بیر جند سے تعلق رکھنے والا آفاقی انسان

ڈاکٹر محمد حسن گنجی کے تعلیمی دور کی یادیں

فرہاد طاہری
ترجمہ: سیدہ افشین زہرا

2015-11-26


نوٹ: تیر ماہ کے آخر میں استاد محمد حسن گنجی کی برسی تھی،ابھی جوآرٹیکل آپ پڑہیں گے یہ اُن کی خودکی لکھی ہوئی کتاب سے اقتباس ہے جو کہ تقریباَ ان کے انتقال سے ایک سال قبل چھپی ،جسکا مطالعہ کرکے میں نے سوچا کہ استاد محمد حسن کے تعلیمی دور کو بیان کرکے ان کی یادوں کو تازہ کیا جائے،اس تاریخ شفاہی کی سائٹ پر اس تحریر میں کچھ ترامیم اور معمولی تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ اسکو موجودہ دور کے مطابق ڈھالا جاسکے۔

گذشتہ سالوں میں بہت سی تحریریں ،یادوں وسیاسی واقعات کو ریکارڈ کرانے کے عنوان سے مختلف ناموں سے شائع ہوئی ہیں جن میں سے زیادہ تر کا موضوع " یادیں "زندگی" یا " اہم نوٹ " وغیرہ رکھا گیا، یہ تحریریں پہلوی دور کی ثقافت کے متعلق سیاسی اداکاروں کے قلم سے تحریر ہوئی ہیں اور انہی کی طرح کی کچھ اور مطبوعات بھی سامنے آئیں جو کہ کچھ ایسی ان کہی باتوں کی عکاس ہیں جوکہ پہلوی خاندان اور اس دوران کی پوشیدہ سیاست سے متعلق ہیں اور اس میدان میں تحقیق کرنے والوں کیلئے ایک اہم ماخذ کا کام سرانجام دیں گی۔

عصر حاضر کے کچھ سائنسدانوں اور دانشوروں نے بھی ان موضوعات پر اپنی تحریروں کو " گذشتہ زندگی" کے استعاری عنوان کے طور پر شائع کیا یا اس سلسلے میں پہلوی دور کے بعض سیاسی وثقافتی لوگوں کی ادھوری تحریروں کو بھی ،انقلاب اسلامی کے بعد ،بعض محققین نے اپنی کوششوں سے لوگوں تک پہنچایا اور یہ تحریریں بھی منظر عام پر آئیں اور قابل اشاعت بنیں،کچھ مستثنیٰ تحریروں کے علاوہ ان یادوں میں سب سے زیادہ غلبہ (  جیسے علی اصغر حکمت کی یادیں،محمد علی فروغی کی یادیں،ڈاکٹر قاسم غنی کی یادیں )  ان تحریروں کا ہے جو کہ " وقت گزرنے کے بعد " لکھی گئیں اور اسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان تحریروں کے مصنف نے اپنی سوانح حیات کے اہم ترین حصوں کو وقت گزرجانے کے بعد دہرایا ہے اسکو کاغذ پر قلم بند کیاہے ایسی تحریروں میں زیادہ تر مطالب وہ بہترین واقعات اور مشاہدات ہیں جو مصنف کی زندگی کے مختلف ادوار کی عکاسی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اس زمانے کے لوگوں کی اقتصادی اور اجتماعی زندگی کی جھلک بھی دکھاتے ہیں۔

اسکے علاوہ دوسری خصوصیت جو ان تحریروں میں واضح طورنظر آتی ہے اور پڑھنے والے کو مجذوب کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مصنف کی توجہ ان تمام مطالب کو بیان کرتے ہوئے اس جانب ہی مرکوز تھی کہ سب تاریخی وسیاسی واقعات اسطرح لکھے جائیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ سب مصنف کی زندگی سے براہ راست جڑے ہوئے بھی دکھائی دیں ۔لیکن" بیر جند سے تعلق رکھنے والا آفاقی انسان " ایک ایسی منفرد تحریر ہے جو کچھ اور خصوصیات رکھتی ہے جسکا اندازہ آپکو آگے ہوجائے گا۔۔۔

