حسن حضرتی سے ،تاریخی تحقیق میں غالب بحرانی طریقوں پر گفتگو (پہلاحصہ )

تاریخی تحقیق میں ثابت شدہ طریقے کی حکمرانی


2015-11-10


حسن حضرتی :ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص جو تاریخ سے آشنائی بھی نہ رکھتا ہو مگر پھر بھی ہمارے لئے مطالب لکھے ؟ یہ دراصل اسکا قصور نہیں ہے بلکہ میرا قصور ہے کہ میں نے گرچہ یونیورسٹی میں تاریخ کو مضمون کے طور پر پڑہا ہے اور ڈگری حاصل کی ہے مگر میں جب بھی چاہتا ہوں کہ کچھ لکھوں ،اسکی طرح لکھتا ہوں، یعنی وہ میری طرح نہیں بلکہ میں اسکی طرح لکھتا ہوں۔۔۔۔


سیاوش شوہانی : مسلسل جاری تنازعات کیوجہ سے علوم انسانی کافی مخلوط ہوگئے ہیں یہ وہ تنازعات ہیں جنکو اس علم کے مدافعان،دوسرے طبعی علوم سے مختلف ماننے کی بنیاد پر کرتے ہیں کہ اگر یہ تنازعات بے حقیقت ہوتے ہیں تو علوم انسانی کی تاریخ بھی بے معنی ہوجاتی۔  


اگرایک ڈاکٹر ،میڈیکل کی تاریخ کو نہیں جانتا ہے تو یہ بات نہ صرف اسکے لئے کوئی شرم اور عیب کی بات نہیں بلکہ اسکے علم اور ڈگری پربھی کوئی سوال نہیں اٹھاتی اور کوئی اثر نہیں ڈالتی ہے لیکن اسکے برعکس ایک فلسفی کیلئے فلسفے کی تاریخ سے لاعلم ہونا اسکی تعلیم کو نامکمل بلکہ ناممکن بنادیتا ہے ،یہاں یہ نکتہ بھی قابل بیان اور اہمیت کا حامل ہے کہ علوم انسانی میں ،علمی معاشرہ،سوچ،فکر اور اپنے عمل کو علم کہتا ہے اور دوسروں کے ماڈلز،مثالوں اور طریقوں (ماضی و حال کے)کو تنقید کا نشانہ بناتاہے،اس بحث میں شاید ہی تاریخ کاکوئی ایسا علم نہیں جو کہ اپنی اساس پر ایسا تنازعہ کرے،کیونکہ ابھی تاریخ کے ڈپارٹمنٹ میں اہم ترین بحث اس نظریے پر ہوئی ہے اور ہوگی کہ "کیا تاریخ ایک علم ہے؟

یہ ایک مشکل سوال ہے جس سے تاریخ کے طالب علم ،تاریخ کی یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہی روبرو ہوتے ہیں اور جب تک تاریخ کو پڑہتے رہتے ہیں اسی سوال کا جواب تلاش کرتے رہتے ہیں مگر اب تک کوئی حتمی جواب دینے سے قاصر نظرآتے ہیں۔ گرچہ اس سوال کا جواب دینے میں دوسرے علمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ساتھی (جو خود کوعلمی سمجھتے ہیں)شامل ہیں ،مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس سوال اور تنازعے نے علم تاریخ کی اہمیت اور ماہیت کو بری طرح متاثر کرکے رکھدیا ہے اور بعض لوگ اسکو علم تاریخ میں ایک بڑے بحران کی علامت کے طور پر مانتے ہیں۔


