مدارس کی جگہ پر اسکولوں پر اعتماد

موسیٰ حقانی سے ایک گفتگو، جدیدتعلیمی اداروں کا ایران میں ورود،

حصہ اول

مترجم: ابو زہرا علوی

2015-9-22


موسیٰ حقانی: ایران میں مغربی تفکر کی نمائندگی فرانس کر رہا تھا ایوینجلیکل مشنریوں میں سے بعض کہ جو ایران آتی تھیں وہ اکثر فرانسیسی ہو اکرتی تھیں اور امریکی ایوینجلیکل مشنریاں بھی ایران میں داخل ہوئیں اور انھوں نے بھی اپنا کام کیا ان کی تاثیر آپ البرز اسکول میں دیکھ سکتے ہیں کہ جسے امریکہ نے ایران میں بنایا تھا اور وہ اسکولز کہ جو فرانس نے آذربائجان اور تہران میں بنائے تھے وہاں ان کی تاثیر تھی۔

زہرا ستگار: پچھلی صدی میں ایرانیوں کو جدید تمدن کی وجہ سے  مسائل کا سامنا، یہ جدید تعلیمی ادارے ان تعلیمی اداروں میں سے تھے کہ جنھوں نے  جان بوجھ کر یا نادنستہ طور پر ایرانی ثقافت اور معاشرے میں قدم رکھا دوسری جانب ان جدید اداروں کے مخالفین و موافقین کا ورود کہ جس نے ان تعلیمی اداروں میں نفوذ کیا اور اثر ڈالا تو ان جدید اداروں کے ساتھ اور بہت سی چیزیں ان کے ساتھ ہو لیں ،  قاچاری زمانے میں جدید تعلیمی اداروں کے ایران میں داخلے اور اول پہلوی سرکار کے زمانے میں جامعہ تہران کے بننے کی تحقیق ایک ایسا مسئلہ تھا کہ جس کے بارے میں موسیٰ حقانی صاحب کہ جو تاریخ معاصر کے محقق ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، ان سے گفتگو کا پہلا حصہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

 

سوال: قاچاری اور پہلوی دور میں تعلیمی اداروں کی تاسیس  کس حد تک ایرانی معاشرے کی ضرورت تھی؟ بالخصوص جدید تعلیم جیسا کہ دارالفنون سے لیکر علوم سیاسی کے اسکولز اور پھر جامعہ تہران ، برائے مہربانی کچھ وضاحت فرمائیں؟

ایران میں تعلیمی ادارے  قاچار کے زمانے سے تھے کہ جو اپنے وقت کے حساب سے تھے یعنی وہ ثقافتی  شرائط کہ جواس وقت ایران میں تھیں اس حساب سے تھے شاید اس وقت ہمارے روایتی  مدارس کی صورت میں یہ سب تھا، اس کے باوجود بہت سے لوگ ان مدارس کے طریقہ تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں مگر یہ ہماری تاریخ کے اس حصے کے مقابلے میں درست تھا ،جیسا کہ آج کا تعلیمی نظام چاہے ایران میں ہو یا ایران سے باہر ہو کہ جس میں مثبت پہلو بھی ہے اور منفی پہلو بھی ہے قوت و ضعف دونوں موجود ہیں آپ آج کے اپنے تعلیمی نظام پر نگاہ دوڑائیں تو اس میں عیب نظر آئے گا، اس دور کے نظام تعلیم پر جو آج اعتراض ہوتا ہے ان میں اسکول کے استاد کا برتاؤ اور پرنسپل کابرتاؤ مدنظر ہوتا ہے یا ان افراد کا برتاو مدنظر ہوتا ہے کہ جو دوران تعلیم مار پیٹ سے کام لیا کرتے تھے، لیکن ان سب کے باجود ایک طرح کی تعلیم دی جا تی تھی اور اس تعلیم کے نتیجے میں مختلف نامور شخصیات وجود میں آئے، ان کی جانب کو ئی توجہ نہیں کرتا، اسی نظام سے بہت سے ایسے چہرے سامنے آئیں ہیں کہ جنھوں نے بعد میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے آج ملک میں اکیسیویں صدی میں بھی ہم نظام تعلیم میں مار پیٹ دیکھتے ہیں اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم اس نظام کو بیکار قرار دیں ۔