یہ کتاب ایک ایسے نامور دانشمند کے قلم کا شاہکار ہے جوکہ زمانے کی بے وفائی اور  سرد مہری سہہ چکا ہے اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد حسن گنجی 21خرداد 1291 کو بیر جند میں پیدا ہوئے اور  29  تیر1391 کو تہران میں وفات پاگئے،  وہ تہران یونیورسٹی کے نامور اساتیذ میں سے ایک قابل استاد تھے اور جغرافیہ ڈپارٹمنٹ سے منسلک تھے، بیر جند شہر میں یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے کا سہرا انہی کے سرجاتاہے اور انہی کی کوششوں سے محکمہ موسمیات کو قائم کیا گیا اور یہ سب ان کی مخلصانہ خدمات کا ہی نتیجہ تھا کہ سن 2001میں ایک ایسے انعام کے حقدار پائے جو کہ اس وقت (2001تک) کسی بھی غیر یورپی کو نہ ملا تھا،اور بلاشبہ یہ انعام ان کی سوسالہ زندگی کے اُن 70 سالہ خدمات کے صلے میں دیا گیا تھا جو انہوں نے ایک مخلص اور محنتی انسان ہونے کے ناطے انجام دیں تھیں وہ ان سالوں میں ایران کے بھی بہت سارے تاریخی واقعات کے شاہد رہے اور ایران میں بھی اعلیٰ عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیتے رہے،انہوں نے اپنی زندگی میں چالیس سے زیادہ ممالک کا سفر بھی کیا۔(بیرجند سے تعلق رکھنے والا آفاقی انسان ص10) وہ اپنی اس زندگی میں مختلف علمی وادبی شخصیات سے بھی ملے اور زمانے کی ناشکری اور تلخیوں کو بھی چکھا جن کا ذکر کتاب کے مقدمے (ص6)پر بھی کیا،اسکے علاوہ کتاب کا ایک بڑا حصّہ ان کی سوسالہ زندگی (تقریباَ ایک صدی) کی عکاسی کرتاہے جسکے نشیب وفراز کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ،مصنف نے نہایت مہارت اور عمدگی سے ان تمام یادوں ،اپنی زندگی کے تجربوں جوکہ دوران جوانی اوراسکول کی تعلیم سے لے کر اس دن تک جب آپ یہ کتاب لکھ رہے ہیں اس طرح مرحلہ بہ مرحلہ بیان کیا ہے پڑھنے والے گرویدہ ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔

یہ کتاب " بیر جند سے تعلق رکھنے والا آفاقی انسان" گذشتہ زمانے میں ڈاکٹر گنجی کی زندگی کے متعلق ہے جبکہ اسکا ایک بڑا حصہ آپ کے سفرناموں پر مشتمل ہے یہ کتاب دو طرح کی تحریروں سے مُزین ہے ایک کا انداز بیان وقت گزرنے کے بعد یعنی گذشتہ زمانے کی عکاسی کرتاہے جبکہ دوسری طرح کا انداز بیان موجودہ دور کا عکاس ہے اور اس کتاب کی اس خصوصیت کی بناء پر اسکو باآسانی دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

