کتاب "ہدایت سوم" کے مصنف سے گفتگو

مترجم: ابو زہرا علوی

2015-9-15


سورہ مہر کے خبر نگار کے مطابق، کمانڈر محمد جعفر اسدی کی روداد کی کتاب ہدایت سوم کے عنوان سے سید حمید سجادی منش کی کاوشوں سے ضبط تحریر میں آئی اور سورہ مہر کے توسط سے منتشر ہو ئی، یہ کتاب کمانڈر اسدی کی آپ بیتی کو مکمل طور پر ایک تسلسل کے ساتھ ان کے بچپن سے لیکر مسلط کردہ جنگ کے اختتام تک کی روایت کرتی ہے کمانڈر اسدی قبل از انقلاب اسلامی شہید محراب آیت اللہ مدنی جیسے استاد کے محضر سے فیضیاب ہو ئے اور جنگ کے آغاز سے ہی سرزمین اسلامی  کے مدافع میں تھے شروع میں کمانڈ ر اسدی جنگجو فداکار جناب داود کریمی کے ساتھ رہے اور ملک کے جنوب میں عراق کے خلاف جنگ  لڑی ، اس کتاب سے بہترین آشنائی کے لئے اس کے مصنف سے ایک بات چیت رکھی آئے اس کو پڑھتے ہیں۔

 

سوال: یہ کتاب کمانڈر اسدی کی آپ بیتی ہے اور جو پہلا سوال ہمارے زہن میں آرہا ہے وہ یہ کہ کس طرح آپ جناب اسدی سے آشنا ہو ئے اور کیوں آپ نے ان کی آپ بیتی لکھی ؟

میں جنگ کے زمانے میں ان کے ساتھ تھا اور انھیں اچھی طرح جانتا ہوں جنگ کے بعد مجھے ان کی کو ئی خبر ہی نہیں تھی کہ میرا ان سے رابطہ ہوا اور پھر میں نے ارادہ کیا کہ ان کی آپ بیتی لکھوں۔

 

سوال: اس میں کتنا ٹائم لگا؟

ان کی آپ بیتی لکھنے میں مجھے آٹھ مہینےکا وقت لگا اور اس کی پروف ریڈینگ میں پانچ مہنے لگے پھر یہ کتاب چھپی ہے۔

 

سوال: اس کتاب نے اسدی صاحب کی زندگی کے کن ادوار کو لیا ہے؟

ہدایت سوم کمانڈر اسدی کی نوجوانی سے شروع ہوتی ہے اور جنگ کے اختتام تک جاری ہے ،نوجوانی کا دور ، جوانی اور آیت اللہ مدنی سے آشنائی ، انقلاب سے پہلے کی جنگ ، انقلاب کی کامیابی ، جنگ کی ابتدا اس کتاب کے اہم حصے ہیں کہ جس میں ١۵۰ رودادیں ہیں البتہ ان داستانوں کو پیوستہ بیان کیا گیا ہے اس طرح کہ قاری کو احساس تھکن نہ ہو اور آخر تک وہ کتاب کو پڑھے۔

 

سوال: انقلاب کے آنے سے پہلے سے شروع کرتے ہیں ، یہ کس طرح ہوا کہ کمانڈر اسدی ایک انقلاب سے پہلے ایک سیاسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ؟

میری نگاہ میں کمانڈر اسدی کی اصلی شخصیت انقلاب کے زمانے میں اور انقلاب سے پہلے ابھر کر سامنے آئی ، وہ سن ۴۲ میں کہ جب وہ صرف ١٦ یا ١۷ سال کے ایک جوان تھے انقلاب میں شامل ہو ئے اور اس جنگ میں وہ تاآخر رہے ان کی یہ انقلابی شخصیت شہید مدنی کے اثر سے تھی کیوں کہ انھوں ایک عرصہ ان کے ساتھ ایک حجرے میں زندگی گذاری ہے اور گھنٹوں ان سے باتیں کی ہیں کمانڈر نے ان سے بہت فیض لیا ہے یہی شاگردی سبب بنی کہ کمانڈر اسدی کی زندگی میں ایک نئے دور کا آغا ہوا۔

