کتاب شرح اسم کے مصنف جناب ہدایت اللہ بہبودی سے گفتگو

ترجمہ: ابو زہرا علوی

2015-8-29


ہدایت اللہ بہبودی، ایک انقلابی اسلامی تاریخ نگار ہیں، ایک نشست میں کہ جو کتاب و انقلاب اسلامی کے عنوان سے تھی خبر رساں ایجنسی ابنا کے ٹاک روم میں انھوں نے کہا، اگر اسلامی انقلاب کے پھیلے ہو ئے موضوع پر متوازی کام ہو تو کو ئی مشکل نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا حسن سامنے آئے گا لیکن ضعیف کتابوں کے جولان کو نقد کے ذریعے سے روکنا ہوگا نقد کی اجازت نہیں دینی چاہئے اور کوشش کرنا چاہیے کہ اس جانب قدم اُٹھے ۔

خبر رساں ایجنسی ابنا شعبہ تاریخ و سیاست: جناب بہبودی سالوں سے اسلامی انقلاب کے ادب کے دفتر میں مشغول ہیں، اسلامی انقلاب کی تاریخ نگاری پر قلم اُٹھایا اور بہت سی کتابوں کے مصنف ہوئے لیکن ان کتابوں میں ایک کتاب شرح اسم کا اپنا ہی مقام ہے کیوں کہ یہ مقام معظم رہبری کے نام سے مزین ہے اس کتاب کی ریسرچ بتا رہی ہے کہ سخت محنت کی ہے، لچکدار رویہ، علم کے روشن چراغ، ان کی تاریخ انقلاب اسلامی سے دلبستگی نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم ان سے انقلاب اسلامی کی تاریخ نگاری کے بارے میں سوال کریں ۔

 

سوال: جناب بہبودی صاحب، پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ سیاسی داستانیں، اسلامی انقلاب کے واقعات پر کیا اثر ڈالتی ہیں؟

جواب: ہمارے ملک میں داستان نویسی بہت قدیم ہے، لیکن یہ قبل اس کے یہ عام لوگوں کے لئے ہو ملک کے بڑے افرد کے لئے مختص ہے کہ جو ٹھیک بھی ہے، گذشتہ زمانے میں لوگوں کے زریعے سے یادوں کو محفوظ کرنے کا کو ئی وجود نہ تھاشاید اس مسئلے کا تعلق شرح خواندگی سے ہے اور یہ کہ لوگ بغیر پڑھے لکھے اپنی یادوں کو نہیں لکھ سکتے تھے، پڑھنے سے میری مراد اسکول اورماحول دونوں ہے، لیکن انقلاب کے بعدملک میں ایک تبدیلی آئی ہے، اور جو کچھ یہ جو ہو رہا ہے وہ ظاہر ہوا، لوگوں نے انقلاب کی صورت میں اپنی یادوں کو چھوڑا، اس نکتے کی جانب بھی اشارہ کرتا چلوں کہ اس موضوع سمجھنا بہت ہی اہم ہے کیوں کہ لوگوں نے خود سے اس حادثے کو اپنے ہاتھوں سے انجام دینا چاہا، اسے محفوظ سمجھا؟ میرے خیال میں پہلی بار تاریخ معاصر میں استقلال کا کلمہ لوگوں کے لئے پسندیدہ ہوا یہاں تک کہ انھوں نے اس کے تحفظ کی خاطر ہر کام انجام دیا، اپنی جانوں کا نذرانہ تک دیا ہم نے اس انقلاب کے لئے ۱۳۴۲ سے ۱۳۵۷ تک تقریباً پانچ ہزار شہید دیئے جو عظیم انقلاب کے لئے کم ہیں۔
 

اگر تمام انقلابی تحریکوں میں قتل ہونے والوں کی تعداد کو دیکھا جائے جیسے الجزایر کی تحریک کہ جس میں دس لاکھ افرد قتل ہوئے اور دوسری انقلابی تحریکوں کو دیکھیں کہ جو کامیاب تو نہ ہوئیں لیکن بہت سے لوگ قتل ہو ئے ۵۰۰۰ شہید اسلامی انقلاب کے لئے کہ جو تحریک ۱۵ سال چلی ہو یہ ایک عجیب بات ہے لیکن انھیں لوگوں نے انقلاب کی حفاظت کے لئے مسلط کردہ جنگ میں ۲۲۰ ہزار افرد شہید دیئے میں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ عوام تحفظ انقلاب کے لئے کہ جس میں وہ اپنے استقلال کی صورت دیکھتے ہیں اس بات کا مصمم ارادہ کر لیا کہ فدا کاری اور جانثاری کے علاوہ کچھ راہیں اور ہیں کہ جن سے انقلاب کو تحفظ دیا جا سکتاہے اور وہ ہے اس انقلاب کو لکھنا اور اس کے حوادث کو محفوظ کرنا، اسی وجہ سے پہلی مرتبہ جو ان کے درمیان ایسے افرد تھے کہ جنھوں نے اس واقعے کو دیکھا تھا اور جو اس انقلاب میں لڑنے والے تھے ان افرد کی داستانوں کو تحریر کرنا شروع کیا اور پھر اس کے بعد عوام میں گئے اور ان واقعات کو جمع کرنا شروع کردیا انہیں تحریر کے قالب میں ڈھالا۔ یہی وہ مقام تھا کہ جہاں تاریخ شفاہی نے ہماری مدد کہ اور ان واقعات اور رودادوں کو جمع کرنے والی ہو گئی۔ ہاں البتہ تحقیقی ادراروں اور ان تنظیموں نے کہ جو تاریخی مطالعات و تحقیقات انجام دیا کرتی تھیں اس سلسلے میں بھی اچھا کردار ادا کیا اور انقلابیوں کی یاد داشتوں کو محفوظ کیا ۔ بہر حال اس کام کو میں ایک تحریک کے عنوان سے جانتاہوں کہ جس نے مسلط کردہ جنگ میں بڑا روشن کردار ادا کیا اور انقلاب کے دوران اس تحریک نے کم کام کیا۔ بہر حال یہ ایک یاد داشت نویسی کی تحریک ہے ہم تیس سالوں سے اس کے ساتھ تھے اور آج تک ہیں جتنا جتنا یہ تحریک آگے بڑھ رہی ہے اتنا اس میں نکھار آرہا ہے یعنی وہ کتابیں کہ جو ان پانچ چھ سالوں میں منتشر ہوئیں ہیں آپ ان کتابوں کو دیکھیں اورہ وہ کتابیں کہ جو ٦۰ کی دہائی میں منتشر ہو ئی تھی ان کو دیکھیں بہت فرق ہے۔ یعنی کہ یہ آثار بھی جوان اور کامل ہو گئے ہیں اور ان کے مطالب میں گہرائی اور پھیلاو آگیا ہے یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ جو ہمارے انقلاب نے پائی اور ہمارا انقلاب محفوظ ہو گیا۔ اس سے قبل ہم اس بات پر خون روتے تھے کہ آخر کیوں ہمارے بارے میں دوسرے لکھیں خوش بختی یہ ہے کہ وہ واقعات کہ جو ہمارے اپنے ہاتھوں سے ہوا ہے ہم اس کے بارے میں خود ہی تحریر کریں اور یہ ایک مثبت نکتہ ہے ۔