مغرب کی  جدید تعلیم نے ایک رویا روی کا سامنظر پیدا کر دیا اور مغرب نے ایک بہت بڑا حملہ کر ڈالا کہ جس کے بعد خود بخود جدید علم کی ایک بحث چھڑ گئی، علوم جدی کی ایک اساس مغربی تمدن تھا کہ جس کی وجہ سے انھوں نے ہمارے جیسے ممالک پر اپنی برتری کا احسا س جتلایا، البتہ افواج کی ضرورت اور نظام کی کمزوری سبب بنی کہ جدید علوم کے دروازے کھلے اور ہم نے ان جدید علوم کی جانب رجوع کیا اور اپنی جوان نسل کو تعلیم دینا شروع کی، امیرکبیرجوان نسل کی تربیت کی خاطر دارالفنون کی تاسیس کی جانب گئے البتہ دارالفنون کی تاسیس کی کچھ اور بھی وجوہات تھیں، کیوں کہ وہ بیرون ملک کے نظام تعلیم  کے مخالف تھے اس وجہ سے ہم اپنے جوانوں کو تعلیم کی خاطر باہر بھیجنے سے کتراتے تھے کیوں کہ اس تعلیمی نظام میں خطرات زیادہ تھے ،اسی وجہ سے بجائے یہ کہ طالب علم کو وہاں بھیجیں، استاد کو لائیں اور استاد سے ایک معاہدہ کریں کہ وہ ایران آئے اور ایرانی طلاب کو تعلیم دے اس طرح دارالفنون وجود میں آیا ہاں دارالفنون سے پہلے عباس میرزا کے زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ اعلیٰ تعلیم کے لئے طلاب کو خارج بھیج دیا کرتے تھے اور یہ ہماری افواج کی ضرورت تھی مثال کے طور پر گولہ باری اور توپ سازی و گولہ سازی میں ہمیں مشکل تھی اس لئے ہم نے کچھ افراد کو وہاں بھیجا کہ وہ اس میدان میں تعلیم حاصل کریں، محمد علی شاہ اور ناصری کے دور کے اولائل میں امیر کبیر کےدور میں، ہمیں اس طرح کی مشکلات کا سامنا تھا جو جنگیں ہوئیں ان میں ہمیں توپخانے اور ہتھیاروں کے سلسلے میں مشکل تھی۔ جس کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کی اب اس تعلیم کو حاصل کرنے کے لئے باہر جانا ضروری ہے۔ یاسرحدوں کی حدود بندی میں کہ جو قاچار کے زمانے کی زمانے کی بنیادی مشکل تھی ہم مسلسل روس کے حملوں کی وجہ سے اس مشکل سے دوچار تھے وہ ہمیشہ ایران پر یلغار کیاکرتا تھا، برطانیہ کے ہزار دعووں میں سے ایک دعویٰ کہ جو ہمارے خلاف کیا گیاکہ  وہ ہمیشہ سرحد بندی میں واسطے بن جاتے تھے اور روس کی حمایت کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ گولڈن اسمتھ کہ جو ہماری شرقی سرحدوں میں مداخلت کیا کرتا تھا کہ جس کا نتیجہ ہمارے ملک کو بھگتنا پڑا اس نے حکومتی افراد کو اس بات پر اُکسایا کہ وہ اس طرف بھی دیکھیں اور کسی ایسے کو بھیجیں کہ جو انجینئرنگ پڑھے تاکہ سرحدوں کی حدبندی کر سکے، اس طرح دارالفنون کا تسلسل جاری رہا۔

