جناب بلواری کی سن ۵۷ کے نامہ نگاروں کے بارے میں گفتگو


2015-9-15


جناب حسین علی کی موت کا اصل سبب ،فلم گوزن ھا اور ۔۔۔۔۔۔

محمد بلوری ایک پیش قدم صحافی ہیں انھوں نے اپنی سن ۵۷ شمسی یعنی ١۹۷۸کی اشاعتی کارکردگی کہ دوران جو صحافت کے میدان میں مختلف واقعات پیش آئے، انھوں نے ان کے بارےمیں نے بتایا جیسا کہ حسین علی کی قتل، اور گوزن جیسی فلم کہ جو ایک حقیقی حادثہ تھا اور۔۔۔۔۔۔۔ بتایا۔

آن لائن خبر نگارکے مطابق، تاریخ شفاہی کے سلسلے میں جو کچھ بلوری کے توسط سے ایرانی مطبوعات میں شائع ہوچکا ہے کہ جس کے وہ عینی شاہد ہیں کہ جسے وہ اب تک مختلف اخبارات کہ جیسے کیھان ،ایران جام جم م،و اعتماد میں لکھ چکے ہیں۔ یہ نشستیں اسناد کے ادرارے کےمفکرین اور قومی لائبریر ی اورماہنامہ کی مینجمٹ کے تعاون سے قومی لائبریری میں منعقد ہو ئی۔

سازشوں نے واقعات کی تحریر کو رونق بخشی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ موضوع کہ جو ۲۸ مردادکی سازش اور گورنمٹ کے سرکولیشن اور سینسر ز کے بعد واقعات کا تحریر کرنے کا میدا ن بہت مناسب تھا اس بات کی تاکید کے بعد انھوں نے کہا کہ مجلوں کی کمی کا سرکولیشن اور نشر و اشاعت کی بحرانی حالت کہ جو جو ۲۸ مرداد کی بغاوت کے بعد سامنے آئی تھی ، اجتماعی حوادث پر بحث کرنے اور ان حوادث کو لکھنے نے  رونق حاصل کر لی تھی اور اس امکان کو پیدا کیا کہ اخبارات وہ مطالب کہ جو عامةالناس  کے لئے قابل قبول تھے انھیں بیان کیا جا ئے  اس کے ضمن میں وہ حادثات کہ جو عام طور پر انسان میں احساسات اور محبت کو ابھارتے ہیں جو ان میں جستجو اور تلاش کو ابھارتے ہیں انھیں بیان کیا جا ئے۔

اس تجربہ کار نامہ نگار نے اپنی گفتگو میں اضافہ کرتے ہو ئے کہا کہ اس دوران ایسے اتفاقات ہو ئے کہ جس کی وجہ سے اخبارات کو لوگوں کے درمیان پھیلنے کا موقعہ ملا ،جس کی وجہ سے ان اخبارات کے مدیروں اور ان کے معاونوں کو اور کام کا تجربہ  اور بہت سی چیزوں کو اہمیت ملی اور یہ بات سبب بنی کے تجربہ کار افرادنے ناتجربہ کار توان مند افراد سے کام لیا اور انھیں سیاسی و اجتماعی مسائل میں اپنا جانشین بنایا ۔

اس کے ضمن میں انھوں نے اشارہ کیا کہ دو چیزیں ایسی ہیں کہ جو کیھان اخبار نے ان سالوں میں انجام دیئےاور وہ چیز کہ جس کی وجہ سے اس اخبار نے پیشرفت کی ہے ، کہا کہ اخبارات میں کام کرنا بھی دوسرے فنون  کی مانند ایک فن ہے کہ جسے ایک گراؤنڈاور ایک ورکشاپ درکار ہے ،جیسا کہ تر خانی کو خود سے اور کتابوں سے پڑھ کر نہیں سیکھا جا سکتا ، نامہ نگاری میں تعلیم کے علاوہ کام کرنے کا میدان اور ایک بہت ہی بڑی ورکشاب  اجتماع و سماج کی صورت میں ہے کہ جس نے ابتدا ء کیہان اور اس کے بعد ایران اور پھر عصر حاضر کے بہت سے اخبارات کہ جو کامیاب ہیں اسی طریقے پر چل کر کامیاب ہوئے ہیں کہ انھوں نے جوان اور قدیم توانائیوں کو جمع کیا اور معاشرے کی ایک اچھی خدمت انجام دی ۔