یہ موضوع اس قدر اہم ہے کہ امریکہ اور چند ایک یورپی ممالک میں انقلاب اسلامی کی تاریخ نگاری کا کام شروع ہو چکا ہے اور سلطنت کے طلبگار اور دیگر پارٹیوں نے وہ افرد کہ جنھوں نے انقلاب کے خلاف کام کیا اس کی روداد کو لکھنا اور جمع کرنا شروع کر دیا ہے اور ان کی کتابیں چھپ چکی ہیں، لیکن خوش بختی سے ان سب کاموں کے باوجود ہم ان سے آگے ہیں کہ کیوں کہ انقلاب کے لانے والے انقلاب کے مخالفین سے اعداد و شمار کے حساب سے غیر قابل مقایسہ ہیں علاوہ بر این ہمارے پاس اس تایخ نگاری کے اسناد اور مدارک اور ثبوت ان سے زیادہ اور معتبر ہیں اگر پہلے ہمارا کردار صرف مصرف کی حد تک تھا لیکن اب ہم ان منابع کی بنا پر اس ماجرے میں داخل ہیں اور یہ ایک مثبت پہلو ہے اور اس پر ہمیں توجہ دینی چاہیے ۔بہر حال یاداشت، اسناد و مدارک کے ساتھ انقلاب اسلامی کے بارے میں لکھنے اور گفتگو کا ایک منبع اصلی ہے ۔

 

سوال: آپ نے اپنی گفتگو کے درمیان اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ خاطرات کو محفوظ کرنے کا طریقہ کار پیشرفت کرگیا ہےاور آج کی اچھی صورت حال ہے، اگر ہم ساٹھ کی دہائی سے آج تک کی جمع آوری کہ جو منتشر ہو چکی ہے کیفیت کے لحاظ سے ریسرچ کریں آپ کی نگاہ میں ان کتابوں میں اور اسی کی دہائی میں چھپنے والی کتابوں میں نظریاتی ہم آہنگی ہے؟

جواب: ہم نے جنگی یاداشتوں اور انقلاب کی یاداشتوں کی تدوین میں دو مرتبہ چھان پھٹک کی ہے جتنا ہم واقعہ کے نزدیک ہوتے ہیں اتنا ہم اپنے آثار میں شور اور شعار زیادہ دیکھتے ہیں اور جتنا اس واقعے سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں اتنا اپنے کاموں میں غور و فکر اور شعور زیادہ دیکھتے ہیں۔ ان دونوں باتوں کا ہونا عام سی بات ہے، ایک طبیعی امر ہے، یعنی اگر آپ دیکھیں کہ وہ افراد جو اس پہلے دور میں تھے اس دور کو نظریاتی دور کہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان تعبیروں کے ساتھ کام کو چھوٹا کر کے بیان کریں، میں اس کو قبول نہیں کرتا، میں اس دور کو طبیعی سمجھتا ہوں، وہ آثار اب ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں اور سماج کو سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ہو سکتاہے کہ اس زمانے میں جو داستان اس زبان میں لکھی گئی ہو وہ اس زمانے میں کو ئی جذابیت نہ رکھتی ہو، لیکن میری نظر میں کو ئی مشکل نہیں وہ داستان بھی اس ملک کا تاریخی ادب ہے اور اپنی جگہ قابل قبول ہے ۔

 

اس زمانے میں لکھی گئی داستانیں ایک خاص خصوصیت کی حامل ہیں ہاں یہ ممکن ہے کہ ہم آج کی نگاہ سے جب اس کو دیکھیں اور جب ہم ماضی کو دہرائیں تو اس بات کا احساس کریں گے کہ ان آثار میں عیب ہے، کمی ہے اور قبل اس کے کہ ہم واقعات کو پڑھیں مصنف کے احساسات کی تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے، لیکن میں اسے عیب نہیں سمجھتا بلکہ یہ اس وقت کا تقاضا تھا اور طبیعت کا حصہ تھا، ان سب کے باوجود سارے کہ سارے آثار انقلاب اسلامی کی اسناد و مدارک اور منبع ہیں کہ جن سے دستاویزات کی شناخت کے ساتھ بہرمند ہوا جا سکتاہے ۔

مثال کے طور پر، ۲۲ بہمن تک کی اسلامی تحریک کی یاد میں یادگاری مجلہ کہ جو اصفہان انقلاب کے شروع میں شائع ہویا جب آپ اس کتاب کی ورق گردانی کریں گے تو اس بات کا بخوبی اندازہ کرلیں گے کہ اس میں وہ ہی نظریاتی باتیں بھری پڑی ہیں لیکن اس کتاب میں جو واقعات موجود ہیں ہوسکتاہے کسی اور کتاب میں نہ لائے گئے ہوں یعنی ان بعض واقعات کے لئے یہ کتاب مدرک اور سند ہے، ہم کتاب کے اس حصے سے کہ جس میں شعار اور صرف نعرے ہیں استفادہ نہیں کریں گے لیکن واقعات اس میں سے نکالے جاسکتے ہیں اور اس سے استناد کیا جاسکتا ہے زمانے کی گذشت کے ساتھ ہم شرح حوادث سے نزدیک ہو ئے ہیں، گذشت زمان کے ساتھ آثار پر ہمارا غورو فکر کرنا زیادہ ہوا ہے اسی وجہ سے شعار اور نعرے بازی اور نظریاتی باتیں کم ہو تی ہیں اب اس نکتے کی جانب اشارہ ہو سکتا ہے کہ ۹۰ کی دہائی میں کیا کیا جاسکتاہے کہ ایسی کو ئی کتاب نہیں کہ جس میں اوئل انقلاب کی فضاہو ۔