لیکن یہ بات کہ ہماری نیاز کے مطابق، کیا یہ بات درست تھی، اس میں بحث ہے، عباس میرزا کے دور میں جن جوانوں کو ملک سے باہر پڑھنے کے لئے بھیجا گیا، انھوں نے وہاں جا کر اپنا شعبہ ہی تبدیل کر ڈالا وہ شعبہ کہ جو ملک کی ضرورت تھی اسے چھوڑ کر اپنی ضرورت کو مد نظر رکھا جبکے بھیجے جانے والے افراد کی تعداد بھی کم تھی انھوں نے اس شعبے کو چھوڑا دیا یا وہ کسی اور جانب چلے گئے جس کا الٹا نتیجہ نکلا، مثلاوہاں جا کر راج مستری کا کام کرنے لگے ،ایسے افراد کس حد تک ملک کی خدمت کر سکتے ہیں؟ ایک سنجیدہ بحث ہے کہ جو سیاسی مسائل پر مبنی ہے اسی بنا پر امیر کبیر نے دارالفنون کی تاسیس کی تھی کہ جوان ایران سے باہر نا جائیں بلکہ استاد ایران آئے اور اساتذہ سے استفادہ کیا جائے البتہ تاریخ کے اس حصے نے بھی کوئی خاص نتیجہ نہیں دیا کیوں کہ امیر کبیر کو راستے سے ہٹا دیا گیااور دارالفنون ایک دوسرے مدار کی جانب  حرکت کرنے لگا، میرزا ملکم خان جیسے افراد کا بعنوان استاد دارالفنون میں ہونااور بہت سے غیر ملکی استادوں کہ جو میرزا ملکم خان کے گھرانے کے بھولے بسرے افراد شمار ہو تے ہیں، انھوں نے مل کر دارالفنون کو ایک راج مستری بنانے والا کارخانہ بنادیا تھا اس میں جدید تعلیم بھی دی جا تی تھی لیکن یہ جدید تعلیم ایرانی و اسلامی بنیادوں پر نہ تھی بلکہ مغربی نقطہ نگاہ پر تھی۔ شاید ان تعلیمی اداروں اور اسکولز کے درمیان بنیادی فرق یہی ہو یعنی اسکولز کی بنیاد دینی تھی اب دین سے کیا مراد ہے اور کس حد تک دین اس میں ہے یہ ایک الگ بحث ہے کچھ مثبت اور کچھ منفی پہلو ہیں لیکن ان کی بنیاد دینی تھی، مثال کے طور پر اگر ایک طالب علم کو تاریخ کی تعلیم دی جاتی تو اس تاریخ کی ابتدا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ سے شروع ہوتی لیکن جو جدیدتعلیم آئی ا س میں سے انبیاء حذ ف ہوگئے تھے، تاریخ کی تقسیم بندی میں تبدیلی آئی اور ہم نے بھی اس تقسیم بندی کو قبول کرلیاجبکہ ہم اپنی تاریخ کو بھی لا سکتے تھے یہ سب فنون کے مراکز اور فنون جیسے مراکز میں پڑھایا جا نے لگا۔

 

س: ایران قاچاریوں اور پہلویوں کے زمانے میں جدید تعلیم کے سلسلے میں کس ملک  سے زیادہ متاثر تھا؟   

ہم اس دور میں فرانس سے زیادہ متاثر تھے، ایران میں مغرب کے ثقافتی و کلچر ل تفکرکی نمائندگی فرانس کر رہا تھا بعض ایوینجلیکل مشنریز Evangelical Mission میں سے کہ جو ایران آئیں تھیں وہ فرانس سے آئیں تھیں اور کچھ  ایوینجلیکل مشنریز Evangelical Missionامریکہ سے آئیں تھیں اور اپنا کام کرتی تھیں کہ جن کے نتائج آپ البرز کے اسکول میں دیکھ سکتے تھے کہ جسے امریکہ نے بنایا تھا اور وہ اسکولز کہ جنھیں فرانس نے بنایا تھا آذربئجان و تہران میں ان اثرات نظر آتے تھے۔

 

س: آپ نے ایک نقطے کی جانب اشارہ کیا کہ قاچاریوں کے زمانے میں دفاعی مجبوریوں نے ہمیں  فوجی تعلیم کی جانب متوجہ کیا، قاچاریوں اور پہلویوں کے زمانے میں علوم انسانی کی جانب کتنی توجہ کی گئی؟

اس دور میں فوجی تعلیم، طب، اور انجینئیرنگ  کی تعلیم دی جاتی تھی، اسی طرح ترجمہ کرنے والوں کی بھی توجہ ہوئی کیوں کہ بہت سےافراد انگلش زبان سیکھنے جاتے اور پھر حکومتی عہدوں پر فائز ہو جاتے اور پھر سیاست میں داخل ہو جاتے، علوم سیاسی کی درسگاہ نے سیاسی میدان میں اچھی تربیت کی لیکن افسوس ہے کہ ان کی فکر کیوں کہ مغربی تھی اور پھر اس فکر کے ساتھ وہ قاچار سے پہلوی سرکار میں داخل ہو ئے اور پھر یہ لوگ اس حکومت کے اہم عہدوں پر بھی فائز ہو ئے اور وزارت خارجہ اور داخلہ پر ان کے افکار مسلط ہوگئے۔

