آپریشنز میں فتح اور کامیابی ،بغیر مہارت کے ممکن نہ تھی

گفتگو: سارا رشادی زادہ
ترجمہ: سیدہ افشین زہرا

2015-11-26


نوٹ: اب تک عراق کی ایران پر مسلط کردہ جنگ کے بارے میں کافی تحریریں سامنے  آچکی ہیں جسمیں مجاہدین کی ایثار وقربانی اور کردار سے لے کر ،محاذ کے پس پردہ خواتین کا کردار بھی سامنے لایا جا چکا ہے اور اس موضوع پر کافی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ان تمام ایثار وقربانی کے واقعات سے پیوستہ ،ان لوگوں کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جو کہ جہاد سا زندگی (جہادی تعمیر وزندگی) نامی تنظیم کے طور پر سامنے آۓ اور ان دستوں (اسٹاف) کا کام لوگوں(عوام)  سے مدد جمع کرنے سے لے کر ، پلوں کی تعمیر ،دیواروں اور مورچوں کی تعمیر کرنا تھا وہ بھی ان برستے گولوں کی بوچھاڑ میں۔۔۔۔۔،یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے جنگ کے اختتام کے کئی سالوں بعد تک بھی، جنگی خراب کاریوں اور نقصانات کی مرمت اور تعمیر کا کام جاری رکھا، ہم نے اسی سلسلے میں وزارت جھاد و زراعت کے ، ثقافتی امور کے محکمے کے ڈپٹی آفس میں، فتح اللہ نادعلی صاحب سے ،اس اسٹاف کی کارکردگی، ذمہ داریوں اور بالخصوص جنگ کے دوران ، تعمیر اور انجینئرنگ کے امورمیں ان کی خدمات کے حوالے سے گفتگو کی، جو آپ قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آپ خود محاذ پر اس دستے میں موجود رہے،ہمیں یہ بتائیے کہ کمیٹی کیسے تشکیل دی گئی اور اسکی تشکیل کا خیال کس نے پیش کیا ؟

جس وقت جنگ شروع ہوئی اور دشمن نے ہمارے اسلامی ملک ایران پر حملہ کیا، تو ہم نے یہ اندازہ لگایا کہ گویا پوری دنیا اپنی تمام مہارتوں اور کمالات کے ساتھ ہمارے مقابل آن کھڑی ہوئی ہے اور ایسا کہنا بالکل غلط نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ اس جنگ میں عراق کو صرف انسانی قوت اور اسلحے کی مد د نہیں دی گئی تھی بلکہ ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ  مہارتیں، کمالات، ٹیکنالوجی اور مغربی اور مشرقی ممالک کی امداد بھی عراق کے شامل حال تھی اور صدام صرف اسی وجہ سے میدان میں اترا تھا کہ اُسے اپنی کامیابی اور فتح کا سوفیصد یقین تھا،کیونکہ اگر ایک فی صد بھی احتمال ہوتا کہ صدام کو شکست ہوگی تو وہ میدان ہی میں نہ آتا۔

ہماری دفاع مقدس میں کامیابی کی وجوہات کا سہرا،جنگی تعمیرات اور انجینئرنگ کے سر جاتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ یہ تعمیرات کچھ ظاہری تھیں اور کچھ باطنی، باطنی تعمیرات میں، لوگوں کی اپنے ملک سے محبت اور اسپر ایمان،اسلامی وایمانی طاقت، اتحاد، توکل، ہمدردی اور بھائی چارے سے قائم کردہ کچھ ایسی مضبوط فصیلیں تھیں جو انہوں نے اپنے ملک کے دفاع کیلئے قائم کی تھیں اور یہی جذبہ تھا جسکی وجہ سے یہ جنگ ایک ملی،مذہبی اور قومی جنگ میں تبدیل ہوگئی حتیٰ وہ افراد اور ایران کے وہ لوگ جو جنگ اور جہاد کے قائل نہ تھے،  وہ بھی اپنے قوم وملت اور زمین کی حفاظت کے جذبے کی خاطر اس جنگ کا حصّہ بن گئے۔