 

سوال: وہ افرد کہ جنھوں نے تاریخ انقلاب پر لکھی جانے والی کتابوں پر تنقید کی ہے کہ وہ کتابیں کہ جو شائع ہو تی ہیں وہ تاریخ کے کسی طریقہ کار پر نہیں ہیں یعنی تاریخ کے جمع کرنے کے جو اصول ہوتے ہیں ان اصولوں پر یہ کتابیں نہیں ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

جواب: یہ اعتراض ٹھیک ہے، ہم تاریخ نگاری کے اصولوں کے پابندی کے لحاظ سے اس کے مطلوب دور میں نہیں ہیں ۔ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پاس تاریخ نگاری کے سارے اوزار موجود ہیں، سارے اصولوں پر مسلط ہیں، میں پھر کہہ رہا ہوں کہ ہم ابھی منابع کے دور میں ہیں، ناکہ تحریر کے دور میں، ابھی ہم جمع آوری کے دور میں ہیں، اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا ہاتھ بھرا ہوا ہے تو ہمارا ہاتھ منابع سے بھرا ہے اور یہ منابع تاریخ لکھنے کی ایک سیڑھی ہے ایک بنیادہے ایک اسٹینڈ ہے کہ جس کے ذریعے سے اوپر چڑھا جا سکتاہے ممکن ہے کہ ۹۰ کی دہائی یا اس کے سال انقلاب کی تاریخ نویسی کے سال ہوں، انقلاب کی ضرورت میں جو واقعہ پیش آیا ہے اس کے تاریخی منابع ملک میں ہی ہیں اور یہ میری نگاہ میں اہمیت رکھتاہے۔ خوش نصیبی سے ہم نےانقلاب کی تاریخ کے منابع وافر مقدار میں بنالیئے ہیں کہ جو انقلاب کی تاریخ لکھنے کے لئے کافی ہیں اب محقیقین اور مورخین کا کام ہے کہ وہ ان منابع سے عہد تفسیر و تحلیل کو قائم کریں اور ان منابع سے مستند اور دقیق چیزیں نکالیں ۔

اب بھی ہمارا ہاتھ اتناخالی نہیں، انقلاب اسلامی کی تاریخ کے بارے میں اچھی کتابیں ہیں کہ جن میں اچھا کام ہوا ہے، ابھی تو ہم منابع کے فروانی کے دور میں ہیں آئندہ سالوں میں ہم اسلامی انقلاب کی تاریخ کے تحریری دور میں داخل ہو ں گے ۔


سوال: تاریخ معاصر کی وہ کتابیں کہ جو دوسرے ممالک میں چھپتی ہیں وہ کتابیں ہماری کتابوں پر اثر انداز ہو تی ہیں؟

جواب: ان کتابوں کو نادیدہ نہیں لیا جا سکتااور نہ ہمارے منابع کہ جو ہم نے بنائیں ہیں انھیں بغیر پڑھے گذر سکتے ہیں اور نا ہم ان کی کتابوں سے چشم پوشی کر سکتے ہیں، بہر حال کچھ کم اور ناگفتہ قسم کی چیزیں دونوں میں موجود ہیں ان کتابوں کو دیکھنا ضروری ہے اور ان کی ترکیب سے سچائی سامنے آسکتی ہے یعنی جب ان کے مطالب اور ہمارے مطالب ملائیں جائیں گے تو سچائی سامنے آئے گی کہ جو مورخ کے مدنظر ہے وہ سامنے آئے گا ۔یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کیوں کہ وہ لوگ ہمیں اچھے نہیں لگتے اس لئے ہم ان کے منابع کو نہیں دیکھیں گے اور نا ہی وہ ایسا کہہ سکتے ہیں ان موارد میں تعصب کا کو ئی عمل دخل نہیں ہے ہمیں ہر منبع کو دیکھنا ہے دوسری جانب ان کے منابع ہیں۔ یہ صرف ہم نہیں کہ جن پر تعصب کا الزام ہے بلکہ وہ بھی اس میں پیش پیش ہیں ۔

اس حال میں جو تاریخ نگاری میں جانا چاہتا ہے مطالب کو ان الزامات سے مبرا ہوکر دیکھے اور دونوں گروہوں کے منابع کو ساتھ رکھ کر تحقیق کرے تو وہ اس حقیقت تک پہنچ جا ئے گا جس کا وہ خواہاں ہے ۔


سوال: تاریخ شفاہی انقلاب کی تکمیل کے لئے بعض بچے کچے پہلوی سرکار کے افرد کی جانب رجوع کرنا آپ کی نگاہ میں کیسا ہے؟

اگر ممکن ہو تو یہ ایک اچھا کام ہے، وہ کام کہ جو حسین دھباشی نے انجام دیا ہے اور خوش بختی سے اس کتاب کو قومی لائبریری نے نشر بھی کیا ہے ایک قیمتی کام ہے، دھباشی نے سفر کیا کہ جو بہت ہی سخت تھا امریکہ گئے اور ان افرد سے ملے کہ جو پہلوی سرکار کے مہرے تھے ان سے انڑویو کئے اور اُس گفتگو کا ماحاصل نشر ہوا یقیناً یہ ایک اچھا اثر ہے اور قابل استفادہ اور ہماری تاریخ نگاری کا تکمیلی راستہ ہے ۔

 

سوال: بعض تاریخ معاصر کے تحقیقی اداروں نے پہلوی سرکار کے کچھ افرد سے انڑویو لیے لیکن یہ انٹرویو انقلابیوں کے انٹرویوز کی مانند مکمل شائع نہیں ہو ئے آخر یہ محدودیت کیوں ہے؟

 جواب: اہم یہ ہے کہ یہ باتیں محفوظ ہوگئیں، شاید زمانے کا تقاضا یہی ہو کہ تمام تر انٹرویوز شائع نہ ہوں لیکن زمانے کے گذرنے کے ساتھ وہ موقع بھی آئے گا کہ ان کے تمام کلمات سے فائدہ لیا جا ئے، تمام باتیں کہ جو مخالف کی ہوں یا موافق کی ہوں سب کی سب درست یا غلط نہیں، اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ سماج کی ضروریات ان بعض کلمات کے کہنے کی اجازت دے اور بعض کی اجازت نہ دے ۔