تاریخ کے علم میں ،محققین " طریقے یاروش " کو Achilles,s heel سمجھتے ہیں،اور اس مضمون کے منظم طریقے کو اسکے علمی ہونے کی بنیاد اور اس بحران کے خاتمے کا سبب سمجھتے ہیں ،گرچہ خود " طریقے " پر بھی کافی تنازعہ ہے اور یہ ایک اور بحث ہے مگر گذشتہ دو صدیوں سے تاریخی تحقیق پر مسلط ،مثبت نقطہ نظر نے طریقے کی اہمیت کو سب پر واضح کردیا ہے،یہ وہ نقطہ نظر ہے جو تاریخ کے ڈپارٹمنٹ پر غالب رہا ہے اور اس نے دوسری راہوں کو مسدود کردیا ہے مگر یہاں ایسے افراد بھی ملیں گے جو اس غالب نقطہ نظر کو حرف تاریخ نگاری اور تاریخ بناتے وقت تو استعمال کرتے ہیں مگر کلی طور پر اسکو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں شاید یہ اسوجہ سے ہے کہ ان کے پاس اسکے مقابلے میں کوئی نعم البدل ہی موجود نہیں ہے کہ جس سے اسکا جواب دے سکیں۔


ڈاکٹر حسن حضرتی ان تمام واقعات کے برعکس ان چند تاریخی محققین میں سے ایک ہیں جو کہ اس مثبت نقطہ نظر کادفاع کرتے ہیں اوراس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ گرچہ یہ طریقہ غالب ہے اور یہ ایک ایسی غلطی ہے جو ایسے کئی بحرانوں کو جنمدے گی، گذشتہ صدی کے مثبت نقطہ نظر کے حوالے سے تقریباَ آٹھ دہائی قبل رشید یا سمی،تاریخ کے سب سے پہلے ،تحقیقی طریقے کو(تہران،انشتارات،موسۂ وعظ وخطابت1316میں)"تاریخ لکھنا" کے عنوان سے سامنے لیکر آئے جس کے بعد اب تک دس  سے زیادہ تالیفات اس حوالے سے انجام دی جاچکی ہیں جمنیں ،جہانگیر قائم مقامی کی تالیف" تاریخ نگاری میں تحقیق کا طریقہ کار " (تہران ملی یونیورسٹی ایران 1358)، رسول جعفریان کی تالیف "تحقیق سے متعلق ابتدائی معلومات (آشنائی )(تہران تلیخات اسلامی1367)عزت اللہ نودری کی تالیف " تایخ میں شناخت کا طریقہ کار (شیراز،نوید شیراز 1358 )جہاں بخش ثاقب کی تالیف " تاریخ کا تائید شدہ تحقیق کا طریقہ (شیراز نوید شہراز 1358)جواد ہروی کی تالیف " تاریخ میں تحقیق کا طریقہ کار یعنی علمی تحقیق (تہران،امیر کبیر 1386)حسن میر جعفری ومرتضیٰ نوارائی کی تالیف تاریخ میں تحقیق کا طریقہ کار (تہران ،ثقافتی تحقیق وفکر اسلامی 1388)علی رضاملائی توانی، تاریخ میں تحقیق کے طریقے کا تعارف(تہران ،نشر ،نی 1388)۔۔۔

اسکے علاوہ خورحسن حضرتی حوالہ دیتے ہیں کہ وہ پندرہ برس سے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں تحقیق کے طریقے کار کو سکھانے اور پڑہانے میں مصروف ہیں اور پنے تمام تجربے کو اس موضوع پرتالیف میں لکھا ہے جسکا عنوان "تاریخ شناسی کی تحقیق اوراسکا طریقہ کار ،ہے جسکو خصوصا مقالہ نویسی اور thesis کے عنوان سے لکھا ہے،(تہران امام خمینی وانقلاب اسلامی تحقیقی ادارہ 1390)یہ ایک ایسی کتاب ہےجس کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں کہ خاص طور پر گریجویٹ کے طالب علموں کیلئے لکھی گئی ہے اور کتاب دوسری کتابوں سے اسلئے مختلف ہے کہ اسمیں مصنف نے یہ کوشش کی ہے کہ دوسرے طریقوں کے مقابلے میں مثبت طریقے کو پروان چڑہائے اور ایک ایسے طریقے کو رائج کرے جو ماضی میں ثابت ہوچکا ہے اور اپنی پہچان اور معیار بنا چکاہے۔اس حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی یہ کوششاس بحران کو حل کرپائے گی؟


