۱۷ شہریور ۱۳۵۷ کے عینی شاہدوں سے گفتگو، عباس ملکی

اس دن کی اہم تصویریں

سارا رشادی زادہ
مترجم: سید محمد جون عابدی

2015-9-30


اس روز چونکہ فوجی حکومت کا پہلا دن تھااس لئے مجھےکیہان  اخبار کی جانب سے تہران کی سڑکوں کی طرف بھیجا گیا تھاتاکہ  جاکرشہرکےحالات حاصل کرسکوں اوراس سے متعلق رپورٓٹ  تیارکروں۔صبح سات بجےسوکراٹھااورتہران کی سڑکوں  پرادھرادھرپھرنےلگااوررپورٹ تیار کرکے اخبار کے دفتر پہونچا۔وہیں  پر مجھے بتایاگیاکہ کچھ لوگ مظاہرےکے لئےمیدان ژالہ (ژالہ چوراہے)  پر جمع ہوئے  ہیں لھٰذا دوبارہ  جاؤں اور جاکر رپورٹ تیار کروں ۔

میں  دوبارہ بہارستان چوارہے سے رپورٹ تیار کرنے کے لئے ژالہ  چوراہے کی  طرف چل  پڑا۔سڑکیں  وہیں  سے بند کردی  گئیں  تھیں  اور گاڑیاں  آجا نہیں  سکتی  تھیں ۔میں نے  اپنا  سامان اٹھایا اور مجاہدین  اسلام روڈ  سے  ہوتا  ہوا پیدل میدان ژالہ  کی طرف چل پڑا۔مجاہدین  اسلام روڈ سے گذرتے وقت میں نے ایک  عجیب منظر دیکھا۔ کچھ لوگ  ہاتھ میں  مائیک  لئے ہوئے اعلان کررہےتھے’’بھیڑنہ لگائیں ،فوجی حکومت ہے  آپ جائیں  گے اور  مارے جائیں  گے‘‘ بعض  دوسرے افراد  ہاتھ میں چھوٹے  چھوٹے  بورڈ لئے  ہوئے  تھے جس پر لکھا تھا ’’بھائیوں  آپ لوگ  میدان  ژالہ کی  طرف  چلئے‘‘۔سڑک  کے ہر  طرف  ایک نیا منظر  موجودتھا۔میں ساڑھے نو بجے صبح  میدان  ژالہ  پہونچا۔

اس  فوجی حکومت سے پہلے بھی میں،قم اور اصفہان  جیسے دیگر شہروں کے  مظاہرے اور فوجی حکومتیں کا مشاہدہ کرچکا تھا۔ان  دنوں میں  مستقل تہران میں نہیں رہتا تھا۔ان دنوں  جب میں اگلی صف میں ہوتا  تو مکے اور گھونسے کھاتا تھا لیکن اس کے باوجود  مناظر کو  دیکھنا میرے لئے بہت  اہم تھا۔مظاہرات کےابتدائی ایام میں خصوصی طورپر  قم میں،جب میں اپنی سرمئی رنگ کی پیکان کار سے سڑکوں سے گذرتا تھا تولوگ ہم پر  پتھر پھینکتے تھےکہ ہم ان کی تصویریں کھینچ کر ساواک کو دیتے ہیں۔اوردوسری طرف سے فوجیوں کا سلوک بھی  ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتاتھا۔

لیکن اس روز جب میں  میدان ژالہ پہونچاتو ایک نیا منظر دیکھا۔ عوام اور فوجیوں نے سڑک کے دونوں طرف سے مقابلہ کے لئے محاذ آرائی کی ہوئی تھی اور دونوں ایک دوسرے  کی جانب گولیاں چلانے  کے لئے تیار ہیں ۔وہاں میں نے ایک  آدمی کو دیکھا کہ اپنا گریبان چاک کئے ہوئے  کہرہا ہے ’’مارواگرمارناچاہتے ہو،مارو‘‘۔اگرچہ میں اپنے کام میں  مصروف تھا۔

میدان ژالہ سےخراسان روڈ تک لوگ ہی لوگ  تھے اور اس کی انتہا نامعلوم تھی۔اگرچہ اس وقت تک نیروی ہوائی(ائیر فورس) روڈ کی طرف کا  مجمع میدان ژالہ تک نہیں  پہونچا تھا۔میدان ژالہ کے  شمالی حصہ میں مجمع بہت زیادہ تھااور لوگ ’’اسقلال ،آزادی،جمہوری اسلامی‘‘اور’’شاہ مردہ باد‘‘جیسے نعرے لگارہےتھے۔آدھا گھنٹۃ گذرا تھا کہ دس بجے صبح تقریبا ایک لاکھ افراد پر مشتمل مجمع پیروزی روڈ کی طرف سے نعرے لگاتا ہوا ہمارے نزیک پہونچ گیا۔