 

سوال: اس کتاب کا اصلی محور دفاع مقدس میں کمانڈر اسدی کی رودادیں ہیں اور عام طور پر ان جنگجوں کی داستانیں جذاب ہوا کرتی ہیں ،ہدایت سوم میں ایسی کو ن سی خصوصیت ہے کہ جو قارئین کو اپنی جانب کھینچے گی؟

اس کتاب کی  برجستہ خصوصیات میں دفاع مقدس کے پہلے سال کے موضوعات کی جانب اشارہ ہے کہ جو آج تک کہیں بھی بیان نہیں ہوئے ، واقعات بیان کرتے ہیں کہ اس ایک سال میں جنگ کتنی دشوار تھی اسی طرح اس کتاب میں پہلی مرتبہ جناب داود کریمی کی داستان کو لایا گیا ہے کہ یہ وہ شخص ہےکہ جس کہ پر  جنگ کے ابتدائی چھ ماہ تمام باڈر ز کے جنگ کی تمام زمہ داریاں تھیں گلف کی عمارت کے واقعات یا اسی منتظران شہادت  کی عمارت کے واقعات کہ جو جنگ کے ابتدائی مہینوں میں رونما ہو ئے ہیں ،اس کتاب میں لائے گئے ہیں ،کہ جو جذابیت پیدا کر سکتے ہیں ،حتیٰ ان افراد کے لئے کہ جو اس وقت باڈرز پر موجودتھے اسی طرح کمانڈر اسدی کے بارے میں بھی ایک جالب بات کہ جانیے کہ جس وقت فوج کے تمام کمانڈرز جیسا کہ شہید ہمت ، شہید خزازی تقریباً ۲۰ سے ۳۰ سال تک کہ تھے کمانڈر اسدی چالیس سال کے تھے اسی وجہ سے ان کا احترام کیا جاتا ،اب بھی آپ فوج کے مسن ترین کمانڈرہیں ۔   


سوال: ان روداوں کی روایت کس طرح آگے بڑھی ،یا بہتر کہوں کہ اس میں کس  ٹیکنک سے استفادہ کیا گیا ہے؟

زیادہ ترروایات کی صورت میں ہیں ، اس کتاب کو رواداد کی کتاب بھی کہا جاسکتا ہے لیکن تمام داستانیں تسلسل کے ساتھ بیان ہو ئیں ہیں ،میں نے داستانوں کے درمیان کو ئی فاصلہ نہیں آنے دیا کہ قاری کا تسلسل ٹوٹے ۔  
 