اس سوال کے جواب میں،میں کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک مسلسل و مستقل تنازعہ ہے جسکی جانب پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے اور اتنا مستقل ہے کہ شاید آپ تاریخ کے ایک مضمون اور شعبے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے یہی وجہ ہے کہ آگے آنے گفتگو اس تناظر میں نہیں کی جائے تو بہتر ہے۔ ڈاکٹر حسن حضرتی سے کی جانے والی یہ گفتگو،تہران یونیورسٹی میں ان کے دفتر میں کی گئی ،جسمیں تاریخ اوران کی کتاب کے حوالے سے مختلف سوالات کئے گئے۔آپکی تاریخ پر لکھی گئی کتاب ،صرف تحقیق کے ایک ہی طریقے کو بیان کرتی ہے ایسا  کیوں ہے اور آپ نے دوسرے ثابت شدہ طریقوں کو اسمیں شامل کیوں نہیں کیا ہے ؟


آپ لوگوں کا شکریہ کہ مجھے یہ سعادت اور موقع ملاکہ تاریخ کے تحقیقی طریقوں کے بارے میں اپنے ملک ایران میں گفتگو کرسکوں لہذا سب سے پہلے میں اپنی کتاب کے عنوان کی توضیح دینا چاہوں گا،کہ جب میں نے اس کتاب کا ٹائٹل ،تاریخ شناسی کی تحقیق کا طریقہ کار رکھا تواسکامطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ دوسرے طریقوں پر توجہ نہ دیں یا دوسرے طریقے درست نہیں بلکہ میرا یہ عقیدہ تھا کہ اس کتاب میں ان تمام طریقوں کو بیان کرنا لازمی نہیں ایک مثال کے ذریعے اسکو واضح کرتا چلوں کہ جب ہم سیاسی فکر کی بات کرتے ہیں یا کہتے ہیں قرون وسطیٰ کی سیاسی فکر تو ایسا کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ قرون وسطیٰ میں ایک ہی فکر تھی یا ایک ہی فکر درست تھی،یااس طرح انگریزی زبان میں Political thought استعمال ہوتاہے نہ کہ Political thoughts یہ ہوگیا ایک نکتہ ،اب دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ میں نے ان سب میں سے صرف ایک ثابت شدہ مثبت طریقہ چنا تواسکا جواب میں اس کتاب کے مقدمے میں بھی بیان کر چکا ہوں کہ اوراب بھی مختصراَ بیان کریتا ہوں میں خود ذاتی طور پر اس طریقے کے بہت سے فوائد کا قائل ہوں،یہاں ایسا کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے طریقوں کی نسبت یہ طریقہ بے عیب ہے اور ہر نقص سے پاک ہے بلکہ اس طریقے میں بھی ہر طریقے کی طرح کچھ عیب اور کچھ خوبیاں ہیں اور اگر ہم اسکی خوبیوں سے فائدہ اُٹھائیں تو بہت بہتر ین نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔    

اسکی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت " حقیقت کو پاناہے اور میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی محقق ،تحقیق کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے تواس دروازے سے اندر آئے اوراسی کا انتخاب کرے البتہ ایساہوسکتا ہے کہ اس سے داخل ہوکر اسے سیکھیں اور پھر آگے بڑھ جائیں کیونکہ اگر ایساکریں گے تو زیادہ فائدہ ہے،میرا یہ ماننا ہے کہ طالب علموں کو پہلے اس طریقے کار کو سیکھنا چاہیے اوراسکے بعد بتدریج دوسرے مدارج کو طے کرتے ہوئے آگے جانا چاہیے اور اگر ہم اس طریقے کو صرف اسلئے نظراندازکردیں کہ یہ 19ویں صدی کا ہے اوراسکے بعد بہت سے نئے طریقے آچکے ہیں تومیرا خیال ہے ہم بڑے نقصان سے دوچار ہوجائیں گے کیونکہ تاریخ کی تعلیم میں سب سے اہم سند شناسی اور سند خوانی ہے اور یہ بنیادی کام آپ اس طریقے کو استعمال  کرتے ہوئے بہت بہتر انداز میں کرسکتے ہیں، سب سے پہلے میں اسکی وضاحت کردوں کہ یہاں یہ بحث طریقوں اور طریقے پر نہیں کی جارہی یعنی نہ لفظوں کی اور نہ مفردو جمع کی بحث ہے بلکہ یہ بحث خود اس طریقے method کے بارے میں ہے لہذا آگے آنے والی تمام گفتگو میں اسکو ملحوظ خاطر رکھا جائے، آپ نے یہ بھی بتایا اورکتاب میں بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ آپ چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ طالب علموں کیلئے اور محققین کیلئے یہی فائدہ مند ہے کہ وہ اس طریقے کو پہلے سیکھیں ؟