اخباری رپوٹرز حادثے کے وقت موجود ہوا کرتے ہیں۔

بلوری صاحب کو وہ حادثات کہ جو "داد شاہ" سے مربوط ہیں کہ جو سیستان و بلوچستان میں اس موضوع کی  چاراصل شخصیات میں سے ایک  کے قتل پر تمام ہو ا اور ۲۸ مرداد کی بغاوت کے بعد اس کی زوجہ اور ان کے دو ایرانی ساتھوں کا تقل کہ جو ان  کے ساتھ ہوا ، انھوں نے کہا کہ دردناک حوادث کے ساتھ کہ جیسا کہ اصغر قاتل اور رمال شیرازی جیسے افراد نے ان واقعات کو جنم دیا تھا یہ واقعات اور حادثات نے اخبارات کے لئے غذا کا کام دیا ان کے اغوا ہونے سے لیکر ان میں سے ایک کے قتل اور ان کی بیوی اور ان کے ڈرئیور اور ان کے گائیڈ کہ جو سیستان میں تھا ایک شخص کہ جس کا نام داد شاہ تھا کہ جو اس وقت کی سرکار سے بغاوت کر چکا تھا  اس کے ہاتھوں قتل ہوا تھا یہ پورا واقعہ اغوا کے نام سے یاد کیا گیا، کچھ عرصے تک یہ موضوع  کیہان اخبار میں ایک اصلی عنوان سے حادثات کے صفحے پر نمایاں تھا ،ان دنوں اخباری رپوٹرز بڑی شد و مد کے ساتھ حاضر ہوتے اور اس واقعے کے شاہدین کی تلاش میں رہتے اوراس واقعے  مختلف موضوعات و مسائل کو اسناد کرتے اس طرح کہ سالوں بعد روزنامہ کہیان کے دفتر میں میں صبح سویرے تقریباً ۸۰ آدمی اس موضوع کو تحریر کرنے میں لگ جا تے اس وقت ۹ بجے صبح پرندے پر نہیں مارتے تھے اس وقت ۹ بجے صبح وہ اخبار کا متن تیار کر لیتے تھے اور دن کے درمیان ہر روز ان میں سے ہر کوئی ایک تازہ خبر کی تلاش میں لگ جاتا، اور پھر واپس پلٹ آتے یہی وجہ ہے کہ اخبار میں حوادث کا صفحہ ہمیشہ تازہ خبروں سے بھرا رہا اور پڑھا جاتا۔

وہ ان پڑھ سینسر کرنے والا کون تھا

انھوں نے سینسرز  کے موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہو ئے بتایا کہ ، شایدسب دوستوں نے محرم علی خان سینسر چی کا نام سنا ہو گا اور بڑی تعجب کی بات ہے کہ انقلاب سے پہلے  جس شخص کے زمہ یہ زمہ داری تھے  وہ تعلیم کی نعمت سے محروم تھا کو ئی اور شخص اس کے سامنے اخبارات کے مطالب پڑھا کرتا تھا اور وہ سیاہ پوش و جلاد صفت انسان کہ جو اسی نام سے معروف تھا، حکم دیا کرتا تھا کہ کون سے مطالب رکھنے ہیں اور کون سے نہیں رکھنے ہیں۔

محمد بلوری نے اس موضوع کے ضمن میں اشارہ کیا کہ وہ  کہیان اخبار میں خسرو گلسرخی  کے ساتھ کام کیا کرتے تھے انھوں نے کہا کہ ، خسرو گلسرخی کہ جو روزنامہ کہیان میں ہنر کے صفحے میں کام کیا کرتے تھے ان کی میز اور میری میز ساتھ ساتھ تھیں جب ان کی گرفتاری اور محاکمہ کا دور آیا تو ان کا ایک کارندہ ان کی خبر بنانے کے لئے عدالت گیا اور ایک مناسب موقع پا کر خسرو سے احوال پُرسی کی خاطر بغلگیر ہوا یہی وہ سبب تھا کہ انھیں دس دن  اوین کی جیل میں رکھا گیا۔