وہ ممالک کہ جو اپنی تاریخ شفاہی کو محفوظ کئے ہوئے ہیں اور محفوظ شدہ اسناد کو شائع کر رہے ہیں وہ بھی اس طرح کے کاموں میں مشغول نظر آتے ہیں ۔مثلا ایک تعریف کی جا تی ہے کہ امریکہ اور یورپ میں ۳۰ سال کے بعد وہ اپنی اسناد کو عام کر دیتے ہیں لیکن جب وہ دستاویزات کو عام کرتے ہیں تو ہم دیکتھے ہیں کہ ان میں سے بعض پوشید ہ ہیں اور انھیں منتشر نہیں کرتے میں نےجب ایک ریسرچ کے سلسلے میں ایک غیر ملکی محفوظ شدہ دستاویزات کی جانب رجوع کیا تو دیکھا کہ بعض صفحات بالکل سیاہ ہو چکے ہیں اور یہ بات اس کی جانب اشارہ ہے کہ اس وقت کی حکومت نے یہ کام کیا ہے اور ان کی تشخیص یہ تھی کہ یہ دستاویزات باہر نہ جائیں پس یہ محدودیت صر ف ہمارے ہاں نہیں ہے، بہت سے ممالک میں مصلحت کی بنا پر محدودیت کو انجام دیا جا تا ہے ۔


سوال: سیاسی روداد نویسی پر نقد، کتاب کی کیفیت کو کتنا معیاری کر تی ہے، آپ کی نگاہ کیا ہے؟

جواب: بہت مدد کرتی ہے اگر چہ یہ بات بہت تکراری ہے کہ نقد اگر مشفقانہ ہو اور دوسری جانب قبول بھی ہو تو یقیناً قابل رشد ہے اور تحقیق میں مدد کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے ابھی تاریخ شفاہی کے شعبے میں ہم نے یہ کام انجام دیا ہے اور اس میں پیشرفت بھی کی ہے یعنی جس طرح سے ہم نے عمل کے میدان میں ترقی کی ہے اسی طرح نظریہ پردازی میں بھی پیشرفت کی ہے اور ایک اچھا مقام حاصل ہوا ہے، یہ ایک اہم مسئلہ ہے اورتاریخ شفاہی کے میدان میں یونیورسٹیز کے لئے ایک نئے شعبے کی تاسیس کا مقدمہ ہے ۔

سوال: اسلامی انقلاب کی سیاست کی خاطرات کو دستاویزات کے ساتھ محفوظ کرنا، تاریخ نگاری کی کیفیت کو بڑھانے کے لئے کتنا موثر ہے؟

جواب: جو فرد بذات خود اس میدان میں قدم رکھتا ہے اس کے لئے پہلی دستاویزات یہی ہیں، یہ سند مختلف شکل کی ہو سکتی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ ایک صفحہ ہو کہ جس کا تعلق ساواک سے ہو کہ جسے انھوں نے کسی سیاسی شخصیت کے تعقب کے دوران لکھا ہو اور بعد میں انھوں نے محفوظ کر لیا ہو، یہ ایک سند شمار ہو تی ہے، اسی طرح کسی شخص کی بات کہ جس نے کسی فرد کے بارے میں کہی ہو یا کسی واقعے کو بیان کیا ہو اور کسی جگہ یہ بات محفوظ ہو گی ہو، یہ بھی ایک سند ہے، اخبارات میں کسی واقعہ کے بارے میں کو ئی خبر آئی ہو یہ بھی ایک سند ہو گی وہ حوادث جو کسی ایک جگہ پر ہوئے ہوں اور جن لوگوں نے اس حادثے کو دیکھا ہے وہ عام افرد یا دکاندار تھے پتھارے دار تھے ان کی بات بھی سند ہوگی۔ کیوں کہ یہ انھوں نے اس حادثے کو دیکھا ہے۔ اسی طرح سے ایک گولی کا نشان یہ بھی ایک سند ہے۔ یہ سب کے سب اسناد میں شمار ہو تے ہیں ان تمام چیزوں کو مورخ کی نگاہ سے دور نہیں ہو نا چاہیے محقق ان سب کو دیکھے اور ان کی جانب متوجہ رہے۔ اسی طرح ہم ایک بہت بڑی فیلڈ میں ہیں کہ جہاں کو ئی بھی چیز سند بن سکتی ہے۔ لیکن ہماری اصطلاح میں سندایک صفحہ ہوتا کہ جس میں اس حادثے یا اس واقعے کے بارے میں کچھ لکھا ہوتا ہے۔


سوال: آپ نے مقام معظم رہبری کی سوانح حیات بنام شرح اسم تحریر کی، کہ جو ہمارے بحث سے بے ربط نہیں۔ اس کتاب کی تالیف میں آپ کو کس حد تک اسناد و دستاویزات تک دسترس تھی؟

جواب: اس کتاب کی تالیف میں بہت ساری اسناد سامنے تھیں۔ میری کوشش تھی جو کچھ اس شخصیت کے بارے میں مشہور ہے اس کو حاصل کر وں، دو طرح کی اسناد اس مسلئے میں موجود تھیں ایک اسناد کاغذی اور دوسری سند شفاہی تھی۔ کچھ اسناد تھیں کہ جو پہلوی سرکار کے زمانے میں مکتوب ہوئیں اور اور کچھ زبانی تھی کہ جو بعد میں کتابی صورت میں لکھی گئی، پہلی سند کہ جو ہمارے اس عظیم رہنما کے بارے میں ملی وہ شہنشاہی فوج سے ملی۔ اسی طرح جاسوسی کے دفاتر سے کہ جو اس وقت باقی رہ گی تھی، ہمیں ملی، یہ سند قابل توجہ تھی کیوں کہ یہ مخالفین کے ہاتھوں سے لکھی ہو ئی تھی اس میں کچھ ہونا طبعی سی بات تھی حکومت کی جانب سے اس میں الزامات تھے نہ کو ئی فضیلت، ہماری اسناد کا دوسرا منبع گفتگو اور ان کی آپ بیتی تھی کہ جو مقام معظم رہبری نے خود بیان کی تھیں، میں نے خود اس گفتگو کو بارہا پڑھا ہے اور اس بات کی جانب متوجہ ہوا کہ بیان کرنے والا اپنی بڑائی بیان نہیں کرنا چاہتا۔ بہرحال مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ دونوں طرح کی اسناد کو حاصل کروں ہاں البتہ کچھ ایسے افراد تھے کہ جو ان کے بارے میں اپنی یادداشتیں رکھتے تھے، اس تیسری قسم کی اسناد کے لئے میں نے اپنی کمر کس لی تھی، اسی وجہ سے کتاب نے ایک بند فضا میں رشد کیا ہے، اگر میں تیسری قسم کی اسناد کی جانب جاتا تو بہت سے افرد سے ملنا پڑتا اور اس کتاب کی خبر عام ہو جاتی اور اس کام کے لئے موانع پیدا ہوجا تے کہ جن کی تعداد بہت تھی، لہذا ہم نے چند ہی لوگوں سے گفتگو کی اور کیوں کہ جس کے بارے میں لکھنا تھا وہ اس مملکت کے کی سب سے بڑی شخصیت تھی اس لئے بہت سے لوگ اس پر بات کرنے کو تیار نہ تھے۔ یہی ہمارا ضعف تھا کہ ہم اس کتاب کے لئے جتنے افرد سے ملنا چاہتے تھے نہیں مل پائے اگر وہ لوگ چاہتے صرف مجھے کہہ دیں لیکن انھوں نے نہیں کہا لیکن کاغذی اسناد اور خود رہبر کی گفتگو کے حوالے سے میں پُر تھا اور شاید کتاب کی کامیابی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ رہبر کے بارے میں پہلوی سرکار کی اسناد موجود تھیں، ایک کاغذی سند اور دوسری خود رہبر کی گفتگو، ان دونوں اسناد کی وجہ سے ہم حقیقت کے نزدیک ہوگئے ۔