یہ امام خمینیؒ کی مہارت تھی کہ قوم کا جو بھی فرد اس دفاع میں شامل ہوا اس نے یہی جانا کہ اس راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم،خدا کی راہ میں اٹھایا جانے والا قدم ہے اور اس وجہ سے ملک کی حفاظت و دفاع،خدا کی رضا کا رنگ اختیار کرگئی۔ ان تمام عوامل کے ساتھ ساتھ ، شاید ہماری کامیابی اور فتح کا اہم ترین عامل، آپریشنز کے دوران ، تعمیرات تھیں اور ان تعمیرات میں ہماری مہارت اور کمال باعث بنا کہ ہمارے مجاہدین با آسانی پیش قدمی کرسکے،مثلاَ جنگ کے اوائل میں اگر ہم ایک طرف حملہ کرکے عراق سے کچھ زمین لے کر اس پر قبضہ کرپاتے تو دوسرے ہی وقت ہمیں اتنے پریشر کا سامنا کرنا پڑتا کہ ہم پیچھے ہٹ جاتے تھے یعنی جس وقت جنگ شروع ہوئی تو شروع میں ہمیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے لیکن آہستہ آہستہ ہماری تعمیرات کے میدان میں مہارت کام کرتی گئی اور ہم سمجھ گئے کہ ایک دستہ  صرف تعمیرات کیلئے مخصوص ہونا چاہیئے اور مجاہدین اور سپاہیوں اور افواج کیلئے  پل ،مورچے،پکے راستے اور کیمپ بنائے اسکے علاوہ یہ دستہ کسی بھی علاقے میں آپریشن شروع کرنے سے پہلے اس علاقے کی زمین کے حوالے سے ضروری معلومات اکھٹا کرتا اور اس طرح ہر علاقے میں آپریشن کی تیاری اور منصوبہ بندی ایک الگ طریقے سے انجام پاتی اور یہی وجہ ہے کہ مشرق،مغرب ،شمال ،جنوب غرضیکہ ہر علاقے کا آپریشن دوسرے سے قدرے مختلف بنیادوں اور تعمیرات پر استوار ہوتا۔ کہ جنوب کے علاقے میں زیادہ تر صحرا ہیں جبکہ دیگر حصّے ، چھوٹی نہریں، دریاچے، سیم و تھور وغیرہ ہیں کہ ہر حصّے کی ضرورت کے مطابق وہاں ایسی ہی تعمیرات کی گئیں جن کا وجود،مجاہدین اورسپاہیوں کو ان علاقوں سے عبور کرنے میں مددگار ثابت ہوا۔


شمال مغربی حصّے میں پہاڑیاں اور چشمے اور نہری سلسلے ہیں جو ایک الگ طریقے کی تعمیرات کے متقاضی تھے، لھذا ہر آپریشن سے پہلے ان پر غور کرکے منصوبہ بندی کی جاتی اور باہمی اتفاق اور کئی ماہرانہ مشوروں کے بعد اسکو انجام دیا جاتا۔ راستوں اور دیواروں کو بنانے کا کچھ کام علاقے کے اندر اور کچھ اس علاقے میں داخل ہونے والے راستوں میں انجام دیا جاتا اس حوالے سے میں " دلدل"کو عبور کرنے کی مثال اور حوالہ دوں گا کہ جسکا سب کام ہمیں اُس سے باہر ہی انجام دینا تھا یا مثلاَ ایک نہر کو پار کرنے کیلئے یا تو پل تعمیر کیا جاتا یا ہم تحقیق کرتے کہ کسطرح اسمیں  اتر کر اُسے پار کرسکتے ہیں اور اسکے لئے کیا لازم اور ضروری ہوگا۔۔۔،  بہر حال مختصراَ اور خلاصتاَ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان تعمیراتی مہارتوں کے  بغیر ہم جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔