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ کتا بڑا فرق تھا ان درسگاہوں اور مدرسوں کے درمیان کہ ایک سے امیر کبیر پڑھ کر نکلتے ہیں کہ جو روم سے اجناس کا معاہدہ کرتے ہیں اور دوسری جانب وثوق الدولہ ہے۔ کیوں کہ ان تعلیمی نظام میں فرق ہے کیوں کہ ان تعلیمی اداروں میں مغربی نظام چل رہا تھا لہذا دونوں کی نگاہوں میں فرق تھا امیر کبیر اور قائم مقام کو ایک نظام نے یہ سکھایا تھا کہ وہ ملک و ملت کے استحکام کی جانب بڑھیں، کہ جو مغربی نگاہ سے بالکل مختلف تھا ۔

محمد علی فروعی کی علوم سیاسی کی درسگاہ میں ایرانی  شاگردوں کو کہ جو آئندہ ایرانی خارجی سیاست اور ایران کے استقلال اور اسکی عزت کا دفاع کرنے والے تھے اس طرح سے تعلیم دی جاتی تھی کہ ایران ایک لباس کی مانند ہے ایک لباس سرداری کی مانند﴿وہ لباس کہ جو ایرانی پہنا کرتے تھے لمبا لباس کہ جس کی آستینیں بڑی ہوا کرتی تھی ﴾ کہ جو محفوظ رہے گا اگر انگلستان سے بچا رہا ، ولی اللہ نصر، ایک جونک کی مثال دیتے ہیں اور اپنے شاگردوں سے پو چھتے ہیں کہ کیا تم نے جونک دیکھی ہے وہ کہتے جی، پھر ان سے پو چھتے کہ کس طرح ایک جونک پروان چڑھتی ہے ؟۔ وہ کہتے دیوار کا سہارا لیتی ہے اور اوپر چڑھتی ہے وہ مثال دیتے اور کہتے جی بالکل درست ہے ایران کی مثال ایک جونک کی سی ہے کہ جس نے انگلستان کا سہارا لیا ہے اگر سہارا  نا لیں تو پروان نہیں چڑھ سکتا برباد ہو جا ئے گا دیکھئے اس طرح سے ہماری درسگاہوں میں تعلیم دی جا تی تھی۔

آپ بڑی آسانی سے نتیجہ لے سکتے ہیں کہ کیسے افراد ان درسگاہوں سے پڑھ کر باہر آئیں گے اور اپنے ملک کو کیسا دیکھیں گے، یہ فکر استعمار پر اعتماد نہیں کرتی یعنی اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اہل غرب باہر سے استعمار گر کی صورت میں آئے اور ہمارے ملک کی بر بادی کےدر پے ہیں اس کی وجہ سے انھوں نے اپنا تعلیمی نظام یہاں ٹھونسا ہے تاکہ ایسے افراد کی کھیپ تیار ہو کہ جو ان کے کاموں میں ان کی مدد کریں ،