سوال: محصولاتی کتاب کی روایت میں پہلے شخص اور تیسرے شخص کے لئے مفر د کا فعل استعمال کیا گیا، اس کے انتخاب کی کیا دلیل ہے، سیاسی خاطرات کی روایت کا یہ طریقہ کیا ہے؟

جواب: افعال کے اس کھیل کا مقصد اس زمانے کو بیان کرنا تھا کہ جس زمانے میں یہ واقعہ ہوا ہے، میں اس بارے میں ناچار تھا کہ ایک فعل ماضی بلکہ بیشتر افعال سے استفادہ کروں، آپ نے توجہ کی ہوگی کہ بندہ نے ماضی بعید، سادہ اور ماضی نقلی سے استفادہ کیا ہے اور یہ صرف اس لئے کہ قاری مانوس ہو جائے کہ یہ واقعہ کس زمانے میں ہوا ہے ۔

سوال: اس کتاب سے پہلے سید قطب کی کتاب رہبر کی شخصیت کو اتنا نہ ابھار سکی اس کتاب کا اس سلسلے میں بڑا کردار ہے جبکہ سید قطب کی کتاب میں رہبر کی ثقافتی سرگرمیاں بہت زیادہ ہیں، اس کتاب کےناشناختہ رہنے کی کیا دلیل ہو سکتی ہے؟

جواب: وہ بات جو رہبر کے لئے اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے یہ انکا خود کا انتخاب تھا یعنی پہلوی سرکار سے جنگ کہ جس کا انھیں جیل، عقوبت خانہ، ٹارچر، گھر سے دوری کی صورت میں تاوان دینا پڑا، لیکن انھوں نے ثقافتی جدوجہد بھی کی، انقلاب سے پہلے ان کی زندگی اس طرح کی تھی کہ جسے کسی بھی طور نارمل زندگی نہیں کہا جاسکتا ایک ایسا شخص کہ جس کی زندگی نارمل نہ ہو گھر سے دور معاشرے سے دور، ہمیشہ اس فکر میں رہتے کہ نجانے انھیں کب گرفتار کر لیا جا ئے گا، لیکن ان پریشانیوں کے باوجود انھوں نے ثقافتی مسائل کو بھی اہمیت دی، جب قاری اس کتاب کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے لئے عجیب معلوم دیتا ہے کہ ایک ایسی شخصیت کے رو برو ہے کہ جس کے پیچھے اتنے خطرات ہیں ہیں لیکن وہ ثقافتی سرگرمیوں میں بھی کام کر رہا ہے اور اس شخص کی شخصیت اس زمانے میں مشخص ہوتی ہے کہ اگر انھیں فرصت ملتی تو یہ ثقافتی مسائل کی گروہ بندی کرتے، البتہ اس نکتے کی جانب بھی اشارہ ضروری ہے کہ امام خمینی کی تحریک کے درجہ اول کے پیرو ایسے تھے۔ لیکن رہبر کے وجود میں اس پیروی نے رنگ دیکھایا ہے۔ وہ تفسیر اور شرح نہج البلاغہ کے جو انھوں نے دی ہے اب تک اہمیت کی حامل ہے، اسی زمانے میں انھوں نے ایک اہم کتاب صلح امام حسن علیہ السلام کا ترجمہ کیا یا سید قطب کی کتاب کو چھیڑا ہے، اس طرح کے کام انسان کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں جبکہ آپ مشہد کے ایک گاوں میں چھپ کر رہ رہے تھے کہ کہیں ایجنسیاں ان تک نہ پہنچ جائیں اپنے وقت کو ضائع کئے بغیر اپنے ناتمام ترجموں میں اپنے وقت کو صرف کیا، یہ طریقہ کار قاری کی نگاہ میں انکی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے۔


سوال: جب آپ اسناد جمع کر رہے تھے تو کیا ایسی اسناد نظر آئیں کہ جو دوسری اسناد سے تضاد رکھتی تھیں؟ ابھی جب ہم انقلابیوں کی داستانیں پڑھتے ہیں اور موجودہ افرد سے پوچھتے ہیں تو بڑا فرق ملتا ہے کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا؟

جواب: ایسا ہی ہے، جو بھی تاریخ معاصر کے میدان میں داخل ہوتا ہے تو اسے ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایک واقعہ چند پہلوں سے نظر آتا ہے ہر شخص نے اپنی فکر کے مطابق ان تعبیرات کا استعمال کیا ہے اس بات کا امکان ہے کہ کسی سند یا کسی خاطرے سے وہ تبدیل ہو جا ئے، اب یہاں سے ریسرچر یا محقق کا کام شروع ہو جاتاہے وہ اسناد کی شناخت کے زریعے سے اس بات کو پہچان سکتا ہے کہ کون سی بات درست ہے یہ مہارت کتاب کو چار چاند لگا سکتی ہے وہ ریسرچر کہ جو اس سلسلے میں جستجو کو نزدیک ترین کرسکتی ہے اور اس کی دریافت میں اسے چند تعبیر اور تفسیر کے روبرو کر سکتی ہے اور اس وقت کو ئی چارہ نہیں کہ جب حقیقت تک رسائی نہیں ہو رہی ہو تو اسے چاہیے کہ دونوں باتوں کو نقل کرے، لیکن سند شناسی ایک ایسا امر مہم ہے کہ جس سے ریسرچر کو اپنے تمام ساز و سامان سے لیس ہونا چاہیے۔