اس پورے دفاع مقدس میں جتنے بھی لوگ یا افرادی طاقت ہمارے پاس موجود تھی وہ سب مختلف تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے اپنے سلیقے اور ہنر کے مطابق مختلف کاموں کو انجام دیتے تھے،کچھ دستے لوگوں اور عوام سے مدد اور سامان اکھٹا کرنے پر مامور تھے،   کچھ بحیثیت سپاہی ومجاہدین جنگی ہتھیاروں کو استعمال کرکے میدان میں اترا کرتے تھے،کچھ فرسٹ ایڈ اور مرہم پٹی کاکام انجام دیتے تھے،اور کچھ تعمیراتی کاموں کو انجام دیا کرتے تھے کہ انمیں سے زیادہ تر مجاہدین ہی تھے،یہاں یہ ذکر کرنا نہایت ضروری ہے کہ جنگ کے باقاعدہ طور پر شروع ہونے سے قبل ہی چھوٹی جھڑپیں اور تنازعات،بارڈر کے قریب گاؤں اور دیہاتوں میں شروع ہوچکے تھے اور عوام بالخصوص ان بارڈر کے دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ کہ جن میں کردستان ، سیستان وبلوچستان قابل ذکر ہیں،انقلابی جہادیوں کو اعتماد کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے اور ان کے منتظر تھے اور یہی رویہ جہادیوں کا بھی تھا کہ جب بھی یہ گاؤں کسی مشکل کا شکار ہوتا،انقلابی مجاہدین ان کی مدد کو پہنچتے اور ان کو اس مشکل سے نکالتے۔۔۔۔


یہی باہمی مدد تعاون اور بھروسہ تھا کہ ان جہادی تنظیموں نے شہروں اور دیہاتوں میں  اپنا مقام اور مجاہدین بنائے اور اسکا فائدہ یہ ہوا کہ جنگ کے باقاعدہ آغاز سے پہلے ہی یہ مجاہدین ،بارڈر کے تمام دیہاتوں اور علاقوں میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرچکے تھے اور ان سے ہر طرح کی مدد کے حوالے سے مطمئن تھے اسی طرح دیہاتوں کے لوگ بھی ذہنی اور قلبی آمادگی اور منصوبہ بندی کرچکے تھے اور ہرحالات میں ان مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہونے پر رضا مند تھے،اسی باہمی تعاون اور یکجہتی کے زیر اثر،ہر گاؤں میں ایک مضبوط دستہ قائم ہوچکا تھا جسکا کام امداد کو پہنچانا اور ان کی جمع آوری تھی کہ تقریباَ بیس ہزار جگہیں معین ہوگئیں جہاں ہر قسم کی امداد جمع کی جاتی تھی اپنی منصوبہ بندیوں میں جب تعمیرات اور انجینئرنگ کے حوالے سے مدد اور ضرورت کا انکشاف ہوا اور اس سلسلے میں یہ ذمہ باہمی اتفاق کے ساتھ ہیڈ کوارٹر کو دے دی گئی کہ جو کوئی چاہے ڈرائیور ہو یا مکینک اگر جنگ میں حصّہ لینے کی غرض سے محاذ اور جنگ کا رخ کرتا تو وہ ہیڈ کوارٹر سے رجوع کرتا اور پھر اسکی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اُسے اسی دستے میں تعینات کیا جاتا جہاں وہ بھرپور کارکردگی دکھا سکتا۔

 

جہادی ہیڈکوارٹر کے بارے میں کچھ بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ مغربی حصّے یا جنوبی حصّے کے اہم ترین ہیڈکوارٹر کہاں واقع تھے؟


