میں جاکر حکومت وقت کے مظالم کامشاہدہ کرسکیں اس بیس دن کے سفر نے ہم پر بہت گہرا اثر چھوڑا،اس سفر کو ہم نے بوشہر سے شروع کیا اور شیراز سے اصفہان پھر قم اور تہران اور اسکے بعد شمال گئے اور واپسی میں ملک کے مغربی حصّوں سے ہوتے ہوئے بوشہر واپس لوٹے یہ سفر ہمارے لئے اسلئے زیادہ مفید ثابت ہوا کہ ہم نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا جیسا کہ شمالی علاقے میں سفر کے دوران ،ہم نے ایک عالم کو گاڑی میں لفٹ دی جنہوں نے ہمیں انقلاب اسلامی اور امام خمینیؒ کی فتح و کامیابی کی پیشن گوئی کی اور جب انقلاب کو کامیابی ہوئی توہم سمجھ گئے کہ وہ عالم شہید محمد منتظری کے علاوہ کوئی اور نہ تھا ،اسی طرح مظفری زادہ اور فاتحی نے بھی مختلف شہروں کا سفر کیا،مظفری زادے بیان کرتے ہیں" جمشیدی (راستی) کے ساتھ اور عبداللہ فاتحی کے ساتھ مل کر 20 روزہ،کارزون کا دورہ کیا جہاں انقلابی دوستوں سے ملکر اصفہان پھر قم گئے جہاں آیت اللہ مکارم شیرازی سے ملاقات کرکے کچھ دینی سوالات پوچھے کہ جسکی کیسٹ ساواک کی تحقیق کے دوران میرے گھر سے غائب ہوگئی پھر تہران گئے اور شہید عبدالکریم ہاشمی نژاد اور محترم مطھری صاحب کے جلسوں میں شریک ہوئے پھر مشہد گئے اور آیت اللہ میلانی سے ملے جسکے بعد بوشہر پلٹے اور منظم طریقے سے اپنے گروہ اور سرگرمیوں کو شروع کیا اسکے علاوہ دوسرا نکتہ اور عامل جس نے بوشہر میں انقلابی سرگرمیوں کو تیز کیا، انقلابی افراد اور علماء بو شہر میں آنا جانا اور جلسات اور تقریروں کا انعقاد واہتمام کرنا تھا گرچہ یہ لوگ مقامی بوشہری نہ تھے مگر ان کی رفت وآمد اور تقاریر،بوشہر کے لوگوں میں جوش وجذبہ پیدا کرنے میں معاون ہوئیں اس حوالے سے صداقت صاحب اپنی یادوں کو اسطرح بیان کرتے ہیں کہ" اس جدوجہد کا دلچسپ نکتہ ،ان علماء اور انقلابی افراد کا وجود اور حصّہ تھا جو انہوں نے بو شہر کا نہ ہوتے ہوئے بھی،ادا کیاتھا،اور انہوں نے اپنے وجود اور تقاریر سے جمود کو توڑا اور بوشہر کے لوگوں کو بیدار کیا انہی علماء میں ایک نام حجت الاسلام علی اکبر رضوان کا تھا جو مکارم کے نام سے جانے جاتے تھے انہوں نے ایک شہر سے دوسرے شہر اور پھر اسی طرح شہر بہ شہر جاکر پورے ملک میں اس پیغام کو پھر پھیلادیا تھا،مکارم صاحب خرم شہر بھی گئے مگر ان کو تقریر کرنے کی اجازت نہ ملی وہاں سے بو شہر آئے جبکہ ان کی اہلیہ اورایک ڈرائیور بھی ان کے ہمراہ تھے،مجھے ان کے آنے کی اطلاع ملی اور میں ان دنوں آیت اللہ حسینی کے حج پر جانے کی وجہ سے جامع مسجد عطار کا متولی تھا لہذا اس فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے انہیں ظہرکے بعد مسجد میں آنے کی دعوت دی اور شہید عاشوری کو بھی اسکی اطلاع کردی مگر شہری پولیس کے اراکین کی مسجد میں آمد اور نشاندہی کے باعث،ان کی گرفتاری کے خوف سے ظہر کے بعد کوئی تقریر نہ کی گئی اور میں نے دوستوں کو عشاء کے بعد کا ٹائم دے دیا،بالآخر وہ اپنے فرض کی انجام دہی کے بعد شہیدان عباس اور حسین کامکاری کے ہمراہ ،شہر سے باہر کی جانب روانہ ہوگئے۔

غلام علی قادریان بھی،غیر مقامی علماء کے بارے میں اسطرح بیان کرتے ہیں،ہم سے شیخ ابو تراب نے کہا کہ میرے ساتھ حجت الاسلام رضوانی نام کے عالم آئے ہیں جنکو ساواک نے بو شہر میں تقریر کی اجازت نہیں دی مگر ان کا ارادہ ہے کہ ایک جلسہ کیا جائے ،لہذا ہم نے فیصلہ کیا کہ براز جان لے جائیں اور چند دوستوں کے ہمراہ ان کو برازجان لے آئے ،انہوں نے تقریر شروع کی اور مرگ برشاہ کے نعرے بلند ہوگئے ہم نے بھی بیانات اور رسالے پھنکنا اور باٹنا شروع کردئے ،مگر تقریر کے ختم ہوتے ہی انہیں گرفتار کرلیا یہ براز جان کی پہلی گرفتاری تھی(5)

اسکے علاوہ ایک اور مورد بھی قابل بیان ہے اور وہ عقائد اور اخلاق کی کلاسوں کا انعقاد ہے جو کہ بوشہر کے انقلابی گروہوں کے توسط سے انجام پائیں،اس سے پہلے بھی ہم نے بہا‌ئیت مخالف کلاسوں کا ذکر کیا ہے مگر یہ وہ کلاسز تھیں جو علماء لیا کرتے تھے جیسے حجتہ الاسلام نبوی مسجد امام حسن میں تفسیر کے درس دیا کرتے تھے اور ان کلاسز میں آیت اللہ طالقانی کی کتاب تفسیر پڑھائی جاتی تھی،امامبارگاہ ارشاد میں بھی استاد علی حق شناس کے تعاون سے اخلاق کے درس رکھے جاتے تھے کہ کچھ ہی عرصے بعد ساواک نے ان پر بھی پابندی عائد کردی اور بعد میں یہ کلاسز رضا قادریان کے گھر پر منعقد ہونے لگیں ،اور یہی کلاسز تھیں جو گروہوں میں یکجہتی اور انقلابی افراد کی پرورش کا ذریعہ تھیں۔

 

                                                   ۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔۔


(1) اس انٹرویو کی تاریخ12 اکتوبر2011
(2)انٹرویو کی تاریخ 16 ستمبر2011
(3)عالی حسینی ،ماشاء اللہ راہ ہدایت،انتشارات بو شہر،
(4)مظفری زادہ ،علی رضا،یاد امام،ادارہ بو شہر شناسی ،بوشہر2009 ،ص28
(5)ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص وہی عالم تھے جنکی طرف صداقت صاحب نے اشارہ کیا،،،،۔۔۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 4213


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