کیوں ممنوع القلم ہوا

انھوں نے بتایا کہ مسعود کیمیایی کی فلم گوزن ھا کہ جو ایک حقیقی ماجرے پر بنی تھی کہ جو نازی آباد تہران میں ہوا تھا اسی دوران نازی آباد کا ماجرا میں نے بیان کیا کہ جو ممنوع القلم ہونے کا سبب بنا، ماجر ا کچھ یوں تھا کہ ۲۸ مردادسن ۳۲ کی بغاوت کی ۲۰ ویں سالگرہ کے موقع پر سرکار کی پریشانی یہ تھی کہ مختلف تنظیمیں اور گروہ اس موقعے پر شہر کے مختلف حصوں میں کچھ مسلحانہ کاروائیاں کرنا چاہتے تھے اس دن صبح میں کہیان اخبار کے  اسٹاف روم میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ فون سے خبر دی گئی کہ نازی آباد کا محاصرہ کر لیا گیا ہے اور فائرنگ کی آواز یں آرہی ہیں میں نے حوادث کے خبر نگار جلال ہاشمی سے کہا کہ جلدی جاو اور واقعہ کی تحقیق کرو جلا ل نے پہنچ کر  ایک ساواک سے مسلحانہ جنگ کی خبر دی اور خود ایک گھر میں پناہ لینے کی کوشش میں گولیوں کی ذد زد میں آگیا اور قتل ہو گیا۔ جس طرح میرے ساتھی نے خبر دی تھی اسی بنیاد پر میں نے ایک خبر بنائی کہ جس کے بعد افکار عمومی میں ایک بھنوچال آگیا کہ جس نے سرکار کی مخالفت میں انھیں ناراض کیا ۔

نازی آباد کی خبر کچھ اس طرح تھی کہ، آج سحر کے وقت ﴿۲۸ مرداد سال ۵١﴾ احمد زبیرم کہ جو سرکار کی مخالف تنظیموں میں سے ایک کے سربراہ ہیں اپنی مخفی گاہ سے باہر آئے تاکہ حکومت کے خلاف ایک مسلحانہ کاروآئی کا کو ئی پرگرام بنایا جائے وہ نازی آباد کے ایک گھر میں جاتے ہیں  وہ اپنے چہرے کو تبدیل کرکے ایک اسکوٹر پر سوار تھے انھوں نے اپنےاپنی اسکوٹر کے تھیلے میں اسلحہ رکھا ہوا تھا یہ مسلح جوان جب اسٹیشن کے پل کے نذدیک پہنچا تو ایک گشتی آفسر کو ا س پر شک ہو گیا تو انھیں رکنے کو کہا لیکن وہ نہ روکا اور تیزی سے نازی آباد کی جانب بڑھا  اس کا تعقب کیا گیا چند مسلح ساواکی سپاہیوں نے اسے ایک محلے میں دیکھااور اس پر فائرنگ شروع کر دی ایک گولی اس کی ٹانگ پر لگی وہ بند گلی میں تھا کہ اس کی نیم وا آنکھیں ایک گھر کی جانب گئی اور وہ گھر کے صحن میں داخل ہو گیا  ایک خاتون کو دیکھا کہ جو حوض پر بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی ،اس نے کپڑوں کی چھوٹی بالٹی میں جیب سے  گولیاں نکال کر ڈال دیں اس کے بعد خاتون کی کمر سے بندھی چادر کو اس سے لیا اور ایک پتی پھاڑی اور اپنے زخمی پیر  کہ جس سے خون بہہ رہا تھا باندھی ،کچھ پیسے جیب سے نکال کر اس خاتون کو دیئے اور کہا کہ  بہن یہ اس بالٹی اور چادر کے پیسے  ،جب تک فائرنگ نہ ہو تم اپنے بچوں کو زیر زمین میں لے جاو اور پناہ لو ،اس نے اس کے بچوں اور بیمار شوہر کو کہ جو آنگن میں ایک جانب پڑا تھا اسے اُٹھایا اور انھیں تہہ خانے میں لے گیا ، اس کے بعد گولیوں سے بھری بالٹی کو لئے دالان کی جانب بڑھا اور ایک کمرے کی کھڑکی کو اپنی کمین گاہ بنائی کچھ ہی دیر کے بعد مسلحہ سپاہی سے گھر پُر ہو گیا وہ لوگ چھتوں پر آگئے اور فائرنگ کا آغاز ہو گیا اس جواب نے بھی فائرنگ شروع کر دی کہ جس کے بعد اسے چند گولیوں لگی اور وہ کھڑکی کے پیچھے گر کر مر گیا ۔