پہلا حصّہ مصنف کی سوانح حیات اور یادیں ہیں جو کہ مصنف کی عمر کے سات سال سے یعنی تقریباَ1298   سے شروع ہوکر سن 1331 کے مہر مہینے کی پہلی تاریخ پر اختتام پذیر ہوتی ہیں ،   یہ تحریریں جو کہ کتاب کے ایک بڑے حصّے پر مشتمل ہیں، تاریخی،ثقافتی ،سیاسی اجتماعی اور جغرافیائی واقعات و حالات کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ عصرِحاضر کے تاریخی محققین کیلئے ایک سرمائے کی حیثیت رکھتی ہیں،ڈاکٹر گنجی نے کتاب کے اس حصّے میں اپنی گذشتہ یادوں کو ایک کہانی یا داستان کے طور پر بیان کیا ہے، اور مختلف عنوانات اور موضوعات کا سہارا لیتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے مرحلہ بہ مرحلہ ہر چیز کو بیان کیا ہے کتاب کی پہلی فصل سے لے کر تیسری فصل تک مختلف عنوان جیسے شوکتیۂ اسکول بیرجند میں تحصیل علم،انگلینڈ میں تحصیل علم،بیان کئے گئے ہیں جبکہ چوتھی فصل میں تحصیل علم امریکہ میں۔بیان کیا گیا ہے، مصنف نے کتاب کے اس حصّے میں اپنی یادوں کو اس زمانے کے تاریخی واقعات اور حوادث کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ تحریریں اپنے پڑھنے والوں کو تصورات کی دنیا میں ،ان ایام،مکان اور اُن دنوں تک لے جاتی ہیں جن میں وہ واقعات رونما ہوئے اور اسطرح اس تحریر میں کھوجاتے ہیں کہ گویا اپنی آنکھوں سے وہ تمام مناظر دیکھ رہے ہوں اور محسوس کررہے ہوں اور  اسی طرح اُن قدیمی جگہوں کی موجودہ دور سے مطابقت کو ایسے بیان کیا گیا ہے کہ گویا آپ خود اس زمانے سے اس جگہ کو دیکھ رہے ہوں،جیسے وہ کچھ جوانہوں نے ایران کے قدیمی محلات کے بارے میں تحریر کیاہے آج کی موجودہ حالت کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد دیتا ہے،انہوں نے حتیٰ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی نہایت اہمیت دے کر مناسبت سے بیان کیا ہے جیسے ساتھ پڑھنے والے ہم کلاسیوں کے نام،مختلف اشیاء کی قیمتیں،گھر کاکرایہ،ٹرانسپورٹ کے کرائے اور اسی طرح کی بہت سی چیزیں جسکی وجہ سے پڑھنے والے کی دلچسپی اور بھی بڑھ جاتی ہے(ص 20-19 ،40-39 )۔
اسی طرح مصنف نے ساتھ ساتھ بہت سے واقعات اور مسائل کی بھی نشاندہی کردی ہے جو شاید براہ راست اسکی زندگی پر اثرانداز تونہ تھے مگر گذشتہ صدی کی آغاز کی دہائیوں کے بہت سے ناگفتہ واقعات اس انداز بیان کیوجہ سے بے نقاب ہوگئے، ابتدائی تحصیلات میں بیرجند کے مذہبی،اجتماعی اور ثقافتی حالات سے لے کر شوکتیۂ اسکول میں پڑھانے کے طریقہ کار،قاچار کے زمانے کے آخری دور میں اور پہلوی حکومت کے اوائل میں لوگوں کے معاشی حالات (ص15-17 )،اساتیذ کے رویئے اور یادیں،ہم کلاسیوں کی داستانیں اور زندگی سے جڑے واقعات(ص59-38 )،محمد تقی خان پسیان کا تنازعہ،بیرجند میں پہلے جہاز کا اترنا سے لے کر ایران پر اتحادی فوجیوں کے سن 1320 میں حملے اور بہت کچھ قابل ذکر ہیں(ص128-18,127-17 ) اور ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو یہی سب تفصیلی مطالب ہیں جسکی وجہ سے اس کتاب کے حجم میں کافی اضافہ بھی ہوا ہے۔

اسکے علاوہ اس کتاب میں ڈاکٹر گنجی کے وکٹوریہ یونیورسٹی میں تحصیل علم کے دوران کے واقعات اور یادیں (مانچسٹر انگلینڈ ہیں) کلارک یونیورسٹی (امریکہ میں)ان کی تنقید اور نقطہ نظر،مغربی تمدن کے بارے میں ،کافی اہمیت کا حامل ہے اوراسکے ساتھ ساتھ اسکا موازنہ ایران کے اجتماعی اور ثقافتی ماحول سے بھی کیا گیا ہے اسکے علاوہ اسی طرح کی اور بھی تحریریں ہیں کہ جن کو پڑھ کر مصنف کے ایک منصف (انصاف پسند) اور حقیقت پسند،ذہن کا اعتراف کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے انہوں نے اپنی ان تحریروں میں ایران سے تعلق رکھنے کے باوجود،ایران کی کمیوں اور معاشرے کی پسماندگی کو نظر انداز نہیں کیاہے اور نہ ہی مغربی معاشرے کی رنگینیوں سے متاثر ہوکر ،مغربی معاشرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے،بلکہ ہر چیز کو اسکی حقیقت اور واقعیت کے مطابق بیان کیا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے استاتیذ کے بہت شکر گزار نظرآتے ہیں جنھوں نے ابتدائی تحصیلاتی دور میں ان کو پڑھا یا اوراسی طرح مغربی استادوں کی زحمات کو بھی سراہتے ہوئے نظرآتے ہیں،سید محمد فرزان وعباس اقبال آشتیانی ایران میں اور پروفیسر ہربرٹ جان فلور جوکہ مغربی پروفیسر تھے ان کا کافی جگہ تذکرہ کیاگیا ہے (ص 85-83,65-55,24)۔