جبکہ اس طریقے پر تو کافی تنقید بھی ہوچکی ہے اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ " حقیقت کو پانا " صرف اسی کی خوبی ہے تو ایسا بھی نہیں کیونکہ دوسرے طریقوں میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے جیسا کہ تفسیری نقطہ نظر یا تفہیمی نقطہ نظر کی بات کی جائے تو انمیں بھی اس نکتے کی طرف توجہ دی گئی ہے ،توکیا ایسی صورت میں اس طریقے کو سیکھنے کے بعد دوسرے طریقوں کی طرف جانا ،کسی بھی طالب علم کیلئے نقطہ آغاز پرہی سفر کے اختتام کے مترادف نہیں ؟


نہیں ایسا بالکل نہیں ہے میں ایران اور یہاں کی صورتحال کے مطابق اسکا جواب دیتا ہوں کہ ایک سکھانے کا نظام ہے اور ایک ہمارے ملک کا ریسرچ کا نظام ہے،جبکہ تاریخ نگاری کے حوالے سے ایک گذشتہ رائج طریقہ ہے جسکا دیگر علوم کی نسبت ہماری ثقافت سے کوئی سابقہ نہیں رہا ہے،لہذا ہم نے اس طریقے کومکمل طور پر باہر سے لیا ہے ،اب جب ہم اپنی تاریخ کو طبری ،یعقوبی اور مسعودی وغیرہ سے لیتے ہیں اور پھر ماڈرن طریقوں کی جانب جاتے ہیں تو آپ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ہماری تحقیق کی نوعیت اورحالت کیسی ہوگی ؟

میں ایک مسئلے سے دوچار تھا اور بارے میں تحقیق کی تھی لہذا میں یہ بات کررہا ہوں اور یہاں یہ بتانے کا مقصد ایسا بالکل نہیں ہے کہ میں اپنے نقطہ نظر کو سب سے بالاتر سمجھتا ہوں بلکہ چاہتا ہوں کہ ان حالات اور وسائل کے ساتھ ،جو ہمارے پاس موجود ہیں،ہمارے طالب علم تحقیق کے نئے میدانوں میں قدم رکھیں اورکچھ ایسا کریں جوان کے تشخص کو بحال کرے اور ان کا اپنا ہو، آجکل ہمارے تمام شعبوں میں ایسا ہورہا ہے کہ پرپوزل ہوتا ہے جو کہ معین اور فکسڈ ہوتا ہے اور کسی بھی تبدیلی سے عاری اور خالی ،اور سب کو اسی پر عمل کرنا ہوتا ہے اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ پرپوزل بہت سوچ سمجھ کربنایا جاتا ہے تو ایسابالکل بھی نہیں ہے یہ ایک تقلید ہے اندھی تقلید ایسے لوگوں کی تقلید جنہوں نے ایسے علوم انسانی اور علوم طبیعی میں ہم سب سے پہلے کام کیا اور ہم سے پہلے قدم رکھا اور بس  اسی نیت سے ان کے کام کو من وعن قبول کرلینا میرے نزدیک صحیح نہیں،جیسے ایک سادہ سی مثال دوں کہ اپنے پرپوزل میں سارے طالبعلم یہ لکھتے ہیں کہ ہماری تحقیق ہے"تاریخی تحقیق " مگر اس تحقیق کو انجام دینے کے بارے میں پوچھیں تویہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ پہلے کچھ مطالب کوپڑہیں پھر ان سے کچھ پوائنٹس کو نکالیں اور  پھر ان کی توضیح دے دیں ،جبکہ جب آپ تاریخ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو تحقیق ہرگز ایسی نہیں ہوتی،،،کہ پچھلے کئے کام کو اٹھا کر اسمیں سے کچھ کو قبول کرتے ہوئے نکال کر ان پر اپنی رائے دے دینا اور بس ،،،؟