اسی وقت ایک فوجی جو میدان میں  موجود  تھا اس کے تحت ۵۰ ۔۶۰ فوجی تھے ۔اور اس نے میدان  کے  بیچ میں ایک  فوجی گاڑی کھڑی کررکھی تھے۔میں نے اس کو  وائرلیس سے بات کرتےہوئے سنا کہ ’’اگریہ دو تین  لاکھ لوگوں کا مجمع پم پر حملہ  کرتاہے اور میدان کے بیچ  تک  پہونچ جاتا ہے  تو ہم اسمیں  پس کر رہ جائیں  گے۔‘‘ کچھ ہی منٹوں میں میدان ژالہ کے پاور ہاؤس میں دو تین ہیلی کاپٹر اترے۔میں اس وقت تصویریں کھیچنے کی غرض سےپٹرول پمپ کےبغل میں ایک درخت پرچڑھا ہوا تھا۔تاکہ صحیح طور پر مظاہرین کی تصویر لے سکوں۔اسی وقت ایک گارڈ آٰیااوراسنےکہا’’ وہاں چڑھےہوئے ہواگر ہیلی کاپٹر سے گولی چلے گی تواس کی زد میں آجاؤگے اور کبوتر کی طرح اس کا نشانہ بن جاؤگے۔چلو نیچے آؤ۔میں نیچے آیا اور خود کو مجمع کے اندر پہونچا دیا اور اسی وقت گولی باری شروع ہوگئی۔    

 گولی چلتے ہی میں مجمع کے ساتھ ادھر ادھر بھاگنےلگا اور میری سمجھ میں نہیں آرہا تھاکہ کس طرف جاؤں۔ پھربھی میں میدان کے تین  حصوں کی تصویریں لینے میں کامیاب ہوگیا۔میں کہہ سکتا ہوں کہ  وہ تصوریں سب سے اہم تصوریں  ہیں۔ فوجیوں کےغصہ میں تصوریں کھینچنا بہت سخت کام تھا۔پہلی جھڑپ میں ہی پیروزی روڈ پر تین لوگ مرے جن کی میں نےتصوریں لیں۔ان تصویروں میں گولی چلنے کے بعد خواتین کو بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔تصویروں کے ایک گوشہ میں عوام کا ایک جتھا خورشید روڈ سے گذرتا ہوا دکھ رہا ہے ۔

اور تعجب کی بات یہ ہےکہ اسی دن کیہان  اخبار کی جانب سے ۵،۶فوٹوگرافروں کو میدان ژالہ کی تصویر کھینچنےکے لئے بھیجا گیا تھا لیکن وہاں ایک بھی نظر نہیں آیا۔میدان امام حسین ؑ (امام حسین چوراہے)،ایر فورس روڈ اور میدان خراسان کی فوٹوکھیچنےکے بعد وہ فوجی افسر مجھے پہچان گیا اور اس نے حکم دیا کہ  میرے کیمرےکو چھین لیا جائے۔میں وہاں سے بھاگا اور وہ فوجی جسے گولی مارنے کاحکم دیا تھا وہ وہیں  پھنس گیا  یہاں  تک کہ میں نے اپنے آپ کوملی بینک کے سامنے کھڑے خواتین کے ایک گروہ میں  چھپا لیا اورٹیکسی کرکے تصویروں کو اخبار کے دفتر پہونچا دیا۔

مجاہدین اسلام روڈ جومیدان ژالہ کہ مغرب میں واقع ہے وہاں  پر فوجی نہیں تھےفوجی صرف میدان  کے  درمیانی حصہ اور دوسری طرف تھے۔لیکن  میدان  امام حسین  کی طرٖف فوج عوام کے پیچھےسے آگئی تھی۔لیکن  بقیہ نقاط میں  مجھے فوجی کہیں  نہیں دکھےاور صرف میدان میں  آکر جمع ہوگئے تھے۔اور عوام بھی  زیادہ  تر میدان  کے شمالی،جنوبی اور مشرقی علاقوں میں جمع ہوئی  تھی۔

بہرحال بہت سختیوں سے ہی سہی میں نے اس دن۲۹ تصویرں  کھینچی تھیں۔ان فوٹو کو کیہان  پہونچانےکے بعد انہیں جمع کرلیا گیا اور اردیبہشت ۱۳۵۸ کو پہلی بار انہیں  نشر کیا گیا ۔اگرچہ اس وقت (انقلاب سے قبل )کے کیہان میں ہر قسم کے افراد اورساواکی بھی  موجود تھے اور اس زمانہ میں تصوریں چھاپنا اتنا آسان کام نہیں  تھا۔=

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

=۱۷ شہریور ۱۳۹۴ کی صبح ،’’ لالہ شہریور۵۷‘‘ کی آٓرٹ  گیلری کی دوسری نمائیش اور تخصصی نشست،عباس ملکی ،فوٹوگرافر اوررپورٹر کیہان  اخبار،اس وقت ان کی عمر  ۳۲ سال تھی ،اس وقت کی مشہور تصوریں انہیں کی کھینچی ہوئی ہیں ،جنہوں  نے اس  یادداشت کو بیان  کیا ۔

 



 
صارفین کی تعداد: 4586


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 

خواتین کے دو الگ رُخ

ایک دن جب اسکی طبیعت کافی خراب تھی اسے اسپتال منتقل کیا گیا اور السر کے علاج کے لئے اسکے پیٹ کا الٹراساؤنڈ کیا گیا۔ پتہ چلا کہ اسنے مختلف طرح کے کلپ، بال پن اور اسی طرح کی دوسری چیزیں خودکشی کرنے کی غرض سے کھا رکھی ہیں
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