جہاد کے چھ انجینئرنگ ہیڈکوارٹر تھے،جنوب میں مرکزی ہیڈ کوارٹر جسکو کربلا ہیڈکوارٹر کا نام دیا گیا تھا ، دریائے نوح  (ع) ہیڈکوارٹر،  مغربی حصّے میں حمزہ ہیڈکوارٹر، شمال مغرب اور مغربی حصّے میں نجف ہیڈکوارٹر اور آخری ہیڈکوارٹر رمضان ہیڈکوارٹر تھا جو کہ جنگ کے اواخر میں ، سرحد پار کارروائیوں کی غرض سے بنایا گیا تھا۔

اس لحاظ سے کربلا ہیڈکوارٹر ہمارا مرکز اور سب سے اہم ہیڈکوارٹر تھا اور سب تعمیرات کا کام بھی اسی ہیڈکوارٹر کے ذمّے تھا ،ان ہیڈکوارٹرز کے کمانڈرز میں، کربلا ومرکزی ہیڈکوارٹر کے کمانڈر انجینئر ورشائی ،محترم شمائلی صاحب، نوح ہیڈکوارٹر کے کمانڈر، لالہ زار صاحب، حمزہ ہیڈکوارٹر کے کمانڈر، جناب حسن بیگی صاحب، نجف ہیڈکوارٹر کے کمانڈر موحد خواہ صاحب اور اسی طرح رمضان ہیڈکوارٹر کے کمانڈر ڈاکٹر قریب صاحب تھے۔

ان ہیڈ کوارٹرز کی انجینئرنگ اور تعمیراتی کام میں، فکسڈ اور عارضی پلوں کی تعمیر، پہاڑوں پر راستوں کی تعمیر، صحرا، ٹیلوں، ڈیموں اور کچی پہاڑیوں سے گزرنے کے راستے ہیلی کاپٹر کیلئے ہیلی پیڈ کی تعمیر،اور صحرا میں فیلڈ اسپتالوں کا قیام شامل تھا،یہ سب کام منصوبہ بندی اور کاغذی کارروائی اور نقشوں وغیرہ کے بعد مکمل طور پر شروع کیا جاتا اور بغیر کسی نقص اور غلطی کے تعمیر کیا جاتا۔


مثلاَ پل کی تعمیر سے پہلے ،علاقے اورجگہ کا تعین اور اس جگہ کی خصوصیات کو مدنظر رکھنا،اسکے علاوہ وہ وزن جو پل پر سے گزارا جانا ہے ،وہ وقت جس وقت یہ پل استعمال کرنا ہے آب وہوا ،اور بہت سی کاغذی حسابات کے بعد ،پل بنایا جاتا تھا تاکہ کسی غلطی کا امکان ہی نہ رہے ان سب کاموں کیلئے اور کاغذی حساب کتاب اور نقشوں کی بنائی وغیرہ کیلئے انجینئرنگ ریسرچ سینٹر بھی قائم کئے گئے تھے کہ یہ 5 ریسرچ سینٹرز تھے (تہران شہر میں الشریف ریسرچ سینٹر جو کہ کرج سڑک پر تھا) اس کے علاوہ شہر مشہد تبریز، شیراز اور اصفہان میں ریسرچ سینٹرز قائم تھے۔