 اس خبر کی نشر اور اس کے لئے خراب کار کے بجائے  مرد مسلح  کا لفظ استعمال ہونے نے ساواک کا رد عمل سخت کر دیا کیوں کہ سرکار  اپنے مخالفوں کو  خراب کار و لوگوں کے دشمن کے عنوان سے پہچنواتے تھے جس کی وجہ سے اس طرح کی چیزوں کو نادیدہ لیا گیا ، اس وجہ سے ساواک کا غصہ مجھ پراور میرے ساتھیوں پر  اترااور ہم ایک آشوبگر کے عنوان سے تفتیش کے لئے ساواک کے سامنے حاضر ہو ئے اور ایک مدت تک اس لکھنے کی وجہ سے ساواک کی جانب سے ممنوع القلم قرار پا ئے اور ایک سال تک اخبارات میں لکھنے سے محروم رہا لیکن مسعود کیمیائی کی نگاہ میں میری خبر نگاری ایک الگ نظر رکھتی تھی انھوں نے اس واقعہ کی فلم گوزن ھا ایک الہامی کیفیت کی بنا پر بنائی تھی کہ جو ایرانی فلمی دنیا میں ایک یاد گار حیثیت رکھتی ہے ۔

حسین علی منصور گولی لگنے سے قتل نہیں ہو ئے

بلوری نے اپنی دیگر یادداتشوں کو افشا کیا اور حسین علی منصور کے قتل کی جانب اشارہ کیا اور کہا ، میڈیکل رپورٹ کی بنا پر ان کی موت گولی لگنے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ ان کی موت کا سبب اندرونی خون ریزی تھی کہ جو اپریشن کے بعد قتل ہو ئے کہ جسے کبھی نشر ہو نے نہیں دیا گیا۔ سنڈیکیٹ خبر نگاری اور لکھنے والوں کی اسی طرح زندہ ہے۔ محمد بلوری کہ جو سنڈیکیٹ لکھنے والوں اور خبر نگاروں کے ادارے کے رئیس ہیں انھوں نے اس موضوع کے ضمن میں بیان کیا میرا ارداہ ہے کہ ان خبر نگاروں اور لکھنے والوں کہ حقوق کہ جو قانونی لحاظ سے نہ منحل ہوئے ہیں نا ہی فعال ہیں ان کو فعال کرنا چاہتا ہوں اور اسے وہ نامہ نگار کہ جو جوان ہیں انھیں پیش کرنا چاہتاہوں، انھوں نے کہا کہ، اس بار ہم ریش سفیدوں کے کاندھوں پر کچھ اور زمہ داریاں آئی ہیں ہم سنڈیکیٹ کی عمارت وضع روشن کر نے کے در پے ہیں کہ اس کا کیا کرنا ہے اور اپنے جوانوں کو میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اپنے مصالح کی جانب توجہ دیں اور اسے تشخیص کریں اور اپنے کام میں سیاست کو وارد نہ کریں  افسوس کے ساتھ کہنا پرتا ہے آج کل سیاست تمام اخبارات کی جان کا عذاب بنی ہو ئی ہے، جبکہ یہ انجمن ایک صنف کی آسانی کے لئے ہے ۔

انھوں نے خبر نگاروں کےشغل کی حفاظت کے بارے میں بتایا اور کہا یہ ایک ایسی مشکل ہے کہ جو میرے قلب کو رنجور کر تی ہے بہت سے اخبار آج کل کیا کرہے ہیں؟ ایک رپوٹر کو اسٹاف کے عنوان سے لیتے ہیں اس سے ایک ایگریمنٹ، اورایک عہد نامہ لیتے ہیں کہ فلاں رپوٹر کا روزنامے سے کو ئی تعلق نہیں، فلاں ادارے کی تنخواہ و انعام و انشورنس کے حوالے سے کو ئی زمہ داری نہیں، پس  اس شغل کے تحفظات کیا ہو ئے ؟

جناب بلوری نے اشارہ کیا کہ اخبارات کے صنفی  نظام کی ترقی کے لئے  انھوں نے کو ششیں کی ہیں انھوں نے بلاوسطہ حاکم یونین پر تنقید کی اور کہا کہ میرا انکو مشورہ ہے کہ وہ اخباری رپوٹرز کے حق و حقوق کا خیال رکھیں اور ان کو انکا کام کرنے دیں اور اخبارات کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے دیں اور مطمئن رہیں کہ اخبارات خود میڈیا کی اخلاقیات کو پیدا کر سکتے ہیں اور اس کی حفاظت کر سکتے ہیں۔



 
صارفین کی تعداد: 4222


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