لہذا میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ چیز جو غالب ہے اور ثابت شدہ بھی توکیوں نہ پہلے اسکو سیکھ لیں اور سکھائیں اسکے بعد دوسرے طریقوں پر توجہ دیں ،ایک اور بات جو آپ نے پوچھی کہ دوسرے طریقوں میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے تو پھر یہ ہی کیوں ؟ تومیں بھی اسکو مانتا ہوں کہ دوسرے طریقوں میں خصوصیت ہے مگر کس حد تک ؟ اور کس درجے پر ؟ یہ کوئی نہیں جانتا اور اس لئے ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جیسا کہ تفہیمی طریقہ کار میں ہمدردی کو بہت اہمیت حاصل ہے اور اتفاق سے میں نے ایک کانفرنس میں ایک مقالہ" تاریخ اور بین الکلیات علمی تعاون " کے نام پڑھا تھا جو خاص کر اسی موضوع پر تھا اور بعد میں ڈاکٹر رحمانیاں نے اسکو چھپوایا بھی تھا جسمیں میں نے بہت ہی واضح انداز میں ایسے طریقوں کی مذمت کی تھی جو نام نہادطریقے ہیں اور صرف Pattern matching ہیں اسکے سواکچھ نہیں کہ دونالد کمپبل Donald  Compbell   نے بھی اس پر بات کی ہے اور میرا ماننا ہے کہ اگر علم تاریخ میں تحقیق کے طریقوں کی درجہ بندی کی جاتے تو بلاشبہ،پہلاطریقہ ،وہی ثابت شدہ طریقہ مثبت طریقہ ہے اسکے بعد کوئی دوسرا اور تیسرا۔۔۔


اسکے علاوہ وہ بات جو آپ نے کہی کہ سب طریقوں کو سکھائیں اور پھر خود محقق پر چھوڑدیں کہ وہ خود تعین کرے کہ اسے کس طریقے کو چننا ہے اور اپنانا ہے تو میرے خیال میں ایسا کرنا ناممکن ہے اور یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ طلبا کو Research   method   نہ سکھائیں اور methodology سکھا دیں یا یہ بات کہیں کہ آپ رجوع کریں اور یہ نہ سکھائیں کہ رجوع کیسے کرتے ہیں، کیفیت کے طریقے میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ " مسئلہ۔سوال ۔مفروضہ " تینوں سے ہٹ کر صرف ایک سوال کو اہمیت دی جاتی ہے اور مسئلہ اور مفروضہ چھوڑدیا جاتا ہے آپ سوچیں کہ اگر ایک طالبعلم پہلے اسی طریقے کو اپنالے تو اسکی تحقیق کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ اوریہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ ایک سوال ایک خاص جگہ سے بنا کر طالب علموں کو کہیں کہ اسکا جواب لکھ کر لائیں لہذا طالب علم مجبور ہوجائے گا کہ وہیں جائے جہاں آپ چاہتے ہیں اور وہی نتیجہ نکالے جو آپ نے سوال پوچھا ہے اور اسکےاردگرد کے مطالب سے کوئی سروکار نہ رکھے اور بسں جواب کے ملنے پر اپنی تحقیق کو ختم کردے۔