سوال: آپ کی ایک کتاب کہ جس کانام سفر بہ قبلہ تھا کہ جو ١۳۷۰ میں شائع ہو ئی مقام معظم رہبری نے اس کے حاشیے میں لکھا کہ، یہ کتاب اجمالی، شیریں اور حوصلہ اور سمجھداری کے ساتھ لکھی گئی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ، ، شرح اسم، ، مقام معظم رہبری کو اتنی ہی پسند آئی ہوگی؟

جواب: اس سوال کے جواب سے پہلے میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کتاب کی کلیات کی جانب اشارہ کر دوں اور وہ یہ کہ اگر یہ کتاب مورد توجہ قرار پائی ہے تو اس سے پہلے یہ جان لیں کہ یہ کتاب مصنف کی کوشش اور عرق ریزی کی جانب اشارہ کرتی ہے یہ توجہ کتاب کی شخصیت سے مربوط ہے، اگر میں اسی کتاب کو کسی اور شخصیت کے بارے میں اسی طرح لکھتا تو یہ بات طبیعی ہے کہ اتنی مورد توجہ قرار نہیں پاتی لہذا اس کتاب کی شہرت شخصیت کی وجہ سے ہے یعنی وہ توجہ کہ جو لوگ رہبر پر رکھتے ہیں اس کی وجہ سے وہ اس کتاب کی جانب بھی متوجہ ہوئے، نا کہ اس کے مصنف نے اس کتاب میں تاریخ کو ادبی رنگ میں ڈھالا ہے، سفر بہ قبلہ بھی یہی ہے کیوں جناب زیارت خانہ خدا نہیں کر سکتے ان کا دل اس زیارت کے لئے تنگ ہے وہ اس زیارتی سفر پر نہیں جا سکتے اور اس طرح سے جس طرح سے وہ چاہتے ہیں، ایک حج تمتع نہیں کر سکتے دل چاہتا ہے کہ جائیں لیکن نہیں جاسکتے ایک حسرت ان کے دل میں ہے اور جب یہ کتاب ان کے سامنے پیش ہو ئی تو یہ حسرت اور بڑھ گئی۔ لہذا انھوں نے اس طرح کے کلمات تحریر فرمائے، شاید کتاب کی روش اور طریقہ کار نے انھیں اس عکس عمل پر مجبو ر کیا ہو لیکن مجھے گمان ہے وہ حسرت کہ جو ان کے دل میں ہے کہ وہ ایک ایسے حج پر جائیں یہ حسرت سبب بنی کہ اس طرح کے کلمات کتاب کو پڑھ کر بیان کئے۔

 

سوال: کتاب شرح اسم لکھنے کو کسی نے کہا تھا یا آپ نے خود ہی ایک ایسی کتاب کی تحریر کی خواہش کا اظہار کیا؟

جواب: مجھ سے کہا گیا اور میں نے نہیں چاہا کہ کسی طرح اس اقبال کو ہاتھوں سے جانے دوں یا تو میں روشن فکروں کی مانند کہتا کہ نہیں میں یہ کام نہیں کر سکتا مجھے حکومت سے کوئی سرکار نہیں، خود کو ان سے دور رکھتا اور چالیس عشرے والی باتیں دہراتا یا یہ کہ میں اسے قبول کر لیتا البتہ یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ میرے لئے نہیں، منصف کے لئے جو لایا جاتا ہے وہ اسکا اسم ہے اس کی تعریف ہے اور حق تالیف ہے، کہ جو کتاب لکھنے کے بعد آتا ہے، اس کتاب کو لکھنے سے پہلے میرا نام یہی تھا اس کتاب کے چھپنے کے بعد میرے نام میں کو ئی فرق نہیں آیا، دوسری جانب میری مالی حالت ایسی نہیں تھی کہ حق تالیف لیکر مجھ میں کو ئی مالی تحول آتا میں نے اس کتاب کے لکھنے کو قبول کیا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مجھ پر مقام معظم رہبری کا معنوی قرض ہے اور میں چاہتا تھا کہ اس قرض کو ادا کیا جا ئے اور اس بات کی امید کرتا ہوں کہ کچھ تو قرض ادا ہوا ہوگا ۔

سوال: شرح اسم میں کسی بھی قسم کی بناوٹ اور تکلف سے کام نہیں لیا گیا ہے کیا یہ قاری کی سہولت کے لئے کیا گیا ہے؟

جواب: اس جواب کی بازگشت پچھلے سوال کے جواب کی جانب ہو گی کہ جب کہا کہ ٦۰ کی دہائی نظریاتی ہے اور اس کے بعد وہ ماحول نظر نہیں آتا، ہم ابھی کسی اور دور میں ہیں ہمارے مخاطب پچھلے مخاطبین سے فرق رکھتے ہیں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم زبان اور ادب کا اس طرح انتخاب کریں کہ سماج کے بیشتر افرد اس بات کو سمجھ سکیں نا ایک گروہ، البتہ تکلف سے لکھنا میری عادت نہیں، شاید اگر اس کتاب کو میرے علاوہ کو ئی لکھتا تو پُر تکلف، نپے تلے انداز سے، پورے جاہ و حشم کےساتھ اس کتاب کو لکھتا لیکن نا میرا انداز ایسا ہے اور نہ میں اس طرز پر اعتقاد رکھتا ہوں اور نہ ہی یہ اس زمانے کی ضرورت ہے ۔

 

سوال: کس طرح سے تاریخ نگاری کے اداروں میں بے کار کام یا تکراری کام بلکہ کبھی معیار سے گرے ہوئے کام کو روکا جا سکتاہے؟ حال حاضر میں اتنے ریسرچرز کے ہو تے ہوئے تاریخ انقلاب کے کچھ ایسے آثار دیکھنے میں آتے ہیں کہ ترمیم کے لحاظ سے اچھے نہیں ہیں، جو واقعات اس میں ذکر ہیں ان میں سے بعض مبہم ہیں اور کسی واقعے کے بارے میں اس کی معمولی سی تحلیل دیکھنے میں آتی ہے؟ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟


جواب: آپ کے سوالوں کو دو طرح سے دیکھا جاسکتاہے ایک وقت وہ تھا کہ جب ہم خود تاریخ کو جمع کرنے کے درپے تھے اور خود ہی لکھنا چاہتے تھے دراصل ہم نقطہ صفر پر تھے، آپ فرض کریں کہ ٦۰ کی دہائی میں ہمارے پاس کتنے تعلیمی تجربہ کار مورخ تھے کہ جو آگے بڑھتے اور تاریخ انقلاب کو لکھتے؟ اس بنا پر اس انقلاب نے ہمیں یہ موقع دیا تاکہ خود کو آزمائیں۔ اگر یہ کتابیں کہ جن کی ذکر آپ نے کیا کہ جن میں نقص ہے یہ اسی آزمائش کے دور کی ہیں اور میری نگاہ میں یہ طبیعی ہے، لیکن کچھ دہایوں کے بعد بھی اگر ہم یہ غلطی کریں اور اپنے سرمایے کو جلائیں، تاریخ نگاری کی طریق و روش کی رعایت نہ کریں تو حق آپ کے ساتھ ہے کیوں ایسی کتابیں چھپتی ہیں اگر منتشر کرنے والوں کو روکا جا ئے تو بہتر ہے ۔

یہ جو آپ نے تکراری کام کی جانب اشارہ کیا تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام ادارے کہ جو تاریخ میں تحقیق کرتے ہیں وہ سب کے سب آئیں اور اپنے سارے پرگرام کو سامنے رکھیں اور کہیں کہ ہم ان اشخاص کے بارے میں اور ان واقعات کے بارےمیں کام کر رہے ہیں اور آپ ان کاموں کو انجام نہ دیں میری نظر میں بعض تکراری کام کرنے میں کوئی مشکل نہیں، ایک شخصیت کے بارے میں یا ایک واقعے کے بارے میں صرف ایک ادارے کا کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ محقق کی طرز تفکر کی بنا پر کام ہونا چاہیے مثال کے طور پر مشروطہ کے بارے میں کتنی کتابیں لکھی گئیں؟ ہر فکر کے فرد نے اس بارے میں کتاب لکھی یہ پھیلاو انتشارات پر اعتراض وارد نہیں کرتا اگر انقلاب اسلامی کی تاریخ کے میدان میں تکراری کام ہو تو یہ کام کا حسن ہے لیکن کتابوں کے ضعف کے بارے میں حق آپ کے ساتھ ہے ۔

جو اعتراضات آپ نے کئے ہیں اگران نقص کے ساتھ کتابیں شائع ہو رہیں ہیں تو نقد ہو نا چاہیے تاکہ اس جولان کو روکا جا سکے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اس طرح کی کتابیں فنی تر ہوں لیکن اگر ایک موضوع پر کئی ادارے کام کریں تو میری نگاہ میں کو ئی مشکل نہیں۔

سوال: جب تکرار وجود میں آتی ہے تو وقت کا ضیاع ہوتا ہے اس وقت کو ان لوگوں کی یاداشتوں کو محفوظ کرنے پر صرف کرنا چاہیے کہ جو ابھی اس انتظار میں ہیں کہ ان کی بات بھی محفوظ ہو، پہلا پروجیکٹ اعلیٰ افرد کی یادداشتوں کا تھا کہ جو مکمل ہوگیا، وہ افرد کہ جو متوسط ہیں جیسا کہ علی اکبر پرورش کہ جو فوت ہو گئے اور ان کی یادداشت محفوظ نہ سکی، اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: ایسی ہی ہے، آپ نے درست کہا، جب حضرت امام خمینی ﴿رہ﴾ نے انقلاب اسلامی کے مرکز کو سید حمید رحانی کے سپرد کیا اگر آپ کو یاد ہو تو انھوں نے کہا تھا کہ ان لوگوں کی تلاش کرو اور تاریخ انقلاب کو ان کی زبان سے حاصل کرو اس عظیم انسان کے افکار اب بھی بے نظیر ہیں حتیٰ وہ تاریخ انقلاب میں اس بات کے معتقد تھے اس تاریخ کو سماج کے لوگوں سے لو اور اس بارے میں آپ کی بات درست ہے کہ ہم سب سے پہلے بڑے افرد کے پاس گئے اور ان کی یاد داشتوں کو محفوظ کیا اور بہت کم ان افرد کے پاس گئے کہ جو متوسط تھے جبکہ جنگ میں اس کا برعکس ہوا، تاریخ جنگ میں متوسط افراد نے اپنی خاطرارت کہیں اور کمانڈرز اور جرنل رینک کے افرد نے کو ئی گفتگو نہیں کہ اس میں زیادہ تر توجہ جنگ میں جانے والوں، لڑنے والوں اور گرفتار ہونے والے زیادہ تر مورد توجہ قرار پا ئے، لیکن انقلاب میں اس کا الٹ ہوا، جنگ میں ایسا ہوا کہ جنگ پر جانے والوں کی سنی گئی لیکن انقلاب کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا ۔

سوال: تاریخ کے ریسرچر کے لئے ایک مشکل اسناد و دستاویزات تک پہنچنا ہے کیوں کہ یہ مختلف جگہوں پر ہیں، اگر تمام اسناد اور دستاویزات ایک جگہ جمع ہو جا ئیں تو یہ مشکل حل ہوجا ئے اور بس کی دسترس میں رہے آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: بجا فرمایا، جیسا کہ کاروباری افرد کہا کرتے ہیں کہ حق گاہک کے ساتھ ہے اس مدت میں حق ریسرچر کے ساتھ ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ دستاویزات تک رسائی مشکل ہے تو یقیناً وہ درست کہتے ہیں۔ اس مشکل کی سند وجوہات ہیں ﴿١﴾ ان اداروں نے ابھی دستاویزات کو عام نہیں کیا ہے جیسا کہ محکمہ پولیس نے ابھی اپنی دستاویزات کوعام نہیں کیا ہے سارے ادارے اس سلسلے میں آپس میں ارتباط میں ہیں وزارت اطلاعات و اور خارجہ سے لیکر قوہ قضائیہ سارے ادارے ﴿۲﴾ اگر دستاویزات عام بھی ہو گی تو اس سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا فرض کریں کہ امور خارجہ نے قاچار کے دور کی دستاویزات عام کردیں لیکن ایک محقق ١۲۷۵ قمری کے سال کو دیکھنا چاہتا ہے اور کسی خاص شخص کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتا ہے وہ اسناد کے روم میں جاتا ہے لیکن اسے نہیں معلوم کہ اس ڈھیر میں وہ اپنے مد نظر اسناد کو کہاں ڈھونڈے ۔