ڈاکٹر گنجی کے ایران اور مغربی ممالک میں تحصیل علم کے دوران یونیورسٹیوں کے بارے میں بیان کئے گئے واقعات ازجملہ تہران یونیورسٹی کے بیان کردہ حالات و واقعات اُس دور کی سماج شناسی اور تہران یونیورسٹی کی پسماندگی کی وجوہات اوراس دور کی یونیورسٹیوں پر حاوی نظریات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں کہ ان تمام میں سے خلاصتہَ تین کو یہاں بیان کیا جارہا ہے جس سے اس وقت کے حالات میں تنگ نظرافراد کا کردار،علمی وادبی شخصیات کی بے توجہی اور حکومت کی ترقی اور  پیشرفت کی راہوں کو مسدود کرنے کی سازش کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

ان دلچسپ واقعات میں سے ایک واقعہ کچھ اسطرح ہے کہ ایک دن امتحانی ہال (بیرون ملک تعلیم کیلئے جانے والوں کیلئے دیئے جانے والے امتحان) میں، تحصیلی سال ختم ہونے سے چند ماہ قبل ، نصراللہ فلسفی جوکہ اس زمانے کے ناموردانشور مانے جاتے تھے مگر اس زمانے کی پی ایچ ڈی کی موجودہ ڈگری کے حامل نہ تھے،اپنے کچھ اور دوست اساتذہ کے ساتھ امتحانی ہال میں آئے تاکہ سوالات بتائیں اور امتحان شروع کروایا جاسکے کہ اسی اثناء میں ہال میں موجود چند لوگ جو امتحان دینے آئے تھے واک آؤٹ کردیتے ہیں وہ بھی صرف اسوجہ سے کہ پروفیسر نصراللہ فلسفی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ڈگری نہ ہونے کے باوجود ہمارا امتحان لے سکیں،پروفیسر اقبال نے اس معاملے کو حل کروایا اور اپنی موجودگی کی یقین دہانی کروا کرامتحان کو شروع کروادیا مگر حالت اتنی خراب تھی کہ جب امتحان بیچ میں پروفیسر اقبال کو کہیں جانا پڑا تو ہنگاموں کے سدباب کیلئے انہوں نے اپنی ٹوپی کو اتار کر ان لڑکوں کے ڈیسک پر رکھ دیا جنکو اعتراض تھا اور پھر بولے میری ٹوپی یہیں ہے اور میں ابھی واپس آرہا ہوں(ص64)


تہران یونیورسٹی سے ہرسال کچھ لوگوں کو بیرون ملک تحصیل علم کیلئے بھیجا جاتا تھا ایک مرتبہ میرا اور احمد سعادت کا نام بھی ان لوگوں میں آگیا اور ہم دونوں یونیورسٹی کے نمائندے کے گھر گئے اور ان سے اس سلسلے میں مدد کی درخواست کی مگر انہوں نے کچھ جواب نہ دیا اور سب کچھ بے نتیجہ رہ گیا کہ یہیں سے مجھے مانچسٹر یونیورسٹی میں مزید تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا اور میں نے ایک تفصیلی خط پروفیسر فلور کے نام لکھ ڈالا کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ میری خواہش کا احترام کیا اور میرے تحصیل علم کی حامی بھری بلکہ مجھے آفر کی کہ کاپ شہر کی یونیورسٹی میں جغرافیہ کے پروفیسر کے طور پر بھی خدمات کو انجام دوں اوراگر میں چاہوں تو وہ میری سفارش بھی کریں گے اور اس سلسلے میں میری ہرممکنہ مدد کریں گے جب میں نے یہ آفر اپنی یونیورسٹی کے مدیر (ہیڈ)  کو بتائی توانہوں نے بہت سردمہری کا مظاہرہ کیا اور مجھے جواب دیا کہ اس کام کیلئے تہران یونیورسٹی آپکو چھٹیاں نہیں دے سکتی یہ کوئی امید افزاء جواب نہ تھا لہذا مجھے جاب سے نکال دیا گیا اور ان ہی دنوں جب ایک دن میں گھر واپس لوٹا تھا اور گھر کا دروازہ کھولنے میں مشغول تھا میں نے دیکھا کہ ایک کالے رنگ کی گاڑی کہ جس پر انگلینڈ کا جھنڈا لہرارہا تھا میرے گھر کے سامنے آکر رکی،گاڑی سے ایک شخص نیچے اُتر کر میرے پاس آگیا اور بولا میں انگلینڈ کا سفیر؛کینٹ ڈوروزٹل ہوں اور پروفیسر فلور کا چچازاد بھائی بھی ہوں اور انہوں نے مجھے تاکید کی ہے کہ آپکی جومدد ممکن ہو کروں (ص132-131 )