البتہ میں اس بات کا انکار نہیں کرتا کہ اس طریقے نے ایک طرح کا طور طریقہ ضرور سکھایا کیوں کہ بہر حال ہم ایسے افراد کی تربیت کررہے ہیں کہ جو حال کی سیاست سے آشنا تو ہوں یا جس کھیپ کی اب ہم تربیت کر رہے ہیں وہ آج کے علوم سے آشنا ہوں ،اب اگر آپ سیاست خارجہ کے میدان میں ہوں یا نفسیات کے میدان میں ہوں یا کسی بھی علمی میدان میں ہوں اگر آپ کے علمی مبانی غیر علاقائی وغیر دینی ہونگے باوجود یہ کہ آپ اس بات کو جانتے ہیں کہ ایرانی سماج ایک دینی سماج ہے اور ان کا تعلیمی نظام اور انکے اسکول قطعی طور پر ایران کی خدمت نہیں کر سکتے کیوں کہ ان کے مبانی ایران کی عوام اور اس جیسے ممالک  اور معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں وہ قواعد کہ جو مغربی نظام ہمیں بتا رہاہے وہ اس جیسے سماج پر منطبق نہیں ہو تے، کیوں کہ ان کی راہیں دوسری ہیں، اسی وجہ سے آپ ان کے درمیان اور عوام کے درمیان مدارس کے درمیان اور اسکولز کے درمیان ایک بیگانگی کا احساس کرتے ہیں عوام،  ان جامعات اور یہاں کے طلاب کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں اگر ایک طالب علم کو عوام کی توجہ  حاصل ہو جائے تو وہ حیران ہو جاتا ہے کہ لوگوں نے ہم پر توجہ کی ہے ڈاکٹر علی شریعتی نے اپنی کتابوں میں ایک نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ میں ایک روشن فکر کے عنوان سے کہیں جا رہا تھا  کہ میرے کندھے پر کسی نے بڑے آرام سے ہاتھ رکھا اور مجھ سے بڑی اپنائیت سے پو چھا کہ یہ ایڈرس کہاں ہے تو مجھے بڑا تعجب ہوا کہ ہاں وہ مجھے اپنے جیسا سمجھتے ہیں ،ایک عجیب قیافے کے ساتھ کہ جو بابیوں نے اپنایا تھا کو ئی آیا لوگوں نے اس کی جانب کو ئی رغبت نہیں کی حتیٰ ایک سوال یا ایک پتہ بھی اس سے نہ پو چھا۔

اُن درسگاہوں سے ایک طرح کا رابطہ تھا جبکہ دیکھ سکتے ہیں کہ عام لوگ ان اداروں سے کو ئی رابطہ برقرار نہیں کر پا رہے ۔

پہلوی سرکار میں آہستہ آہستہ علوم اجتماعی او علوم انسانی کی ابحاث ملک میں ہو نے لگی ،لیکن قاچاریوں کے دور میں علوم اجتماعی اور انسانی سے کو ئی دقیق آشنائی نہ تھی ، غرب کے علمی مبانی ہمارے ملک میں ٹیکنالوجی کی صورت میں پھر ریاضی کی شکل میں اور انجیئر کی صورت میں نظر آتے تھے، پھر اس کے بعد علوم انسانی کے میدان میں بھی دیکھائی دینے لگے، ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ تدریجاً وہ علوم کہ جو پہلے موجود نہیں تھے اب ان کے شعبے نظر آرہے ہیں ،مثال کے طور پر نفسیات ، جامعہ شناسی اور دیگر علوم کہ جو ایران میں آئے ہیں کہ ابتدا ہی سے ان کی  علمی بنیادیں غربی ہیں ،ان تعلیمی اداروں کی تاسیس کہ جس کے بارے میں پہلوی سرکار کا دعویٰ ہے کہ ایران میں وہ اس چیز کے لانے والے  ہیں جبکہ ان کے دعوے کے برخلاف ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے ادارے اور درس گاہیں قاچاری حکومت میں بھی تھے ایسا نہیں ہے کہ ایران میں ان علوم کے پہچنوانے والے یہی افرد ہیں ، قاچاری دور میں ان موارد کو ایک جگہ اکھٹا کیا گیا تھا اور ان کے اکٹھا ہونے کا پہلا مرحلہ  ١۳١۴  یعنی ١۹۳۵ء میں ہو ۔ پہلی پہلوی سرکارکے ابتدائی دورمیں  اور اسی طرح اول پہلوی سرکار میں طلاب کو ملک سے باہر بھیجنے کا سلسلے زیادہ ہوا بہت بڑی تعداد ملک سے باہر حصول علم کی خاطر  گئی اس طرح وہ اور جدید علم سے آشنا ہو ئی اور پھر اس نے بھی ایک پھلاؤ پیدا کیا ۔