اس کمی کو ضرور پورا ہونا چاہیے لیکن یہ سب مدارک ایک جگہ جمع ہوں یہ ہماری ترجیح نہیں بلکہ ہمارے ترجیح ریسرچر کو اسناد ومدارک کی فراہمی ہے اب یہ ایک جگہ سے حاصل ہو یا دوسری جگہ سے حاصل ہو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم ایک ایسے طریقہ کار کی فکر میں ہیں کہ جس سے محقق کو آسانی ہو تاکہ وہ دستاویزات تک رسائی حاصل کر لے، اگرچہ ہمارے قانون میں اسناد کو ایک جگہ جمع کرنے کی جانب صراحت سے اشارہ ہوا ہے اور اس زمہ داری کو بعض ملکی اداروں نے انجام دیا ہے اور بعض ادارے اس امر میں کام نہیں کر رہے لیکن قومی دستاویزات کاادارہ ان سب باتوں کی توانائی نہیں رکھتا، قومی محفوظ شدہ دستاویزات کے ادارے میں اسناد کا ایک جمع غفیر ہے کہ اپنے مورد نظر اسناد تک پہنچنا محقق کے لئے آسان نہیں ۔

سوال: نشر ہونے والی دستایزات پر بعض ممالک کی نگاہ مثبت کیوں نہیں ہے؟

جواب: میری نگاہ میں ان آثار کی مخالفت کو ئی مشکل نہیں ہمیں اس بات کو نہیں سوچنا چاہیے کہ سب کے سب موافق ہوں، ہر کام کے کچھ مخالفین ہیں، نزول وحی کے بھی مخالف تھے چہ برسد یہ زمینی کام، وہ لوگ کہ جو کام کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے مخالفت اور موافقت کو ئی اہمیت نہیں رکھتی وہ اپنے مدنظر مطالب کو کتابوں سے نکالتا ہے اور اس سے استفادہ کرتا ہے ۔

سوال: بہبودی صاحب برائے مہربانی ابھی جو آپ تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں ا ن کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب: آخری کام کہ جس کو میں نے انجام دیا ہے اور بہت ہی مشکلات کا سامنا کیا ہے وہ، روز شمار تاریخ معاصر ایران، کی پانچویں جلد تھی کہ جوتہران کی نمائشگاہ میں رکھی ہے، دوسری کتاب کہ جو کچھ عرصے پہلے چھپی ہے، سفر بہ جزیرہ سوختہ، تھی کہ جو میرا جاپان کا سفر نامہ تھا، ابھی میں امام خمینی ﴿رہ﴾ کی سوانح حیات لکھ رہا ہوں کہ جو مشکل ترین کام اور زمہ داری ہے کہ جو میرے کاندھوں پر آئی ہے نہیں معلوم میں اس زمہ داری کو نبھاپاوں گا یا نہیں، ابھی کسی اور عنوان کی پیش بینی نہیں، عمر، توان اور منابع کہ جو موجود ہیں اس سوال کا جواب دیں کہ یہ کتاب مکمل ہو گی یا نہیں لیکن میں اپنی سی کوشش ضرور کروں گا۔

سوال: اب آخر، تاریخ نگاری انقلاب کی اچھی کیفیت کے لئے آپ کی کیا نصیحت ہے؟

جواب: میں اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کو ئی نصیحت نہیں کر سکتا کیوں کہ میں کوئی پوسٹ نہیں رکھتا لیکن امام خمینی ﴿رہ﴾ کی ایک بات ہے کہ ہمارے شامل حال ہے، انھوں نے فرمایا، جو جہاں بھی ہے وہ اچھی طرح کام کر ے، اس کا نتیجہ یہ ہی نکلے گا کہ وہ ترقی کر گا۔

 

 

 



 
صارفین کی تعداد: 4352


آپ کا پیغام

 
نام:
ای میل:
پیغام:
 
اشرف السادات سیستانی کی یادداشتیں

ایک ماں کی ڈیلی ڈائری

محسن پورا جل چکا تھا لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اسکے اگلے دن صباغجی صاحبہ محسن کی تشییع جنازہ میں بس یہی کہے جارہی تھیں: کسی کو بھی پتلی اور نازک چادروں اور جورابوں میں محسن کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین جناب سید محمد جواد ہاشمی کی ڈائری سے

"1987 میں حج کا خونی واقعہ"

دراصل مسعود کو خواب میں دیکھا، مجھے سے کہنے لگا: "ماں آج مکہ میں اس طرح کا خونی واقعہ پیش آیا ہے۔ کئی ایرانی شہید اور کئی زخمی ہوے ہین۔ آقا پیشوائی بھی مرتے مرتے بچے ہیں

ساواکی افراد کے ساتھ سفر!

اگلے دن صبح دوبارہ پیغام آیا کہ ہمارے باہر جانے کی رضایت دیدی گئی ہے اور میں پاسپورٹ حاصل کرنے کیلئے اقدام کرسکتا ہوں۔ اس وقت مجھے وہاں پر پتہ چلا کہ میں تو ۱۹۶۳ کے بعد سے ممنوع الخروج تھا۔

شدت پسند علماء کا فوج سے رویہ!

کسی ایسے شخص کے حکم کے منتظر ہیں جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم تھا کون اور کہاں ہے ، اور اسکے ایک حکم پر پوری بٹالین کا قتل عام ہونا تھا۔ پوری بیرک نامعلوم اور غیر فوجی عناصر کے ہاتھوں میں تھی جن کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے آرڈر لے رہے ہیں۔
یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام

مدافعین حرم،دفاع مقدس کے سپاہیوں کی طرح

دفاع مقدس سے متعلق یادوں بھری رات کا ۲۹۸ واں پروگرام، مزاحمتی ادب و ثقافت کے تحقیقاتی مرکز کی کوششوں سے، جمعرات کی شام، ۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ء کو آرٹ شعبے کے سورہ ہال میں منعقد ہوا ۔ اگلا پروگرام ۲۴ جنوری کو منعقد ہوگا۔