دوسرا حصّہ : ڈاکٹر گنجی کی تحریر کا دوسرا حصّہ جو کہ" موجودہ دور "کا عکاس ہے، مہر مہینے 1331سے لے کر آذر مھینے 1333 تک محیط ہے۔ یہ حصّہ زیادہ تر تنہائی اور غربت کی عکاسی کرتاہے گرچہ اس حصّے کی تحریر میں امریکہ کی یونیورسٹیوں کا طریقہ تعلیم اور وہاں کے لوگوں کی طرز معاشرت وموازنہ و وغیرہ بیان کیا گیا ہے اور اسی طرح ایران کے سیاسی حالات،مصدق کی حکومت کا اختتام، ثقافتی حالات اور تبدیلیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے مگر پھر بھی اس تحریر میں تنہائی کا عنصر عیاں ہے۔

" بیر جند سے تعلق رکھنے والا آفاقی انسان"بہت مہارت اور سلیقے سے اشاعت ہوئی ہے،ذیلی عنوانات کو بھی کتاب میں مختلف فصلوں میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے اسکے ساتھ ساتھ دلچسپ تصویروں اور تحریروں میں ایک خاص تناسب پایا جاتاہے جو کہ نہ صرف اس کتاب کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا ہے بلکہ اپنے پڑھنے والوں کو بھی گرویدہ بنائے جارہاہے،اگرچہ میری نظر میں اس کتاب کی بعد کی جلدوں پر ایک تجدید نظر کی ضرورت ہے مگر پھر بھی یہ کتاب بہت جاذبیت رکھتی ہے۔


نکتہ اول : وہ پہلی بات جو اس کتاب کے حوالے سے قابل ذکر ہے وہ اس کتاب کا نام ہے جب یہ کتاب چھپی تھی تو اس کتاب کے مصنف" قید حیات"(زندہ) میں تھے لھٰذا اس حوالے سے بیر جند سے تعلق رکھنے والا آفاقی انسان کا نام کچھ مناسب نہیں لگتا۔
نکتہ دوم: یہ نکتہ اس کتاب کی حاشیہ اور پاورقیوں کے بارے میں ہے کہ صفحات کی ایسی تقسیم جو کہ اس کتاب میں نظرآرہی ہے عام طورپر درسی کتابوں کا خاصہ ہے اور اس کو اسطرح کی یادوں اور داستانوں والی کتاب کا حصّہ اور حاشیے اور پاورقیوں کا ہونا ،نہ صرف پرھنے والے کو تھکا دیتا ہے بلکہ بعض اوقات کتاب کے کم بکنے کا بھی سبب بنتاہے اسکے علاوہ کتاب کے آخری حصّے کو بھی بغیر تصیح کے جلدی میں  شائع کیا گیا ہے جسکی وجہ سے چند واضح غلطیوں کا ادراک فوراَ ہی ہوجاتا ہے، جیسے حروف تہجی کے حساب کے ناموں کو بیان کرتے وقت محمد فرزان کا نام حرف س میں آیا ہے یا عباس اقبال اشتیانی کا نام ایک دفعہ حرف آ میں جبکہ دوسری دفعہ حرف " ا "کے ناموں میں بھی نظر آتا ہے ،اسکے برعکس بہت سے نام جیسے تقی زادہ منوچھراقبال ،علی اکبر سیاسی ،جہان شاہ صالح،احمد فرہاد معتمد ،کے نام لکھے ہی نہیں گئے ہیں۔


البتہ ان سب باتوں کے بعد یہ بیان کرنا بہتر ہوگا کہ یہ سب نکات بہت باریک ہیں لھٰذا اس کتاب کی اہمیت کو کم نہیں کرسکتے،یہ کتاب ایک دلچسپ اور آزمودہ کتاب ہے جسکے واقعات ناقابل فراموش ہیں ایک ایسے شخص کے واقعات کہ جس کو ایران کی تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کرسکے گی ،اور اس بات کو کہنے میں مجھے کوئی تردید اور شک نہیں۔۔۔۔



 
صارفین کی تعداد: 4215


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