س: ان اداروں کی تاسیس میں کون سے مثبت اور کون سے منفی نکات تھے ؟

میں نے پہلے بیان کیا کہ ان میں مثبت اور منفی دونوں نکات شامل ہیں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ان کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں کچھ مختصر وضاحت ہو جائے تو میں یہ وضاحت کیے دیتا ہوں ۔ہم کچھ شعبوں میں مشکل سے دوچار تھے کو ئی متخصص ہی نہیں تھا ، لیکن میری نگاہ میں ایک غلط راستے کو طے کیا گیا ، لیکن بعد میں ایران کے پاس کچھ انجینئر ہو ئے کہ جنھوں نے خود سے کچھ کام انجام دہیئے ،اسی طرح کچھ ڈاکڑ ز ہو ئے کہ جنھوں نے ابتدائی سطح کے ہسپتال بنائے کہ جو عوام کی  بہت  ہی نچلی سطح کی مشکلات کو حل کر سکے ، اسی طرح تعلیمی میدان میں بھی ہوا پھر اسکے بعد وہ افراد کے جو باہر گئے تھے انھوں نے طب اور دیگر علوم کو سیکھا اور واپس پلٹنے میں کامیاب ہو ئے اور پڑھانے میں کامیاب ہو ئے ان موارد میں کو ئی اشکال نہیں ، صرف دو جگہ مشکل ہے کہ اگر یہ دونوں باتیں نہیں ہو تیں تو ہمارا ملک سے باہر طلاب کو بھیجنا بھی مفید ہو جاتا ،ایک تو یہ کہ غرب پہنچتے ہی اپنے شعبوں کو بھول گئے ، اور انحطاط کی حالت میں چلے گئے ، جب ملکم خان اور تقی زادہ اور ان جیسے افراد جیسا کہ علی دشتی کہ جنھوں نے اس بات کا دعویٰ کیا کہ ایرانی انحطاط کی حالت میں ہیں اور جوان نسل میں ایک افسردگی کی حالت پیدا کردی ، ان حالت میں جب ہمارا جوان وہاں پڑھنے جاتا وہ بھی اس ماحول میں کہ جہاں ایرانی معاشرہ نہ تھا یورپ کا اپنا معاشرہ تھا وہاں کی  اپنی شرائط تھیں تو ان افرد نے وہیں کا رنگ اپنا لیا اور انھوں نے ایران اور ایران جیسے ملکوں سے خود کو جد اکر دیا یہ گروہ جو کچھ ہمارے پاس تھا اس کو انحطاط  کہا کرتے تھے اور کیوں کہ ہمیں انحطا ط کا شکار سجمھتے تھے تو انھوں نے ہم اسے اپنا راستہ ہی جد اکر لیا اور رابطہ قطع کر دیا  اور ہمارے کسی کام کا نہ تھا اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ہمارے ملک کے افراد مداوا ہو تے جبکہ ایسا نہیں ہوا ہمارے پاس کو ئی نظام نہیں تھا کہ جو ہمارے ملک کے کام آسکے اور   اس صورت حال کاعلاج کر تے، یہ بات درست ہے کہ ہر نظام کے اپنی خوبیاں ہوتی ہیں اور بہت جلدی ہی بعض مشکلات کا ازالہ ہو سکتاتھا ان موارد پر قابو پایا جا سکتا تھا لیکن صرف ایک روایتی طب تھا کہ جو ہمارے ملک میں رائج تھا کہ غربیوں کی توجہ جلب کر رہا تھا یہ کہنا درست ہو گا کہ شاید وہ ہمارے تجربوں سے فائدہ حاصل کر رہے تھے لیکن ہم نے ایک دم صرف اس لئے کہ انحطاط کا شکار ہیں اپنے تجربات کو کنارے کر دیا اگر یہ کام نہ ہوتا تو ہم ان بھیجے گئے طلاب سے فائدہ حاصل کرتے کہ جو ملک کی ترقی کا سبب بنتا یہی ہمارا  روایتی طب پھیلتا اور جدید ہوتا اور اس کے عیب دور ہو تے ۔

اسی طرح تمام شعبوں میں آپ ان موارد کو تلا ش کر سکتے ہیں کہ خود کو احساس کم تری میں مبتلا کرنا، ایک سبب تھا اور دوسرا سبب غرب کی جانب لگاؤ اس کا شیفتہ ہونا ،اس کی وجہ سے طلاب میں ان کے نظریات کو قبول کرنے کا جھکاؤ زیادہ ہوا اور اپنی روایات اور اپنے لوگوں سے بیگانگی پیدا ہو ئی ایران کے کلچر سے بیگانگی اسی وجہ سے آپ اس نسل جوان کو دیکھے کہ جو علم کے نام پر یا بہتر کہا جائے کہ علم کے مارے ہوئےہیں انھوں نے اسلامی اور ایرانی  تمام اقدار پر اپنی روایات پر اعتراض کیا کرتے ہیں ۔