اور آپ نے دعوے کی بات کی ہے تو دعوے کامطلب Claim ہوتاہے جبکہ میں دعوے  کو thesis کے طور پر لیتا ہوں البتہ یہ آئیڈیا میں نے استاد ملیکان سے لیا ہے اور اس معاملے میں تھوڑا سادخل کیفی طریقہ کار کا ہے۔ میں نے ہمیشہ تصوراتی فریم ورک کی بات کی ہے جو کہ میری نظر میں سب سے اہم ہے اتفاقاَ اس تصوراتی فریم ورک کو وہاں فکس کیا جاتا ہے جہاں نظریاتی فریم ورک نہ ہو،یعنی میں یہ کہتا ہوں کہ ہم کیوں نہ دوسروں کے نظریات کے بجائے اپنے تصورات کی بات کریں کہ یہ تصوراتی فریم ورک ،تاریخی تحقیق میں ایک علمی نقطہ نظر کی حیثیت رکھتا ہے اور تمام طریقوں میں مشترک بھی ہے اور ضروری بھی کہ اگر کوئی تاریخ کا طالب علم کہتا ہے کہ " صفوی حکومت کے سقوط کی یادلیلیں اور وجوہات تھیں" تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اسے دلیل اور جوہات کا مطلب ہی نہیں معلوم ،اور وہ نہیں جانتا کہ ان دونوں میں وہ کیا بیان کرے گا جبکہ تصوراتی فریم ورک ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دلیل اور وجوہات کے ان لفظوں کو ایک عام آدمی کی طرح استعمال نہیں کرنا بلکہ تاریخ کے شاگرد کو یا ایک تاریخ شناس اور ماہر کو ایک ایک لفظ موقع محل کی مناسبت سے اور اسکے معنٰی اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کرناچاہیے۔


اورمیرے خیال میں یہی تاریخی تحقیق کا المیہ ہے کہ بہت سارے لوگ ،تاریخ میں تحقیق کے نام پر ایسے شامل ہوئے ہیں جنہوں نے باقاعدہ تاریخ کو نہیں پڑھا اور نہ ہی کسی یونیورسٹی یا کالج میں اس مضمون سے کوئی وابستگی رکھی ہے۔ کیاہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ نفسیات اور سوشیالوجی میں ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟اور ہرشخص ان علوم میں کیوں نہیں کہتا اور لکھتا کیونکہ ان علوم میں جتنے بھی مفاہیم استعمال ہوتے ہیں وہ سب علم کی بنیاد پر ہوتے ہیں اگر میں واضح اورآسان لفظوں میں  کہوں توایک ماہر نفسیات ،علم نفسیات سے الگ نہیں ہے اور جو کچھ بھی کہے گا علم نفسیات کے کلیات سے اخذ کرکے اپنے تجربے کی روشنی میں کہے گا اور اپنے تصوراتی فریم ورک ،مشاہدے ،تجربے کو ،علم پر پرکھے گا پھر کچھ کہے گا نہ اسکا تجربہ اسکے علم سے باہر جائے گا نہ مشاہدہ یہی وجہ ہے کہ جب ماہر نفسیات کا نام آتا ہے تو اسکا مطلب ہوتا ہے علم نفسیات کا ماہر یا نفسیات کی تعلیم حاصل کرنے والا یہ ایک علمی مفہوم ہے یہی وجہ ہے کہ نفسیات کا متن میں نہیں لکھ سکتا کیونکہ میں نے اس علم کو حاصل ہی نہیں کیا ہے۔


کیا یہ خصوصیت تاریخ کے شعبے کوہی حاصل ہے کہ مفہوم سازی نہیں کرتی اور دوسرے علوم کے مفہوم سے فائدہ اٹھاتی ہے ؟


نہیں ایسا نہیں ہے کیونکہ تاریخ کا علم Conceptual نہیں ہے۔


علمی تاریخ نگاری اور غیر علمی تاریخ نگاری میں کیافرق ہے ؟

علمی تاریخ نگاری سے مراد ،آپ ان مفاہیم اور معنی کو جو دوسرے علوم میں بیان کئے گئے ہیں ان کو استعمال کریں اور ویسے استعمال کریں جیسے استعمال کرنے کا حق ہے بقول ہیمبل یہ مفاہیم لازمی ہیں Compulsory ہیں اور ان کے معنٰی کا سمجھنا بھی  لازمی ہے جیسے شورش ،بغاوت ،انقلاب ،شرائط وغیرہ وغیرہ۔


اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک شخص جس نے تاریخ کا علم حاصل ہی نہیں کیا اور ہمارے لئے بغیر تاریخ کو پڑھے اور سمجھے مطالب اخذکرتا ہے ؟

 

یہ اسکاقصور نہیں بلکہ میرا قصور ہے میں نے گرچہ یونیورسٹی میں تاریخ کو مضمون کے طور پر پڑھا ہے اور ڈگری حاصل کی ہے اور تاریخ شناس ہوں مگر جب بھی چاہتا ہوں کہ کچھ لکھوں اسی طرح لکھتاہوں یعنی وہ میری طرح نہیں بلکہ میں اسکی طرح لکھتا ہوں۔


میں حکومت صفوی کی قانونی حیثیت کے بارے میں تو لکھتا ہوں مگر مجھے Legitimacy کی تعریف ہی نہیں معلوم کہ کیا ؟ میں سیاسی اشتراک کے بارے میں بات کرتا ہوں مگر مجھے نہیں معلوم کہ Political participation ہوتی کیا ہے ؟ میں اس اشتراک کو ماکفرسون کے معنٰی کے مطابق بیان ہی نہیں کرسکتا،اور قانونی حیثیت کو وبری اور دیگر نظریوں کے بیان کردہ معنٰی کے مطابق نہیں سمجھ سکتا لہذا میری ایسی تاریخ نگاری جو ان تمام لوازمات سے عاری اوربے بہرہ ہوتی ہے،بن جاتی ہے غیر علمی تاریخ نگاری ،ہم نہیں چاہتے کہ بس بیان کیا جائے ہم جانتے ہیں کہ ویسا بیان کیا  جائے جیسا کہ بیان کرنے کا حق ہے ،میری خواہش ہے اور یہ غم ہے میرا کہ اے کاش ہم علمی تاریخ نگاری کی طرف آئیں اور اسکو انجام دیں،اور ہمارے معاشرے میں جب بھی تاریخ نگاری ہو وہ علمی ہو خواہ کسی بھی قسم سے تعلق رکھتی ہوں یعنی خواہ تفہیمی ہو ،تفسیری ہو اثباتی ہو یا بیانہ یا وغیرہ وغیرہ ۔

مگر آپ نے ہی فرمایا ہے کہ جو خصوصیت ،ثابت شدہ طریقے میں ہے وہ کسی اور میں نہیں اور یہی کام ہونا چاہیے ؟

آپ نے بالکل درست فرمایا اور یہ اسوجہ سے ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایک رائج طریقہ موجود ہی نہیں جس پر سب اتفاق کرسکیں ابھی آپ ہمارے تاریخی ڈپارٹمنٹس کے رائج طریقوں پر نظر ڈالیں کیا نظر آئے گا ؟ مثلا کہیں فلاں یونیورسٹی کا تاریخی ڈپارٹمنٹ اس طریقے پر عمل کررہا ہے اور فلاں یونیورسٹی کا فلاں ،،،،کہ یہ کہنے کیلئے بھی آپکو طریقوں کی سمجھ ہونی چاہیے Frankfurters کیسے ابھر کر سامنے آئے؟ اور کس اساس پر بغاوت کی ؟ ہم ابھی تک اس مرحلے تک پہنچے ہی نہیں ہیں کیونکہ یہاں دو چیزوں کا ذکر ہے اور دخل ہے ایک ہی تاریخ نگاری اور دوسرا ہے تاریخ تحقیقی،جب تاریخ نگاری کی بات کرتے ہیں تو بہت سے رائج طریقے ہیں جن پر بات کرسکتے ہیں مگر جب بات آتی ہے تاریخی تحقیق کی تو یہاں آکر یہاں ہمارے پاس کوئی خاص رائج طریقہ موجود ہی نہیں ہے۔