سوال: ہدات سوم کیوں؟ اس کتاب کے عنوان کا کس بنیاد پر انتخاب کیا؟

ہدیت سوم علماء کے کلام کا ماحصل ہے اسی طرح جناب اسدی نے خود بھی اپنی روداد میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے ،پہلی ہدایت وہ وہی مشخص راستہ ہے کہ جو تکامل کی جانب جاتا ہے دوسرا راستہ اس راہ میں موجود اسوہ ہیں جیسا کہ پیامبراکرام و آئمہ اطہار علیہم السلام کہ جو ہمارے لئے بہترین نمونہ تھے ، تیسری راہ اس وقت ایجاد ہو تی ہے کہ خدا جب انسان کاہاتھ تھام لیتا ہے اور اسکی ہدایت کرتا ہے ، ہدایت سوم یہی ہدایت ہے کہ جو آپ کو مقصد تک پہنچاتی ہے اور میں معتقد ہوں کہ یہ ہدایت کمانڈر اسدی کے شامل حال ہو ئی۔ کمانڈر اسدی نےبندے کو اس ہدایت سوم کے ماجرے کو اس طرح بیان کیا ،،ایک دن آیت اللہ صدر الدین شیرازی جنگ کے باڈر کے دورے پر آئے ہوئے تھے اور اصرا ر کر رہے تھے کہ آخری حد تک جانا ہے بہت زیادہ اصرار کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ انھیں اس مورچہ میں لیکر چلتے ہیں کہ جو دشمن کے زیر نظر ہے وہاں کی  سخت صورت حال سے چند جنگجو واقف تھےکہ جو ایک مورچے میں تھے ،مورچے میں آیت اللہ شیرازی نے مورچے میں موجود  جنگجوں کو ہدایت کی تین اقسام کو بیان کیا اور کہا کہ تم لوگ جو یہاں موجود ہو تیسری ہدایت تمہارے شامل حال ہو ئی ہے، البتہ اس کتاب کے تمام ہونے کے بعد میں اس نتیجے پ رپہنچا ہوں کہ یقیناً یہ تیسری ہدایت کمانڈر اسدی کے شامل حال ہو ئی ہے ،کہ وہ اس طرح انقلاب اسلامی میں اور پھر بعد میں جنگ میں موجود تھے ۔    
 

سوال: اب آخری سوال کہ دفاع مقدس میں جنگجووں کی داستانوں کے بیان کی کیا اہمیت ہے ہو سکتا ہے آج کے کچھ جوانوں کا یہ عقیدہ ہو کہ کیا ضرورت ہے کہ ان داستانوں کو لکھا جائے آپ کا اس بارے میں کیا جواب ہے کہ آپ خود ایک جنگجو تھے اور آج جنگ کی روداد لکھنے میں سرگرم ہیں؟


دفاع مقدس کا موضوع ایک برجستہ ترین موضوع ہے کہ جسے ملک میں بیان ہو نا چاہیے ۔ اس دور پر زیادہ توجہ رکھنی چاہیے، کیوں آج کی جوان نسل اور آنے والی نسل اس کی نیاز مند ہے جوانوں کا دفاع مقدس سے آشنا ہونا ضروری ہے کیوں کہ دفاع مقدس کی اپنی خاص زبان ہے اور وہ خاص اہمیت کی حامل ہے۔

دفاع مقدس کے کلمات مقام معظم رہبری کے نزدیک بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں ان کی اہمیت اور اس کی تاکید کو اس دارز عرصے میں ہم دیکھ سکتے ہیں ، آپ فرماتے ہیں کہ "آنے والے دفاع مقدس کی صحیح روایات کو حاصل کریں تاکہ آئندہ اس ملک کے دشمن تاریخ کو تحریف نہ کر سکیں اور اپنے نفع میں تبدیل نہ کر پائیں"۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی آنی والی نسلوں کو دفاع مقدس کے بارے میں صحیح باتیں بتائیں تاکہ سب اس جنگ کے جنگجووں کی بہاردی اور دلاوری و رشادت سے آشنا ہو سکیں اور ایمان کی قدرت میں اضافہ کریں،جوان ان دستانوں کو پڑھ کر سرشار ہوں گے اور فخر کریں گے، اسی طرح ان بہادروں اور جنگجوں کو بیان کرنے سے اس ملک کے دشمن کو ایران کی جانب دیکھنے کی جرات نہیں ہو گی۔



 
صارفین کی تعداد: 4261


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
جلیل طائفی کی یادداشتیں

میں کیمرہ لئے بھاگ اٹھا

میں نے دیکھا کہ مسجد اور کلیسا کے سامنے چند فوجی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ کمانڈوز گاڑیوں سے اتر رہے تھے، میں نے کیمرہ اپنے کوٹ کے اندر چھپا رکھا تھا، جیسے ہی میں نے کیمرہ نکالنا چاہا ایک کمانڈو نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کرکے چلایا اسے پکڑو۔ اسکے اشارہ کرنے کی دیر تھی کہ چند کمانڈوز میری طرف دوڑے اور میں بھاگ کھڑا ہوا
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