اگر یہ دو بنیادی عیب نہ ہو تے تو ہمارے ملک سے طلاب بیھجنا مفید ہو سکتا تھا ، ہم بہت سے متخصصین کے رو برو ہیں اور آج تک یہ مشکل ہمارے لئے موجود ہے کہ انجینیئرنگ اور طب کے شعبوں میں بعض افراد آج تک اپنے ہی تفکر پر باقی ہیں اور بعض نے اپنے تفکر کو چھوڑدیااور یہ موارد علوم سیاسی ، ریاضی و طب میں تھے ،پھر بعد میں یہ مسائل علوم انسانی و اجتماعی میں سرایت کر گئے ، ہمارے تاریخ نگاری کچھ اور ہی ہو گئی افسوس ہے کہ نفسیات اور دیگر علوم بھی اسی فکر میں ڈھل گئی ہے ۔

ہم اپنے مبانی اور علوم انسانی ایرانی و اسلامی پر تاکید ہی نہیں کرتے اور جب تاکید نہیں کرتے تو طالب علم اس میدان میں بغیر کسی آشنائی کے داخل ہو جاتا ہے اور اس روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے یعنی گزشتہ زمانے میں بھی بغیر کسی آشنائی کہ جاتے جبکہ پچھلے لوگ اپنی روایات سے بہت زیادہ منسلک تھے لیکن پہلوی دور میں اپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ پیوند بہت سست ہو گیا وہ میدان وہ راہ فراہم نہیں تھی کیوں کہ ایک تفکر آیا کہ جو حاکم ہو گیا البتہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ کلچرل میدان میں یہ تفکر مشروطہ سے پہلے تھا اسی طرح مشروطہ کے بعد ساری چیز یں ان کے اختیار میں عملا چلی گئیں ، یہاں تک کہ قوہ مجریہ بھی ان کے اختیارمیں چلی گئی اور اسی طرح یہ رخنہ بڑھتا چلا گیا ،مشروطہ کے بعدتو کچھ اوزار بھی ہاتھ لگ گئے ، اور  قانون کے اور سر کلر کے ذریعے  جو چاہا وہ کیا،تو یہ تمام اتفاقات سامنے آئے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ عیوب نہ ہو تے تو شاید یہ سب موثر ہو جاتا ان کی خوبیوں سے ان کے تعلیمی تجربات سے استفادہ کیا جا سکتاتھا ،ایران میں تعلیم حاصل کرنا آسان ہو سکتا تھا لیکن افسوس ہے کہ ا س مرحلے مین بھی کیوں کوئی خاص کام نہیں ہوا تو افتادگی کی جانب چل پڑے ،یہ کہ ہم تعلیم کو آسان کریں پھر اسے عام کریں مختلف اقوام کے لوگ آئیں پڑھیں ، لوگوں کے لئے مواقع حاصل ہوں ۔