ان تمام سینٹرز میں ان تمام انجینئرز کو مدعو کیا جاتا تھا جو جنگ میں اپنا حصّہ ڈالنے کی خواہش مند تھے کہ لوگ ٹیم ورک کے تحت ان تمام کاموں کو انجام دیتے حتیٰ ضروری سازوسامان،مشینیں اور آلات وغیرہ بھی جمع کرکے محاذ پر بھیجا کرتے تاکہ ضرورت کے مطابق تعمیرات کو انجام دیا جاسکے ،اسکے علاوہ ان ریسرچ سینٹرز کا دائرہ کار ان کاموں سے زیادہ وسیع تھا اور اسکے علاوہ بھی اینٹی کیمیائی سامان کی مینوفیکچرنگ،ڈیزائن اور راکٹوں کے ایندھن اور ساخت اور جانچ وغیرہ کے طریقہ کار کی ذمہ داری بھی انہی ریسرچ سینٹروں کے کاندھوں پر تھی کہ اگرچہ دیکھا جائے تو عام ذہنوں میں یہ کام بس اتنا سا ہی اہم ہے کہ چند پل اور مورچے اور اونچی دیواریں بنانا،مگر حقیقت میں یہ کام نہایت دشوار تھا کہ یہ تشخیص دیتا اور یہ حساب لگانا کہ دشمن کی قوت و طاقت کتنی اور کس حد تک ہے اور وہ ان تعمیرات اور انجینئرنگ میں کتنی مہارت رکھتا ہے اور اسکو کیسے زیر کیا جاسکتا ہے کہ یہ سب کوئی آسان کام نہ تھا


لہذا یہ بات عیاں ہے کہ ہم بغیر مہارت کے دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے کہ ان ریسرچ سینٹروں نے ہماری پشت پناہی کی اور مجاہدین اورسپاہیوں کے کام کو آسان بنایا ان سب میں "بعثت"  نامی پل اس انجینئرنگ کا شاھکار ہے جو کہ مختلف قسم کے لوہےکے پائپوں کی مدد سے دریائے اروندرود میں ایک کلومیٹر تک بنایا گیا تھا تاکہ امریکہ بیڑے اور نٹیلی جنس کی اطلاعات تک رسائی حاصل کی جاسکے اور اسکی تعمیر میں لوہا استعمال ہوا تھا کہ اگر بمباری سے خراب ہوجائے تو دوبارہ جوڑا جاسکے اس پل کی تعمیر سے پہلے بھی تمام منصوبہ بندی کی گئی تھی جیسے پانی کی گہرائی ،پانی کا بہاؤ،مدو جزر اور استعمال ہونے والے سامان کی ساخت وتعمیر کا وقت وغیرہ اسی طرح پل" خیبر " جوکہ 30 کلومیٹر لمبا بنایا گیا تھا جبکہ ضرورت صرف 15 کلومیٹر تک کی تھی 15 صرف اسلئے تعمیر کیا گیا کہ اگر آپریشن کے دوران کچھ حصّہ خراب ہوجائے تو باقی حصّے کو استعمال میں لایا جاسکے۔


کم وقت میں بہترین اور زیادہ کام کرنے کے پیش نظر اس پل کو تین حصّوں میں تین مختلف دستوں نے بنائے جو آپریشن کے وقت آپسمیں جوڑے گئے مگر ان تمام مشکلات اور بے انتہا کام کرنے کے بعد بھی ہم نے کبھی کسی سے یہ نہیں سنا کہ یہ کام کمترین وسائل کے ساتھ ہم نے انجام دیا ہے۔


اوریہ دلیل اور وجہ کہ ان کاموں کو اتنا عام نہیں کیا گیا یا ایسے لوگ سامنے نہیں آسکے جنھوں نے ایسی سرگرمیوں میں حصّہ لیاتھا،صرف یہی تھی کہ دفاع مقدس کے تین اہم ستون تھے ایک فوج دوسری پولیس اور تیسرے یہ مجاہدین کہ جنگ کے ختم ہونے کے بعد پولیس اور فوج اپنی حیثیت میں برقرار رہی اور مستقل اداروں سے وابستہ ہونے کیوجہ سے یہ دونوں ستون ،بہت واضح اورعیاں ہوئے مگر مجاہدین جنگ کے خاتمے کے بعد ہی ختم ہوگئے کہ اگر کوئی انصاف کرے یاکبھی کسی نے ان کے ساتھ انصاف کرنا چاہا تو مقالہ یا کتاب کی صورت میں ان کی خدمات کو بیان کردیا، مگر بطور کامل اور ایک مستقل حیثیت کے ساتھ جسطرح کی پذیرائی ملنے کے یہ لوگ مستحق تھے ان کو نہ دی گئی اور بہت سے لوگوں سے اب بھی یہ خدمات پوشیدہ رہیں۔