اور رہی بات اس نکتے کی کہ ہم کہتے ہیں تاریخ پرکیوں ایک ہی طرح کا فریم ورک لاگو کردیا گیاہے تواسکا جواب ہے کہ ابھی تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہی نہیں ہیں کہ اسکا تجزیہ کرسکیں کہ یہی فریم ورک بہتر ہے یا کوئی دوسرا آنا چاہیے کہ اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ کام ہے ہی بہت مشکل اورمشکل اسوجہ سے ہے کہ ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی ریکارڈ یا مثال ہی موجود نہیں جسکی بنیاد پر ہم ابتداء کرسکیں اور بہت سے لوگ صرف اسی وجہ سے اُس پرانے انداز کو تھامے ہوئے ہیں کہ اس حوالے سے ان کا علم ناکافی ہے اور اس میدان اور شعبے میں ان کے پاس علم وآگاہی کی کمی ہے اورانتخاب اسی وقت انجام پاتاہے جب علم وآگاہی کاوجود ہو،بغیر جتنا علم زیادہ ہوتاہے اتنا ہی انتخاب بہترین ہوتا ہے جو کہ افسوس کے ساتھ اس حوالے سے ہمارے پاس نہیں۔


آپ نے ذکر کیا کہ تاریخ کی تحقیق کیلئے ہمارے پاس کوئی خاص طریقہ رائج ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ ایک خاص طریقے کو فروغ مل رہا ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ اساتیذ،سوال اور مفروضوں کی بحث میں نہ پڑیں اور خود اس مثبت اور ثابت شدہ طریقے کو رائج کریں اور Rollback کریں اور تعلیم و تحقیق کا ایک معیار بنادیں،مثلا اساتیذ اپنے طالب علموں سے کہیں کہ اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے اپنی تاریخ پرتحقیق کریں اور مارفالوجی اور ٹوپوگرافی کے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے تہران پرتحقیق کریں اور پھر دیکھیں کہ تحریری ذرائع کے مطابق جو کہ ماضی میں تہران کے بارے میں بیان کئے گئے ہیں ،آپ کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟توکیا ایسا کرنا ناممکن ہے؟

نہیں میں نے ایسا تونہیں کہا کہ ناممکن ہے بلکہ ہم اسی طریقے پر کام کررہے ہیں،میری کتاب جسکا میں نے ذکر بھی کیا اسکا دوسرا حصہ بھی ہے جو کہ ان نظریوں اور طریقوں کے بارے میں ہے جن میں ہم پھنسے ہوئے ہیں اور یہ سب میرے الفاظ اور کام کا اختتام نہیں بلکہ یہ تو آغاز ہے،میں آغا یاسمی کی کتاب کو بھی اس حوالے سے بہترین کتاب مانتا ہوں اور انہی وجوہات کی بناء پر جو آپ نے بھی ابھی بیان کی ہیں اس بات کا قائل ہوں کہ اس کتاب کو پڑھانا چاہیے اور اس کتاب کی ضرورت ہمیں ہے،مگرمیری گذارش صرف یہ ہے اور میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ پہلے مرحلے پر محققین کو طریقے سے آشنائی تو حاصل کرلینے دیں پھر طریقوں کی بات کریں یعنی پہلے راستہ توسمجھ لینے دیں پھر اس راستے کے اوزار،ہتھیار اور دیگر چیزوں کو سمجھائیں، میں کہنا چاہتاہوں کہ یہ سات طریقے ،سات اسکول اور سات درسگاہیں ہیں جن کو سمجھنے سے پہلے آپکو طریقہ آنا چاہیئے انہیں صحیح طور پر استعمال کرنے کا لیکن Research method صرف مثبت طریقے یا اثبات شدہ طریقے کا ہی تو نہیں ہے؟


جی بالکل اور میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ صرف یہی نہیں ہے مگر بہترین یہی ہے اور یہی میرا عقیدہ ہے گرچہ ہوسکتاہے کہ کسی کو اس پر اختلاف بھی ہو

جاری ہے                 



 
صارفین کی تعداد: 4174


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