لیکن جس طرح کہ ہم نے بیان کیا کہ اچھی طرح مینجمنٹ نہیں ہوا تو سطحی ہونے سے آگے نہیں بڑھ سکا ایک زمانہ تھا کہ ایرانی بچے جب اسکولزمیں پڑھا کرتے تھےتو ادب پر انہیں قابو تھا کہ جس کی وجہ سے یہ ایرانی ادب اور عربی ادب سے آشنا ہو جا تے تھے اسی طرح رائیٹنگ اور اسی طرح ایک دوسرے سے اپنے روز کے درس پر بحث و گفتگو  کرنے کی تاکید ، ہمارے پچھلے نطام تعلیم نے ایک خاص ایک ایلیٹ افرادی قوت کومعاشرے میں دیا ہے اور اگر کلچر سے کٹاو اور اسلامی و ایرانی ثقافت سے انقطاع نہ ہوتاتو ہم اپنی ساری قوت کو حاصل کر سکتے تھے کہ جو نئے تجربات سے آشناہو تی لیکن ہم نے اسکا برعکس دیکھا کہ ساری چیزیں رو با زوال ہو گئیں اور بعدمیں ہم ایک ایسی نسل کے روبرو ہوئے کہ ایک معمولی عربی اور فارسی متن بھی نہیں پڑھ سکتے تھے روڈ پر لگے بورڈ پڑھنا ان کے لئے مشکل ہو گئے تھے یہ تو قطع ارتباط کے علاوہ کی بات ہے ، اور کلچرسے کٹاو نے تو وہ صورت اختیا ر کی تھی کہ مثال کے طور پر پرانے دور کے اسکول کے بچوں کو دیکھتے ہیں کہ جو جدید دور کے اسکول کے بچوں سے قابل مقایسہ نہیں جس بچے نے پرانے نظام کے تحت پانچویں کلاس پاس کی ہے اس بچے سے کہ جس نے ایک جدجد تعلیمی نظام کے تحت پانچویں پڑھی ہے یہ دونوں قابل مقایسہ نہیں جس نے پہلوی دور میں میڑک کیا تھا اس میں اور جدید بچے میں زمین تاآسمان کا فرق ہے اس نے زیادہ دقیق اور اچھا پڑھا ہے یہ بات درست ہے کہ آج بہت سے منابع علمی موجود ہیں کہ جو اس زمانے میں نہیں تھے لیکن اس زمانے میں دقت زیادہ تھی ۔

بہر حال جیسا بھی وہ اچھائیاں اور برائیاں دنوں ساتھ ساتھ ہیں انھیں ایک دوسرے کے سامنے رکھناہو گا لیکن جو چیز انھیں تعین کرے گی وہ انھیں ایک خاص جہت و رخ دینے والی ہو گی اگر آپ اس میدان میں کام کریں لیکن آپ کے مبانی وہ غربی ہوں تو آپ ایرانی سماج اور اس سماج کی احتیاج سے اس کی کو ئی نسبت برقرار نہیں کر سکتے یا یوں کہوں کہ کو خاص مدد نہیں کر سکتے اس ضمن میں بیان کرتا چلو کہ اس دور کے اوج کہ جس اداروں کی تعدادطالب علم کی تعداد زیادہ ہے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایرانی متخصص نظر نہیں آتے ، ہمارے  متخصص  کے لئے ضروری تھا کہ وہ ملک سے باہر کسی کا اسسٹنٹ ہو کوئی اسکا مشیر ہواس طرح کے موارد بہت ہیں ،توجہ کریں کہ بہت سے انجینئر ہمارے ملک میں تھے ان افراد نے ملک کو بنانے میں بہت مدد کی ہے ان افراد کو سیاسی لوگوں سے الگ کریں ، یعنی ایک ایسی قوت کہ جو ملک کو بنانے میں اور زحمت میں لگی ہو ئی تھی ، لیکن انھیں کیا دیا گیا ؟

امیرکبیر ڈیم بنایا جا رہا تھا تو اس کا نقشہ ایک ایرانی انجینئر نے بنایا اور اس نقشے کو جب مینیجمٹ کے حوالے کیا گیا اور اس نے فخر کے ساتھ کہا کہ یہ نقشہ ایرانی نے بنایا ہے اور شاہ کیا کہتا ہے کہ اس کے بارے میں امریکی انجینیئر کی کیا رائے ہے ؟

 اگر وہ تائید کرے تو کچھ نہیں اور اگر اس نے تائید نہیں کی تو وہ اس فائل کو اٹھا کر پھینک دیا کرتا اور کہتا کہ جاو جا کر اس سے پو چھو کہ وہ کیا کہتا ہے ، اسکی رائے کیا ہے ؟

 یعنی خود پر یقین ہی نہیں ہے، باجود یہ کہ فارغ تحصیل افراد کو پہلوی دور میں سرٹیفیکٹ دیا جاتا لیکن وہ لوگ اندر سے خالی تھی تھے یعنی انھیں خود پر یقین ہی نہیں تھا انکے لئے کام کرنے کا کو ئی موقع ہی نہیں تھا ۔

سلسلہ جا ری ہے ...

 

 



 
صارفین کی تعداد: 4420


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