 

وہ ماہر افراد جو ایسی تعمیرات کو بنانے یا نصب کرنے کیلئے بھیجے جاتے تھے یقیناَ انمیں سے کچھ بمباری کا نشانہ بھی بن جاتے ہوں گے اور کام شروع کرنے سے پہلے ہی شہید ہوجاتے ہوں گے تو ایسی صورت میں ان کا نعم البدل کیا ہوتا تھا اور آپ ان دستوں میں کام کرنے والی افرادی قوت کے ضائع ہوجانے پر اسکا ازالہ کیسے کرتے تھے ؟


جنگ میں کچھ نہ کچھ کھونا تو پڑتا ہے مگر اگر آپ موازنہ کریں تو معلوم چلے گا کہ عراق کا جانی نقصان ہم سے زیادہ ہوا کہ جنگ کے وقت ملک عراق کی کل آبادی سترہ (17)ملین تھی اور ہماری پینتیس(35)ملین یعنی عراق ہماری آبادی کے مقابلے میں آدھی افرادی قوت کا حامل تھا کہ ہمارا جانی نقصان دو لاکھ بیس ہزار جبکہ عراق کا ساٹھ لاکھ کا نقصان ہوا یعنی ہمارے جانی نقصان سے تین گنا زیادہ نقصان اور یہ کم جانی نقصان دراصل ہماری بہترین منصوبہ بندی اورتدبیر کیوجہ سے تھا ہماری جنگ ،ایک مشکل جنگ تھی مگر یہ سب بہترین منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا کہ ان جانی نقصانات میں سے بھی بہت سے بمباری اور دہشت گردی کی نظر بھی ہوئے یعنی جنگ میں ہمارا جانی نقصان صرف ایک لاکھ اسی ہزار تک کا ہے،ان تمام منصوبہ بندیوں میں سب سے اہم منصوبہ بندی انجینئروں کی تھی جنھوں نے بہترین تعمیرات ،کیمپ اور دشمن کی نظروں سے اوجھل رہ کر اپنے آپریشن کو انجام دینے کیلئے مختلف تعمیرات اور مہارت کے ذریعے ہماری پشت پناہی کی اور بہترین کیمپ مسدود کرنے والی دیواریں اور بنکرزہی تھے جنکی وجہ سے ہمارے جوان ،مجاہدین اور فوجی محفوظ رہے اور ہم نے کم جانی نقصان کا سامنا کیا۔
اور جہاں تک بات رہی ان شہداء کی جوماہرانہ صلاحیتوں کے حامل تھے اس کیلئے ہم نے ریسرچ سینٹرز قائم کئے ہوئے تھے جہاں سے گاہے بگاہے ہمیں مدد ملتی رہتی تھی اور ہمارے پاس تقریباَ اس مد میں پانچ لاکھ چالیس ہزار کے لگ بھگ افرادی قوت میسر کی گئی تھی جو محاذ پر موجود ہوتی اور کچھ کوہم نعم البدل کے طور پراستعمال کرتے۔ اسکے علاوہ یہ ٹریننگ مستقل جاری رہتی تھی اور اس طرح ہیڈکوارٹرز اور ریسرچ سینٹروں سے بھی ٹریننگ کے بعد مسلسل ہمیں افرادی قوت بھیجی جاتی تھی جنمیں سے کچھ کوریسرچ سینٹروں کیلئے روک لیا جاتا اور کچھ کو محاذ پر بھیج دیا جاتا یہ عمل مستقل جاری رہتا تھا۔ان تمام افرادی قوت میں سے ہم نے صرف 3275 تین ہزار دوسو  پچھتر شھید ہوئے۔1200زخمی اور 21575 جانباز قرار پائے۔


ابھی جاری ہے ۔۔۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 4603


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